(آخری قسط) ڈاکٹر وزیر آغا اور سید فخرالدین بلے، داستان رفاقت


سید فخرالدین بلے کی لاہور منتقلی کے ساتھ ہی قافلہ کے پڑاؤ بھی لاہور منتقل ہو گئے۔ اس سے قبل ڈاکٹر وزیر آغا ہر مہینے کی دس یا پندرہ تاریخ کے بعد لاہور آیا کرتے تھے لیکن سید فخرالدین بلے اور ان کی قائم کردہ ادبی تنظیم کی سرگرمیاں لاہور منتقل ہونے کے بعد جب ہر ماہ کی یکم تاریخ کو سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر قافلہ کا پڑاؤ ڈالا جانے لگا تو ڈاکٹر وزیر آغا نے بھی اپنی لاہور آمد کا شیڈول قافلہ پڑاؤ کے مطابق کر لیا اور اس کا مفصل ذکر ڈاکٹر انور سدید کے متعدد مضامین اور تجزیوں میں بھی ملتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا کی قافلہ کے ہر ماہانہ پڑاؤ میں شرکت یقینی ہوا کرتی تھی۔

ہفت روزہ آواز جرس لاہور کے مدیر اعلی سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے ڈاکٹر وزیر آغا کی فرمائش اور خواہش پر آواز جرس کا مجید امجد نمبر شائع فرمایا۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اس کاوش کے لیے ہر ممکن قلمی تعاون بھی فرمایا اور بعد ازاں مجید امجد کے حوالے سے آواز جرس کی اشاعت خاص کو ایک تاریخی دستاویز قرار دیا اور اسے بے حد سراہا۔ چیف سیکریٹری پنجاب کی حیثیت سے ریٹائر ہونے والے ممتاز شاعر، ادیب اور کالم نگار جاوید احمد قریشی صاحب نے بھی اس تاریخی دستاویز میں اپنا قلمی تعاون پیش فرمایا اور سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی قافلہ سالار کی حیثیت سے ادب پروری کے حوالے سے قافلہ کے مجید امجد پڑاؤ میں کھل کر بلے صاحب کی خدمات کے حوالے سے اظہار خیال فرماتے ہوئے مجید امجد سے اپنے اور سید فخرالدین بلے کے مراسم کا بھی ذکر کیا۔

جاوید احمد قریشی نے سید فخرالدین بلے کے ہمراہ مجید امجد سے ان متعدد ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا کہ جب وہ ڈپٹی کمشنر ساہیوال اور سید فخرالدین بلے محکمۂ اطلاعات و نشریات، تعلقات عامہ ملتان ڈویژن کے سربراہ تھے۔ سید فخرالدین بلے بین الاقوامی شہرت کی حامل ادبی تنظیم کے بانی اور قافلہ سالار تھے۔ ہمسایہ ملک بھارت سے قافلہ کی خصوصی دعوت پر آنے والے ممتاز اسکالرز، شعراء، ادباء، معروف تخلیق کار کہ جیسے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، کنور مہندر سنگھ بیدی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جوگندر پال، رام لعل جی، ڈاکٹر فوق کریمی، ڈاکٹر ارمان نجمی، اختر الایمان، خمار بارہ بنکوی، راجندر ملہوترا، سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ڈاکٹر سید حامد اور دیگر بہت سوں کے اعزاز میں قافلہ نے خصوصی پڑاؤ ڈالے اور ان بہت سی قابل قدر شخصیات کے فنی سفر اور ادبی زندگی کے حوالے سے آواز جرس میں خصوصی طور پر صفحات مختص کیے گئے۔

پاکستان کی بھی ممتاز علمی و ادبی شخصیات کی فنی اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا گیا ان میں آواز جرس کے احمد ندیم قاسمی نمبر، ڈاکٹر وزیر آغا نمبر، جاوید احمد قریشی نمبر، آنس معین، جگن ناتھ آزاد نمبر، طفیل ہوشیار پوری نمبر، جون ایلیاء نمبر، مرتضی برلاس نمبر، مجید امجد نمبر، فیض احمد فیض نمبر، جوش ملیح آبادی نمبر، جعفر شیرازی نمبر، پرتو روہیلہ نمبر، ڈاکٹر انور سدید نمبر قابل ذکر ہیں۔

ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے جاوید احمد قریشی صاحب سے باہمی مشورے کے بعد ہماری ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہم جناب حسن رضا گردیزی صاحب سے وقت لے کر ملتان جائیں اور مجید امجد نمبر کے لیے ان سے خصوصی مکالمہ کریں۔ جناب حسن رضا گردیزی صاحب سے جو ہم نے انٹرویو لیا اسے مجید امجد نمبر میں اہتمام سے شامل اشاعت کیا گیا۔

جب ڈاکٹر وزیر آغا نے ایک قافلہ کے پڑاؤ میں شرکت کے دوران قافلہ سالار سید فخرالدین بلے اور شرکائے قافلہ پڑاؤ کو یہ خوش خبری سنائی کہ ان کی کتاب مجید امجد کی داستان محبت مکمل ہو گئی ہے اور اس کا مسودہ تیار ہو گیا ہے تو سید فخرالدین بلے نے اپنے قائم کردہ اشاعتی ادارے معین اکادمی لاہور سے اسے شائع کرنے کا اعلان فرما کر ڈاکٹر وزیر آغا کی خوشی کو دو بالا کر دیا۔ پھر بہت جلد معین اکادمی لاہور کے زیر اہتمام شاندار انداز میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب مجید امجد کی داستان محبت منظر عام پر لائی گئی۔ معین اکادمی لاہور کے اس اقدام کو بہت سراہا گیا تھا۔ معین اکادمی لاہور کے زیراہتمام اس سے قبل مرتضی برلاس انکل کے شعری مجموعے تیشۂ کرب کا ڈیلکس ایڈیشن اور افتخار ایلی کے افسانوں کا مجموعہ بولتی بوندیں زیور طباعت سے آراستہ ہو کر بہت مقبول ہوچکے تھے۔

محترم و مکرم احمد ندیم قاسمی صاحب نے قبلہ سید فخرالدین بلے اور ہماری فرمائش پر آواز جرس کے مجید امجد نمبر کے لیے اپنا خصوصی مضمون عطا فرمایا۔ ملتان سے منیر فاطمی نے مجید امجد کے خطوط ارسال کیے۔ جعفر شیرازی نے اپنا مضمون مجید اور میں داستان رفاقت بہت تاخیر سے بھیجا لہذا وہ مجید امجد کی اس اشاعت خاص میں شامل نہ کیا جا سکا۔ طاہر نقوی سے آواز جرس کے مجید امجد نمبر کا سرورق تیار کروایا گیا۔ جاوید احمد قریشی صاحب سے اس اشاعت خاص کے لیے ایک پینل انٹرویو بھی کیا۔

دو ہزار نو میں مدیر اعلی ادب لطیف لاہور نے ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں لاہور بلوایا۔ ہمارا قیام بھی محترمہ صدیقہ بیگم کے ہاں ہی رہا اور اس دوران متعدد شخصیات سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ ہم محترمہ صدیقہ بیگم صاحبہ کے ہمراہ ہی شہزاد احمد صاحب کے مجلس کے دفتر اور بعد ازاں ڈاکٹر وزیر آغا سے ان کی سرور روڈ لاہور کینٹ میذن واقع رہائش گاہ پر جا کر طویل ملاقاتیں کیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا گھنٹوں سید فخرالدین بلے کی ادبی خدمات کا بیان فرماتے رہے اور سید فخرالدین بلے سے اپنی طویل رفاقت کے حوالے سے حسین یادوں اور باتوں کو اپنے مخصوص اور خوبصورت انداز میں بیان فرماتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments