ریپ دوست خاندان اور محرم نما درندے


نادو نے اسکول جانا تھا تو کپڑے تبدیل کرنے کے لئے گھر کے غسل خانے کی راہ لی۔ اسکول کی وردی بھی اس نے خود ہی استری کی تھی۔ لباس تبدیل کرتے وقت اس نے اپنی پہنی ہوئی شلوار دیکھی تو حیران ہو کر رہ گئی۔ کچھ دیر غور کرنے کے بعد اس نے اسکول کے لئے دیر ہو جانے کے خوف سے اپنی حیرت کو پس پشت ڈال دیا۔ نادو چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی اور عمر میں دس برس کی تھی۔ اسکول جانے کا اس کو بہت شوق تھا اور بڑی ہو کر کامیاب ڈاکٹر بننے کی خواہش مند تھی۔ اس کے چہرے پر بچپن کی معصومیت کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔ دودھ سی پاکیزگی اور گندم سی چمک اس کے چہرے کا مسکن تھا۔ ہاں اس کو بال رکھنے کا ڈھنگ نہ تھا۔ یہ لمبی لمبی بالوں کی نوکیں نکلی ہوتی، اتنا نہ تھا کہ ان کو ترشوا لے، بس اس ڈر سے کہ اس کے لمبے سیاہ بال کہیں چھوٹے نہ ہو جائیں۔

اس روز اسکول میں بارہا یہ خیال آتا رہا کہ اس کے پسندیدہ نیلے جوڑے کی شلوار آسن سے کیسے پھٹ سکتی تھی۔ وہ پھٹی یا ادھڑی بھی نہ تھی، اس کو زور دے کر جیسے چاک کیا گیا تھا۔ چھٹی جماعت میں بھی اس کی منطق اس بات کو ماننے پر تیار نہ تھی کہ رات سوئے ہوئے اس کی شلوار ٹانگوں کے عین وسط میں کیسے ادھڑ سکتی تھی۔

”کیا پتا میں نے خارش کی ہو مگر میرا جوڑا تو بالکل نیا ہے، وہ اتنی آسانی سے کیسے ادھڑ سکتا ہے؟“ نادو نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا۔

اسکول میں کچھ کچھ وقت کے لئے پریشان رہ کر وہ بات کو بھول جاتی اور اسکول کی مصروفیات میں مگن ہو جاتی۔ اس سب کے باوجود اس کے دل کو دھچکا سا لگا رہا، وہ مضطرب تھی۔ اپنی بے چینی کسی پر عیاں نہ ہونے دی اور چھٹی کے بعد فوراً گھر آ گئی۔ اس کو فرج اور مقام نہانی کے اطراف جلن اور درد تو محسوس ہو رہا تھا مگر اس نے برداشت کرنے کو ترجیح دی۔ وہ خود کو بہت بہادر سمجھتی تھی۔ درد سہنا تو اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

گھر آئی تو مہمان جا چکے تھے جس کا اس کو انتظار تھا۔ مہمانوں کی موجودگی کی وجہ سے ہی اس کو اسکول کی وردی غسل خانے میں بدلنا پڑی تھی۔ نادو وردی بدلنے کے لئے غسل خانے میں گئی تو کیا دیکھتی ہے اس کے کپڑے موجود نہیں۔ اس نے اندر سے دوسرا جوڑا نکال کر پہن لیا۔

کھانا کھا کر وہ بیٹھی ہی تھی کہ اس کو اس کی ماں نے گھیر لیا۔ اس کی ماں نے غصے اور تحکمانا انداز میں اس کو برآمدے میں بیٹھنے کو کہا۔ اس کا دل دہل گیا۔ وہ درمیان میں بیٹھی تھی مگر ایسے معلوم ہوا کہ وہ کٹہرے میں کھڑی ہے۔ خوف اور دہشت سے اس کا دل کانپ رہا تھا۔

”میں تم سے ایک بات پوچھنے لگی ہوں، مجھے اس کا سچ سچ جواب دینا۔“
ڈرتے ڈرتے اس کے منہ سے صرف جی امی کے الفاظ ہی نکل سکے۔

”مجھے آج غسل خانے سے تمھارا کل کا پہنا ہوا لباس ملا ہے۔ تمہاری شلوار کی آسن ایسے پھٹی ہوئی ہے جیسے کسی نے بہت زور دے کر انگلیوں سے ادھیڑا ہو۔ انگلیوں سے ادھیڑنے کے گول گول نشان واضح ہیں۔ یہ شلوار پھٹی نہیں ہے، انگلیوں سے ادھیڑی گئی ہے۔ مجھے سچ سچ بتاؤ، کیا ہوا ہے“ ۔

”امی مجھے کچھ نہیں معلوم کیا ہوا اور کیسے شلوار پھٹی ہے۔ میں رات کو جلدی دس بجے ہی سو گئی تھی۔ میں نے صبح دیکھا تو میں خود حیران بھی تھی۔ میں آپ سے جھوٹ نہیں بول رہی“ ۔ نادو نے دہشت زدہ ہو کر اپنا سچ کہہ دیا۔

”میں تمہاری جان نکال دوں گی۔ اس گھر میں یہ بے حیائی نہیں چلے گی۔“
”امی میں نے کون سی بے حیائی کی ہے؟ مجھے پتا بھی نہیں ہے کہ آپ کیا بات کر رہی ہیں؟“
نادو، کم عمری میں اس گناہ کی قصوروار ٹھہرائی گئی جس کا اس کو علم تک نہ تھا کہ ہوتا کیا ہے۔

ہمارے معاشرے اور اس کی مذہبی و جغرافیائی ثقافت میں جنسی تشدد کو روایتی اور تاریخی اعتبار سے تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ یہ آج سے صرف سولہ برس پہلے کی ہی بات ہے کہ پاکستان کے قانون میں جنسی تشدد کے عورت دشمن اور ریپ دوست زنا آرڈیننس کے قوانین تبدیل کیے گئے۔ نادو جو عمر میں دس برس کی کم سن بچی تھی مگر ایک مرد کے جرم اور گناہ میں صرف اس لئے برابر کی شریک ٹھہرائی گئی کہ ریپ یا جنسی تشدد کی مذہبی حقیقت موجود تھی نہ ہی ثقافتی، بس جو حقیقت تشکیل دی گئی وہ زنا تھی۔

چاہے ایک کم عمر بچی کے ساتھ بلد کار ہو یا ایک بالغ عورت کے ساتھ۔ مرد کی طاقت اور ہوس کے جرم کو عورت/کم سن لڑکی کا برابر کا گناہ بنا دیا جاتا ہے۔ نادو کی ماں جو خود ایک کم سن دلہن تھی، اس کو کسی نے کبھی ریپ اور جنسی تشدد کا نہیں بتایا تھا۔ بس جو چیز مدرسوں، اسکولوں اور معاشرے میں عام بتائی گئی تھی وہ صرف زنا تھا۔ ایسا نہیں کہ جنسی تشدد کبھی ہوا نہیں تھا، منبر اور منصب پر بیٹھے آدمیوں نے اپنی طاقت اور ہوس کے تحفظ کے لئے زنا ہی کو عام کر رکھا تھا۔ یہ بات عام فہم کا حصہ ہی نہ تھی کہ گھر اور خاندان میں بچوں یا عورت کے ساتھ محرم رشتہ بھی جبر کر سکتا ہے۔ کچھ رشتوں کے خلوص کا جھوٹ پلایا گیا باقی عورتوں پر ظلم کرنے کی کھلی چھٹی ویسے ہی موجود تھی۔

یہ واحد مقام ہے جہاں قدامت پرست تشدد دوست معاشرے مرد کے مکمل گناہ کو آدھا کرنے کے لئے عورت کو برابر ٹھہراتے ہیں۔

نادو کے ماں باپ کی سوچ کی ترپائی اسی بدکار حدود اور زنا آرڈیننس نے کی تھی۔ اس کی سوچ کو پانی وہی عورت دشمن اور ریپ دوست سوچ دیتی آئی ہے جس میں ریپ اور جنسی تشدد جرم نہیں، متاثرین کا گناہ کہلواتا ہے، صرف اس لئے کہ اس میں جنسی اعضاء کا استعمال (توہین) ہوتی ہے۔

دو برس گزرتے ہیں تو نادو اپنی نانی کے یہاں عید گزارنے جاتی ہے۔ رات وہ سوئی تو خالہ کے ہمراہ تھی مگر اس کی آنکھ اس کے ریپ کار کے ساتھ اسی کے بستر میں کھلتی ہے۔ بارہ سالہ کم سن نادو کی دنیا ہل گئی تھی۔ اس کی آنکھ اس کے سر پر پڑے زور دار تھپڑ سے ہی کھلی۔ اس کی انکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تھپڑ کی شدت سے اس کے کان سن ہو گئے تھے۔ اس کی ماں نے اس کو اپنے بھائی کے بستر سے گھسیٹ کر باہر کیا۔ تھپڑ کی شدت سے اس کا بدن آگ کی مانند جل رہا تھا کہ اس کو سرد موسم کی شدت کا احساس تک نہ ہوا۔

گاڑی میں اس کو اپنی ماں کی ایک ہی بات سنائی دے رہی تھی۔ ”تم اس کے ساتھ جو کر رہی تھی، میں نے دیکھا تھا۔ تم بدکاری کرتی ہو، میں تمہاری جان لینے جا رہی ہوں“ ۔

کم سن نادو غم و غصے سے سرشار تھی۔ اس کو سرد موسم کے بادل کھا رہے تھے۔ گاڑیوں اور رکشوں کا شور اس کی نسوں کی پامالی کرتا رہا۔ ٹریفک کا دھواں اس کے جہنم کی طرح تپتے سر کو متواتر گھائل کرتا رہا۔ وہ کم سن تھی مگر اس کو سچائی اور جھوٹ، بھلائی اور برائی، معصومیت اور گناہ میں فرق معلوم تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں کا بھائی اس کی ہر چند سال بعد جبر جنسی کرتا تھا۔ اس کی ماں کو معلوم تھا کہ اس کا بھائی مجرم ہے مگر وہ پھر بھی اپنی کم عمر بیٹی پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیوں کرتی تھی؟

کم سن نادو زبانی کلامی احتجاج تو نہ کر سکی مگر رات گئے اس نے پنکھے سے لٹک کر اپنی جان لے لی۔ اپنی نوزائیدہ لکھائی میں ایک رقعہ میں خود کے ساتھ ہونے والے جرائم کا احوال بھی بیان کر دیا۔

اس سماج، تاریخ، روایات، ثقافت نے معذور ماں باپ اور نگہبان تخلیق کیے ہیں، جو اولاد بالخصوص بیٹیوں کی تکلیف سے مبرا ہیں۔ ان کو مری بیٹی تو پسند ہے، مگر سچ بتانے والی بیٹی پسند نہیں۔ بیٹیوں کو اجنبیوں سے چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کرنے کی دوڑ میں گھر کی چادر اور چار دیواری میں پنپنتے عورت کے گوشت کے بھوکے محرم نما درندوں کے پنجروں میں ہی پھینک دیتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ جانتے نہیں، بس آنکھیں بند کرتے ہیں۔

بیٹیوں کی موت سے پہلے ان کے ساتھ کھڑے ہو جایا کریں۔ اپنے پیاروں کی بات پر یقین کیا کریں۔ جب عورتیں اور بچے اپنے ساتھ ہونے پر مظالم کو بیان کریں تو ان کی بات پر یقین کیا کریں۔ ان کی ذات، ایمان، اور نیت پر شک نہ کیا کریں۔ اس دنیا میں لاکھوں عورتیں اور بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ لاکھوں ہی جان سے جاتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔ عورت پر شک کرنا اور گناہگار مرد کے حق میں سلواتیں کہنا آپ کو بھی برابر کا جنسی تشدد اور ریپ کا شریک بناتا ہے۔ آپ لاکھوں عورتوں اور بچوں پر جنسی تشدد کے بعد بھی گناہ کار طبقے کے حامی ہیں تو خدا کرے آپ میں اور ہم میں جنگ ہو، جس میں آپ عبرت کا نشان بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments