سانحہ مشرقی پاکستان کی ذمہ دار فوج تھی یا سیاسی قیادت


آج سے پچاس سال قبل سولہ دسمبر 1971 کو ہمارے ازلی دشمن بھارت نے متحدہ پاکستان کو دو لخت کر کے ہمارے دل، دماغ اور روح پر جو گہرے زخم لگائے، وہ کبھی نہ بھر پائیں گے۔ سولہ دسمبر ہماری درخشاں تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے جسے ہم کبھی بھی فراموش نہ کر پائیں گے۔

قیام پاکستان میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے مشرقی کیا بنگالی عوام اپنی مرضی سے ہم سے علیحدہ ہوئے یا انہیں زبردستی علیحدگی کی طرف دھکیلا گیا؟ پاکستان کے بنگالی عوام پاکستان سے الگ ہونے پر کیوں آمادہ ہوئے؟ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کی ذمہ داری فوجی اسٹیبلشمنٹ پر عائد ہوتی ہے یا سیاستدانوں پر؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

فوجی اسٹبلشمنٹ کا اس حوالے موقف بالکل واضح رہا ہے جس کا اظہار ہمارے رخصت ہونے والے فوج کے سر براہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے کیا گیا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا کہ ’سقوط ڈھاکا فوجی نہیں سیاسی شکست تھی‘

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان میں برسراقتدار آنے والی حکومت نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب و عوامل کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا۔ حمود الرحمان کمیشن نے دن رات کام کر کے ایک مفصل رپورٹ تیار کی جو حکومت کو پیش کردی گی۔ حمود الرحمان کمیشن نے اپنی فائنڈنگ میں اس سانحہ کے رونما ہونے کے اسباب اور عوامل و وجوہات کے ساتھ ساتھ اداروں کے کردار پر بھی قلم اٹھایا۔

حکومت نے کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا تو فوج کی جانب سے اس حکومتی فیصلے کی اس موقف کے ساتھ مخالفت کی گئی کہ رپورٹ پبلک کرنے سے ملک دشمنوں کو فائدہ ہو گا اور افواج پاکستان کا مورال ڈاؤن ہو گا۔ جس سے حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کا ارادہ تبدیل کر دیا۔

ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے بعض مندرجات بھارت سے شائع ہوتے رہے اور ہمارے عوام کے ذہنوں میں سوالات کھڑے کرتے رہے لیکن حکومت اور سکیورٹی ادارے خاموش تماشائی بنے رہے۔

جہاں تک سوال ہے کہ سقوط ڈھاکا کی ذمہ دار فوجی اسٹبلشمنٹ ہے یا سیاستدان؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے جب ہم قیام پاکستان سے 1971 تک کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں منظرنامہ کچھ یوں دکھائی دیتا ہے کہ انیس سو چھپن تک جو سیاسی و جمہوری حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی اس کے پس منظر میں فوجی و سول اسٹبلشمنٹ ہی تھی۔

ستمبر 1953 ء میں آرمی چیف۔ جنرل ایوب خان۔ امریکی فوجی امداد کے حصول کے لئے دورہ امریکہ پر گئے تھے۔ واپسی پر انہیں پاکستان کا وزیر دفاع بھی بنا دیا گیا تھا جو ایک اچھوتا واقعہ تھا کہ جب ایک حاضر سروس فوجی جنرل کو ایک سویلین عہدہ تفویض کیا گیا تھا۔ یہ عہدہ ان کے پاس اگلے بارہ برس تک رہا تھا

1954 ء میں ”ون یونٹ“ کا قیام عمل میں لایا گیا جو اصل میں جنرل ایوب خان ہی کی کارستانی تھی جس میں مشرقی پاکستان کی اکثریت کو بے اثر کرنے کے لئے مغربی پاکستان کے صوبے ختم کر کے ایک صوبہ بنا دیا گیا تاکہ دونوں صوبوں کی نمائندگی برابر رہے۔ اس مشرقی پاکستان عددی اکثریت کو مغربی پاکستان کے مساوی لایا گیا اس بنگالی عوام سے زیادتی کی گئی۔

پاکستان پر قابض فوجی آمر جنرل یحییٰ خان ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ انتخابات 1970 ء کے بعد وہ صدر کے عہدہ پر نہیں رہے گا! کاش، اپنے اس وعدے کا وہ پاس بھی کرتا لیکن ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں!

ایوب خان کا تختہ الٹ کر یحیی خان نے ملک میں ون یونٹ کا خاتمہ کیا اور سندھ پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی صوبائی حیثیت بحال کردی، اور لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات منعقد کروائے۔ انتخابات میں مشرقی پاکستان کے عوام نے شیخ مجیب الرحمان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کی جماعت عوامی لیگ کو کلین سویپ سے ہمکنار کیا جبکہ مغربی پاکستان سے ذوالفقار علی بھٹو، مولانا شاہ احمد نورانی، خان عبدالولی خان اور مولانا مفتی محمود کی جماعتوں نے کامیابی اپنے نام کی۔

اب انتقال اقتدار کی تمام ذمہ داری فوجی حکمران جنرل آغا محمد یحیی خاں اور ان کے فوجی رفقائے کار کی تھی کہ انتخابات میں فتح حاصل کرنے والی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرتے لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے اپنے صدارت کا تسلسل چاہا جسے شیخ مجیب الرحمان نے انکار کر دیا۔ ان کا موقف تھا کہ اس کا فیصلہ منتخب پارلیمنٹ کرے گی۔

جنرل یحیی خان اور اس کے ساتھیوں نے مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا اور بنگالی عوام کے خلاف ایکشن کا آغاز کر دیا۔ جس سے پاک فوج کو بنگالیوں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے فائدہ اٹھایا اور مشرقی سرحد پر حملہ کر کے بنگلہ دیش کے قیام کی راہ ہموار کردی۔ سقوط ڈھاکا سیدھا سادا فوجی جنتا کی شکست تھی نہ کہ سیاسی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments