عارف عبدالمتین، حرف احتجاج سے حرف دعا تک: ڈاکٹر خالد سہیل کو تیسرا خط


مکتوب نگا: حامد یزدانی اور ڈاکٹر خالد سہیل

حامد یزدانی صاحب!

آپ نے عارف عبدالمتین کے نظریاتی ارتقا کا ذکر کیا ہے۔ میں نے اس تبدیلی کی تفہیم کے لیے ایک انٹرویو میں ان کو چیلنج بھی کیا اور ان کے عزیزوں کے چند انٹرویو بھی کیے۔ میں اس خط میں ان کے خیالات میں ارتقا کا ادبی اور نظریاتی تجزیہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ امید ہے آپ کو پسند آئے گا۔

عارفؔ عبدالمتین کی ایک یک مصرعی نظم ہے
نئی نسل سے : تو مرے افکار کی راحت بھی بن ناقد بھی بن
زندگی کا ایک وہ دور تھا جب عارف عبدالمتین
بائیں بازو کے ادیبوں ’مفکروں اور دانشوروں کی صفوں میں کھڑے نظر آتے تھے
ترقی پسند تحریک کے سر گرم رکن تھے
مارکس ’اینجلز‘ لینن اور ماؤ زے تنگ کو اپنا ہیرو مانتے تھے
فرسودہ روایات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھتے تھے
غریبوں ’مزدوروں اور کسانوں کے بارے میں پریشان رہتے تھے
اور
جابروں ’آمروں اور ظالموں کو للکارتے تھے

نوجوانی کے اس دور میں ان کے لہجے میں جوش تھا ’جلال تھا‘ احتجاج تھا ’بغاوت تھی‘ للکار تھی۔ ان کے شعروں میں قربانی دینے کا جذبہ نمایاں تھا۔ فرماتے ہیں

؎ چلی جو باد حوادث تو دل نے تن کے کہا
یہ شاخ ٹوٹ تو سکتی ہے جھک نہیں سکتی
؎ تم دربار کے پروردہ ہو ہم پیکار کے رسیا ہیں
تم کیا جانو سر کٹوانا ہم کیا جانیں سر کا خم
زہر کو امرت لکھ نہ سکیں گے ہاتھ قلم ہر چند کرو
اپنا فن ہے حسن صداقت فن کی امانت اپنا قلم

لیکن پھر وہ ایک نفسیاتی بحران کا شکار ہو گئے۔ کچھ عرصے کے لیے اپنی تلاش میں گوشہ نشین ہو گئے۔ اپنے قلب کی گہرائیوں میں کھو گئے۔ اپنی روح کی گہرائیوں میں اتر گئے۔ اس عرصے میں

نجانے کتنے سورج غروب ہو گئے
نجانے کتنے چاند گہنا گئے
نجانے کتنے موسم گرما موسم سرما میں بدل گئے
نجانے کتنے موسم بہار موسم خزاں میں ڈھل گئے
انہوں نے نجانے کتنی راتیں جاگتے گزار دیں
لکھتے ہیں ؎ عارف۔ دیوانہ ہے۔ چاند سے شب بھر باتیں کرتا رہتا ہے
اور جب وہ اپنی ذات کی دلدل سے نئی شناخت کا کنول بن کر ابھرے تو انہوں نے
مذہب کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا
تصوف کو سینے سے لگایا اور
اسلامیات کی ڈگری حاصل کی

ان کی نعتوں کا مجموعہ ’بے مثال‘ شائع ہوا تو دائیں بازو کے دانشوروں نے انہیں گلے لگایا اور جدید نعت لکھنے والوں نے انہیں بہت سراہا۔

عارف عبدالمتین کی شاعری ’شخصیت اور طرز زندگی میں یہ انقلاب ان کے بہت سے پرستاروں کے لیے حیران کن اور بہت سے عقیدت مندوں کے لیے پریشان کن تھا۔

ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناتے میں نے ان کے افکار کی تبدیلی کا راز جاننے کے لیے نہ صرف ان کا تفصیلی انٹرویو لیا بلکہ ان کی بیگم شہناز عارف ’ان کے بیٹے نوروز عارف اور ان کے قریبی نعت گو دوست حفیظ تائب کا بھی انٹرویو لیا۔ میں ان انٹرویوز کی چند جھلکیاں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

عارف عبدالمتین کے نظریات میں تبدیلی میں ان کی طویل بیماری نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ بیماری کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان کی ادبی محفلوں مین شرکت ’سیاسی کاموں میں شمولیت اور ان کے جوش‘ ولولے اور جذبات کی شدت میں کمی آئی گئی اور ان کی طبیعت میں کمزوری اور نقاہت بڑھتی گئی۔

ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ کوئی بھی جسمانی یا ذہنی بیماری کوئی بھی  کرونک النس (دائمی بیماری) انسان کی قوت مدافعت کو کم کر سکتی ہے اور نفسیاتی کمزوری کو بڑھا سکتی ہے۔ طویل بیماری کے کئی مریض ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جسمانی بیماری کے ساتھ ساتھ عارف عبدالمتین کو نفسیاتی بحران کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کی بیگم شہناز عارف نے اپنے انٹرویو میں کہا

’ اپنے بیٹے عرفی کی موت کے حادثے نے انہیں نڈھال کر دیا۔ اب ان کی یہ حالت ہے کہ گھر میں گوشہ نشین ہو گئے ہیں۔ اب وہ کسی سے ملتے ملاتے نہیں‘ ۔

حفیظ تائب نے اپنے انٹرویو میں کہا

’ ایک طرف وہ ایم اے اسلامیات کر رہے تھے اور دوسری طرف ان کی بیماری ان کو متاثر کر رہی تھی۔ دین کی قربت نے انہیں تقویت دی تھی‘ ۔

عارف عبدالمتین نے خود اپنی بیماری کی اہمیت کا اعتراف کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔

’ میں جس بیماری کا شکار ہوا وہ کسی نہ کسی شکل میں اب تک میرے ساتھ چل رہی ہے۔ اس کی شدت وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی۔ پہلے بلڈ پریشر کی تکلیف تھی پھر دوسرے عارضے لاحق ہوئے۔ اس بیماری نے میرے دل میں خاص قسم کا گداز پیدا کیا اور جو موجود تھا اس کو بڑھایا۔ بیماری بھی ایک دین بن جاتی ہے اگر وہ حقائق کائنات کے سمجھنے کے ٹریک پر آپ کو ڈال دے اور آپ ان دکھوں کی بھی شناخت کرنے لگیں جو صحت کے عالم میں انسان نہیں کر پاتا۔ اس بیماری نے مجھے اندر ہی اندر دکھی انسانیت سے پیار کرنا سکھایا‘

عارف عبدالمتین کے چند دوست ایسے تھے جو انہیں مذہب اور تصوف کے مطالعے کا مشورہ دیتے تھے۔ ان میں سے ایک پروفیسر ارشد خان بھٹی تھے۔ میں نے جب شہناز عارف سے پوچھا کہ سائنس پڑھانے والے عارف عبدالمتین نے اسلامیات پڑھانی کیوں شروع کر دی تو فرمانے لگیں ’اس کی وجہ ان کے دوست ارشد بھٹی تھے۔ انہوں نے انہیں ایم اے اسلامیات کا مشورہ دیا۔ وہ خود تو انگریزی ادب میں ایم اے کرنا چاہتے تھے۔ ‘ اسی لیے جب ہم عارف عبدالمتین کا مجموعہ کلام ’حرف دعا‘ کھولتے ہیں تو پہلے صفحے پر ہی یہ نظر آتا ہے :

پروفیسر ارشد بھٹی کے نام۔ جن کی ارفع شخصیت نے انتہائی غیر مرئی انداز میں میرے لبوں کے حرف احتجاج کو حرف دعا میں بدل دیا ’

حفیظ تائب فرماتے ہیں ’جب وہ بیمار ہوئے تو ان کا زیادہ تر وقت دین کے مطالعے میں گزرا‘ ۔

جس دور میں عارف عبدالمتین نے اسلام اور تصوف اپنایا ان دنوں پاکستان کی ادبی اور سیاسی فضا میں بہت سی غیر معمولی تبدیلیاں آئیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے وہ لاہور کے جس علاقے میں رہتے تھے وہ بھی کرشن نگر سے اسلام پورہ بن گیا۔

جب پاکستان کے ترقی پسند ادیبوں نے شکایت کی کہ عارف عبدالمتین نے ترقی پسندی کو خیر باد کہہ دیا ہے تو عارف عبدالمتین نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا کہ انہوں نے اسلام قبول کر کے اپنے ترقی پسند خیالات اور سوشلسٹ نظریات کے دامن کو وسیع کیا ہے

؎ میں حرف دعا کا سلسلہ ہوں۔ عالم کی نجات چاہتا ہوں
مقتول کی مغفرت کا طالب۔ قاتل کی طرف سے خوں بہا ہوں

میری نگاہ میں یہ بات اہم ہے کہ جب عارف عبدالمتین اسلام کے قریب آئے تو انہوں نے کسی ظلم ’جبر یا استحصال کے حق میں کوئی مذہبی تاویل پیش نہیں کی۔ عارف عبدالمتین کا اسلام امن‘ آشتی اور انسان دوستی کا اسلام تھا تنگ نظری ’شدت پسندی اور دہشت پسندی والا اسلام نہیں تھا۔ ان کا اسلام مولویوں والا نہیں صوفیوں والا تھا۔ اسی لیے انہیں اسلام اور سوشلزم میں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔ عارف عبدالمتین جب کامریڈ تھے تب بھی مزدوروں اور کسانوں‘ غریبوں اور مظلوموں کے حق میں تھے اور جب صوفی بنے تب بھی وہ جابروں ’آمروں اور ظالموں کے خلاف تھے۔

جب عارف عبدالمتین نے سائنس کے ساتھ ساتھ ادب اور مذہب کا مطالعہ کیا تو انہوں نے ان تینوں روایتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی اور ان پر پل تعمیر کرنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ ان روایتوں کے راستے جدا سہی لیکن ان کی منزل ایک ہی ہے۔ وہ اپنے موقف کا اظہار اپنے انٹرویو میں ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ
مذہب سچائی کو وجدانی سطح پر جاننے کا ’
سائنس سچائی کو ادراک کی سطح پر CONCEIVE کرنے کا
اور آرٹ اس سچائی کو جمالیاتی سطح پر پیش کرنے کا نام ہے

اور وہ سچائی ایسی ہے جس کو ہر طرح کے تعصبات سے بالاتر ہو کر COMPREHEND کرنے کی ضرورت ہے۔ سائنس مذہب اور آرٹ میں حد فاصل قائم کرنا یا ان کو ایک دوسرے کی ضد سمجھنا درست نہیں ’

میری نگاہ میں عارف عبدالمتین نے اپنی زندگی میں جو ارتقائی سفر طے کیا تھا وہ نہایت پہلو دار ’پیچیدہ اور گمبھیر تھا، شاید اسی لیے ان کے مداحوں‘ شاگردوں اور پرستاروں میں بائیں اور دائیں دانوں بازوؤں کے ادیب شاعر اور دانشور شامل ہیں۔

اسی لیے ان کی شاعری کا مجموعہ ’اکلاپے دا مسافر‘ اور تنقید کی کتاب ’پرکھ پڑچول‘ اب نصاب کا حصہ بن گئے ہیں۔

یہ میری خوش بختی کہ عارف عبدالمتین میرے تایا تھے اور میرے والد عبدالباسط کے مداح تھے۔ عارف عبدالمتین مجھ سے کہا کرتے تھے ’بیٹا! آپ کے والد عمر میں مجھ سے چھوٹے لیکن دانائی می مجھ سے بڑے ہیں‘ یہ میری خوش نصیبی کہ مجھے ان دونوں بے پناہ محبت اور شفقت کرنے والی شخصیتوں سے فیض حاصل کرنے اور ان کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔

حامد یزدانی صاحب!

جہاں تک عارف عبدالمتین کے بارے میں کتاب لکھنے کا تعلق ہے میں نے ان کے بیٹے اور اپنے کزن نوروز عارف سے اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس خط کو مکمل کرنے کے بعد میں دوبارہ ان سے مشورہ کروں گا۔ اگر وہ یہ کام نہ کر سکے تو کیا آپ اور میں مل کر یہ کام کر سکتے ہیں؟ آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟

آپ کا مداح۔
خالد سہیل۔
18 دسمبر 2022
———————

محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب

تسلیمات و آداب
امید ہے کہ آپ بخیر ہوں گے۔

پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کے حوالے سے میرے جوابی خط نے آپ کو ایک اور ادبی مکتوب لکھنے پر آمادہ کر لیا۔ یہ بات بھی میرے لیے باعث اعزاز ہے جس کے لیے میں آپ کا تہ دل سے ممنون ہوں۔

آپ اپنی بے پناہ مصروفیات میں سے ایسے مکالموں کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ مجھے حیرت بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی۔ آپ کی مصروفیات پر نظر کروں تو حیرت یہ بھی ہوتی ہے کی کیسے آپ تواتر سے اور معیار قائم رکھتے ہوئے ان تھک لکھ لیتے ہیں۔ صرف گزشتہ برس کی بات کی جائے تو اس ایک برس میں آپ کی جتنی تصنیفات و تالیفات زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہیں شاید ہی کسی ایک تخلیق کار کی اتنی کتابیں سامنے آئی ہوں۔ اگر میں آپ کو جانتا نہ ہوتا تو کہتا کہ ضرور آپ نے ایک دو درجن جنات قابو کر رکھے ہیں جو آپ کے لیے یہ خدمات انجام دیتے ہیں (مسکان) ۔

ڈاکٹر صاحب

آپ کا زیر نظر خط تو، میرے نزدیک، ایک ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جس میں آپ نے نہ صرف یہ کہ عارف صاحب کے فکر و فن کے ارتقائی سفر کو سہل انداز میں بیان کیا ہے بلکہ ان کی ذاتی زندگی اور شخصی خصائص و مشکلات کو بھی عیاں کیا ہے۔ شخصیت و فن کا ایسا موثر تجزیہ آپ جیسے مستند معالج اور نفسیات دان کے علاوہ اور کون کر سکتا تھا۔

اپنے موقف کو واضح کرنے کے لیے آپ نے حسب حال شعری حوالے بھی دیے ہیں جو آپ کے خط کی ادبی وقعت کو دوچند کر رہے ہیں۔

آپ کے خط سے اس حقیقت کی بھی توثیق ہوئی کہ بحران بھی اپنے بطن میں انسان کے لیے ترقی کے مواقع چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس خط سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے عارف صاحب کی نفسیاتی الجھنوں اور جسمانی کمزوری نے ان کی زندگی کے روحانی پہلو کو تقویت بخشی جس کے نتیجے میں دنیائے سخن کو ”بے مثال نعتیں نصیب ہوئیں۔

جیسا کہ آپ نے ذکر کیا عارف صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ ادب کی متنوع اصناف میں اظہار پر قدرت رکھتے تھے۔ ان کے روشن قلم سے نقد و نظر کے مضامین بھی دمکے اور نظم و غزل کے چاند تارے بھی۔ اور ہر بڑے تخلیق کار کی طرح ان کے فکر و اظہار بھی ارتقائی مراحل سے گزرے۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں میرے اردو کے استاد ماہر اقبالیات پروفیسر مرزا محمد منور اسی فکری ارتقا کی بنیاد پر اقبال کو غالب پر فوقیت دیتے تھے۔ اس اعتراف کے ساتھ کہ غالب غزل کا بہت بڑا شاعر ہے وہ کہتے تھے کہ اس کے ہاں فکری اور نظریاتی ارتقا کا فقدان ہے جو اقبال کے ہاں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ کس طرح تنگ نائے غزل کو عبور کرتا ہوا اس کا فن نظم کی وسعتوں سے آشنا ہوا اور موضوعی ترفع حاصل کر کے وہ ایک قومی شاعر کی مسند پر متمکن ہوا۔

عارف صاحب کی شخصیت اور فن بھی، ہم دیکھتے ہیں، کہ وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی راہیں اختیار کرتے رہے ہیں۔ ان کی سوچ میں تبدیلی نے ان کے طرز اظہار میں ضرور تبدیلی متعارف کروائی اور موضوعات کا دامن بھی وسیع تر کر دیا مگر ان کے شخصی مزاج کی اساس یا بنیاد کو اس کی جگہ سے نہیں ہلا سکا۔ وہ ابتدا ہی سے محبت، انصاف، امن اور آزادی کے تصورات کو اپنے آدرش بنائے ہوئے تھے اور ان پر وہ آخری دم تک قائم رہے۔ جیسا کہ آپ نے اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے ظلم اور استحصال کے حق میں کبھی بات نہیں کی اور یہ کہ ان کا اسلام بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والا اور محبت کا پیغام دینے والا صوفیا کا اسلام تھا۔

آپ کی یہ بات درست ہے کہ اتفاق سے جس دور میں ان کے طبعی میلان اور شخصی رجحان میں تبدیلی واقع ہوئی وہ پاکستان میں مجموعی طور پر ایک ایسی تبدیلی کا دور تھا جس میں زندگی کا رخ ایک خاص سمت کرنے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ عارف صاحب کا علاقہ کرشن نگر ہی اسلام پورہ نہیں ہوا تھا کئی دیگر مقامات کے ناموں کو بھی ’مشرف بہ اسلام‘ کر دیا گیا تھا۔ سنت نگر کو سنت نگر اور جانے کیا کیا۔ پھر خبریں آئیں کی کہ بھارت میں بھی ایسے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے اور مقامات کے مسلم ناموں کو ہندو ناموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ شاید اسی تاثر کے تحت پھر یہ سلسلہ بند کر دیا گیا۔

ڈاکٹر خالد سہیل صاحب

اس عہد کی بات چلی ہے تو برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض کردوں کہ بدقسمتی سے ہمارا سارا تعلیمی دور میٹرک کے بعد سے یونیورسٹی تک غیر جمہوری عہد میں گزرا۔ جس میں افراد کے ظاہر و باطن کے درمیان مسلسل ایک چپقلش چلتی محسوس کی جا سکتی تھی۔ آپ ایک ماہر نفسیات ہیں اور فرد اور قوم یعنی انفرادی اور اجتماعی مسائل اور تضادات اور ان کے اثرات کا خوب ادراک رکھتے ہیں۔

مثال کے طور پر بچپن میں ہم دیکھتے تھے کہ رمضان کے مہینے میں ریستوران تو کھلے رہتے تھے تاہم ان کے دروازوں یا کھڑکیوں پر احتراماً پردے ڈال کر رکھے جاتے تھے۔ بعد میں اس ماہ کے دوران دن کے وقت ریستوران مکمل طور پر بند کردینے کا حکم نامہ آ گیا۔ بے روزہ افراد کو کھانے کے لیے ریلوے سٹیشن یا ہسپتال کی کینٹین میں جانا پڑتا جہاں پولیس اہل کار وقتاً فوقتاً چھاپے مارتے تھے اور ”روزہ خور افراد کو گرفتار کرلیتے تھے۔ یوں رشوت ستانی کا ایک عجیب و غریب نیا باب آغاز ہو گیا۔ اور پھر حدود آرڈیننس اور شرعی عدالتیں، نام نہاد سود سے پاک بنکاری جیسے اقدامات بھی ہوئے۔

یونیورسٹی کی سطح پر تنگ نظری کا اور ماحول میں جبریت کا یہ عالم تھا کہ ہم نے سوشیالوجی پڑھنے کے لیے ایک سٹڈی گروپ بنایا جس میں طالبات شامل تھیں تو شعبہ کے اساتذہ اور سٹوڈنٹ یونین کے نمائندے نے اس کی مخالفت کی۔ حالانکہ ہم سیمینار لائبریری میں جمع ہوتے تھے اور محض پڑھنے کے لیے۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں میں نے اپنے کلاس فیلوز کے پاس چھوٹی چھوٹی نوٹ بکس دیکھیں جن میں وہ اپنی دن پھر کی نمازوں کا ”حساب کتاب“ درج کرتے تھے اور شام کو ہوسٹل کے ’ناظم‘ جو دائیں بازو کی طلبہ تنظیم سے تھے کمروں میں جاکر ان کی نوٹ بکس کو چیک کرتے تھے کہ کتنی نمازیں پڑھی ہیں۔

لطیفہ یہ کہ میں ایک ہم جماعت کے ساتھ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھا گپ شپ کر رہا تھا۔ اچانک دستک ہوئی اور میرا ہم جماعت ہڑبڑا کر اٹھا جیسے کچھ بھول گیا ہو اور نوٹ بک میں نمازیں درج کرنے لگا۔ پھر دروازہ کھولا اور ’ناظم صاحب کو اپنا حساب کتاب دکھا نے لگا۔ واپس آیا تو میں نے کہا کہ ہم نے تو سنا تھا کہ نماز کی باز پرس روز محشر ہوگی۔ کیا قیامت آ چکی اور اس حساب کتاب کے کام پر کس کو مامور کر دیا؟ میرے ہم جماعت نے مجھے خاموش رہنے کا اور جان بچانے کا مشورہ دیا۔

ڈاکٹر صاحب

مجھے یاد ہے اسی کی دہائی کے اوائل میں جب پاکستان میں اسلامائزیشن کا عمل زوروں پر تھا پاکستان سوشیالوجیکل ایسوسی ایشن کی سالانہ قومی کانفرنس پشاور یونیورسٹی میں منعقد ہوئی تھی۔ اس سہ روزہ کانفرنس میں ملک بھر سے سوشیالوجی کے اساتذہ اور طلبا و طالبات شریک تھیں۔ کانفرنس میں ایک سیشن کا عنوان تھا سوشل چینج یعنی سماجی تبدیلی۔ میں نے اس میں انگریزی زبان میں اپنا اولین مقالہ پیش کیا تھا جس عنوان تھا ”اسلامائزیشن اینڈ سوشل چینج ان پاکستان“ ۔

میں اس قومی کانفرنس میں مقالہ پیش کرنے والا واحد طالب علم تھا۔ باقی مقالے اساتذہ اور ماہرین نے پیش کیے تھے۔ بہرحال میں نے اپنے مختصر مقالے میں ملک میں مختلف سماجی اداروں کو سیاسی مقاصد کے لیے ’اسلامیانے‘ کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ سیشن کے اختتام پر یونیورسٹی کے ایک سینئر پروفیسر صاحب میرے پاس آئے اور مجھے خبردار کیا کہ مجھے ایسے مضامین لکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ایک طالب علم کے لیے سرکاری ملازمت کا حصول بھی مشکل ہو سکتا ہے اور دیگر سخت نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔ اس بات کا اعادہ بعد ازاں کئی اور پڑھے لکھے لوگوں نے بھی کیا۔

تو کچھ ایسا ماحول تھا جس میں مجھ سمیت میری عمر کے سبھی افراد کا لڑکپن اور جوانی، اگر کبھی آئی تھی! ) مسکراہٹ ( گزری۔ ڈرتے ڈرتے، سہمے سہمے۔ میرے کالج کے دوست آغا نوید کو، جو بہت عمدہ تخلیق کار تھا، پیپلز پارٹی

سے تعلق کی بنا پر شاہی قلعے کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا۔ صحافیوں کو آواز بلند کرنے پر کوڑے مارے گئے۔ بہت کچھ ہوا۔

خیر، عرض یہ کرنا مقصود تھا کہ اس دور میں سیاسی تبدیلیاں بھی آئیں اور سماجی بھی۔ فکری رجحانات بھی تبدیل ہوئے اور سوچ کے زاوئیے بھی بدلے۔ ایسے میں عارف صاحب جیسے کتنے لکھاری ہوں گے جو اسلام کی طرف تو آئے مگر شدت پسندی کے داؤ میں کبھی نہیں آئے؟ وہ اپنے قلم کو حق کی آواز بنائے رہے۔ یہ ان کے کردار کی مضبوطی کی گواہی ہے۔

جیسا کہ آپ کے خط میں مذکور ہے عارف صاحب سائنس، مذہب اور آرٹ کو متصادم تصورات نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک یہ تینوں ’سچ‘ ہی سے متعلق ہیں۔ بس ان کے دیکھنے اور پرکھنے کے انداز جدا ہیں۔

خط کے آخر میں آپ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا میں عارف عبدالمتین صاحب کی شخصیت و فن پر مجوزہ کتاب پر آپ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہوں گا تو عرض ہے کہ میں بخوشی آپ کا ساتھ دینا اور اپنے اس عظیم مہربان استاد فن سے اپنے تعلق خاطر کا ثبوت فراہم کرنا چاہوں گا۔

ہم کسی وقت مل بیٹھتے ہیں اور اس کتاب کے ابواب اور مندرجات کے بارے میں طے کر لیتے ہیں۔
اس رابطے پر دلی خوشی ہے۔
سدا خوش رہیں اور یونہی توانا ادب تخلیق کرتے رہیں۔
نیک تمناؤں کے ساتھ
آپ کا دوست
حامد یزدانی
دسمبر 22 سن 2022
…………………..

نوٹ: جیسا کہ ان خطوط میں ذکر ہوا۔ ڈاکٹر خالد سہیل اور میں پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کے فن و شخصیت پر ایک کتاب مرتب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو 2023 میں عارف صاحب کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر شائع کی جائے گی۔ اگر کوئی دوست ان کے حوالہ سے کوئی تحریر یا کوئی تصویر کتاب میں شامل کرنے کے لیے بھیجنا چاہے وہ درج ذیل پتہ پر ای میل کر سکتا ہے ::

welcome@drsohail.com


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments