عمران خان اپنے مقصد میں کامیاب رہے


پچھلے دنوں میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ، حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کے حق میں ایک بیان دینے کی پاداش میں پیپلز پارٹی سے اختلافات کے باعث سینٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دینے والے سینیٹر مصطفٰے نواز کھوکھر کے ہاں ایک ڈنر پر مدعو تھا۔ بات چیت مختلف موضوعات سے گھومتی گھامتی پہلے موجودہ سیاست پر اور پھر وہاں سے عمران خان کی طرف سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کی تحلیل تک آ گئی۔

مصطفٰے نواز کھوکھر صاحب نے اچانک مجھ سے سوال کر دیا کہ آپ کی اس اعلان کے بارے میں کیا رائے ہے، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے مارکیز کا ناول
Chronicle of a Death Fortold
پڑھا ہے تو انھوں نے نفی میں جواب دیا۔ میں نے عرض کی کہ مجھے لگتا ہے کہ اس کی کہانی کو دہرایا جا رہا ہے۔

گیبرئیل گارسیا مارکیز میرا سب سے زیادہ پسندیدہ ناول نگار ہے جو اپنی جادوئی حقیقت نگاری کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

Chronicle of a Death Fortold
اس کا ایک مختصر ناول ہے جس کا اردو ترجمہ ممتاز شاعر اور مترجم افضال احمد سید نے ”ایک پیش گفتہ موت کی روداد“ کے نام سے اور پنجابی میں پنجابی کے ممتاز فکشن نگار افضل احسن رندھاوا نے ”پہلاں توں دس دتی گئی موت دا روزنامچہ“ کے نام سے کیا تھا۔

میں نے یہ ناول تینوں زبانوں میں پڑھا رکھا ہے۔ اپنے اسلوب اور بیانیے کے حوالے سے یہ ایک عجیب و غریب ناول ہے۔ یہ غیرت اور انا کے نام پر ہونے والے ایک قتل کی کہانی ہے۔ تمام کہانی سانیتا گو نصر نامی مقتول کے گرد گھومتی ہے۔ جس ے دو بھائیوں نے غیرت کے نام پر قتل کر دیا تھا۔ کہانی کا راوی ستائیس برس بعد اس قتل کا کھوج لگانے نکلتا ہے اور مختلف لوگوں، جو اس قتل کے عینی شاہد تھے کی یادداشت کی بنیاد پر کہانی کو آگے بڑھاتا ہے۔

ہوتا یوں ہے کہ قصبے میں بیاردو سان رومان نامی ایک مالدار شخص اچانک وارد ہوتا ہے اس کے حوالے سے مختلف کہانیاں افواہوں کی صورت گردش کرتی رہتی ہیں۔ ایک دن وہ ایک قصبے کی ایک خاتون کے گھر شادی کا پیغام بھجواتا ہے، اس کے گھر والے اس کی دولت کی چمک دمک سے متاثر ہو کر خاتون کی مرضی کے بغیر اس کی شادی طے کر دیتے ہیں۔ شادی بڑی دھوم دھام سے انجام پذیر ہوتی ہے۔

شب زفاف میں اس پر کھلتا ہے کہ اس کی بیوی باکرہ نہیں تھی سو وہ اسی رات پچھلے پہر نئی نویلی دلھن کو اس کی ماں کے گھر چھوڑ آتا ہے۔ اس کی ماں پہلے خود اسے خوب پیٹتی ہے اور پھر اپنے دونوں جڑواں بیٹوں پیدرو اور پابلو ویکاریو کو بھی اپنے کمرے میں بلاتی ہے اور انھیں اس نئی صورت حال سے آگاہ کرتی ہے۔ بڑا بھائی جو اپنے چھوٹے بھائی سے کچھ منٹ پہلے پیدا ہوا ہوتا ہے اسے غصے سے اٹھا کر پٹختا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ کون تھا؟

”سانیتاگو نصر“ وہ مختصر جواب دیتی ہے۔

دونوں بھائی جو پیش کے اعتبار سے قصائی ہوتے ہیں۔ سؤروں کے باڑے میں جاتے ہیں اور وہاں سے چھرے اور ٹوکے لے کر بازار میں موجود چھرے تیز کرنے والے کے پاس پہنچتے ہیں تو چھرے تیز کرنے والا ان سے پوچھتا ہے کہ اتنے سویرے آپ کو چھرے تیز کرنے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ جلدی سے چھرے تیز کرو ہم سانیتا گو نصر کو قتل کرنے جا رہے ہیں۔ وہ ان کی باتوں پر ہنستا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ سانیتا گو نصر ایک امیر اور طاقت ور آدمی ہے اسے قتل کرنے کی جرات یہ غریب قصائی کیسے کر سکتے ہیں۔

آہستہ آہستہ یہ بات پورے قصبے میں پھیل جاتی ہے۔ جب پولیس کو پتہ چلتا ہے تووہ انھیں تھانے طلب کرتی ہے اور ان سے پوچھ گچھ کرتی ہے اور ان کے اقرار پر، وہ ان سے پوچھتی ہے کہ وہ اسے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں تو وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ جانتا ہے کہ ہم اسے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر پولیس والے بھی، اسے دیوانے کی بڑ سمجھتے ہیں اور ان کے چھرے ضبط کر کے انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔

وہ نئے چھرے لے کر پھر بازار پہنچ جاتے ہیں اور ہر راہ چلتے شخص سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے سانیتا گو نصر کو تو نہیں دیکھا۔ جب وہ نفی میں سر ہلا کر پوچھتا ہے کہ آپ اسے کیوں تلاش کر رہے ہیں تو ان کا ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ آپ کو نہیں پتہ کہ ہم اسے قتل کرنے کے لیے تلاش کر رہے ہیں۔ وہ ہنستا ہے اور آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہ سارا دن اس معمول کو کو دہراتے رہتے ہیں کہ دن ڈھلے ان کی نظر اچانک سانیتا گو نصر پر پڑتی ہے جو اپنے گھر کی طرف جا رہا ہوتا ہے۔ بڑا بھائی، چھوٹے کو زور سے آواز دیتا ہے (حالاں کہ اس کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ اس کے قریب ہی کھڑا ہوتا ہے ) ”وہ جا رہا ہے، گھونپ چھرا اس کے پیٹ میں“ اور چھوٹا زور سے چلاتے ہوئے اس کے پیچھے بھاگتا ہے اور بھرے بازار میں اس کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیتا ہے۔

بہت عرصے بعد جب وہ جیل میں سزا کاٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم اسے قتل نہیں کرنا چاہتے تھے، ہم نے پورے قصبے میں یہ بات پھیلائی ہی اس لیے تھی کہ کوئی ہمیں اس اقدام قتل سے روک لے تاکہ ہمارے پاس یہ بہانہ موجود ہو کہ ہم نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کی پوری کوشش کی مگر ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری باتوں کو کسی نے سنجیدہ نہیں لیا اور وہ بے چارہ ہمارے ہاتھوں قتل ہو گیا۔

تحریک انصاف کے بانی اور اس کے ”تاحیات“ چیئرمین عمران خان سے ہم یہ تو توقع نہیں رکھتے کہ انھوں نے یہ ناول پڑھا ہو گا لیکن ہم مارکیز کی پاکستانی سیاست کے حوالے سے پیش بینی کی صلاحیت کے قائل ضرور ہو گئے۔ کچھ مماثلتیں پیش خدمت ہیں۔

ناول کا راوی، قتل کے ٹھیک ستائیس برس بعد مختلف لوگوں کی یادداشتوں کے سہارے اس قتل کو اپنے ذہن میں زندہ کرتا اور کاغذ پر منتقل کرتا ہے، تحریک انصاف کو وجود میں آئے بھی ستائیسواں سال ہے۔ (اپریل میں تحریک انصاف پورے ستائیس سال کی ہو جائے گی۔ )

ناول کا ایک کردار، جس کی وجہ سے مرکزی کردار کا قتل ہوتا ہے، بیاردوسان رومان ہے، ہماری اس سیاسی کہانی کا مرکزی کردار عمران خان ہیں، ۔ رومان بروزن عمران، اور سان بر وزن خان خاصی معنی خیز مماثلت ہے۔ (یاد رہے کہ یہ الفاظ ہم وزن ہی نہیں ہم قافیہ بھی ہیں )

ہمیں نہیں معلوم کہ سپینش میں رومان کے کیا معنی ہے لیکن ناول کا یہ کردار خاصا رومانوی ہے، ادھر ہمارے خان صاحب کی ”رومان پروری“ کے بھی بہت شہرے ہیں اور پچھلے کچھ عرصے میں، جب سے انھوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کو قتل کرنے کا اعلان کیا ہے، اس شہرت کو کم از کم ”تین چاند“ تو لگ ہی چکے ہیں۔

ناول کی کہانی میں قتل کا باعث بننے والا رومان نامی کردار کسی دوسرے علاقے سے قصبے میں وارد ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی کہانی کے مرکزی کردار عمران خان بھی ولایت سے واپس آتے ہیں۔

ناول کے اس کردار کے حوالے سے کئی کہانیاں زبان زد خاص و عام ہوتی ہیں اور ہماری سیاسی کہانی کے اس کردار کے ساتھ بھی ان دنوں کئی کہانیاں جڑی ہوئی ہیں جن میں سے کچھ تو مافوق الفطر بھی تھیں جن کی وجہ سے انھیں ایک مسیحا بنا کر پیش کیا گیا۔

ناول میں یہ کردار ایک خاتون پر فریفتہ ہو جاتا ہے اور ہماری سیاسی کہانی میں خان صاحب حکومت نامی ایک طوائف پر (اسے دوشیزہ سمجھ کر ۔ )

ناول میں عقد خاتون کی مرضی کے خلاف عمل میں لایا جاتا ہے اور ہماری سیاسی کہانی میں آر ٹی ایس بٹھا کر ۔

ناول میں خاتون کے بڑے بزرگ رومان نامی شخص کی دولت کی چمک دمک سے متاثر ہوتے ہیں اور ہمارے ”بڑے بزرگ“ خان صاحب کی شہرت کی چمک دمک سے۔

ناول میں رومان کو شب زفاف ہی پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی منکوحہ باکرہ نہیں تھی، جب کہ خان صاحب کو چار سال بعد ۔ جب ان کی منکوحہ (حکومت) ان سے چھین لی جاتی ہے۔

ناول کی کہانی دو قاتل بھائیوں کے گرد گھومتی ہے اور ہماری سیاست کی کہانی دو اسمبلیوں کے گرد جنھیں قتل ہونا تھا۔

ناول میں دو بھائی، (پیدرو اور پابلو ویکاریو) جو پیشے کے اعتبار سے قصائی ہیں، اپنے چھرے لے کر چھرے تیز کرنے والے کی دکان پر پہنچتے ہیں اور برسر بازار اعلان کرتے ہیں کہ وہ سانیتا گو نصر نامی شخص کو جس نے ان کی غیرت کا خون کیا ہے، قتل کرنے جانے رہے ہیں۔

خان صاحب اگرچہ پیشے کے اعتبار سے قصائی نہیں لیکن وہ اپنے دونوں چھروں (پرویز الہٰی اور محمود خان) کو دائیں بائیں بٹھا کر اعلان کرتے ہیں کہ وہ اسی ہفتے دونوں اسمبلیوں کے سینے پر کلہاڑا چلائیں گے۔

ناول کی کہانی میں قاتل جڑواں بھائی ہوتے ہیں۔ پرویز الہیٰ اور محمود خان اگرچہ جڑواں نہیں لیکن دونوں ان دنوں چوں کہ عمران خان سے جڑے ہوئے ہیں سو اس نسبت سے انھیں جڑواں بھی کہا جا سکتا ہے۔

ناول کی کہانی میں دونوں کو ماں قتل پر اکساتی ہے اور ہماری سیاسی کہانی میں عمران خان، جن کا رتبہ اگر تحریک انصاف میں ماں کا نہیں تو ایک باپ کا ضرور ہے۔

ناول میں ایک موقع پر پولیس انھیں تھانے طلب کرتی ہے اور ان کے چھرے ضبط کر کے ان سے پوچھتی ہے۔ ”تم اسے کیوں قتل کرنا چاہتے ہو؟“ تو دونوں بیک زبان جواب دیتے ہیں۔ ”سانیتا گو نصر جانتا ہے ہم اسے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں۔“ ہماری سیاسی کہانی میں شنید ہے کہ پرویز الہیٰ کو کہیں بلایا گیا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم وہاں ان سے کیا سوال و جواب ہوئے اور انھوں نے کیا جواب دیا۔

ناول کی کہانی میں جڑواں بھائیوں میں سے ایک، پیدرو اس اقدام قتل پر بمشکل راضی ہوتا ہے، ہماری سیاسی کہانی میں بھی پرویز الہٰی کو بڑے تردد کے بعد راضی کیا جاتا ہے۔

ناول کی کہانی میں، دونوں بھائیوں کے تھانے طلبی کے بعد پیدرو نامی بھائی اس قتل سے اس حد تک باز آ چکا ہوتا ہے کہ جب اس کا بھائی اسے دوبارہ قتل پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ سؤروں کے باڑے میں چھرے لینے بھی اس کے ساتھ نہیں جاتا اور پابلو کو یہ کام اکیلے سر انجام دینا پڑتا ہے۔ اس دوران میں وہ ثمر ہند کے درختوں کے نیچے کھڑے ہو کر قطرہ قطرہ پیشاب کرنے کے عذاب سے گزرتا ہے۔ اور وہ راوی کے سامنے اعتراف کرتا ہے کہ ”ایسا لگتا تھا جیسے پیشاب کی جگہ شیشے کی کرچیاں نکل رہی ہوں۔“ ہماری سیاسی کہانی میں پرویز الہٰی نے ابھی تک کوئی اعترافی بیان جاری نہیں کیا۔ لہٰذا اس بابت ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔

ناول کی کہانی میں راوی کے بقول: ”ویکاریو برادران نے سانیتا گو نصر کو فی الفور، اور تماشا بنائے بغیر، قتل کرنے کے لیے کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں کیا، بلکہ انھوں نے، اس سے کہیں زیادہ جتنی کسی کے تصور میں آ سکتی ہے، یہ کاوش کی کہ کوئی انھیں اس کو قتل کرنے سے باز رکھ سکے اور وہ اس میں ناکام رہے۔“

ہماری سیاسی کہانی میں دروغ بر گردن راوی: ”عمران خان اور ان کے ویکاریو برادران نے اسمبلیوں کو فی الفور، اور تماشا بنائے بغیر، تحلیل کرنے کے لیے کچھ بھی ڈھنگ سے نہیں کیا، بلکہ انھوں نے، اس سے کہیں زیادہ جتنی کسی کے تصور میں آ سکتی ہے، یہ کاوش کی کہ کوئی انھیں اس اقدام سے باز رکھ سکے اور وہ اس میں پوری طرح کامیاب رہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments