نیلم احمد بشیر کی کتاب: چار چاند


یہ وہ دن تھے جب ہم پرائمری کلاسز کے طالب علم تھے۔ پی ٹی وی اکلوتا چینل ہوا کرتا تھا اور کافی تھا۔ معین اختر اور بشری انصاری کے ڈرامے یا پروگرام آن ائر ہوا کرتے تھے! مزاح سے بھرپور!

یہ بشریٰ انصاری صاحبہ سے ہمارا ابتدائی تعارف تھا۔ نقطے ملانے کا عمل یہیں سے شروع ہوتا ہے۔ مجھے ایپل کمپنی کے سی ای او ہمیشہ ماضی کو بیان کرتے وقت یاد آ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر زندگی میں واقعات کا تسلسل دیکھنا ہو، کڑی سے کڑی ملانا ہو تو ہمیں پیچھے ماضی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ نقطے سے نقطہ مل کر کہانی بنتی ہے!

کئی برس یوں ہی گزر گئے۔ بڑی ہی زندہ دل اداکارہ ہیں بشریٰ انصاری صاحبہ۔ سن دو ہزار نو میں میں نے ”الکھ نگری“ کتاب خریدی جس کے مصنف ممتاز مفتی صاحب ہیں وہاں ایک نہیں، بلکہ کئی ایک جگہوں پر ”احمد بشیر صاحب“ کا تذکرہ پڑھا۔ سوچا کہ دوست ہوں گے گہرے، احمد بشیر صاحب سے ایک واجبی سا تعارف ذہن میں بیٹھ گیا۔ وقت گزرا، اور، چند برس مزید گزر گئے۔ کیا تعلق تھا احمد بشیر صاحب اور ممتاز مفتی صاحب کا، وہ انڈرسٹینڈنگ جو تھی بہت میچور تھی، قابل تحسین اور قابل تعریف تعلق تھا ان کا آپس میں۔

میں ایسے ہی تعلقات کی تلاش میں رہا ہوں کہ ایسے تعلقات خدائے بزرگ و برتر کا عظیم ترین تحفہ ہیں۔ جہاں آپ کو اپنا مدعا بیان نہیں کرنا پڑتا۔ پھر میں نے بشری انصاری صاحبہ کا ڈرامہ ”آنگن ٹیڑھا“ دیکھا غالباً سنجیدگی اور شعور کے ساتھ 2018 میں، بارہا دیکھا اور اب بھی دیکھتا ہوں۔ جب دل اوب سا جاتا ہے، جب گھبرا جاتا ہوں، سہم جاتا ہوں۔ وہ ڈرامہ نہیں، ایک تھراپی ہے۔ ساری بوریت ختم کر دیتا ہے۔ اسی طرح چند اور برس بیت گئے۔

پچھلے برس مجھے خاکے لکھنے کا جنون تھا جنون تھا کہ مجھ پر حملہ آور ہوا تھا۔ میں نے ”اردو کے شاہکار خاکے“ کے نام سے کتاب منگوائی تھی۔ دو جلدوں پر مبنی یہ ایک ضخیم کتاب ہے۔ اور پڑھنا شروع کیا۔ سردیوں کی راتیں تھیں اور کتاب، دیر گئے تک پڑھتا رہتا۔ وہ بھی ایسی ہی کوئی رات تھی میں کتاب کی ورق گردانی میں گم تھا کہ ایک خاکہ نظر سے گزرا، لکھنے والی کا نام ”نیلم احمد بشیر“ تھا۔ میرا دھیان یا خیال اس طرف نہیں گیا کہ یہ نیلم احمد بشیر، اسی احمد بشیر صاحب کی بیٹی ہیں جو ممتاز مفتی صاحب کی کتاب میں بڑے دھڑلے اور حق داری کے ساتھ جلوہ افروز تھے۔

خیر، وہ خاکہ جو کا عنوان ”خوشیا“ تھا شاعر افتخار نسیم صاحب کی شخصیت پر لکھا ہوا تھا۔ بہت ہی سادہ اور زبردست خاکہ تھا، چوں کہ میں خواتین رائیٹرز کو کم پڑھا ہے اوائل عمری میں ”عمیرہ احمد“ کے اسلامی ٹچ والے افسانے اور ناول پڑھے تھے۔ تو اس خاکے میں جو حالات و واقعات درج تھے دراصل نیلم احمد بشیر صاحبہ کو مشہور ایکٹریس ”شبانہ اعظمی“ سے ملنے کا شوق تھا اور یہ شوق انہی افتخار نسیم صاحب تک لے گیا۔ جب ان کا تعارف افتخار نسیم صاحب سے ہوا اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کے بیوی بچے گھر بار؟ تو انہوں نے جواب دیا کچھ اس طرح کہ ذرا یہ ملاحظہ فرمائیں :

”میری کوئی بیگم نہیں، البتہ ایک لائف پارٹنر ضرور ہے۔ دراصل میں ایک گے ہوں“ ۔ بالکل نارمل جیسے بات چیت ہوتی ہے۔ اور آفٹر آل نیلم احمد بشیر صاحبہ ایک مشرقی اور پاکستانی خاتون ہیں ان کا ردعمل اسی تناسب سے تھا یعنی آنکھیں جھکا کر جملے کو نظر انداز کر دینا جیسے شاید سنا ہی نہ ہو

بہت سارے خوبصورت جملوں کا بیان اس خاکے میں موجود ہے
جب ایک جگہ محبت کا تذکرہ ہوتا ہے تو

” اور یہ محبت بھی آخر کیا چیز ہے؟ ایک اعتماد کا نام ہی تو ہے، زندگی میں کوئی تو ایسا ہے جس کے ساتھ آپ کھل کر بات کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ ہر ایک سے تو بات بھی نہیں کی جا سکتی“ ۔

انداز بیاں ایسا ہے نہ جیسے بالکل ایک عام رواجی انداز میں باتیں کی جائیں، اور انہیں ویسے ہی لکھا جائے،

دیکھیے :
”قدرت جب کسی کو مرد بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے تو عورت بنا دیتی ہے“ ۔

یہ خاکہ پڑھنے کے بعد ، دو تین دن گزرے اور خاکے پڑھتے پڑھتے میں ایک اور خاکے تک پہنچ گیا دراصل نیند نہیں آ رہی تھی میں اپنے ایک محسن دوست کی رہائش گاہ پر موجود تھا، وہاں میری کتابوں کا سو ڈیڑھ سو کا اسٹاک موجود رہتا تھا ان دنوں۔ اور نیند نہ آنے کی صورت میں نے کتاب اٹھا لی اور لیٹے لیٹے پڑھنے لگا، ”چار چاند“ کے عنوان سے ایک خاکہ تھا یا ایک کتابچہ تھا، وہ خاکہ پڑھتے پڑھتے محسوس ہوا کہ پورا کیے بنا نہیں رکھ پاؤں گا۔

یہ وہ نقطہ تھا جہاں پر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ سارے نقطے مل گئے اور نقشہ اور تصویر واضح طور پر مکمل کو گئے۔ ڈاٹس ڈاٹس ملاتے ایک تصویر مکمل ہو کر جلوہ نما ہوئی۔ پوری فیملی کی تصویر۔

احمد بشیر صاحب کی فیملی ایک مکمل فیملی ہے۔ اس خاکے میں میں نے جانا فیملی اس طرح بھی ہوتی ہے۔ پھپھی اور بھتیجیوں کے رشتے کا پہلو یوں بھی ہوتا ہے۔ والد اور والدہ کا بیٹیوں سے ایسا بھی تعلق ہوتا ہے۔ اور بہنوں کا تعلق بھائی کے ساتھ جب چار بہنیں ہوں تو پانچواں بھائی بھی بہن ہی بن جاتا ہے، دلارا، اس کے سارے چونچلے اور لاڈ پورے ہوتے ہیں اور میں نے دیکھا کہ بھائیوں کی موجودگی میں بہن بھی بھائی کا درجہ رکھنے لگتی ہے۔

ہم دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ہمیں کبھی بہن نہیں بھائی ہی محسوس ہوئی۔ یاد آیا کہ امی کی فیملی میں بھی وہ چار بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ مماثلت تلاش کرتا۔ رہتا ہوں خاکہ پڑھتے ہوئے یہ بھی عجیب عادت ہے۔ خیر، ایک اپنی ہی طرز کا انوکھا خاندان، جہاں رشتے تعلقات اپنی جگہ پر جو ہیں جیسے ہیں کی بنیاد پر موجود تھے۔ وہ ممتاز مفتی ہو، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، قدرت اللہ شہاب، ابن انشاء یا اور احباب ان کے۔ ممتاز مفتی اپنے اصلی الفاظ میں احمد بشیر کا پوسٹ مارٹم کرتا رہتا نظر آتا ہے، شاید میں یہاں وہ الفاظ درج نہ کر سکوں۔ اس کے ساتھ پروین صاحبہ جو پھپھی ہیں۔ وہ اتنے فری سٹائل میں بات کرتی ہیں کسی طرح کوئی اجنبیت نہیں کوئی احسانات نہیں، کوئی تشکر نہیں۔ ممتاز مفتی جیسے اس گھر کا الہ دین کا چراغ ہے۔ اس فیملی میں ہر جگہ ممتاز مفتی موجود ہے۔

اپنا خاکہ بیان کرنا بھی کچھ ایسا آسان نہیں اور نیلم احمد بشیر صاحبہ نے بخوبی اسے سر انجام دیا ہے جیسے نازک اور نفیس چترکاری اور ذری گوٹے کا کام ہو۔ کہا کہنے!

ایم ایس سی نفسیات کے بعد ان کا ادب کی طرف رجحان تھا اور شادی اور امریکا کے واقعات جو بیان کیے ہیں ان کے حساب سے محسوس ہوتا ہے شادی کی غلطیاں ہو جاتی ہیں تو انسان کرچیاں بن کر بکھر جاتا ہے۔ (شاید یہی کوئی تحت الشعور میں ڈر موجود ہے جو میں ابھی تک شادی کا فیصلہ نہیں کر پا رہا) ان کرچیوں کو سمیٹ کر اپنی شخصیت میں واپس پیوست کرنے والی شخصیت کو نیلم احمد بشیر صاحبہ کہتے ہیں۔ میں شاید ایگزیجیریشن سے کام لے رہا ہوں ایسا محسوس ہو سکتا ہے پڑھنے والوں کو لیکن کہوں لیکن جو واقعات تسلسل کے ساتھ بیان کیے ہیں انہوں نے، وہ ایک پورا اٹیک ہیں اور اس اٹیک سے بچ نکلنے والی نیلم احمد بشیر صاحبہ نے پھر ادیبہ تک کا سفر کیا اور یہ معجزہ ہے ذرا چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں :

احمد بشیر کوئی عام سے روایتی باپ نہیں۔ ان کی سوچ مرالی اور مختلف ہے۔ نیلم گھر کی سب سے بڑی اور ذمہ دار سمجھتی جانی والی بیٹی تھی۔ ایک روز انہوں نے اسے پاس بلایا اور کہا ”ٹولنٹن مارکیٹ جاؤ اور مرغی خرید لاؤ“ اس وقت نیلم کی عمر بارہ تیرہ برس تھی۔ وہ گھبرا گئی اور گھگھیا کر بولی ”کیسے؟ لو بھلا اس میں کیا مشکل ہے؟ انہوں نے اسے سمجھایا“ ایک نمبر بس میں چڑھو، ٹولنٹن مارکیٹ جا اترو، اندر جا کر مرغی خریدو اور اسی طرح واپس آ جاؤ ”یہ اسباق کون سا باپ دیتا ہے؟

ایک روشن خیال، باشعور والد جو زمانے کے چال اور تبدیلیوں سے اچھی طرح واقف تھا اس کے اپنی بیٹیوں کی تربیت اس ماحول میں ایڈوانس شروع کر ڈالی۔ ان کو فرض سے آگاہ کر دیا۔ ان کے اذہان میں ہمت کے بیج بو دیے۔ ایک دور رس نگاہ، دیکھ رہی تھی، اپنی بیٹی کو سارے واقعات اور ذمہ داریاں سمجھا اور سکھا رہے تھے کہ کیسے باپ تھے؟ جو بیساکھیاں چھین کر چلنا سکھا رہے تھے کہ تا عمر بیٹی سہاروں پر دار و مدار نہ رکھے۔ پھر وہی بیٹی ڈرائیونگ، دفتری معاملات، بل جمع کروانا، کتابیں چھپوانا پبلشرز سے ملنا اور غرض کہ سارے کام جو مرد حضرات بھی گھبراتے ہیں سیکھ گئیں۔ وہ آہنی بیٹی بن گئیں۔

پھر سنبل (پپو) صاحبہ کا تذکرہ ہے کیسی محبت سے گندھی ہوئی تصویر بنائی ہے الفاظ سے، کیا یہ کاریگری نہیں؟ ان کی سریلی آواز، اسکول کے قصے، بھوک سے نڈھال دوپہریں اور شام کی چائے سب ہی تو ہیں۔ یہ زندہ دلی بہنوں میں کہاں ملتی ہے؟ دیکھیے

احمد بشیر نے اپنے گھر میں نیکیوں کے کئی پراجیکٹ شروع کیے ہوئے تھے۔ کسی نوکر کو کتا کاٹ جائے تو چودہ روز تک اس کو ٹیکے لگوانے کی ذمہ داری نیلم کی تھی۔ سنبل کے ذمے ایک نابینا لڑکے محمد حسین کو پڑھانا تھا۔

پھر جب میں اس حصے تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ گوپی عرف بشریٰ انصاری صاحبہ ان کی بہن ہیں تو معمہ حل ہو گیا، پوری خاندان کی تصویر واضح ہو گئی۔ وہ لکھتی ہیں کہ

”یہ چاند صرف ان کے گھر ہی میں نہیں چمکا بلکہ اس کی روشنی سے پورا پاکستان ہی منور ہے“ ۔

گوپی جو کہ بعد میں بشری انصاری بنیں، بہت دبلی تھی اس لیے نیلم اور باقی بہنوں کو ہر وقت اس کی صحت کی فکر رہتی تھی۔

یہ جو سلسلہ ہے نہ چار چاند کا یہ سنگم پانچ ندیوں کا کیا ہی خوبصورت بیان ہے

چوتھا چاند مانو مطلب اسماء صاحبہ کا خاکہ ہے، وہ بھی بے حد خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کیا کم بات ہے کہ ”مانو نے شادی کے بہت سے شروع کے سال اپنے شوہر کی بڑی اور پہلی بیوی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے رہتے گزارے اور پھر ایسا وقت آیا کہ بڑی اور چھوٹی بیگم میں بہنوں جیسا سلوک ہو گیا۔

پتہ نہیں مانو رابعہ بصری ہے کہ نہیں مگر ایک شہر نیک روح ضرور ہے جو انسانیت کی خدمت کے لیے ایدھی کی طرح ہر وقت کمر بستہ رہتی ہے۔

ستائش اور صلے کی پرواہ کیے بنا ایک عرصے سے روحی بانو کی گارڈین اینجل بنی ہوئی ہے۔

کیا ایسی روحیں موجود ہیں اس دنیا میں یہ محبت یہ تعلقات یہ انسیت یہ باہمی معاملہ فہمی، کہاں ملتے ہیں ایسے لوگ اور وہ بھی ایک جگہ پر؟

پھر ایک اور جگہ نیلم احمد بشیر صاحبہ نے لکھا تھا کہ ان کی ایک بہن کی وفات کی خبر اب تک انہوں نے اپنی والدہ کو نہیں دی۔ اور جب جب والدہ سے بات کرنی ہوتی ہے تو بشریٰ انصاری صاحبہ ان کے ساتھ اپنی بہن کی آواز میں بات کر لیتی ہیں۔ یہ کیسی محبت کیسا عشق اور ساتھ ہے بہنوں کا۔ بے لوث اور جذب و سرور سے گندھی محبت ہے!

اس کتاب کو پڑھنے کے بعد تحریر کی سادگی آپ کو سمجھ آ جائے گی، کہ سامنے بیٹھے ہوئے کرسی پر کوئی آرام سے آپ کو قصہ سنا رہا ہو۔ ایک دیو مالائی داستان جسے سن کر آپ کھو جاتے ہیں۔ ان کے بچپنے سے لے کر سب تک کے حالات کی فلم کی ریل آنکھوں کے سامنے چلنے لگتی ہے۔ نیلم احمد بشیر صاحبہ کی خوبی ہے کہ یہ آپ کو ساتھ لے کر چلتی ہیں خود غائب کو جاتی ہیں۔ آپ زمانوں کی وادیوں میں نظارہ کرنے لگتے ہیں اور ایک ایسے اور بوجھل سا دل لے کر بیٹھ جاتے وہیں سستانے لگتے ہیں۔ سوچتے ہیں کہ اس طرح بھی لوگ ہوتے ہیں؟ یا ہوا کرتے تھے یا نا پید ہو گئے؟ کیسے کیسے لوگ ہمارے معاشرے میں موجود تھے جو معاشرے کی روح تھے اور ہیں۔ جو آنے والے زمانوں کی آہٹیں سنتے تھے۔ بس یوں ہی یہ چار چاند بھی پاکستان میں موجود ہیں جن کے وجود سے رونقوں کو دوام ہے۔

باقی کتاب کو پڑھیے۔ ایک ایک لفظ سے آپ کو اپنائیت کی خوشبو ملے گی محسوس ہو گا کہ یہ آپ ہی کی داستان ہے! آپ کو بھی کہیں اپنے خاندان میں ایک کردار نظر آئے گا احمد بشیر صاحب کی طرح، نیلم احمد بشیر صاحبہ کے جیسا اور مانو، پپو یا گوگی کے جیسا زندہ دل نرم دل نیکیاں اور مسکراہٹیں بکھیر دیا کرتا کردار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments