کیا ”شادی شدہ لائف“ خوشیوں کے حصول کے لیے ”لازمی“ ہے؟


کیا زندگی محض ایک فلم کی طرح ہوتی ہے کہ ہر انسان پر لازم ہو کہ اسے ایک طے شدہ پیٹرن پر ہی چلنا ہے ورنہ سب کچھ تہس نہس ہو جائے گا؟ آپ پیدا ہوئے، سکول گئے، ملازمت حاصل کی، شادی ہو گئی، بچے پیدا ہو گئے، ان کو اپنے اپنے پاؤں پہ کھڑا کرتے کرتے بوڑھے ہوئے اور آخر میں مر گئے۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر انسان ایک ٹیکسٹ بک طرز کی زندگی بسر کرے اور دار فانی سے کوچ کر جائے؟ اس قسم کی شادی شدہ لائف کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے جس میں سے خوشیوں کی بجائے ہر سال بچے پیدا ہوں جو ایک اسٹینڈرڈ لائف سے محروم ہوں، محض چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی پیچھے ہلکان ہوتے ارمان دلوں میں لیے گزر جائیں؟

اس قسم کی زندگی کی کیا اہمیت کہ جس میں ”ون وے تھکنگ“ پر مجبور کیا جاتا ہو اور نگرانی پر سوسائٹی کے داروغے تعینات ہوں؟ کیا مختلف ہونے میں کوئی برائی ہے؟ کیا ایک الگ ڈھنگ سے سوچنا کوئی حماقت ہوتی ہے؟ اگر کسی کو سیٹ پیٹرن پسند نہیں تو اس میں مطلوبہ شخص کی کیا غلطی؟ کیا وہ خود کی خوشی کے لئے ایک منفرد راستے کا انتخاب نہیں کر سکتا؟ ہم ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ فرد سے زیادہ سماجی ضابطے مقدس و متبرک و معتبر ہوتے ہیں؟

ایک دوسرے کو جانے بغیر دو مختلف اذہان کو زبردستی ایک ایسے بندھن میں کیسے باندھا جا سکتا ہے جس کے مطابق دونوں پر لازم ہو جائے کہ کمپرومائز یا راضی بالرضا کے علاوہ کوئی دوسرا یا متبادل راستہ موجود نہیں ہے، مطلب انٹرنس کی گنجائش تو ضرور ہے مگر ایگزیٹ بالکل نہیں؟ اس بات کا تعین کون کرے گا کہ یہ دونوں افراد ماں باپ بننے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟ یا اس تعلق کو برقرار رکھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں یا نہیں؟

یہ سب باتیں کوئی خود کی ذہنی اختراع نہیں ہیں بلکہ معاشرتی حقائق ہیں جنہیں نجانے کب سے نظر انداز یا معاشرتی بھرم و شرم کو برقرار رکھنے کے لئے انڈر کارپٹ کرنے کا تسلسل چلا آ رہا ہے اور اب تو ایک مکروہ سرکل میں ڈھل چکا ہے، معاملات زندگی کو اس نہج پر سوچنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ہر شخص شادی کے لیے نہیں ہوتا یا ماں باپ بننے کے لیے کوالیفائیڈ نہیں ہوتا اور سب سے بڑھ کر بچے پیدا کر کے ان کے لیے ایک اچھا یا مناسب سرپرست بننے کے اہل نہیں ہوتا۔

ثبوت کے طور پر آپ روز بروز اخبارات میں شائع ہونے والے ”عاق نامے“ ملاحظہ کر سکتے ہیں جس میں والدین اپنے بچوں کو نافرمانی یا گھریلو تنازعات کی وجہ سے عاق کر کے مشتہر کر دیتے ہیں۔ ظاہر ہے والدین کے ”ایگو“ کے مسائل ہوتے ہیں انہوں نے خود اپنے بڑوں کی انگلی پکڑ کے چلنا سیکھا ہوتا ہے تو وہ اپنے بچوں کو بھی اسی پیٹرن پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں، جیسے ہی کوئی بچہ انہیں چیلنج کرتا ہے تو انھیں ناگوار گزرتا ہے اور اسی ناگواری کا خمیازہ بچے کو عاق نامے کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے، ویسے بھی کمزوروں کو لتاڑنے کا چلن ہمارے منافق سماج میں کچھ زیادہ ہی ہے۔

والدین کی طرف سے بچوں کو عاق کرنا، ان کے ساتھ حاکمانہ رویہ رکھنا، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ اور دھمکیوں والا رویہ اختیار کیے رکھنا حتی کہ مارپیٹ یا تشدد جیسے عوامل والدین کی نا اہلیت کو ظاہر کرتے ہیں اور غیر سنجیدگی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر آپ باپ یا شوہر بننے کی اہلیت نہیں رکھتے تو اتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت کیا ہے؟ شوقیہ فنکار یا اناڑی کھلاڑی لمبی ریس کے گھوڑے نہیں ہوتے وہ کسی بھی سنجیدہ چیلنج کو شوقیہ یا جبری طور پر قبول تو کر لیتے ہیں مگر ذمہ داریوں کو قبول کرنے کی بجائے ان سے ہمیشہ بھاگتے رہتے ہیں۔

مشرقی معاشروں میں والدین اپنے نکمے یا ویلے بچوں کی شادی صرف اس وجہ سے کرواتے ہیں کہ شاید وہ بندے بن جائیں یا اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگ پڑیں اور اسی غیر سنجیدگی کے نتیجے میں بچوں کی لائن لگ جاتی ہے، جسے سدھارنے کے لیے والدین جوے کے طور پر دولہا بناتے ہیں وہ نجانے کتنی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کا سبب بن جاتا ہے، چونکہ اس کی نظر میں تو شادی دو ٹانگوں کے درمیان محض ذاتی جنسی خواہش کی تکمیل کے لیے جھولتے رہنے کا نام ہوتی ہے اور وہ انہی چکروں میں پڑا رہتا ہے۔

جنسی ہوس کے مارے اس بگڑے نواب کا کردار زندگی کے اس اہم معاملے و موڑ پر نقصان دہ ثابت تو ہو سکتا ہے تعمیری بالکل نہیں، تو پھر کیا ضرورت پڑی ہے اس قسم کی ٹاکسک چین بنانے کی؟ دوسری طرف مغرب میں افراد ڈیٹ کرتے ہیں، وقت گزارتے ہیں اور ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب انہیں لگتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت سے رہ سکتے ہیں تو وہ مکمل آزادی سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا شعوری فیصلہ لیتے ہیں۔

سب سے مزے کی بات یہ ہے کہ معاشرہ یا والدین ان کے باہمی اور بالغانہ فیصلے میں مداخلت نہیں کرتے۔ دو بالغ افراد کو ایک طرح سے موقع ملتا ہے کہ وہ فیصلہ کرسکیں کہ ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے ماں باپ جیسی سنجیدہ ذمے داری اٹھانے کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں، جب وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو پھر فیصلہ لیتے ہیں۔ دوسری طرف ہم سوسائٹی میں ایسے ہزاروں ماں باپ دیکھتے ہیں جنہیں دیکھتے ہی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انہوں نے کیا سوچ سمجھ کر اتنے بچے پیدا کر لیے؟

چلیں اگر پیدا کر بھی لئے تو ان کی طرف سے اتنی لا پرواہی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیوں؟ کیا اس طرح کے لوگوں کو ماں باپ بننا چاہیے؟ کیا اس نہج پر سوچنا ایک درست اقدام نہیں ہو گا زندگی کے بہت سے حادثات کو رونما نہیں ہونا چاہیے خاص طور پر ایک ایسے معاشرے میں جہاں انفرادیت کا تصور موجود نہ ہو اور معاشرہ کھوکھلے اصول و ضوابط پر ٹکا ہوا ہو؟ بے ہنگم حادثات منفیت کو جنم دینے کا سبب تو بن سکتے ہیں مثبت پن کا نہیں، عجب شادی کا امتحان ہوتا ہے جو کم ازکم آٹھ یا دس بچوں پر جا کر اختتام پذیر ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خاتون ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتی ہے۔

جب رشتہ قائم کرنے کا مقصد ہی بچے پیدا کرنا ہو تو اس رشتے کی کوکھ سے یہی کچھ برآمد ہو گا اور کیا ہو سکتا ہے؟ پیار، محبت، پیار بھری اٹکھیلیاں، پیار سے بھرے میٹھے بول اور دنیا مافیہا سے آزاد ایک پرسکون جنسی تسکین کا حصول جیسے عوامل کی ہمارے سماجی بندوبست میں قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہمیں دھڑکا جو لگا رہتا ہے کہ اس قسم کی اوپن ڈسکشن سے کہیں ہمارے اخلاقی محلات ریزہ ریزہ نہ ہو جائیں، بھلے چپکے چپکے سب چلتا رہے مگر کانوں کان خبر بالکل نہیں ہونی چاہیے ورنہ معاشرے کی کھوکھلی اخلاقیات کا جنازہ نکل جائے گا، کہیں تہذیب و آ گہی کو بھنک نہ پڑ جائے اور ہم مہذب نہ بن جائیں۔

ہمیں تو سڑکوں یا گھروں کی صفائی میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی معاملات زندگی میں صفائی یا کھرا پن کیسے برداشت ہو سکتا ہے؟ عجب حیات کا جبر ہے کہ زندگی جس کی ہوتی ہے وہ خود اپنے طور گزار ہی نہیں پاتا بلکہ مداخلت کے نام پر دوسرے اس کی زندگی کو جی رہے ہوتے ہیں مطلب اگر ذرا سا بھی روایتی سیٹ پیٹرن سے ادھر ادھر ہوئے تو آپ ختم، اس نہج پر سوچنے میں کیا قباحت ہے کہ انفرادی حیثیت میں ایک انسان ”اکیلا“ بھی خوش رہ سکتا ہے اگر وہ دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کی ذمہ داری اٹھانے کے اہل نہیں ہے تو معاشرتی سطح پر کم از کم اتنی سپیس یا چوائس تو ضرور ہونی چاہیے کہ وہ اپنے اندر کے حقیقی سچ کے ساتھ آزادانہ طور پر انصاف کر پائے مگر اسے مجموعی بن کے رہنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے اور معاشرتی روایات کے نام پر اس کی پرسنل سپیس یا چوائس چھین لی جاتی ہے۔

روایات سے اتنا بھی چپکے رہنا کیوں ضروری ہو جاتا ہے؟ خواتین کو ہمارے معاشرے میں کسٹوڈین آف آنر کیوں سمجھا جاتا ہے؟ کیا مرد کوئی مافوق الفطرت یا ذلت پروف قسم کی کوئی انوکھی مخلوق ہوتی ہے جس سے ڈس ریسپیکٹ سرزد نہیں ہو سکتی؟ اتنے زیادہ گھریلو تشدد کے کیسز منظر عام پر کیوں آتے رہتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ارینج کے نام پر تین چار سو بندوں کے موجودگی میں ہم جو ہنگامی بندوبست کرتے ہیں اس کے نتائج سامنے آتے ہوں؟ یورپ میں جب رشتہ مرنے لگتا ہے تو گریس فلی الگ ہونے کا سوچ لیا جاتا ہے کیونکہ وہاں رشتے مجبوری یا جبر کی بنیاد پر قائم نہیں ہوتے بلکہ انڈرسٹینڈنگ اور ایک دوسرے سے مکمل آشنائی کے بعد قائم ہوتے ہیں جبکہ مشرق میں اسی مردہ یا نیم جان رشتے کو اٹھائے رکھنا ایک طرح سے معاشرتی مجبوری بن جاتا ہے۔ ہمارے معاشرتی حاجی لائسنس یافتہ ٹھرکی ہوتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ درجنوں بیویاں اپنے مردوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیتی ہیں مگر اپنے سر پر طلاق کی تلوار لٹکے ہونے کی وجہ سے کمپرومائز ہونے پر مجبور ہوجاتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہی مرد اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ دیکھتا ہے تو اس کا رویہ کیسا ہو گا اور وہ یہ سب برداشت کر پائے گا؟ ہمیں سکھایا اور بتایا جاتا ہے کہ ”شادی ایک نازک بندھن ہوتا ہے جو کچے دھاگے سے باندھا جاتا ہے“

واقعی یہ اتنا نازک سا بندھن ہوتا ہے کہ مرد ایک ہی لفظ تین بار بول کے خاتون کو فارغ کر دیتا ہے جبکہ دوسری طرف خاتون کو خلع لینے کے لیے جج کے سامنے پیش ہو کر کوئی معقول وجہ بتانا پڑتی ہے۔ گوشت پوست اور عقل و فہم رکھنے والے دو انسانوں کے بیچ اتنا فرق یا تضاد کیوں؟ اس کے علاوہ درجنوں ایسی قباحتیں ہیں جن پر ڈسکشن ضرور ہونی چاہیے اور سوچنا پڑے گا کہ دو ایک طرح کے افراد کے لیے عزت و ذلت کے معنی اس قدر مختلف کیوں ہیں؟ خواتین کی ورجینٹی تو دو انگلیاں ڈال کر چیک کرلی جاتی ہیں مگر مرد کی ورجینٹی کا تعین کون کرے گا؟ ہمارے سماج میں ہائمن اتنا مقدس کیوں ہے؟ پردہ بکارت کو برقرار رکھنے کی خاطر خواتین کو ہارس رائیڈنگ، جم کرنے، سائیکلنگ یا جمناسٹک جیسی سرگرمیوں سے محروم رکھا جاتا ہے آخر کیوں؟ کیا جسمانی طور پر فٹ رہنا صرف مرد کا استحقاق ہوتا ہے خاتون کا نہیں؟ صرف ہائمن سلامت رہے زندگی کا کیا ہے وہ تو شروع سے ہی گھٹ گھٹ کے جیتی آ رہی ہیں اب بھی جی لیں گی کیا مسئلہ ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments