یکم جنوری کا کالم



عیسوی سال نو کا آغاز ہر جگہ مختلف وقت میں ہوتا ہے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں سب سے پہلے نئے سال کا استقبال ہوا، اس سال بھی وہاں آتش بازی کا بڑا مظاہرہ کیا گیا۔ دنیا میں نیووے اور امریکی علاقہ سمووا وہ آخری آباد مقامات ہیں جہاں سال نو کا آغاز سب سے آخر میں ہوتا ہے، یہ کیری باتی کے جنوب مغرب میں جنوبی بحرالکاہل میں واقع ہیں۔

سال نو کی آمد پر جشن کا ماحول ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں لوگ اس موقعے کو اپنے اپنے انداز سے مناتے ہیں، مہینوں کی کمائی لمحوں میں اڑائی جاتی ہے۔ رقص و سرود کی محفلیں سجتی ہیں، جہاں شراب شباب کباب جمع کیے جاتے ہیں۔ مبارکباد کے پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے، کہیں دید کے متلاشی من کی مراد پاتے ہیں، تو کہیں ایس ایم ایس اور ویڈیوز سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے، بہر حال ہر کوئی اپنے اپنے انداز سے نئے سال کو خوش آمدید کہتا ہے۔ شراب کی بوتلیں اٹھائے، چرس کے سگریٹ سلگائے رقص کی مستی میں ہاتھ اٹھائے من چلے جھومتے گاتے نظر آتے ہیں۔ کسی کو یہ احساس نہیں کہ نئے سال کا آغاز انہیں یہ خبر دے رہا ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا ایک سال کم ہوا ہے اور ان کے قدم قبر کے مزید نزدیک ہو گئے۔

ایک پتا شجر عمر سے لو اور گرا
لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں

آنکھوں پر عیش و مستی کی بندھی ہوئی پٹی کچھ اور دیکھنے ہی نہیں دیتی۔ عیش و نشاط کی محفلوں سے نئے سال کا آغاز کرنے والے یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ

غافل تجھے گھڑیال دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی

عیش و عشرت کا کھیل کھیلنے والوں کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ دنیا کی فانی زندگی گنتی کے چند سالوں پر محیط ہے جس میں ہم لامحدود خواہشات اور آرزوؤں کے جال میں ایسے جکڑے جاتے ہیں کہ وقت مرگ ہی ہوش آتا ہے کہ:

عمر دراز مانگ کر لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
(بہادر شاہ ظفر)

ہمارا آنے والا سال ہمیں ابدی منزل کے قریب لے جا رہا ہے جہاں ہر چیز کا حساب لیا جائے گا۔ کتاب عمر کے ورق الٹ جائیں گے تو کیا جشن سال نو کی محفلوں کے تذکرے ہمیں بچا پائیں گے؟

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
(فیض لدھیانوی)

بب ہمارے یہاں وقت کی قدر و قیمت اتنی ہی ہے کہ اسے کسی طرح ہنسی مذاق اور کھیل کود میں صرف کر دیا جائے۔ جب کہ وقت ایک ایسی قیمتی نعمت ہے جو ایک مرتبہ گزر جائے تو اسے واپس لانا ممکن ہی نہیں۔

عروج یاگزرا ہوا زمانہ کبھی پلٹ کر نہیں آتا، اس کی مثال جوانی کی سی ہے جب ایک بار چلی جاتی ہے تو کوئی اسے واپس نہیں لا سکتا۔

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

سب کچھ ہوا کا ایک جھونکا ہوتا ہے جو آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے اور پیچھے صرف یادیں رہ جاتی ہیں، وقت انتہائی ظالم ہے جو انسان سے وہ سب کچھ منوا لیتا ہے جو وہ نہیں مانتا، یا نہیں ماننا چاہتا۔

وہ ترے حسن کا جادو ہو کہ میرا غم دل
ہر مسافر کو کسی گھاٹ اتر جانا ہے
گزرے ہوئے ایام تو ہمیں غفلت کے بجائے اپنی غلطیوں کی اصلاح کا موقعہ فراہم کرتے ہیں،

آنے والے نئے سال پر خوشیاں منانے والے یہ بھی سوچ لیں کہ اس دنیا کے عارضی قیام کی مدت میں سے لگ بھگ تین سو پینسٹھ دن کم ہو گئے اور وہ دائمی زندگی کے قریب ہو گئے۔

احسان دانش کے بقول مادی زندگی کا فلسفہ یہ ہے۔
حاصل زندگی حسرت کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ کیا نہیں، وہ ہوا نہیں، یہ ملا نہیں وہ رہا نہیں

جن بیہودہ حرکات و سکنات پر کبھی مسلمان اہل مغرب کو شرم و عار دلاتے تھے اب وہ خود اس بے حیائی کی دوڑ میں زیادہ سے زیادہ آگے بڑھنے کو مضطرب ہیں، اسراف سے بچنے کی فکر ہے، اور نہ ضیاع وقت پر شرمندگی۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ

” میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوتا جتنا ایک ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہو گیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔“

حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ:

”اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزر گیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزر گیا۔“ حضرت علی فرماتے ہیں کہ

”ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔“

مسلمانوں کی غفلت و بے پرواہی اور مغرب کی اندھا دھند تقلید کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ وہی زمانہ تو نہیں جس کی خبر مخبر صادق ﷺ نے دی تھی :

” تم اپنے سے پہلے والوں کے طریقوں کی بالشت دربالشت پیروی کرو گے، یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے بل میں داخل ہوئے، تو تم بھی اس میں داخل ہو گے“ ۔

”اگر ان لوگوں میں سے کسی نے راستے میں عورت سے شہوت پوری کی یا اپنی ماں سے بدکاری کی تو تم بھی کرو گے“ ۔

اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
”جو قوم کسی کی مشابہت اختیار کرے گی تو اس کا شمار بھی انہی میں ہو گا“
آپ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے :
”آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے“ ۔

کاش دسمبر کے آخری دنوں میں اپنے بیتے ہوئے برس کا احتساب بھی کرلیتے کہ خالق جہاں نے ہمیں اس سال کن کن نعمتوں سے نوازا؟ اور ہم کہاں کہاں اس کی حکم عدولی کے مرتکب ہوئے؟ بہر حال اب بھی ہمارے پاس حیات مستعار کے جو لمحات باقی ہیں ان میں اپنا چلن بدل سکتے ہیں۔ ہم عزم کریں کہ اب کی بار سال نو میں نیکی، بھلائی اور فلاح کے کام کریں گے، نفرتوں کو مٹا کر محبتوں کو عام کریں گے۔ مادیت پر مبنی مغربی طرز زندگی کے بجائے ایک بامقصد زندگی گزارنے والے انسان بنیں گے اور سال گزشتہ کی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے سبق حاصل کریں گے۔

نئے سال میں پچھلی نفرت بھلا دیں
چلو اپنی دنیا کو جنت بنا دیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments