ایک مظلوم شہزادی کا قتل


پاکستان کی سرزمین شہداء کی وارث ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان قدرت کا وہ انعام ہے جو لاکھوں قربانیوں کے بعد قائداعظم اور ان کے ساتھیوں کی لا زوال محنت کے بعد رب ذوالجلال کی جانب سے عطا کیا گیا، تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ اسی دھرتی کی بیٹی جو اپنے باپ شہید بھٹو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس پاک وطن کی مٹی کے نیچے سو گئی، اس بے نظیر بیٹی کو یہ بھی اعزاز حاصل تھا کہ وہ پاکستان کی دو دفعہ وزیر اعظم رہی اور پہلی خاتون مسلم وزیر اعظم کا منصب بھی اسی کے حصے میں آیا۔

وطن سے محبت بھٹو خاندان کا اثاثہ ہے، جسے اس خاندان نے ہمیشہ اپنے خون سے سینچا، اور یہی پاکستان سے محبت اور وطن سے پیار کی نشانی ہے جو پیپلز پارٹی کے ماتھے کا جھومر ہے، شہید محترمہ بے نظیر نہ صرف، بھٹو کی بیٹی بلکہ اس قوم کی بیٹی تھیں۔ ایک ایسی لڑکی جو ناز و نعم سے پلی بڑھی ہو اور جس نے لندن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور برطانیہ سے پاکستان واپس آ کر اس قوم کی خدمت میں لگ گئی۔ پیارے وطن میں ڈکٹیٹر نے شدید تکالیف سے دوچار کیا لیکن بھٹو کی بیٹی تھی اپنے ارادے کی پکی اور وطن کے لئے لازوال محبت رکھنے والی، کہاں دشمن کے سامنے سر جھکاتی، اور پھر تاریخ نے دیکھا، بے نظیر بھٹو نے بھی قوم کی بیٹی ہونے کی لاج رکھی اور پاکستان میں جمہوریت قائم کر کے عوام کو ان کا حق ان کی دہلیز تک پہنچایا۔

1977 میں ضیا الحق نے شہید بھٹو کو تختہ دار پر لٹکایا تو اس وقت بے نظیر بھٹو صرف چوبیس برس کی تھیں لیکن انہوں نے اس وقت بھی بھٹو کا مقدمہ اپنی بہادر ماں کے ساتھ مل کر لڑا، تن تنہا مقابلہ کیا اور وقت نے ثابت کیا کہ بے نظیر نہ صرف ذہین خاتون بلکہ دلیر لیڈر ہیں اور پاکستان سے محبت انہیں ورثے میں ملی ہے۔ بھٹو شہید کے بعد محترمہ نے تکالیف کو جیسے برداشت کیا یہ ایک عام عورت کے بس کی بات نہیں۔

بے نظیر بھٹو 1984 میں عالمی دباؤ پر علاج کے لئے باہر چلی گئیں، انتیس سالہ بے نظیر کو دو سال چار ماہ جلا وطنی برداشت کرنا پڑی وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ جو وقت انہوں نے پاکستان سے باہر جلا وطنی میں گزارا وہ ایک کٹھن دور تھا اور وہ اسے بھول نہیں سکتیں، آمر ضیاء الحق نے عدالت کو آلہ کار بناتے ہوئے بھٹو شہید کو 1979 میں تختہ دار پر لٹکانے کے بعد سوچا تھا کہ پیپلز پارٹی بھی شاید ماضی کی ایک یاد بن کر رہ جائے گی لیکن عوام کے دلوں پر راج کرنے والوں کے نام یادوں سے کھرچنا کبھی ممکن نہیں، اگر ایسا آسان ہوتا تو آج تاریخ میں سچ کا ساتھ دینے کے بجائے ظالموں کے کارناموں کا چرچا ہوتا، عظیم باپ کی دلیر بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو نے تمام تر ظلم و ستم کے باوجود اس مشن کو جاری رکھا، دختر مشرق اور جیالے کارکنوں کی بے مثال جدوجہد کا ثمر 1988 میں ملا جب انہیں عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی مسند سنبھالنے کا موقع ملا۔ اگر شہدا کے وارث بھٹو خاندان کے اقتدار کو دیکھا جائے تو بہت طویل نہیں ہے لیکن عوام کے حقوق کی جدوجہد طویل ترین ہے اور اسی میں موت کو گلے لگا کر عظیم باپ اور بیٹی نے شہادت کا مرتبہ پایا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی عیش و آرام کی زندگی پر عوام کی فلاح کے لئے صعوبتیں اٹھانے کو ترجیح دی، انہوں نے 1967 میں پارٹی کی بنیاد رکھی اور مختصر عرصے میں ہی اس کو مقبول ترین جماعت بنا دیا، ملک کو ایٹمی طاقت بنا کر عالم اسلام کا قلعہ بنا دیا، انہوں نے مزدوروں، کسانوں اور عام شہریوں کی حقوق کی بحالی کے لیے دن رات ایک کیا۔

بے نظیر بھٹو کی تکالیف لاتعداد ہیں اور ان کی محنت بے انتہا اور یہ سب وطن کی محب میں ممکن ہو سکا، بے نظیر شہید اپنی جلاوطنی کے بعد ایک بار پھر واپس وطن لوٹیں اس بار بھی ان کا سامنا ڈکٹیٹر سے تھا اور مشرف جسے عدالت نے آئین پاکستان توڑنے پر سزا وار قرار دیا اور موت کی سزا سنائی، اسی مشرف کے دور میں ملک دشمنوں نے انہیں وطن واپس آنے پر 18 اکتوبر 2007 کی درمیانی شب کراچی میں استقبالیہ جلوس پر حملے کے ذریعہ روکنے کا پیغام دیا جو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ بن گیا جس میں 145 کے قریب بے گناہ انسان جاں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ماضی میں کسی سیاسی جماعت کے جلوس میں اتنا بڑا قتل عام نہیں ہوا۔

محترمہ بے نظیر بھٹو دھماکے کے وقت ٹرک میں موجود تھیں، انہیں پیپلز پارٹی کے ورکروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے بحفاظت نکال کر بلاول ہاؤس پہنچایا، ٹرک پر سوار اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنما زخمی ہوئے۔ اس سانحے کے بعد بہت سے سوالات نے جنم لیا، محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملے کے بعد یہ حقیقت تو کھل گئی کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی بہت سی قوتیں پیپلز پارٹی اور محترمہ سے خائف ہیں جن کا مشن پیپلز پارٹی کو سیاسی منظر سے ہٹانا ہے۔

جتنا پیار آج پاکستان کی عوام بے نظیر کے بیٹے کے لئے رکھتی ہے اتنا پیار قسمت والوں کو ملتا ہے۔ شہید بھٹو کا نواسہ اور بے نظیر بھٹو کا بیٹا پاکستان کی تقدیر بدلنے کے لئے بے تاب ہے، وہ اپنی ماں اور نانا کے نقش قدم پر چل کر اپنی پارٹی کو ملک کی خدمت کے لئے تیار رکھے ہوئے ہے، بلاول جانتا ہے کہ پاکستان کی ترقی کے لئے اسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ اگر پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کی بات کی جائے یا پیپلز پارٹی کے ورکرز کا جذبہ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی ڈرنے والی نہیں وہ جمہوریت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور کارکن سر پر کفن پر باندھ کر ہر دم تیار اور مستعد موجود رہے گا۔

بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کو درپیش خطرات سے آگاہ ہونے کے باوجود عوام رابطہ مہم کی قیادت کرتے ہوئے 27 دسمبر کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ سے خطاب کیا، جہاں سے واپسی پر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیتے ہوئے ایک اندھی گولی کا نشانہ بن گئیں۔ محترمہ کی شہادت کی خبر ملک میں آگ کی طرح پھیلتے ہی ملکی سیاست کے در و دیوار ہل کر رہ گئے تھے جس سے ملک میں خانہ جنگی اور عام الیکشن ملتوی ہونے کے امکانات معدوم ہو گئے تھے، مگر اس وقت مرد حر آصف علی زرداری آگے بڑھے اور پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر معاملات کو خراب ہونے سے بچا لیا، یہی زرداری آج بھی پاکستان کی حفاظت کے لئے مردانہ وار کھڑا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت نے وطن کی سرحدوں کو مضبوط کرنے کے لئے آپریشن ضرب عضب، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں پر آہنی ہاتھ ڈالنے کے لئے آئینی ترامیم کیں، یہ پیپلز پارٹی کا کارنامہ نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کی ملک سے محبت کا ثبوت ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی ترقی، سرحدوں کی حفاظت اور وطن کی آن بان شان کے لئے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادتوں نے ہماری محبتوں میں اضافہ ہی کیا ہے، پیپلز پارٹی پاکستان کی آج بھی مقبول جماعت اور غریب کی نمائندہ پارٹی ہے اور بلاول بھٹو زرداری یہ ثابت کر کے دکھائے گا کہ پاکستان میں آئین کے محافظ، پاکستان کی ترقی کے ضامن اور محمد ﷺ کا اصل سپاہی ہونے کے ناتے بطور وزیر خارجہ جو قومی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے اسے پورا کرنے کا اہل بھی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments