عارف عبدالمتین کے خیالات، نظریات اور فلسفہ حیات


جب ہم عارف عبدالمتین کی شعری تخلیقات کا سنجیدگی سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس حقیقت کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ان کے لیے شعر کہنا نہ تو روایتی گل و بلبل کا قصہ سنانا تھا، نہ تضیع اوقات کرنا تھا اور نہ ہی کسی اجنبی حسینہ کے عشوہ و غمزہ و انداز و ادا کی شکایت رقم کرنا تھا۔

عارف عبدالمتین شاعری کو
زندگی کے اعلیٰ اقدار کی عکاسی کا
انسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کا
جمالیات کی اعلیٰ سطح کو چھونے کا
اپنے سچ کی تلاش کا
اور

انسانی رشتوں کے راز ہائے سربستہ کو جاننے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے ان کی غزلوں اور نظموں، قطعات و فردیات میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بنانے کا خواب اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا عکس دکھائی دیتا ہے۔

میں اس مختصر مضمون میں عارف عبدالمتین کے چند ایسے خیالات و نظریات پیش کرنے کی کوشش کروں گا جن کا پرتو ان کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے۔ امید ہے اس مضمون کو پڑھنے سے آپ کا عارف عبدالمتین کے فلسفہ حیات سے مختصر تعارف ہو سکے گا۔

عارف عبدالمتین بنیادی طور پر ایک انسان دوست شاعر تھے۔ وہ رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر سب انسانوں سے محبت کرتے تھے۔ وہ ظلم کے خلاف تھے لیکن ظالم و مظلوم دونوں کے بارے میں ہمدردانہ رویہ رکھتے تھے۔ وہ رقم طراز ہیں

میں حرف دعا کا سلسلہ ہوں
عالم کی نجات چاہتا ہوں
مقتول کی مغفرت کا طالب
قاتل کی طرف سے خوں بہا ہوں

عارف عبدالمتین جب اپنے چاروں طرف انسانوں کو غریبی، بیماری، لاچاری اور مجبوری کی زندگی گزارتے دیکھتے تھے تو خون کے آنسو بہاتے تھے۔ وہ اوروں کے دکھ دیکھ کے دکھی ہو جاتے تھے۔ فرماتے ہیں

ہمیں سوچ تھی عید آئی ہے لیکن کریں اس کا ہم خیر مقدم تو کیسے
نہ کپڑا بدن پر، نہ روٹی شکم میں، نہ ہاتھوں میں روزی، نہ جیبوں میں پیسے

عارف عبدالمتین جانتے تھے کہ غربت انسان کی عزت کو بھی داؤ پر لگا دیتی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ انسان عزت نفس سے رہیں اور سر اٹھا کر چلیں۔ انہیں انسانوں کی تذلیل و تحقیر بالکل گوارا نہ تھی۔ اسی لیے لکھتے ہیں

جہاں صدف ہے یہاں صورت گہر رہنا
نہ آبرو سے اگر جی سکو تو مر رہنا

عارف عبدالمتین کی نگاہ میں انسان کا پیدائش سے موت تک کا جانگسل سفر شعور ذات سے شعور کائنات تک کا سفر ہے۔ انسان زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر آزمائش سے اپنے داخلی اور خارجی ماحول کے راز جاننے کی کوشش کرتا ہے اور جلد یا بدیر اس میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔ زندگی کے راز جاننے والوں میں شاعر اور ادیب، فنکار اور دانشور سر فہرست ہیں۔ ہر نسل کے انسان نئے راز جانتے ہیں اور پھر وہ راز اگلی نسل کو منتقل کر دیتے ہیں۔ اسی طرح انسانی ارتقا کا سفر جاری رہتا ہے۔ فرماتے ہیں

اپنی پہچان کرنے نکلا تھا
ایک عالم سے روشناس ہوا

عارف عبدالمتین کے لیے لمحہ موجود بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ انسان ماضی اور مستقبل، گزشتہ کل اور آنے والے کل سے بے نیاز ہو کر آج کا دن بھرپور طریقے سے گزارے۔ لمحہ موجود میں زندہ رہنا بظاہر جتنا سہل دکھائی دیتا ہے درپردہ اتنا ہی دشوار بھی ہے۔ لکھتے ہیں

یوں گزارو ہر ایک دن گویا
زندگی کا یہ آخری دن ہے

عارف عبدالمتین کا موقف تھا کہ دنیا میں دو طرح کے انسان رہتے ہیں۔ ایک اکثریت ہے جو روایت کی شاہراہ پر چلتی ہے او ایک اقلیت ہے جو روایت کی شاہراہ کو چھوڑ کر اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتی ہے۔ یہی اقلیت ادیبوں، شاعروں، فنکاروں اور دانشوروں کی اقلیت ہے جو زندگی کے راز جاننے کی کوشش کرتی ہے اور راز پانے کے بعد فن پارے اور شہ پارے تخلیق کرتی ہے جنہیں تخلیق کرنے کے لیے اسے ایک ماں کی طرح درد زہ برداشت کرنا پڑتا ہے کرب سہنا پڑتا ہے۔ فرماتے ہیں

معراج پر ہے کرب گوارا دماغ کا
تخلیق ہو رہا ہے سخنور کے ہاں سخن

یہ شاعر، ادیب اور دانشور غیر روایتی زندگی گزارتے ہیں اور ایسی غیر روایتی زندگی کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ روایتی اکثریت

کبھی انہیں جیل میں ڈال دیتی ہے
کبھی پابند سلاسل کر دیتی ہے
کبھی شہر بدر کر دیتی ہے
اور کبھی سولی پر چڑھا دیتی ہے

عارف عبدالمتین ماہر نفسیات تو نہ تھے لیکن تخلیقی اقلیت کی زندگی کی آزمائش اور دو دھاری تلوار پر چلنے کی دشواری کے بارے میں اپنا نفسیاتی تجزیہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

میری عظمت کا نشاں، میری تباہی کی دلیل
میں نے حالات کے سانچوں میں نہ ڈھالا خود کو

روایتی اکثریت ان شاعروں، فنکاروں اور دانشوروں پر کبھی بہتان لگاتی ہے اور کبھی فتوے لیکن وہ مسکراتے ہوئے دار کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں بے گناہ اور معصوم ہوتے ہیں۔

صرف ایک ثبوت اپنی وفا کا ہے مرے پاس
میں اپنی نگاہوں میں گنہگار نہیں ہوں

عارف عبدالمتین ایک شاعر ہی نہیں ایک دانشور بھی تھے۔ وہ ساری عمر سچ کی تلاش میں رہے اور اپنے افکار کا برملا اظہار کرتے رہے۔ اسی لیے کبھی ان سے دائیں بازو کے اور کبھی بائیں بازو کے ادیب اور نقاد ناراض ہو کر سنگباری کرتے تھے اسی لیے وہ رقم طراز ہیں

مجھ سے برہم ہیں مسلماں تو خفا ہیں کافر
میں عقائد نہیں افکار کا دم بھرتا ہوں

عارف عبدالمتین جانتے تھے کہ انسان دوستی کا فلسفہ مذاہب اور عقائد سے بالا تر ہو کر انسانوں کی زندگی کی تفہیم چاہتا ہے۔ جن لوگوں کا ایمان ہے کہ اخلاقیات مذاہب کی کوکھ سے پیدا ہوتی ہے ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہوجاتا ہے کہ

کفر و ایماں کی حدوں سے کچھ ادھر اے ہم نشیں
اور بھی ہے ایک گفتار و عمل کا ضابطہ

عارف عبدالمتین جانتے تھے کہ انسان کے خواب اور آدرش اسے بہتر انسان بننے کی تحریک دیتے ہیں اور یہی خواب اور آدرش انسان کے ارتقا کا راز ہیں۔ انسانوں کو ان کے آدرش بہت عزیز ہوتے ہیں اسی لیے وہ انہیں اپنے سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ اگر وہ آدرش ان سے چھن جائیں تو وہ داخلی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں

میرے آدرش نہ چھینو کہ میں مر جاؤں گا

عارف عبدالمتین جیسے شاعر اور ادیب، فنکار اور دانشور جو بامقصد و بامعنی زندگی گزارتے ہیں اور ساری عمر خدمت خلق کرتے رہتے ہیں وہ جب اپنی زندگی کی شام میں ماضی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ان کے چہرے پر ایک اطمینان بخش مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ انہیں نہ کسی ندامت کا سامنا ہوتا ہے نہ کسی خجالت کا

موت سے مطمئن ہوں میں عارف
میری ہستی نہیں تھی بے مصرف

میری ان گزارشات سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ عارف عبدالمتین ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان، دانشور اور شاعر تھے۔ انہوں نے اعلیٰ انسانی اقدار کو ساری عمر گلے لگائے رکھا۔ وہ اپنے آدرش کے لیے خود بھی قربانیاں دیتے رہے اور دوسرے انسانوں کو بھی بہتر انسان بننے کی تحریک دیتے رہے تا کہ وہ کرہ ارض پر سماجی، سیاسی اور معاشی استحصال کو ختم کر کے منصفانہ اور پرامن معاشرے قائم کر سکیں۔

میں نے عارف عبدالمتین کی شاعری اور شخصیت سے بہت کچھ سیکھا، وہ ہمیشہ مجھ سے محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ ان سے ملاقاتوں کی یادیں میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔

میرے لیے یہ باعث فخر تھا کہ انہوں نے اپنے یک مصرعی نظموں کے مجموعے۔ دھوپ کی چادر۔ کے انتساب میں لکھا

اپنے بھتیجے ڈاکٹر خالد سہیل کے نام۔
جن کے افکار و کردار میں مجھے
ہمیشہ اپنے کردار و افکار سے
اتنی حیرت انگیز مماثلتیں دکھائی دیتی ہیں
کہ بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا فطرت نے
ان کے روپ میں مجھے ایک نئے جنم کا اعزاز بخشا ہو

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments