میریٹل ریپ اور ہمارا سماج


میریٹل ریپ یعنی بیوی سے بالجبر، غیر مطلوب یا بے خواہش مباشرت کرنا۔ اس کو ہمارے ہاں عرف عام میں ”بیوی سے ریپ یا زنا بالجبر کرنا“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

بیوی سے ریپ یا زنا بالجبر، یہ ہمارے سماج کے لیے ناقابل فہم تعبیر ہے کیونکہ زنا کا تصور اپنے اندر یہ مفہوم لیے ہوئے ہے کہ کوئی شخص بغیر نکاح کے کسی کے ساتھ مباشرت کرے، اپنی بیوی سے مباشرت زنا یا ریپ کیسے ہو سکتی ہے؟

کیا بیوی سے جنسی زیادتی نہیں ہو سکتی؟ یا نہیں ہوتی؟ بالکل ہوتی ہے۔ یہ قابل فہم اور سماجی سطح پر موجود ایک حقیقت ہے۔ لیکن کیا بیوی سے جنسی زیادتی کو بھی زنا یا زنا بالجبر کہا جائے گا؟

بے خواہش یا غیر مطلوب مباشرت یعنی جب بیوی مباشرت کے لیے تیار نہ ہو، اس کا موڈ اور رضامندی نہ ہو یا رومانوی کیفیت کی بجائے مجبوراً شریک ہو۔ کیا زوجین کے درمیان ہر ایسی مباشرت ریپ کہلائے گی؟

یہ الجھن ہے جو عام آدمی کو میریٹل ریپ کی تعبیر کو سمجھنے اور قبول کرنے میں حائل ہے۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ زنا کیا ہوتی ہے۔ جبراً بھی کی جا سکتی ہے۔ بیوی سے زنا، اس سے وہ آشنا نہیں۔ وہ جب سنتا ہے میریٹل ریپ تو اس کا اطلاق نہیں کر پاتا، وہ یہی سمجھتا ہے کہ یہ کسی اور دیس کی بات ہے جہاں زنا کا تصور نہیں ہوتا صرف ریپ ہوتا ہے۔

میری مراد ہرگز یہ نہیں کہ ہمارے سماج میں بیویوں سے جنسی زیادتیاں نہیں ہوتیں۔ مجھے معلوم ہے کہ ہمارے ہاں جنسی زیادتی کے کیسے کیسے بھیانک انداز ہیں۔ عورتوں کو ان چاہے مردوں کے ساتھ برسوں رہنا پڑتا ہے۔ مار پیٹ سہ کر بھی ساتھ سونا پڑتا ہے۔ سارا دن گھر کے کام کاج اور بچوں کی فوج ظفر موج کی دیکھ بال کے بعد بھی روٹی کچی پکی ہونے پر تذلیل سہ کر شوہر نامدار و نامراد کی مردانگی کے اسٹیج پر اسے خود کو بچھانا پڑتا ہے۔ اپنی جنسی ضرورتوں کو تج کر مرد کی خواہش پوری کرنی پڑتی ہے۔ غیر صحت بخش ماحول میں اپنی جان پر کھیل کر بھی بچے جننے پڑتے ہیں۔ یہ ہمارا ایک سفاک پہلو اور مستقل نوحہ ہے۔

بات صرف اتنی ہے کہ ہمارے درد اپنے ہیں۔ ہمارے مسائل اور معاملات کی نوعیت مختلف ہیں۔ ہمیں اپنے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے، اپنے اجتماعی سماجی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے قدم اٹھانے چاہئیں۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو لیکن وہ ہے۔ کتنی ہی خرابیوں کا حامل کیوں نہ ہو خوبیاں بھی ضرور رکھتا ہے۔ یقیناً ہمارے اہل علم اپنی عقل و دانش سے ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔ چاہے وہ بائیں بازوں کے ہوں یا دائیں، خود کو مذہبی سمجھتے ہوں یا فلسفی لیکن سب اس سماج کا حصہ ہیں۔ اس سماج کو سمجھتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں، سماج کے مسائل کا حل فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آپ اہل علم ہیں، عالمی ادب پر دسترس اور حالات کی معلومات رکھتے ہیں۔ عوام ان سے نا آشنا ہیں۔ وہ تو معاشرتی، خاندانی اور مذہبی روایات سے سیکھتے ہیں۔ ان ہی تعبیروں کو اپنا سمجھتے ہیں۔ مقامی استعاروں اور تصورات سے آگاہی رکھتے ہیں۔ ان کو اپنی زمین کی حالت زار دکھائیں گے، اپنے درد سے آشنائی دلائیں گے تو وہ سمجھ پائیں گے اور عمل کی بھی کوئی سبیل پیدا ہوگی۔ بس، مؤدبانہ گزارش اتنی ہے کہ آپ چاہے فلسفہ سے، سائنس سے، مذہب سے، سماجیات یا نفسیات سے، جو بھی بیان کریں، اپنے لوگوں سے اپنی زبان میں بات کریں۔

سونپو گے اپنے بعد وراثت میں کیا مجھے
بچے کا یہ سوال ہے گونگے سماج سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments