پاکستان میں طلاق کی بڑھتی شرح تشویشناک


رانیہ لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی پر ایک مشہور سیریل دیکھ رہی تھی۔ اس کے والدین کے کمرے سے جھگڑے کی آوازیں باہر تک سنائی دے رہی تھیں۔ سیریل میں موجود کرداروں میں بھی شدید جھگڑے کی سی کیفیت تھی۔ رانیہ نے غیر ارادی طور پر ٹی وی کا والیم بڑھا دیا۔ جی میں آیا کہ چینل بدل دے مگر اس کی اندرونی و بیرونی کیفیات دونوں نے اسے ایسا کرنے سے روکا۔ اس کے والدین کے مابین کئی سالوں سے جھگڑے جاری تھے۔ چند ماہ سے ان جھگڑوں میں شدت آ گئی تھی۔

رانیہ میڈیکل کی طالبہ تھی۔ پڑھائی کے لیے جو یک سوئی درکار تھی، وہ گھر میں نا پید تھی۔ رانیہ صوفے پر بیٹھی مختلف سوچوں میں گم تھی کہ اچانک دھڑام سے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس کے والد نہایت غصے کے عالم میں گھر سے باہر نکل گئے۔ اس کی والدہ بیڈ پر اس طرح بیٹھی تھی گویا کوئی لمبی مسافت طے کرنے کے بعد تھکا ہارا مسافر جس کی منزل کے نشان بھی گم ہو چکے ہوں۔ رانیہ بھاگتی ہوئی اپنی امی کے پاس گئی مگر اس کی والدہ کا بدن برف کی مانند سرد تھا۔

ان کے منھ سے الفاظ نکلے کہ میری بیٹی! تم ڈاکٹر بن کر آگے بڑھنا تاکہ کوئی تمہاری زندگی برباد نہ کر سکے۔ تمہارے بابا نے آخری حل کے طور پر مجھے اپنی زندگی سے نکال پھینکا۔ دن گزرتے گئے، رانیہ کا شمار شہر کے بڑے ڈاکٹروں میں ہونے لگا۔ آج وہ ایک نجی تقریب میں مدعو تھی تقریر کا موضوع تھا ”عورت معاشرے کا اہم ستون۔“ اس کو سٹیج پر مدعو کیا گیا تو سابقہ گزرے کئی سال اس کی آنکھوں کے سامنے دوڑ گئے۔ وہ نوجوان لڑکیوں کو ایک اہم پیغام دینا چاہتی تھی۔

گویا ہوئی کہ میرے ملک خداداد پاکستان میں عورت ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ دور حاضر میں اس نے اپنی جگہ بنائی ہے مگر جو امر باعث تشویش ہے وہ ہے ملک میں طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان۔ اسلامی جمہوریہ ہونے کے باوجود کیوں پاکستان میں طلاق کی شرح میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2022 ء میں مجموعی طور پر طلاق کے 13000 کیسز فائل کیے گئے۔ جن میں 6000 کا طریقہ کار مکمل ہوا۔ 7000 کیسز کورٹس میں زیر التوا ہیں۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ اس رجحان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔

ایک سروے کے مطابق روزانہ 100 سے زیادہ کیسز فائل کیے جا رہے ہیں۔ طلاق کیسز فائل کرنے کی زیادہ شرح خواتین کی ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں مثلاً غیر متوقع امیدیں، بے اولادی، گھریلو جھگڑے، مرد میں دوسری شادی کا رجحان اور نرینہ اولاد کا نہ ہونا وغیرہ۔ وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں طلاق ایسا فعل ہے جس کا براہ راست اثر بچوں پر پڑتا ہے۔ رانیہ کی نظروں کے سامنے وہ تمام اہم ترین سال گھوم رہے تھے جب اسے اپنے والد کی بے انتہا ضرورت تھی مگر وہ اس کی زندگی میں کہیں نہ تھے۔

اس نے اپنی ماں کی سسکیوں کو دل پر محسوس کیا۔ ماحول پہ خاموشی سی چھائی ہوئی تھی، اس حساس موضوع پر عموماً کم بات ہوتی تھی۔ جبکہ لازمی ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو ان تمام موضوعات پر آگہی فراہم کی جائے۔ ٹوٹے ہوئے گھروں کے بچوں کے پر اڑان بھرنے سے قبل ہی کٹ جاتے ہیں۔ وہ پھول کملا جاتے ہیں۔ ایک عالمی سروے کے مطابق جن بچوں کے والدین میں علیحدگی ہو جاتی ہے، وہ بچے سنگین جرائم کا شکار ہوتے ہیں اور بالآخر معاشرے میں انتشار پھیلاتے ہیں۔

بادل نخواستہ ہمارے ملک میں ایسے بچوں کی شرح میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں اس سلسلے میں حکومت خاطر خواہ اقدامات کیوں نہیں اٹھا رہی؟ آگہی مہم اور سیمینار کیوں نہیں منعقد کیے جاتے؟ مسجدیں محض فرقہ واریت کا شر پھیلانے میں مصروف عمل کیوں ہیں؟ امام کے خطبے میں مرد کو کیوں رہنمائی نہیں دی جا رہی؟ والدین اپنا کردار ادا کیوں نہیں کر رہے؟ مدارس کا نصاب تحمل، برداشت، معافی کو عملی طور پر قابل عمل کیوں نہیں بنا رہا؟

معلم کا کردار کدھر ہے؟ شادی کا فلسفہ دراصل ہے کیا؟ شادی کا لفظی معنی ہے خوشی جو محض وصول کرنے کا نام نہیں، یہ تقسیم سے بھی عبارت ہے۔ شادی دو لوگوں کا ملاپ ہے جس میں دکھ اور سکھ سانجھے ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت کے لیے براہ راست قرآن کی تعلیم اور مطالعہ ضروری ہے تاکہ انہیں اپنے فرائض اور حقوق سے آگاہی حاصل ہو۔ خاندانی نظام میں جہاں مختلف آسودگیاں ہیں وہیں کچھ مسائل بھی ہیں۔ سسرال کی خدمت کے تناظر میں بچیوں پر غیر ضروری بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔

شادی سے پہلے بچوں کو عائلی زندگی سے متعلق کوئی رہنمائی نہیں دی جاتی۔ یورپ میں آج عورت کو اپنے حقوق کا مکمل شعور ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے حقوق کو از خود پہچانا۔ آج ہماری بیٹی کیوں اپنے حقوق سے ناواقف ہے؟ کیا صرف فرائض عورت کا ذمہ ہیں۔ آج ہماری عورت کیوں اپنے حقوق سے ناواقف ہے؟ رانیہ نے طویل سانس لی اور بولی کہ میری بیٹیو! جب تک آپ خود اپنے حقوق کے لیے آواز نہ اٹھائیں گی اس وقت تک اس حلال مگر قبیح فعل کی باز گشت سنائی دیتی رہے گی۔

ساتھ ہی میں اس بات پر زور دینا ضروری سمجھوں گی کہ آشیانے کو بچانے کے لیے کوئی بھی توازن کے مدار سے نہ نکلے۔ مرد و عورت دونوں کو مساوی احترام و محبت چاہیے۔ مرد بھی اپنے نامکمل خوابوں کو چھوڑ کر بیوی بچوں کو پالنے میں لگ جاتا ہے۔ مرد کے شب و روز بھی عدم استحکام کا شکار ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مرد کے لیے بھی لازم ہے کہ اپنا محاسبہ کرے عدم برداشت رشتوں کو بکھیر دیتی ہے۔ تاریخ نے ہمیشہ عورت سے قربانی کا تقاضا کیا۔ مگر اب وقت ہے کہ والدین گھر میں مفاہمت کی فضا رکھیں۔ رانیہ نے آج ایک پیغام ہواؤں کے حوالے کر دیا جو سب کی زندگیوں کو مہکانے میں کردار ادا کرے گا۔ وہ بے حد آسودہ تھی کہ اس نے اپنا فرض نبھانے کے لیے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments