عارف عبدالمتین کی دانائی کے چشمے سے فیض حاصل کرنے والے تین پیاسے


چند دن پہلے آپ اور حامد یزدانی صاحب کے خطوط ’ہم سب‘ پر پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ سب سے پہلے تو میں آپ کا ’یزدانی صاحب اور‘ ہم سب ’کا بہت مشکور ہوں کہ ان خطوط کے حوالے سے آپ نے نئی نسل کو عارف عبد المتین کے ساتھ نئے سرے سے متعارف کروایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان کے بیٹے کی حیثیت سے جب میں نے وہ خطوط پڑھے تو اپنے والد ’جنہیں ہم ڈیڈی جان کہہ کر مخاطب کہا کرتے تھے‘ کی خوبصورت یادوں کی بہار اور برسات میں کھو گیا کہ ان خطوط کو پڑھتے ہوئے میرے چہرے پر مسکراہٹ ’آنکھوں میں آنسو اور دل میں فخر تھا۔

سہیل بھائی! آپ نے ڈیڈی کی نظم ننھا گلچیں (1) کا ذکر کیا جو میرے بچپن کی سب سے پہلی یادوں میں سے ایک یاد ہے۔ اس نظم کے پس منظر میں جو واقعہ ہے وہ میرے اور میرے ڈیڈی کے خوبصورت رشتے کا آغاز ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس وقت میری عمر بمشکل سات یا آٹھ سال ہوگی۔ میں صبح سویرے گھر کے ساتھ والے باغیچے میں جاتا تھا اور وہاں سے موتیے کے پھول چن کر لاتا تھا۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ وہاں سے گزرنے والے نمازی ان تازہ پھولوں کو چن لیتے تھے اور مجھے کوئی پھول نہ ملتا تھا اور میں ناکام واپس آ جاتا تھا۔ اس کے بعد میری کوشش ہوتی کہ میں نماز پڑھ کر واپس آنے والوں سے پہلے وہاں پہنچ جاؤں کبھی کبھار تو میں اتنی جلدی وہ پھول چننے وہاں پہنچا کہ وہ کلیاں ابھی چٹکی بھی نہیں تھیں تب مجھے یہ علم بھی نہ تھا کہ موتیا پو پھٹنے پر کھلتا ہے۔

بہر حال، میں کبھی ایک مٹھی میں اور کبھی دونوں ہاتھوں میں اور کبھی اپنے دامن میں تازہ کھلے ہوئے پھول لے کر گھر آتا تھا اور ڈیڈی صحن میں بے خبر سو رہے ہوتے تھے۔ میں وہ تازہ پھول ان کی ناک کے بہت قریب لے جاتا اور ڈیڈی ان تازہ چٹکی ہوئی کلیوں کی مہک سے جاگ جاتے اور کلیاں مجھ سے لے کر مجھے ماتھے پر بوسہ دیتے اور ان کلیوں کو اپنے سرہانے رکھ کر دوبارہ سو جاتے۔

ایک دن انہوں نے اپنی بہنوں طاہرہ اوہ مقصودہ کو ، اپنے بہنوئی خواجہ صادق حسن اور ان کے بچوں کو مدعو کیا اور اپنی نظم۔ ننھا گلچیں۔ سنائی میں اس نظم میں اپنا نام سن کر بہت خوش ہوا اور جب ڈیڈی نے آخری بند پڑھا تو سب لوگ آبدیدہ ہو گئے۔ خاص طور پر میری امی اور پھوپھو جان مگر ایک بات میری سمجھ میں نہ آئی کہ اس میں رونے والے کیا بات ہے۔ مگر جب بلوغت میں پہنچا تو سمجھ میں آیا کہ یہ بہت دلگیر نظم ہے۔ ڈیڈی کی وفات کی تقریب میں میرے ایک دوست عابد فاروق نے یہ نظم پڑھی اور سب کو رلا ڈالا۔

اب جبکہ میں خود ایک باپ ہوں تو میرے لئے یہ بہت ہی دلچسپ بات ہے کہ میں نے اپنے بچوں کے ساتھ ویسا رشتہ رکھنے کی کوشش کی جیسا کہ ڈیڈی جان کا میرے ساتھ تھا، یزدانی صاحب نے فرمایا کہ ڈیڈی انہیں ”آپ“ کہ کر مخاطب کیا کرتے تھے، یہ بات ہمارے لئے بھی بہت حیران کن اور پسندیدہ تھی کہ ہمارے ساتھ عزت کے ساتھ پیش آیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے اساتذہ دوسرے بزرگ، ہمارے رشتے دار اور دیگر جاننے والوں میں سے کسی نے بھی ہمیں اور ہمارے دوستوں کو عزت سے مخاطب نہیں کیا۔ ہم مرغا بننے سے بچنے کو بہت بڑی عزت افزائی سمجھتے تھے۔

ڈیڈی جن دنوں چشتیہ ہائی سکول میں سائنس پڑھاتے تھے تب انھوں نے میٹرک کے طلبا کی لیبارٹری میں سائنسی تجربات میں معاونت کرنے کے لئے ایک ہدایتی کتابچہ تحریر کیا تھا جس کا نام تجرباتی بیاض تھا۔ اس کتاب کی ایک خوبصورتی یہ تھی کہ وہ ان کی باقی ادبی کتابوں کی طرح پیش لفظ کے ساتھ شائع ہوئی اور اس کتاب کے پیش لفظ میں دوسرے اساتذہ کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا کہ نصاب میں شامل دوسری کتابیں جب طلبا کو ہدایت دیتی ہیں تووہ انہیں ”تم“ کہ کر مخاطب کرتی ہیں۔ ہمیں ایک استاد ہونے کی حیثیت سے طلبا کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے انہیں آپ کہہ کر مخاطب کرنا چاہے۔

1980 کی دہائی میں میں جب امریکہ منتقل ہوا اور میری اور ڈیڈی جان کی خط و کتابت شروع ہوئی تو وہ خط پر میرا نام خواجہ نوروز عارف وائیں لکھا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنا نام نوروز عارف وائیں رکھ لیا۔

سہیل بھائی! آپ نے اپنے خط میں ذکر کیا کہ ڈیڈی آپ کے مشکل سوالوں کے جواب جامع اور سہل انداز میں دیا کرتے تھے تو آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ وہ اکثر بہت گہرے سوال بھی بہت آسانی کے ساتھ پوچھ لیا کرتے تھے۔ جب میں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا تو مجھے پوچھا بیٹا نوروز آپ کا مذہب کیا ہے؟

میں نے جواب دیا الحمدللہ میں مسلمان ہوں،
ڈیڈی نے دوسرا سوال کیا جو کہ پہلے سوال سے زیادہ تگڑا تھا، فرمایا
”وہ کیوں؟
” میں نے جواب دیا
”میری خوش قسمتی کہ میں نے مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی“
فرمانے لگے ”یہ کافی نہیں ہے“

میں ان سے توقع کر رہا تھا کہ اب وہ نصیحت فرمائیں گے کہ جاؤ اور اپنے دین کا مطالعہ کرو مگر انھوں نے ایک اور بہت ہی غیر معمولی سوال پوچھا

” کیا تم نے دنیا کے باقی مذاہب کا مطالعہ کیا ہے؟ ’
میں نے عرض کیا ”نہیں“
فرمانے لگے ”تو پھر تمہیں کیسے یقیں ہے کہ اسلام تمہارے لئے ایک صحیح مذہب ہے؟
دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرو اور پھر فیصلہ کرو کہ تم نے کون سا مذہب اختیار کرنا ہے ”

یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ اسلامیات کے پروفیسر تھے، میرے خیال میں وہ مجھے اس process پراسس سے مسلمان بنتا دیکھنا چاہتے تھے جس process سے گزر کر حضرت عمر مسلمان ہوئے تھے، وہ مجھے لاکھوں اور کروڑوں مسلمانوں سے منفرد انداز کا مسلمان دیکھنا چاہتے تھے وہ، ایک ایسا believer جو اندھی تقلید نہ کرے

جیسا کہ سقراط کہا ہے کہ unexamined life is not worth living۔ انکے ساتھ اس چند منٹ کی گفتگو نے میری وہ دیوار مسمار کردی جس کے پیچھے چھپ کر اکثر انسان اپنی موروثی اقدار کے مطابق زندگی گزار کر مر جاتے ہیں۔ ان کی اس گفتگو نے مجھے اپنے اندر سے اجازت دلوا دی کہ میں دوسری روحانی اور مذہبی روایات کو جان سکتا ہوں یعنی میرا رویہ نیوٹرل ہو گیا، یقین مانئیے میں آج تک اسی سفر میں ہوں اور دینیات میرا من بھاتا مضمون ہے۔ اس کے بعد انھوں نے تصوف میں دلچسپی لینا شروع کی اور میری انگلی پکڑ کر اس چمن کی بھی سیر کروائی۔

حامد یزدانی صاحب نے ان کا سیلوز میں بیٹھنا یاد کروایا، میں اکثر ان سے ملنے وہاں جاتا تھا اور چکن پیٹی اور سوڈا پینے کو ملتا ڈیڈی جان وہاں یکسوئی کے ساتھ اپنا تحقیقی اور تنقیدی کام کیا کرتے تھے اگر کبھی سیلوز میں رش ہوتا تو وہ فلیٹیز ہوٹل چلے جاتے۔ ’امکانات‘ اور ’پرکھ پڑچول‘ جیسی کتابوں نے وہیں جنم لیا۔

ڈیڈی اپنا تخلیقی کام یعنی شاعری علی الصبح ہمارے گھر کے ساتھ سکول کے باغیچے میں کیا کرتے تھے۔

میں چونکہ ان کے ساتھ ٹائم گزارنا پسند کرتا تھا اس لیے میں اکثر انہیں ڈھونڈتا ہوا باغیچے میں جا پہنچتا تھا، ڈیڈی وہاں ٹہل رہے ہوتے تھے، وہ بہت خوش لحن تھے اور اکثر مہدی حسن کی گائی ہوئی اپنے استاد فیض احمد فیض کی غزل گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے گنگنایا کرتے تھے۔

سہیل بھائی! آپ نے ہمارے خاندان کے ساتھ ہونے والے سب سے بڑے سانحے کا ذکر کیا اور اور اس نے ڈیڈی کو کیسے متاثر کیا میرا اشارہ ہمارے تیسرے بھائی کی جواں سال موت کی طرف ہے جو کہ ایک کار کے حادثے میں ہوئی، آپ کی آبزرویشن درست ہے اس حادثے کے بعد ڈیڈی کی بیماری کھل کر سامنے آ گئی اور وہ پارکنسنز disease کی جکڑ میں آ گئے اور ان کا موت کی جانب بہت تکلیف دہ سفر شروع ہوا، انہیں اس ناگہانی موت نے اتنا کیوں متاثر کیا اس کی وجہ میری نظر میں کچھ یوں ہے کہ ڈیڈی اپنے پانچوں بچوں کو بہت پیار کرتے تھے اور ان کے مطابق ان کا ہر بچہ ان کی ذات کے کسی نہ کسی پہلو کا پر تو تھا، ڈیڈی کا ایک شعر ہے

اپنے بچوں کی طرف غور سے جب بھی دیکھا
کتنے ہی رنگوں میں نکھرا ہوا پایا خود کو

مجھے اور میری سب سے چھوٹی بہن تحسین عارف کے ساتھ ان کا تعلق تخلیقی تھا میری ان کے ساتھ نابغانہ دوستی بھی تھی جو کہ تمام عمر رہی۔ شفقت کا برملا اظہار، ہمیں گلے لگانا اور اکثر انہیں ہم سب کے طرف اچانک محبت بھری نظر سے دیکھتے ہوئے پانا ایک معمول تھا، مگر عرفی کے ساتھ وہ کچھ زیادہ ہی پیار کرتے تھے وہ ان کا سب سے پسندیدہ بیٹا تھا چونکہ وہ ہمیشہ اس کے گال پر بوسہ دیا کرتے تھے اور یہ اظہار محبت ہمیں اتنے معمول کے ساتھ نہیں ملتا تھا جتنے معمول اور تواتر کے ساتھ عرفی کو ، مجھے ابھی تک وہ دن یاد ہیں جب وہ اس کی موت کے غم سے نڈھال تھے میں امریکہ سے کال کرتا اور ہم دونوں صدمے اور غم کی وجہ بات نہیں کر پاتے تھے ہم دونوں روتے اور رو کر فون بند کر دیتے، بالآخر ایک دن انھوں نے ہمت کی اور کہا ”جب میں نے عرفی کا گال آخری دفعہ چوما تو وہ سرد تھا“ اس جملے کے بعد ہم دونوں بہت دیر تک روتے رہے اور فون بند ہو گیا۔

مجھے اپنے بھائی کے چلے جانے کا دکھ تھا جو کہ میں اپنے باپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا تھا اور اپنے دوست کو بھی دلاسا دینا چاہتا تھا جس کا جوان بیٹا کار کے حادثے کے بعد ایک گھنٹہ سڑک پر زخمی پڑا رہا اور فوری طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے اس دنیا سے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلتے دیکھے بنا اور اپنی تمناؤں کو پورا کیے بغیر اس دنیا سے چلا گیا۔ امریکہ میں میری زندگی کا تجربہ بہت مختلف تھا یہاں بہت کم لوگ حادثے کے بعد گھنٹوں شاہراہوں پر خون بہہ جانے کی وجہ سے مرتے ہیں، میں عرفی کی موت کو قتل سمجھتا تھا اور ڈیڈی نے تو اس ڈرائیور کو معاف ہی کر دیا۔

اسکے چند سالوں بعد امی اور ڈیڈی امریکہ چلے آئے اور میں نے اپنا تعلق ڈیڈی کے ساتھ پھر سے مستحکم کرنا شروع کر دیا۔

اس دور میں ان کے ساتھ گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے اندر کا آدرش پرست انسان جو کہ اپنے آدرش شاعری کی وساطت سے دنیا کے ساتھ شیر کرتا تھا وہ ایک غیر مذہبی آزاد سوچ رکھنے والے مارکسسٹ دانشور سے آگے بڑھ کر ایک بلھے شاہ جیسا انسان دوست صوفی بن چکا ہے۔

سہیل بھائی!

آپ کا خیال ہے کہ وہ اپنی بیماری کی وجہ سے آہستہ آہستہ مذہب کے طرف مائل ہوئے میرے خیال میں ایک اہم nuance یہ ہے کہ وہ مارکسسٹ تو تھے ہی مگر اسٹالن کے ظلم اور خاص طور پر چیرمین ماؤ کے ثقافتی انقلاب سے disillusioned ہوئے تھے۔ وہ ایک فنکار تھے، اور فنکار کا معاشرے سے اولین مطالبہ سوچ اور اظہار کی آزادی ہوتا ہے اور ان آدرشوں کی خاطر وہ جان تک دے دیتا ہے اور اس کے برعکس ماؤ کے ثقافتی انقلاب کا اصل مقصد

فنکار اور دانشوروں کی سوچ اور آزادی اظہار پر پابندی لگانا ہی تو تھا چونکہ وہ فن کا اولیں مقصد انقلاب کی خدمت بتاتا تھا۔ عارف صاحب اور ان کے ہم عصر یہ کام تو پہلے ہی کر رہے تھے مگر ادب کو صرف انقلاب کی خدمت پر معمور کرنا اور صحافت کے درجے پر لانا انہیں گوارا نہیں تھا۔

سہیل بھائی! ان دنوں جیسا کہ آپ کو یاد ہے، ان کی بیماری زور پکڑتی جا رہی تھی ان کے لیے کھانے والا چمچ تھامنا بھی مشکل ہو گیا تھا، کچھ لوگ ان کو نقاد کچھ انہیں دانشور اور کچھ لوگ انہیں شاعر کہتے ہیں مگر وہ اپنے آپ کو شاعر پہلے اور باقی سب کچھ بعد میں سمجھتے تھے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے سرہانے ایک نوٹ بک اور قلم رکھ کر سوتے تھے۔ ایک روز فرمانے لگے بیٹا اب جب آمد ہوتی ہے تو میں نقاہت اور بیماری کی وجہ سے وہ اشعار لکھ نہیں سکتا دعا کرو کہ اب شاعری مجھے چھوڑ کر چلی جائے۔

۔ ۔
1۔ ننھا گلچیں
۔ ۔ ۔
صبح دم جبکہ ابھی
گھر کے ہر فرد کی رگ رگ میں لہو کی صورت
عشرت خواب کی سرشاری رواں ہوتی ہے
میرا بیٹا ’مرا نوروز جھٹک دیتا ہے
نیند کی کھولتے نشے کی گرانباری کو
اور چپکے سے دبے پاؤں نکل جاتا ہے
پھول چننے کے لیے ساتھ کے باغیچے میں
اور جب لوٹ کے آتا ہے یہ ننھا گلچیں
خالی کر دیتا ہے دامن کو سرہانے میرے
۔ آنکھ کھلتی ہے تو ہر روز میں بستر پہ پڑا پاتا ہوں
کتنے ہی تازہ مہکتے ہوئے پھول
اپنے نوروز کی معصوم محبت کے دلآویز سجیلے پیکر
میں کہ ہوں عارضہ دل کا اسیر
ایک مدت سے مرا ڈھلتا پگھلتا ہوا جسم
موت اور زیست کے دوراہے پہ استادہ ہے
جانے کس لمحے یہ زنجیر تنفس کٹ جائے
اور میں راہ عدم کا وہ مسافر بن جاؤں
جس کی رفتار سے ملتا ہے قیامت کا سراغ!
سوچتا ہوں کہ جب اس لمحہ سیال کے بعد
صبح دم پھول مرے واسطے لائے گا تو بستر مرا خالی پا کر
میرا بیٹا ’مرا نوروز۔ یہ ننھا گلچیں
فکر و احساس کے کسی اجنبی گرداب میں کھو جائے گا
۔ ۔ ۔
حامد یزدانی کا خط خالد سہیل کے نام
۔ ۔ ۔
محترم ڈاکٹر خالد سہیل صاحب!
آداب و تسلیمات
جناب نوروز عارف صاحب کا خط مجھے بھیجنے کا شکریہ۔

آپ کے نام ان کے خط میں میرے اور آپ کے ان خطوط کا حوالہ موجود ہے جو ہم دونوں نے نوروز صاحب کے والد گرامی پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کی شخصیت، ان کے فن اور ان زندگی کے بارے میں تحریر کیے تھے۔ جو معروف سماجی ویب سائٹ ”ہم سب“ پر بھی شائع ہوئے اور اہل فکر و نظر کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔

مجھے خوشی ہے کہ نوروز صاحب نے ہمارے ان خطوط کو نہ صرف پسند کیا بلکہ ان میں زیر بحث لائے گئے واقعات اور موضوعات کو اپنے اولین مکتوب کی بنیاد بھی بنایا ہے اور یہ امر بے حد خوش آئند ہے اس طرح وہ اس تخلیقی مکالمے کا باقاعدہ حصہ بن گئے ہیں جو اردو شعر و ادب کی دنیا کی منفرد اور کثیر الجہت ہستی یعنی عارف صاحب کے حوالہ سے ہم نے بہت محبت سے آغاز کیا تھا۔

میں نے نوروز صاحب کا خط ایک بار پڑھا۔ پھر دوسری بار پڑھا تاکہ اس کی سطور میں موج زن ان کے خالص جذبات اور اظہار کے حسن و دل کشی سے احسن طور پر لطف اندوز ہو سکوں۔ یہ خط اردو نثر کا معیاری اور عمدہ نمونہ ہے جس میں گہری محبت، سچے احساسات اور فکر کی شفافیت کے چشمے پہلو بہ پہلو بہتے محسوس ہوتے ہیں۔

وہ اپنے پیارے ڈیڈی کو یاد کرتے ہوئے آب دیدہ ضرور ہوتے ہیں مگر حالات و واقعات کی صحت کو کسی جذباتیت سے متاثر نہیں ہونے دیتے۔ داخلیت اور خارجیت کو یوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے خرام کرتے ہم اب کم کم ہی دیکھتے ہیں۔

نوروز صاحب نے اپنے خط میں بیتے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے نہ صرف اردگرد کے ماحول کو ہماری آنکھوں کے سامنے زندہ کر دیا ہے بلکہ ان واقعات کے اسباب اور ممکنہ جواز کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے جس انداز میں عارف صاحب کی شخصیت، ان کی دلچسپیوں، اہل خانہ اور احباب کے ساتھ ان کے تعلق اور ان کی مشق سخن اور معمولات کا ذکر کیا ہے وہ متاثر کن ہے اور کم از کم میری معلومات میں تو خاطر خواہ اضافہ کرتا ہے۔

عارف صاحب کی فکری اور نظریاتی زندگی میں تغیر تبدل کی بات بھی انہوں نے نہایت عمدہ طور پر کی ہے اور زندگی میں تبدیلیوں کو خوش آمدید کہنے کی حوصلہ افزائی کا حوالہ بھی دیا ہے کہ کس طرح عارف صاحب اپنے بچوں کو غور فکر اور تجربوں کے لیے امکان کے دروازے کھلے رکھنے کا سبق دیتے ہیں اور تقابلی جائزہ کو علم و یقین کا لازمی حصہ قرار دیتے ہیں۔

دیگر حوالوں کے بعد انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح عارف صاحب خارجی سے داخلی دنیا کے فرد بن گئے اور روحانیت کے خطے کے مکین بن کر صوفی شعرا سے قریب تر ہو گئے۔ صوفی شعرا کو فی الواقع انسان دوست ہستیاں تھیں جن کا پیغام محبت رنگ و نسل و مذہب ہر تفریق سے پاک تھا۔

انہوں نے اپنے خط میں کئی ایسے یادگار واقعات اور مقامات کے حوالے دیے ہیں جو میرے لیے شناسا ہیں اور بہت کچھ ایسا بھی ہے جو میرے لیے قطعی نیا ہے۔ خاص کر نظم ”ننھے گل چیں“ کا پس منظر دل چسپ بھی لگا اور دل پذیر بھی۔ ان کے خط میں مسکراہٹیں اور آنسو ایک ہی تسبیح میں پروئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسا ہر کوئی نہیں کر سکتا۔

میں نے اس سے قبل نوروز صاحب کی کوئی تحریر نہیں پڑھی لیکن ان کا خط ان کے اندر سانس لیتے ایک عمدہ ادیب کا پتہ دیتا ہے جس سے میں بار بار ملنا چاہوں گا۔

ڈاکٹر صاحب

آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے نوروز صاحب کا ہمارے اس مکالمہ کا حصہ بننے کی دعوت دی اور یوں مجھے ایک نفیس انسان اور عمدہ لکھاری سے متعارف کروایا۔ امید ہے کہ ہم اور ادب کے دیگر قاری بھی اب ان کی تحریروں سے استفادہ کرتے رہیں گے کیونکہ آنے والے دنوں میں نوروز اور بھی لکھیں گے اور مزید اچھا لکھیں گے۔ ان شا اللہ

میں نوروز صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنے خط میں عاجز کا حوالہ بھی دیا۔ میں ہر شعبے میں ان کی کام یابی کے لیے دعا گو ہوں۔
اب جبکہ ہم پروفیسر عارف عبدالمتین صاحب کے صد سالہ جشن ولادت کی تقریبات کے آغاز کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ امید ہے کہ یہ مکتوب نگاری ’عارف فہمی‘ کے باب میں قابل توجہ اضافہ خیال کی جائے گی۔
نیک تمناؤں کے ساتھ
حامد یزدانی
13۔ دسمبر 2023
۔ ۔ ۔ ۔
خالد سہیل کا خط نوروز عارف اور حامد یزدانی کے نام
۔ ۔ ۔ ۔
نوروز عارف اور حامد یزدانی صاحبان!

آپ کے خطوط پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ ہم تینوں کی زندگیوں میں ایک قدر مشترک ہے ہم تینوں ایسے پیاسے ہیں جنہوں نے عارف عبدالمتین کی دانائی کے چشمے سے فیض حاصل کیا ہے۔

نوروز عارف صاحب! آپ نے جب مجھے بتایا کہ عارف عبدالمتین 1923 میں پیدا ہوئے تھے تو مجھے خیال آیا کہ اب 2023 ہے کیوں نہ ہم ان کا صد سالہ جشن ولادت منائیں۔ اس سلسلے میں جب میں نے فیمیلی آف دی ہارٹ سے بات کی تو وہ بھی خوشی سے راضی ہو گئے۔ اب ہم 29 جنوری کو ٹورانٹو میں ایک تقریب کا اہتمام کر رہے ہیں جس کی نظامت امیر جعفری کریں گے اور حامد یزدانی ’میں اور آپ مضامین پڑھیں گے اور سیمینار میں حاضرین سے مکالمہ کریں گے۔ مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے کہ نہ صرف آپ خود بلکہ آپ کی محبوبہ چندا اور فنکار بیٹے سروش اور آزر بھی اس محفل میں شامل ہوں گے۔

حامد یزدانی صاحب!

ہم اس تقریب میں یہ بھی اعلان کریں گے کہ ہم تینوں مل کر عارف عبدالمتین کے حوالے سے ایک کتاب لکھ رہے ہیں جو ان کے دوستوں ’شاگردوں اور پرستاروں کے لیے ہمارا ایک ادبی تحفہ ہو گا۔ میں آپ کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کیونکہ میں اس خواب کو آپ کے تعاون کے بغیر شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا تھا۔

آپ کا ادبی ہمسفر
خالد سہیل
14 دسمبر 2023
۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments