پہلا مارشل لاء کیوں لگا؟ کس نے لگایا؟


پاکستان میں مارشل لاء لگا، پھر لگا اور پھر لگتا ہی رہا۔ غیر سیاسی اداروں نے سیاست میں مداخلت شروع کی اور پھر یہ مداخلت ہوتی ہی رہی اور آج کل یہ موضوع ایک خطرناک تنازع میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کیا یہ اتفاق تھا کہ یہ طویل سلسلہ شروع ہوا؟ کیا اس کی علامات پہلے سے ظاہر ہونی شروع ہو گئی تھیں؟ یا یہ کہ اچانک ایک روز پورے ملک کو علم ہوا کہ ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہو چکا ہے۔ کیا ملک کے سیاستدانوں نے، عدالتوں نے، اخبارات نے اور دانشوروں نے اور عوام نے واضح علامات کو نظر انداز کیا؟ جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

ہم اس کالم میں اس بحث کے چند پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔ سب سے پہلے یہ ذکر کرنا ضروری ہے وطن عزیز میں پہلا مارشل لاء 1958 میں نہیں بلکہ 1953 میں لگا تھا۔ یہ مارشل لاء لاہور میں لگایا گیا تھا۔ چونکہ اس کی عملداری محدود تھی اور پھر یہ مارشل لاء ختم کر دیا گیا تھا، اور کم از کم وقتی طور پر مرکزی حکومت قائم رہی تھی، اس لئے عمومی طور پر مارشل لا کی تاریخ میں اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اسی مارشل لاء میں مستقبل کے المیوں کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جن فسادات کے بعد لاہور میں مارشل لاء لگایا گیا، یہ فسادات احمدیوں کے خلاف شروع ہوئے تھے اور اس تحریک کو چلانے والوں کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ وزیر خارجہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو جو کہ عقیدہ کے اعتبار سے احمدی تھے برطرف کیا جائے۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق ان فسادات کو شروع کرانے میں اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں ممتاز دولتانہ صاحب کا کافی ہاتھ تھا۔ انہوں نے سرکاری وسائل کو استعمال کر کے اس تحریک کی پشت پناہی کی اور مرکزی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے اس تحریک کو مضبوط ہونے دیا۔

اس کے متعلق تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ شائع ہوئی تھی۔ لیکن جب ہم ان گواہیوں کا جائزہ لیتے ہیں کہ جو کہ اس عدالت کے روبرو دی گئیں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس رپورٹ میں بہت سے اہم پہلوؤں کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ اگر وقت پر ان پہلوؤں پر تحقیقات ہو جاتیں اور مناسب اقدامات اٹھائے جاتے تو پاکستان بہت سے المیوں سے بچ سکتا تھا۔ اس کالم میں ہم ان میں سے دو اہم ترین گواہیوں کا ذکر کریں گے۔ پہلی گواہی اس وقت لاہور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اعظم خان صاحب کی ہے اور دوسری گواہی اس وقت ملک کے وزیر اعظم جناب خواجہ ناظم الدین صاحب کی ہے۔

میجر جنرل اعظم خان صاحب گواہ نمبر 130 کے طور پر پیش ہوئے۔ یہ مارشل لاء 6 مارچ 1953 کو لگایا گیا تھا اور جنرل اعظم خان صاحب کے مطابق پہلی مرتبہ انہیں 2 مارچ کو ایک میٹنگ میں بتایا گیا کہ حالات قابو کرنے کے لئے سول انتظامیہ کی مدد کے لئے فوج کو لاہور بھجوانا پڑے گا۔ فوج کی دو بٹالین کے ہمراہ ایک مجسٹریٹ نے رہنا تھا جس کی ہدایت پر فوج نے کام کرنا تھا۔ چنانچہ اس طریق پر 3 اور 4 مارچ کو فوجی دستے لاہور میں موجود رہے۔

اور حالات تیزی سے بہتر ہو گئے۔ فوج کو گولی چلانے کی کوئی ضرورت نہیں پڑی۔ جنرل صاحب کے مطابق کسی ایک مقام پر جج کو فوج کو یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں پڑی کہ مجمع کو منتشر کیا جائے کیونکہ فوجی دستوں کو دیکھ کر خود بخود ہی جلوس منتشر ہو جاتے تھے۔ یہ تحریک کئی ماہ سے چل رہی تھی۔ لیکن صرف ایک روز حالات ٹھیک ہونے کے بعد ڈی سی، ایس ایس پی اور فوجی افسران نے یہ مشورہ کیا کہ اب حالات ٹھیک ہو گئے ہیں اس لئے شہر میں فوج کی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔ اور 3 اور 4 مارچ کو فوج شہر میں نظر آنی کم ہو گئی۔ اور بہت سے فوجیوں کو کنٹونمنٹ بھجوا دیا گیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ 4 مارچ کی شام کو بلوائی ڈی ایس پی صاحب کو اغوا کر کے اپنے مرکز مسجد وزیر خان لے گئے اور انہیں شہید کر دیا۔ میجر جنرل اعظم خان صاحب نے عدالت میں بیان دیا کہ اگر انہیں اس وقت یہ کہا جاتا کہ بغیر مارشل لاء لگائے شہر کے فسادات کو ختم کر دیں تو آسانی سے ایسا کرنا ممکن تھا اور پولیس اعلیٰ درجہ کی صلاحیتیں رکھتی تھی اگر ان کی مناسب قیادت کی جاتی تو وہ آسانی سے حالات پر قابو پا سکتے تھے۔

لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور 5 مارچ کو بھی صرف مشورے ہی ہوتے رہے اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ اب فوجی دستے بغیر پولیس کے طلب کرنے پر اپنے کمانڈر کے تحت کام کریں گے۔ اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر لاہور میں حالات اتنے بے قابو ہو چکے تھے کہ وزیر اعلیٰ دولتانہ صاحب نے وزیر اعظم صاحب کو فون کیا کہ اگر فوری طور پر مطالبات نہ تسلیم کیے گئے تو لاہور راکھ کا ڈھیر بن جائے گا۔ اور جنرل اعظم خان صاحب کا بھی یہی خیال تھا کہ اگر اس وقت فوج نظم و نسق نہ سنبھالتی تو لاہور تباہ ہو جاتا۔ اور ان کے مطابق اس آپریشن میں گیارہ افراد مارے گئے۔ اور چند گھنٹوں میں حالات پر قابو پا لیا گیا۔

یہ واضح ہے کہ جو لاہور کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا، خود اس کی گواہی یہ تھی کہ صرف ایک دو روز پہلے بھی اگر مناسب کارروائی کی جاتی تو آسانی سے حالات پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ اور مارشل لاء یا گولی چلانے کی کوئی ضرورت نہ پڑتی۔ ان فسادات پر بننے والی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا

”ہمیں یقین واثق ہے اگر احرار کے مسئلے کو سیاسی مصالح سے الگ ہو کر محض قانون و انتظام کا مسئلہ قرار دیا جاتا تو صرف ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اور سپریٹنڈنٹ پولیس ان کے تدارک کے لئے کافی تھے۔“

اس پس منظر میں لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حالات پر قابو پانا اتنا ہی آسان تھا تو ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔ اور یہاں تک نوبت کیوں پہنچی کہ دیکھتے دیکھتے حالات بے قابو ہو گئے اور ملک کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگا دیا گیا۔ جس طرح آج بھی ہماری آنکھوں کے سامنے دہشت گرد گروہ ایک بار پھر ملک میں سرگرم ہو رہے ہیں اور آج بھی ہمیں ان پر قابو پانے کی خاطر خواہ کوششیں نظر نہیں آ رہیں۔ اگلے کالم میں ہم اسی مارشل لاء کے بارے میں ایک اور اہم سوال کا جائزہ لیں گے۔ اور وہ یہ کہ یہ مارشل لاء کس کے حکم پر لگایا گیا تھا؟ اور کیا تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں اس سوال کا جائزہ لیا گیا تھا کہ مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کس کا تھا؟

سنہ 1953 کا مارشل لاء کس نے لگایا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments