سپاہی کو کیا سمجھا رہے ہیں؟ 


مزنگ روڈ پر برٹش کونسل سے گزرتے ہوئے وہ واقعہ آج بھی یاد آتا ہے جب ایک مرتبہ اِس عمارت کے باہر گاڑی پارک کرتے ہوئے مَیں نے ایک پولیس اہلکار سے مشورہ کیا تھا۔ اْس روز یہاں لاہور کے چیدہ چیدہ صحافی سمندر پار ترقیات کے برطانوی وزیر سے ملاقات کرنے والے تھے۔ ”وہ سامنے آپ بجلی کا کھمبا دیکھ رہے ہیں نا، بس اِس سے آگے کار کھڑی کر دیں“۔ مَیں نے ہدایت پر عمل کیا۔ اب تقریب ختم ہوئی تو گاڑی غائب۔ مذکورہ اہلکار کی جگہ ایک انسپکٹر صاحب دکھائی دیئے۔ پوچھا تو بے اعتنائی سے کہنے لگے: ”آمدورفت میں رکاوٹ ہو رہی ہو گی، ٹریفک والے لے گئے ہوں گے“۔ عرض کیا کہ گاڑی کھڑی کرنے سے پہلے کانسٹبل سے پوچھا تھا۔ انسپکٹر نے جو جواب دیا اْس پر پنجاب پولیس کی مخصوص بصیرت کی مہر لگی ہوئی ہے“۔ فرمایا: ”کانسٹبل بے چارہ کیا کرے، آدمی میں خود عقل ہونی چاہیے“۔

ہر آدمی فوجداری مقدموں میں مطلوب نہیں ہوتا لیکن عقل سیکھنے کی خاطر امن پسند شہری کو بھی تھانے جانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ نوعمری میں پہلا اتفاق بہت خوشگوار تھا کہ ایک انٹر کالجئیٹ مباحثے سے واپس آتے ہوئے مسافر بس پر میرا بستر بند کسی سے تبدیل ہو گیا۔ پولیس نے دو روز میں مسئلہ حل کر دیا۔ نئی صدی سے کچھ پہلے کا تجربہ بھی مزے کا تھا جب بھارت کے جوہری دھماکوں والے دن لاہور کے ایک سٹوڈنٹ نے ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے کی درخواست دائر کی۔ بطور رپورٹر خبر کا پیچھا کرتے ہوئے تھانہ اچھرہ پہنچا تو ایس ایچ او نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے نام پڑھ کر میرے کان میں کہا: ”آپ نے بتا کر اچھا کیا کہ یہ ایٹمی حملے میں تباہ ہونے والے جاپانی شہر ہیں، ورنہ مَیں تو انہیں بد چلن خواتین سمجھ کر گرفتاری کے لیے چھاپہ مار پارٹی بھیجنے لگا تھا“۔

چند ہی سال گزرے کہ خود میرا کمپیوٹرائزڈ ڈرائیونگ لائسنس کے معاملے پر پولیس مقابلہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔ عملے کا اصرار تھا کہ پرانا لال کاپی والا لائسنس ترک کر کے دوبارہ نئے سرے سے تربیتی پرمٹ حاصل کرو اور نیا لائسنس بنواؤ۔ مَیں نے کہا کہ پچھلے 35 سال سے باقاعدہ کوالیفائیڈ ڈرائیور ہوں، اب لائسنس کی ظاہری شکل بدل جانے سے نا اہل کیسے ہو گیا؟ کہنے لگے: ”پرانا لائسنس خیر پور کا بنا ہوا ہے“۔ ”تو کیا خیرپور پاکستان کا حصہ نہیں“؟ عملے نے میری دلیل تو نہ مانی مگر کھڑپیچا سمجھ کر نیا لائسنس اِس لیے ہاتھ میں تھما دیا کہ آپ نے برطانوی ٹیسٹ پاس کر رکھا ہے۔

تازہ قصہ ”ایم ٹیگ“ عام ہونے سے کچھ پہلے کا ہے جب گوجرانوالہ سے واپسی پر ہمیشہ کی طرح کالا شاہ کاکو روڈ پر شیر شاہ سوری والی جی ٹی روڈ چھوڑ کر میاں نواز شریف والی ایم ٹو پکڑ لی۔ سب تسلیم کیں گے کہ یہ عین جمہوری حرکت تھی کیونکہ بنیادی حقوق میں آزادی نقل و حرکت کی ضمانت دی گئی ہے، کچھ ہی دیر میں ٹال پلازہ کی چار سبز روشنیاں دکھائی دینے لگیں۔ یہاں مَیں نے انڈیکیٹر دے کر موٹر احتیاط سے دائیں لین میں کر لی کہ اِس طرف رش کم تھا۔ اب ٹوکن ادا کرنے کا مرحلہ قریب آ گیا۔اچانک سادہ شلوار قمیض میں ملبوس ایک نوجوان رکنے کا اشارہ کرتا ہے: ”یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں۔ یہ پروٹوکول لین ہے، صرف فوجیوں اور ایمبولینس گاڑیوں کے لیے ہے“۔ بیٹا جی، اِس انٹری پوائنٹ کی ہری بتی جل رہی ہے، مَیں گزرنے کا حق رکھتا ہوں“۔

نیشنل ہائی وے کی بجائے یہ کارکن اگر پنجاب پولیس کا کہنہ مشق ملازم ہوتا تو اہل خانہ کو ساتھ دیکھ کر ایسا درمیانی لہجہ اختیار کرتا کہ یہ پتہ ہی نہ چلتا کہ اْس کا ارادہ خوشامد کرنے کا ہے یا رْعب ڈالنے کا۔ دل نے کہا: ’نواں آئیا ایں، سوہنیا“۔ پر جوان کی ایک ہی رٹ تھی کہ آگے جانے کی اجازت نہیں۔ میں نے ہری بتی جلنے یا پیشگی وارننگ نہ ہونے کی دلیل کو بے کار جاتے دیکھا تو زور سے پوچھا: ”بتاؤ، اب میں کیا کروں“؟ ”گاڑی ریورس کر کے پیچھے جائیں اور دوبارہ کسی اور لائن میں لگیں۔“ ’عقل کی بات کرو، موٹر وے پر پیچھے جانا خطرناک ہے“۔ ”سر، کہہ جو دیا ہے کہ یہاں سے گزرنے کی اجازت نہیں“۔ مَیں بھی ڈٹ گیا کہ آئین ِ پاکستان کی رْو سے یہیں سے گزروں گا۔ آخر قانون کا بول بالا ہوا۔ ایک باریش، عمر رسیدہ کارکن آئے۔ پے منٹ وصول کی اور رسید میرے حوالے کر دی۔

اصولوں کی اِس جنگ میں بیگم صاحبہ کی طرف سے مذمت ہوتی رہی، اِس لیے نہیں کہ مَیں قانون کا طالب علم ہوں اور وہ انتظامی افسروں کی طرح ”جوڈیشل مائنڈ سیٹ“ سے عاری ہیں۔ بیگم کا اختلافی نوٹ ماضی کی شدید دھند میں لاہور ایئر پورٹ پر پیش آنے والے اْس واقعے کا نتیجہ تھا جس میں بیٹی بیٹے کو لینے کے لیے ٹرمینل کے بیرونی احاطے میں گھسنے کی ہماری حکمت عملی ناکام ہوگئی۔ تب حفاظتی تدبیر کے طور پر مسافروں کے الوداع یا استقبال کے لیے ایک گاڑی میں ایک سے زیادہ اشخاص کے ہوائی اڈے میں داخل ہونے پر پابندی تھی۔ سوچا کہ شرعی طور پر ماں کا مرتبہ باپ سے بلند تر ہے، سو بیوی خود ڈرائیو کر کے کار پارک والی سڑک سے انٹری ڈالے اور مَیں وہ پیدل راستہ پکڑ لوں جہاں بورڈ لگا ہوا تھا کہ مسافروں کو لینے کے لیے ایک فرد کو اندر جانے کی اجازت ہے۔

خیر، اْس روز کئی ویگنیں ایسی بھی دیکھیں جن میں درجن درجن سواریاں اپنے پیاروں کا سواگت کرنے ٹرمینل بلڈنگ میں داخل ہو رہی تھیں، پھر بھی اپنے تئیں میرے اندر کے وکیل کا موقف یہی تھا کہ ایئر پورٹ میں داخلے کی شرط ایک فرد فی استقبال کے حساب سے نہیں، ایک فرد فی گاڑی کے حساب سے ہے، یعنی اگر بیوی ایک راستے سے گئی اور شوہر کچھ دیر بعد دوسرے راستے سے گیا تو دونوں کی نقل و حرکت واقعات کی الگ الگ اکائیاں ہیں، ایک ٹرانزیکشن نہیں۔ کوئی غور کرتا تو بڑا باریک پوائنٹ تھا، پر ہائیکورٹ اور ایئر پورٹ کا درمیانی فاصلہ یخ بستہ ماحول میں اِس وقت پہلے سے زیادہ محسوس ہونے لگا جب سکیورٹی والوں نے دْور ہی سے کہہ دیا: ”پیدل اندر جانے کی اجازت نہیں“۔ بورڈ کی طرف اشارہ کیا تو آواز آئی: ”بڑی سخت ہدایات ہیں، جی“۔آخرکار بچوں سے ملاقات ہو گئی لیکن احاطے کے باہر۔

اگلی بار تنہا ہونے کی بدولت داخلی برآمدے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پر وہ جو کہتے ہیں: ”رب نیڑے کہ گھسْن“؟ پرواز اْتر چکی تھی اور مَیں انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ یکایک کسی وی آئی پی آمد کا شور اْٹھا۔ ساتھ ہی سکیورٹی اہلکار نے سینئر سٹیزن کو ایک چیختی چنگھاڑتی پاورفْل کہنی رسید کی: ”ہٹ جاؤ، موومنٹ ہو رہی ہے“۔ ”اور میرے رائٹ ٹو فری موومنٹ کا کیا ہوا“۔ مَیں نے بھی چِلّا کر پوچھا۔ اہلکار نے سْنی ان سْنی کر دی۔ بہرحال، قومی اسمبلی کے سپیکر صاحب جھنڈے والی کار میں بیٹھ چکے تو باوردی کارکن نے واپس آکر ادب سے پوچھا کہ آپ کیا کہہ رہے تھے؟ مَیں نے ترجمہ کر کے بتایا کہ آئین میں درج اِس بنیادی حق کا مطلب ہے کہ عام شہری کے لیے نقل و حرکت کی آزادی۔ اِس کا ٹھیٹھ پنجابی میں جو جواب ملا، سْننے کے لائق ہے۔ کہا:”سر، ذرا سوچو سپاہی نوں کِیہہ پے سمجھاندے او!“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments