سقوط مشرقی پاکستان کا ذمہ دار کون تھا؟ ( 2 )۔


مشرقی پاکستان کے سانحے پر لکھنا بہت مشکل کام ہے، خاص طور سے پاکستان جیسے ملک میں جہاں اکیاون برس گزرنے کے بعد بھی اس سانحے سے جڑی تمام جماعتیں، طاقتیں اور گروہ آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے 1971 میں تھے۔ امریکہ میں تو کچھ عرصے بعد خفیہ دستاویزات کو عوام تک رسائی دے دی جاتی ہے چاہے وہ دستاویزات سی آئی اے، ایف بی آئی، وہائٹ ہاؤس یا محکمہ خارجہ کے قبضے میں ہی کیوں نہ ہوں، مگر اپنے ہاں یہ کام ممکن نہیں اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ بچے بچے کو معلوم ہے اور اگر کسی بچے کو نہیں معلوم تو وہ بے شک اپنے والد صاحب سے پوچھ لے۔

اس موضوع پر لکھنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ یہ تحقیق طلب کام ہے جس میں حقائق صرف اسی صورت میں تلاش کیے جا سکتے ہیں اگر ہم یہ بھول جائیں کہ ہمیں اسکولوں میں کیا پڑھایا گیا ہے اور سرکاری محکموں میں کیا رٹایا گیا ہے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ جس محکمے میں نوکری مل جاتی ہے ہم اس محکمے کے بیانئے کی (خواہ مخواہ) مالا یوں جپنے لگتے ہیں جیسے وہی آفاقی سچ ہو۔ مدعا صرف اتنا ہے کہ ہمارے تعصبات، چاہے وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی وجہ سے ہوں یا کسی محکمے میں نوکری کی وجہ سے، ان سے جان چھڑائے بغیر اس قسم کے سانحات کی وجوہات کا درست تعین کرنا ممکن نہیں۔

سانحہ مشرقی پاکستان کی کئی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں، ان پر بحث ہو سکتی ہے، حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پر بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے، سیاسی ناکامی اور فوجی شکست کا تقابل بھی کیا جا سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہم کھلے ذہن کے ساتھ اس واقعے کے تمام پہلوؤں کی پڑتال کریں اور دیکھیں کہ ہم سے کہاں غلطی ہوئی اور غلطی تلاش کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ تسلیم کیا جائے کہ غلطی کسی بھی فریق، گروہ، جماعت یا ادارے سے ہو سکتی ہے اور کوئی اس سے مبرا نہیں۔

چلیے اسی سوال کو لے لیں کہ سقوط مشرقی پاکستان سیاسی ناکامی تھی یا فوجی؟ اس سوال کے جواب کے لیے تو کسی ابن خلدون کی ضرورت نہیں، تاریخ اٹھائیں اور دیکھیں کہ اس وقت اختیار کس کے پاس تھا، آپ کو پتا چلے گا کہ 27 اکتوبر 1958 سے 20 دسمبر 1971 تک سیاسی اور فوجی ٹوپیاں شخص واحد نے باری باری پہنیں اس لیے مشرقی پاکستان میں ہونے والی شکست کے سیاسی یا فوجی ہونے کی بحث بلکہ سوال ہی سرے سے غیر متعلق ہوجاتا ہے۔ 10 ستمبر تا 6 دسمبر 1971 کے دوران مشرقی پاکستان اندرونی شورش اور بھارتی حملوں کی زد میں آ چکا تھا لیکن اس کے باوجود سرکار نے عوامی لیگ کے 79 نو منتخب ارکان قومی اسمبلی اور 135 ارکان صوبائی اسمبلی نا اہل کروا دیے اور ان نشستوں پر من پسند افراد کے بلا مقابلہ انتخابات کا ڈھونگ رچا کر شیخ مجیب الرحمٰن کی قومی اسمبلی اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا۔

ظاہر ہے کہ یہ کام جنرل یحیی ٰ نے کیا۔ البتہ بعد ازاں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے مجیب الرحمٰن کو اسلام آباد ہوائی اڈے سے لندن کے لیے رخصت کرتے وقت عوامی لیگ کے 214 نا اہل ممبران کو اپنے چیف مارشل فرمان کے ذریعے بحال کر کے نوٹیفیکیشن مجیب کے حوالے کیا جس کے نتیجے میں تمام فرضی ضمنی انتخابات منسوخ ہو گئے۔ مجیب بھٹو مذاکرات کے نتیجے میں چھ میں سے ساڑھے پانچ نکات پر تقریباً سمجھوتہ ہو چکا تھا، صرف آدھا نکتہ ناقابل قبول تھا کیونکہ عوامی لیگ وفاق کو ٹیکس عائد کرنے یا وصولی کا اختیار دینے پر تیار نہ تھی بلکہ صوبوں کے چندے کے شور پر مرکزی حکومت بشمول دفاع چلانے پر مصر تھی جو کہ ظاہر کہ ناقابل فہم بات تھی۔

کچھ اعتراضات حمود الرحمٰن کمیشن پر بھی کیے جاتے ہیں، مثلاً یہ کہ کمیشن نے جنرل یحییٰ خان کی ناجائز فوجی حکومت کے تو خوب لتے لیے مگر جس وقت جنرل یحییٰ صاحب مارشل لا لگا رہے تھے اس وقت حمود الرحمٰن صاحب خاموش تماشائی بن کر کیوں بیٹھے رہے یا یہ کہ جسٹس حمود الرحمٰن نے جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے خلاف فیصلہ کیوں نہ سنایا وغیرہ۔ یہ اعتراضات درست نہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 14 اگست 1973 سے پہلے پاکستان کی عدالت عظمی ٰ کے پاس آئین کی موجودہ شق 184 ( 3 ) کی طرح از خود نوٹس لینے کا اختیار نہیں تھا۔

حمود الرحمٰن کمیشن میں جسٹس حمود الرحمٰن کے علاوہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس انوار الحق، چیف جسٹس سندھ بلوچستان جوائنٹ ہائی کورٹ جسٹس طفیل علی عبدالرحمٰن کے علاوہ دو جج صاحبان اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کا ایک ریٹائرڈ افسر بطور عسکری مشیر بھی شامل تھا۔ 3 جولائی 1977، مارچ 1981، جنوری 2000 اور نومبر 2007 کے پی سی او کے برعکس اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی حاضر جج کو 1958 یا 1969 کے متعلقہ پی سی او کے تحت کبھی بھی سرسری طور پر نہیں ہٹایا گیا اور نہ ہی نیا حلف لینے کو کہا گیا۔

چیف جسٹس حمود الرحمٰن نے پانچ ججوں کی فل کورٹ کی سربراہی کرتے ہوئے عاصمہ جیلانی کی درخواست کی سماعت کی اور جنرل یحییٰ کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دیا، یہی نہیں بلکہ عدالت عظمیٰ نے 25 مارچ 1969 اور اپریل 1972 کے دوران نافذ کیے گئے تمام قوانین کالعدم قرار دے دیے۔ جسٹس کیانی مرحوم سے بھی ایسا ہی ایک سوال ایوب خان کی مارشل لا حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں کیا گیا تھا، ان کا سیدھا سادہ جواب انہی کی کتاب میں درج ہے کہ ’ہماری عدالت میں مارشل لا کو کسی نے چیلنج ہی نہیں کیا۔‘

یہاں ایک ڈاکیومنٹری فلم کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے جو گزشتہ برس جاوید جبار نے بنائی، موصوف نے اس فلم میں ’اصل سچائی کو بے نقاب‘ کرنے کا دعویٰ کیا اور اصل سچائی ان کے نزدیک یہ تھی کہ مشرقی پاکستان میں نوے ہزار فوجیوں نے نہیں بلکہ تیس ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے، تین لاکھ بنگالیوں کا قتل نہیں ہوا بلکہ فقط چند ہزار بنگالی مارے گئے اور اسی طرح چند سو بنگالی عورتوں کا ریپ ہوا ہو گا۔ بالفرض محال اگر ہم یہ اعداد و شمار درست بھی مان لیں تو کیا اس سے ہمارا جرم معاف ہو جائے گا؟

دراصل شیخ مجیب الرحمٰن نے بھی مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کے جو دعوے کیے ان میں بے حد مبالغہ تھا، ان دعوؤں کو سرمیلا بوس نامی ایک تاریخ دان نے غلط قرار دیا، ہمارے مہربان اپنی ہر گفتگو میں جھٹ سے اسی کا حوالہ دیتے ہیں اور یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا اس کا درست اندازہ لگانا کسی ایک شخص کے لیے ممکن ہی نہیں، اس کے لئے تو نیورمبرگ کی طرز پربین الاقوامی کمیشن قائم ہوتا جو تمام متاثرہ لوگوں کی گواہیاں ریکارڈ کرتا تو معلوم ہوتا کہ کتنے بنگالی قتل ہوئے اور کتنی عورتوں کا ریپ ہوا۔

مگر سچ پوچھیں تو اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نیورمبرگ ٹرائل کے باوجود آج بھی لوگ موجود ہیں جو ہولوکاسٹ کے انکاری ہیں یا جو یہ کہتے ہیں کہ اس وقت ستر لاکھ یہودی آبادی ہی نہیں تھی تو ہٹلر نے اتنے یہودی کیسے مار دیا! ظاہر ہے کہ یہ ایک لا حاصل بحث ہے۔ جو ڈاکیومنٹری جاوید جبار نے بنائی، اس میں بہت نایاب فوٹیج ہیں جن تک رسائی حاصل کرنا انہی کا کام تھا مگر جیسا کہ ہمارا المیہ ہے، اپنی تمام تر قابلیت اور انگریزی پر عبور ہونے کے باوجود جاوید جبار صاحب نے تاریخ کو درست کرنے کی بجائے اسے یہ کہہ کر مزید مسخ کر دیا کہ مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی۔

جاوید جبار صاحب ہمارے ہر دلعزیز جنرل مشرف کے ترجمان بھی رہے ہیں، اس زمانے میں وہ مشرف حکومت کی کامیابیاں گنوایا کرتے تھے، کیا اس وقت انہوں نے کبھی سوچا کہ یہ کامیابیاں دراصل سیاست دانوں کی مرہون منت ہیں جبکہ حکومت پرویز مشرف کی تھی؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک ناقابل فہم بات ہوتی بالکل اسی طرح جیسے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مشرقی پاکستان کا ٹوٹنا سیاسی ناکامی تھی۔ جس ملک کی اشرافیہ آمر کا دست و بازو بننے میں ندامت محسوس کرنے کی بجائے فخر محسوس کرے اس ملک کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو ہمارے ساتھ دسمبر 1971 میں ہوا، افسوس کہ ہم اب بھی دائروں میں سفر کر رہے ہیں۔ (ختم شد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments