پاکستانی ڈرامہ اور بے عمل نسوانی کردار


پاکستانی ڈرامہ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1964 ء میں پی ٹی وی کے قیام کے بعد پہلا ڈرامہ نذرانہ کے نام سے پیش کیا گیا تھا، جس میں نمایاں اداکار محمد قوی خان اور اور کنول نصیر تھے۔ اس کی ڈائریکشن فضل کمال نے کی۔ جس کے بعد ڈراموں کے ایک طویل سلسلے کا آغاز ہوا۔ یہ ڈرامے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر پاک و ہند میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے۔ ان میں سے چند ڈراموں کے نام درج ذیل ہیں۔

خدا کی بستی۔ شوکت صدیقی۔
وارث۔ امجد اسلام امجد
دھواں۔ عاشر عظیم
ہوائیں۔ فرزانہ ندیم سید
دھوپ کنارے۔ حسینہ معین
شمع۔ فاطمہ ثریا بجیا
الفا براوو چارلی۔ شعیب منصور
جانگلوس۔ شوکت صدیقی
سمندر۔ امجد اسلام امجد
دہلیز۔ امجد اسلام امجد
انکل عرفی۔ حسینہ معین
آنچ۔ ناہید سلطانہ اختر
راہیں۔ منشا یاد
ریزہ ریزہ۔ افتخار حیدر
فشار۔ امجد اسلام امجد
دلدل۔ مرزا اختیار بیگ
ان کہی۔ حسینہ معین
اندھیرا اجالا۔ یونس جاوید
سونا چاندی۔ منو بھائی
تنہائیاں۔ حسینہ معین
آنگن ٹیڑھا۔ انور مقصود
شہ زوری۔ حسینہ معین

یہ اور ان جیسے بے شمار ڈرامے پی ٹی وی کے کریڈٹ پر تھے، جن کے کردار اپنی مثال آپ تھے۔ متفرق موضوعات کے باوجود، کرداروں کی خصوصیات ناظرین کو متاثر کیا کرتی تھیں۔ وہ خواہ تعلیم یافتہ ہوں یا غیر تعلیم یافتہ، ان کی زندگی کسی نہ کسی مقصد کے تحت گھومتی تھی۔ بزرگ نوجوان نسل کی تربیت کرتے نظر آتے اور نوجوان بھٹکتے بھٹکتے، راہ راست پر آ ہی جاتے۔ لکھنے والوں کی اصل توجہ بھی غلط اور صحیح کے فرق کی جانب رہا کرتی۔ یہ پی ٹی وی کا سنہری دور تھا، جب ڈرامہ سیریل کی ایک قسط کے لیے سڑکیں ویران ہو جاتیں اور خسی ایک گھر میں ٹی وی موجود ہونے کی سورت میں پورا محلہ وہیں اکٹھا ہو جاتا تا کہ ڈرامے کی قسط دیکھی جا سکے۔ اس زمانے کا ڈرامہ کچھ اصول و ضوابط کے مطابق تحریر کیا جاتا اور زیادہ سے زیادہ 13 اقساط پر مشتمل ہوتا۔

اگلا دور پرائیٹ چینلز کا آیا، جہاں نئے تجربات کا آغاز ہوا۔ نت نئے لکھنے والے اور نت نئے موضوعات پر طبع آزمائی کی جانے لگی۔ اب تو گویا ایک ریس کا آغاز ہو گیا اور اس ریس میں ہمسایہ ملک کے ڈراموں سے مقابلہ بھی کیا جانے لگا۔ جس کے نتیجے میں سارا فوکس ریٹنگ پر ہو گیا اور کمرشل ازم کو فوقیت دی جانے لگی۔ اب ڈراموں کی اقساط اور کردار زیادہ سے زیادہ ہونے لگے اور کہانی کی ضروریات کہیں گم ہونے لگیں۔ بعض اوقات تو 100 اقساط پر مشتمل ڈرامے بھی لکھے اور دیکھے گئے، جن کے موضوعات ان کی مقبولیت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہے۔

زیر نظر تحریر میں ان ڈراموں کے نسوانی کرداروں کا جائزہ لینا مقصود ہے، جو آج کل نشر کیے جا رہے ہیں۔ پرانے دور کے برعکس ان ڈراموں میں دو طرح کے نسوانی کردار دکھائے جا رہے ہیں۔

1۔ منفی کردار۔ جن کی خصوصیت محض یہ ہے کہ وہ دوسروں کے خلاف سازشیں کریں اور کسی کو چین سے نہ رہنے دیں۔ ان کرداروں کے متعلق بات کی جاتی ہے اور تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

2، دوسری قسم ان کرداروں پر مشتمل ہے جو پورے ڈرامے میں اپنی بے عملی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کے متعلق کسی پلیٹ فارم پر کوئی اظہار خیال بھی نہیں کیا جاتا۔

ان کرداروں میں سر فہرست وہ مائیں ہیں، جن کی اولادیں سارے زمانے میں فتنہ انگیزی کرتی پھرتی ہیں اور وہ یا تو رو دھو کر چپ چاپ بیٹھی رہتی ہیں، یا پھر اپنی پریشانی کا اظہار کر کے خاموش ہو جاتی ہیں۔ اردو ادب کے طالب علم بہ خوبی جانتے ہیں کہ بچوں کی تربیت میں ماؤں کے کردار کو بہت اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ پرانے ڈراموں میں اس پہلو کو مد نظر رکھ کر ماؤں کے کردار، ایک فیصلہ کن طاقت کے حامل ہوا کرتے تھے۔ جب کہ اب کی ماں مجبور محض دکھائی جاتی ہے۔

خاص طور پر آج کل ہر ڈرامے میں، ماں کا کام ڈھیر ساری سبزی کاٹنا ہی رہ گیا ہے۔ اس میں امیر، غریب، کسی طبقے کی بھی کوئی تفریق نہیں۔ ہر ماں سبزی کاٹنے کے دوران ہی نمودار اور غائب ہو جاتی ہے، یا پھر ڈھیروں میک اپ کر کے، بال بنا کے، اپنی پریشانی کا اظہار کرتی پھرتی ہے۔ کسی سازش کا سہارا لے کر اپنی بہو یا دیگر رشتے داروں کو تباہ کرنے کا لائحہ عمل تیار کرتی ہے۔ دوسری جانب بزرگ مرد ہیں جو اپنی بیگم یا کسی دوسرے گھر والے کی پریشانی کے وقت، تفصیل پوچھنے آتے اور پھر غائب ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس خاندانی نظام کی تصویریں پیش کی جا رہی ہیں؟ کیا ہم نوجوان نسل کے ذہنوں میں اس خیال کو پختہ کر رہے ہیں کہ جب ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو آپ کی زندگیوں میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں رہتا۔ یا یہ کہ ان کی قوت فیصلہ ختم ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب نوجوان نسل کے وہ کردار بھی ہیں جو نوکری، گھریلو مسائل، سیاست، بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان ہیں اور 100 اقساط کے ڈرامے میں بھی ان کی قوت فیصلہ یا قوت عمل کہیں نظر نہیں آتی۔ جب کہ پرانے ڈراموں میں ہر کردار اپنے مسائل کا حل چاہتا بھی تھا اور کر بھی گزرتا تھا۔ خواتین کا کردار اتنا مضبوط ہوتا کہ وہ پورے خاندان کا بوجھ اٹھاتیں اور اپنے کنبے کی کردار سازی پر توجہ دیتیں۔ خواہ وہ بھٹے پر کام کرنے والی عورت ہو یا دفتر میں مصروف عمل۔

اسی طرح گھروں میں رہنے والی خواتین اپنے کام نمٹاتی، مسائل کو حل کرتی، نظر آتیں۔ آج کل کے ڈراموں کو دیکھیں تو اکثر یہ خیال آتا ہے، ان گھروں میں روز مرہ کے کام کیسے ہو جاتے ہیں؟ کیا کوئی جن بھوت آ کر یہ کام کر گیا ہے؟ کیونکہ اکثر سین یا تو بیڈ روم کے ہوتے ہیں، جہاں گفتگو ہو رہی ہوتی ہے۔ یا پھر سجے سجائے کھانے کی میز پر گفتگو یا لڑائیاں، سامنے آجاتی ہیں۔ جن میں نظر آنے والی انتہائی میک اپ اور فیشن زدہ خواتین تو یہ کام کرنے سے رہیں۔

تو گویا ہم اپنی نوجوان نسل کو غیر ارادی طور پر بے عملی کا پیغام دے رہے ہیں۔ اس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اب بھی گھروں میں سلیقہ مند خواتین موجود ہیں۔ اب بھی مطالعہ کرنے اور بہترین اظہار خیال کرنے والے ریٹائر حضرات دکھائی دیتے ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین بھی ہیں جو دفاتر کے ساتھ گھر چلاتی ہیں اور بہت اچھی مثالیں چھوڑتی ہیں۔ تو پھر ٹیلی ویژن کے ڈرامے کون سی خیالی دنیا دکھا رہے ہیں، جہاں محض باتیں ہوتی بیان اور تمام نظام چل جاتا ہے۔ کوئی کردار کسی عمل میں مصروف نظر نہیں آتا۔ یہ سب دیکھ کر نئی نسل کے بچے اکثر ماؤں سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ خود کو نہ تھکائیں، اتنے کام کی کیا ضرورت ہے۔ یا یہ کہ ملازموں سے کام کرائیں، خود کرنے کی کیا ضرورت ہے؟

لاشعوری طور پر ان کے دماغوں میں یہ بات بٹھائی جا رہی ہے کہ اگر کوئی خاتون مجبور ہے تو وہ کپڑے سی کر گزارہ کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ماؤں کو یہ کام کرتے دیکھ کر سوال کریں گے کہ کیا ہم اتنے غریب ہو گئے ہیں کہ آپ کپڑے سی رہی ہیں؟ اسی طرح گھر کی صفائی اور دیگر روزمرہ کاموں کی مثال لے لیجیے۔ کسی لڑکی کو سو کر اٹھنے کے بعد اپنا بستر تہہ کرتے نہیں دیکھا جاتا۔ کوئی بچی کچن میں کام کرتی دکھائی نہیں دیتی، تا آنکہ وہ انتہائی غریب ہو۔

کوئی ماں اپنے چھوٹے بچے کے کام نہیں کرتی۔ اسی طرح سب حضرات دفتر سے آ کر محض تھکے تھکائے دکھائے جا رہے ہیں۔ بزرگ شہری مجبور اور بیڈ روم تک محدود ہیں، ان کی کوئی مصروفیات نہیں، محض گھر کے خراب حالات پر کڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ آخر یہ کون سا سبق ہے جو میڈیا کے ذریعے دیا جا رہا ہے۔ ہے کوئی جو ان کرداروں کی بے عملی پر غور کرے اور انہیں ان جیتے جاگتے کرداروں میں تبدیل کرے جو ادب کی شاہکار مثالوں میں ملتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments