بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر کی ’جادو‘ سے جاوید اختر بننے کی کہانی


بالی وڈ کے معروف نغمہ نگار اور سکرپٹ رائٹر جاوید اختر کی والدہ کو خطوط لکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ تقریباً روزانہ خط لکھتی تھیں۔

اپنے شوہر جاں نثار اختر کو لکھے ایک خط میں انھوں نے جاوید کے بارے میں لکھا تھا کہ ’جادو‘ کے حالات سنانے کے نہیں، بس دیکھ سکتے ہو۔ وہ باتیں تو بے تحاشہ  بناتے ہیں۔ پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے دادا کون ہیں تو جواب ملتا ہے ’سٹالن‘ اور تمہارے چچا کا نام ’چاچا دالب‘ (غالب)۔‘

جاوید اختر لکھتے ہیں: ’میرے والدین کی شادی کو نو سال ہوئے تھے اور اس میں سے زیادہ تر وقت وہ جدا جدا ہی رہے تھے۔‘

جاوید اختر 17 جنوری سنہ 1945 کو گوالیار کے کملا ہسپتال میں پیدا ہوئے۔

جاوید اختر بتاتے ہیں: ’جب میرے والد کے دوست مجھے دیکھنے آئے تو ان میں سے کسی نے پوچھا کہ اس کا نام کیا رکھو گے؟ انھوں نے ہی میرے والد کو یاد دلایا کہ جب انھوں نے میری ماں سے شادی کی تھی انھوں نے ایک نظم لکھی تھی جس کا ایک مصرعہ تھا ’لمحہ لمحہ کسی جادو کا فسانہ ہوگا‘ تو کیوں نہ اس لڑکے کا نام جادو رکھ دیا جائے؟‘

’چار سالوں تک مجھے اسی نام سے پکارا گیا۔ جب سکول جانے کی بات آئی تو سب نے کہا کہ ’جادو‘ کوئی سنجیدہ نام نہیں ہے، ہر کوئی اس کا مذاق اڑائے گا۔ اس لیے  کوئی ایسا نام ڈھونڈنے کی کوشش شروع ہوئی جو جادو سے ملتا جلتا ہو، تو اس طرح میرا نیا نام جاوید اختر رکھا گیا۔ عام طور پر گھر کا نام اصل نام سے بنایا جاتا ہے لیکن میرے ساتھ اس کے برعکس ہوا۔ لیکن پھر بھی میرے گھر والے اور میرے پرانے دوست مجھے جادو ہی کہتے ہیں۔‘

کان میں کمیونسٹ مینیفیسٹو (منشور) پڑھا گیا

جب کسی مسلمان گھر میں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان پڑھی جاتی ہے۔

جاوید اختر بتاتے ہیں: ’میرے پیدا ہونے کے بعد میرے والد کے دوستوں نے کہا کہ تم اللہ کو نہیں مانتے، تم ملحد ہو، تم کیا کرو گے؟ ان کے ایک دوست کے ہاتھ میں مارکس کا کمیونسٹ مینیفیسٹو تھا۔ میرے والد نے کہا کہ ذرا دینا مجھے۔ اس کے کان میں وہی پڑھ دیتے ہیں اور انھوں نے واقعی میرے کان میں پڑھا، ’ورکرز آف دی ورلڈ یونائیٹ، یو ہیو نتھنگ ٹو لوز بٹ یور چینز‘ (یعنی دنیا کے کارکنو متحد ہو جاؤ، تمہارے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے سوائے اپنی زنجیروں کے)۔‘

جاوید کی اپنے والد جاں نثار اختر سے کبھی نہ بنی

جاوید بتاتے ہیں: ’بعض اوقات بچے کی شکایت ہوتی ہے کہ ہمارے والد کو جیسا ہونا چاہیے وہ ویسے نہیں ہیں۔ لیکن ہر آدمی سب کچھ نہیں بن سکتا۔ وہ بنیادی طور پر شاعر تھے۔ عام طور پر ایسا فنکار دوسرے معاملات میں غیر ذمہ دار ہو جاتا ہے۔  تو وہ بھی تھے۔‘

جاوید اختر نے اپنے ابتدائی ایام لکھنؤ، علی گڑھ اور بھوپال میں گزارے۔

حال ہی میں جاوید اختر کی سوانح عمری ’جادونامہ‘ لکھنے والے اروند منڈلوئی کہتے ہیں: ’جاوید اختر کی زندگی میں بہت سی پریشانیاں رہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر جب وہ بھوپال میں تھے تو وہ صفیہ کالج کے ایک کمرے میں رہتے تھے جہاں بہت کھٹمل تھے۔ جاوید صاحب کے کھانے کی رفتار اتنی تیز ہے کہ وہ تین منٹ میں کھانا کھا لیتے ہیں، اس کی بھی ایک وجہ ہے۔‘

’وہ جس ہوٹل میں کھانا کھاتے تھے وہ ادھار پر کھانا دیتا تھا۔ اس کے مالک کے آنے سے پہلے کھانا کھا کر نکل جانا پڑتا تھا۔ جاوید صاحب کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو وہ کھلے طور پر اسے قبول کرتے ہیں۔‘

’بہت سے لوگوں کو انھوں نے مواقع دیے۔ شنکر مہادیون، ستیش کوشک، امیتابھ بچن، لیکن میں نے کبھی ان کے منھ سے نہیں سنا کہ میں نے فلاں فلاں شخص کے لیے یہ کیا ہے۔‘

تمام تر جدوجہد کو لیے جاوید اختر ڈائریکٹر بننے کا خواب لے کر 4 اکتوبر سنہ 1964 کو بمبئی سنٹرل سٹیشن پر اترے۔

مینا کماری کی فلم فیئر ٹرافی

بمبئی آنے کے چھ دن بعد انھیں اپنے والد کا گھر چھوڑنا پڑا۔ اس وقت ان کی جیب میں 27 پیسے تھے۔ انھوں نے اپنی جدوجہد کے ابتدائی ایام کبھی کمال سٹوڈیو میں، کبھی اس کے احاطے میں، تو کبھی برآمدے میں، کبھی کسی درخت کے نیچے یا کسی بینچ پر سو کر گزارے۔

ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے جاوید اختر کہتے ہیں: ’ان دنوں مینا کماری کمال صاحب سے الگ ہو گئی تھیں اور ان کی فلم پاکیزہ کی شوٹنگ بند ہو گئی تھی۔ وہاں ایک کاسٹیوم روم تھا، پاکیزہ کے ملبوسات وہیں رکھے ہوئے تھے۔ وہاں رہنے کے دوران ایک دن میں نے ایک الماری کھولی تو میں نے اس میں پرانے زمانے کے جوتوں اور فلم میں استعمال ہونے والے سینڈل دیکھے۔ انھی میں مینا کماری کے تین فلم فیئر ایوارڈز بھی دھول میں اٹے پڑے تھے۔‘

’وہاں ایک آدم قد آئینہ بھی تھا، جب آس پاس کوئی نہیں ہوتا تھا تو میں ہر رات کمرے کو اندر سے بند کر لیتا تھا اور وہ ٹرافی ہاتھ میں لیے آئینے کے سامنے کھڑا ہو جاتا اور سوچتا تھا کہ جب مجھے یہ ٹرافی ملے گی تو ہال تالیوں سے گونج رہا ہوگا اور میں وہاں بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر کس طرح مسکراؤں گا، کیسے ہاتھ ہلاؤں گا۔ زندگی میں پہلی بار میں نے کسی ایوارڈ کو ہاتھ لگایا، وہ مینا کماری کی فلم فیئر ٹرافی تھی۔‘

سنہ 1967 میں جاوید اپنے والد جاں نثار اختر کی فلم ’بہو بیگم‘ کے پریمیئر میں پہنچے۔

‘ہپی’ جیسی شکل والے جاوید اختر

اردو کی معروف ادیب قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں: ’اسی پریمیئر میں واجدہ تبسم نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’یہ اختر بھائی کا بیٹا جادو ہے۔‘ اس وقت میرے لیے یہ پیش گوئی کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ لڑکا مستقبل میں بہت مشہور ہو جائے گا۔ مجھے وہ ہپی جیسا معلوم ہوا، اس نے اپنی کلائی پر ہپیوں والا بریسلٹ پہن رکھا تھا اور سرپھرا نظر آ رہا تھا۔‘

’بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کڑا (بریسلٹ) ایک سکھ دوست مشتاق سنگھ کی نشانی ہے جو مشکل وقت میں کام آیا تھا۔ جاوید نے صرف اپنے ہنر اور مزاح کے بل بوتے پر دنیا کا مقابلہ کیا۔ اسے مزاح اور لطیفے اور محفل جمانے کا فن اپنے ماموں مجاز (معروف شاعر اسرار الحق مجاز لکھنوی) سے ملا تھا۔‘

جاوید اختر

سلیم خان کے ساتھ ٹیم

جاوید اختر نے سب سے پہلے ڈائریکٹر کمال امروہی کے لیے 50 روپے ماہانہ تنخواہ پر کلیپر بوائے کے طور پر کام کیا۔

اس کے بعد انھیں ایس ایم ساگر کے ہاں ملازمت مل گئی۔ سلیم خان ان کی فلم میں رومانوی کردار ادا کر رہے تھے۔

ساگر کو اپنی فلم کے لیے کوئی ڈائیلاگ رائٹر نہیں مل رہا تھا۔ انھوں نے جاوید سے پوچھا کہ کیا وہ سین لکھ سکتے ہیں؟

انھوں نے دو تین سین لکھ کر دکھائے، جو ساگر صاحب کو پسند آئے۔ ساگر نے انھیں کہانی کو سکرین پلے میں تبدیل کرنے کا کام دیا۔

یہ بھی پڑھیے

ششی کپور: ہندی سینما کے ہینڈسم اداکار، جنھیں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے ’نقصان‘ اٹھانا پڑا

وزیر اعظم مودی کی ایک خاموشی کی تعریف اور ایک پر تنقید

جب ایک خوبصورت لڑکی نے کیفی اعظمی کے لیے اپنی منگنی توڑ دی

اس فلم میں سلیم اور جاوید نے پہلی بار ایک ساتھ کام کیا۔ اس طرح دونوں نے مل کر فلم ’ادھیکار‘ کا سکرین پلے لکھا، لیکن فلم کے کریڈٹ میں ان کا نام نہیں دیا گیا۔

اس کے بعد دونوں رمیش سپی کے سٹوری ڈیپارٹمنٹ میں شامل ہو گئے۔

جاوید یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’رمیش سپی ’انداز‘ بنا رہے تھے جس میں ہم نے کام کیا اور ہمیں بلنگ بھی ملی تھی، لیکن اس بلنگ میں ہمارے دونوں نام الگ الگ لیے گئے، سلیم خان اور جاوید اختر۔ اس کے بعد پہلی بار ’ہاتھی میرے ساتھی‘ میں سلیم-جاوید کے نام سے بلنگ ہوئی۔‘

پہلی بار پوسٹر پر مصنف کا نام

اس جوڑی نے لگاتار نو سپرہٹ فلمیں دیں۔ ان کی چوتھی فلم ’زنجیر‘ ہٹ ہوئی تو سلیم جاوید نے کہا کہ پوسٹر پر ہمارا نام بھی ہونا چاہیے۔

جاوید یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’جب ہم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ جب زنجیر بمبئی میں ریلیز ہوئی تو ہم نے دو جیپیں کرایہ پر لیں، ان میں 3-4 لوگوں کو بٹھایا، انھیں سیڑھیاں اور پینٹ فراہم کیا اور انھیں بتایا کہ بمبئی میں جہاں بھی زنجیر کے پوسٹر نظر آئیں وہاں لکھیں: رٹن بائی سلیم-جاوید۔‘

’رات بھر وہ جیپیں گھومتی رہیں اور ہر پوسٹر پر سلیم جاوید کا نام لکھ دیا گيا، اس کے بعد سے پوسٹرز پر مصنفین کا نام لکھا جانے لگا۔‘

جب فلم ’ترشول‘ ریلیز ہوئی تو جوہو میں ایک فلم کا بہت بڑا پوسٹر لگایا گیا، جس میں نہ تو ہدایت کار کا نام تھا اور نہ ہیرو یا ہیروئن کا۔ پوسٹر پر صرف لکھا تھا ’اے فلم بائی سلیم جاوید۔‘

سلیم-جاوید کی لکھی ہوئی فلموں میں دونوں سکرپٹ ساتھ لکھتے تھے لیکن مکالموں کی ذمہ داری جاوید اختر کے ذمے تھی۔

فلم ڈائریکٹر ونے شکلا کا کہنا ہے کہ ’جاوید اپنے مکالموں میں ریٹروک (بیان بازی) کا استعمال کرتے ہیں، ان کی بیان بازی عام لکھاریوں کی طرح لفظوں کی بھرمار نہیں ہے۔ اگر وہ لفظوں سے کھیلنا جانتے ہیں تو ان کے سکرپٹ میں خاموشی کا استعمال بھی ہے۔‘

’اسی خوبی کی وجہ سے شعلے میں امیتابھ اور جیا کی بے ساختہ محبت، شکتی میں اپنی ماں کی موت پر وجے کا گھر آنا اور بغیر کچھ کہے اپنے غم کا اظہار کرنا، شعلے میں خود احمد کی لاش کے ساتھ گھوڑے کے قدموں کی آواز اور امام صاحب کا پوچھنا ’اتنا سناٹا کیوں ہے بھائی؟‘

‘زنجیر‘ کے لیے امیتابھ بچن کی سفارش

جاوید اختر کی امیتابھ بچن سے پہلی ملاقات آنند کے سیٹ پر ہوئی اور وہیں سے وہ ان کے مداح بن گئے۔

وہ نہ صرف ان کی اداکاری کے قائل تھے بلکہ ان کے رویے سے بھی متاثر تھے۔

جاوید اختر کا کہنا ہے کہ انھوں نے امیتابھ بچن کے منہ سے کسی کے بارے میں کوئی بری بات نہیں سنی۔ سپر سٹار ہونے کے باوجود کئی بار انھوں نے بچن کو صبح 7 بجے شوٹنگ کے لیے سٹوڈیو پہنچتے دیکھا ہے۔

کئی بار باقی لوگ نہ پہنچ پاتے اور وہ فلور کا دروازہ کھلنے کا انتظار کرتے ہوئے باہر گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرتے کہ دروازہ کھلے اور وہ اندر جائیں۔

جاوید اختر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’جب پرکاش مہرا زنجیر بنا رہے تھے تو ان کے ذہن میں ہیرو کے کردار کے لیے دھرمیندر تھے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر دھرمیندر نے فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا، پھر یہ فلم دو دوسرے اداکاروں کو پیشکش کی گئی لیکن وہ بھی اس میں کام کرنے کے لیے راضی نہیں ہوئے کہ اس میں کوئی رومانٹک سین نہیں ہے۔‘

’اس وقت تک امیتابھ بچن کئی فلموں میں کام کرنے کے باوجود کوئی ہٹ فلم نہیں دے پائے تھے، میں نے انھیں ایک دو فلموں میں دیکھا تھا جیسے ’پروانہ‘ اور ’راستے کا پتھر‘۔ ان فلموں میں امیتابھ بچن اپنی پہچان چھوڑنے میں کامیاب رہے تھے۔‘

’میں نے پرکاش مہرا سے کہا کہ وہ امیتابھ کو اس کردار کے لیے لیں، وہ بڑی مشکل سے راضی ہوئے اور اس کے بعد جو ہوا وہ پوری دنیا کو معلوم ہے۔ امیتابھ کی ہر فلم فلالیس (بے عیب) رہی ہے، کوئی غلطی نہیں ہوئی، بلکہ کئی بار انھوں نے ڈائیلاگ اس انداز سے ادا کیا کہ اس کا اثر بڑھ گیا۔ میں نے یہ فوکس، یہ پیشن اور یہ انرجی کسی اور اداکار میں نہیں دیکھی۔‘

محفلوں کی جان جاوید اختر

سنہ 1970 کی دہائی کے وسط تک جاوید اختر نے ناصرف فلم لکھنے میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا تھا بلکہ بمبئی (اب ممبئی) کی محفلوں میں بھی ان کی مانگ بڑھ گئی تھی۔

ہندی کے معروف رسالے دھرم یُگ کے اس وقت کے مدیر دھرم ویر بھارتی کی اہلیہ مصنفہ پشپا بھارتی نے اپنی کتاب ’یادیں، یادیں اور یادیں‘ میں لکھتی ہیں: ’کرشن چندر کے گھر پر ان کے بیٹے بیلو کی شادی کے سلسلے میں ایک محفل جمی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بیلو کے تین دوست وہاں آکر بیٹھ گئے۔ ہماری توجہ بار بار ان تینوں میں سے ایک لڑکے کی طرف کھنچی چلی جا رہی تھی۔ اس کی بڑی بڑی بے پروا زلفیں، بے فکری سے پہنے کپڑے اور اس کی بہت دبلی پتلی شخصیت تھی۔‘

’بہت تیز نظروں والا وہ جوان بیچ بیچ میں کچھ نہ کچھ ایسا کہتا تھا جس سے سب مسکرا اٹھتے تھے۔ جب اس لڑکے نے قالین پر بیٹھ کر گانا شروع کیا، ’سروتا کہاں بھول آئے، پیارے نندویا‘، تو تمام بڑے جانے پہچانے لوگ قالین پر بیٹھ کر عام گلوکاروں کے انداز میں ان کے ساتھ سر ملا کر گانے لگے، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جناب درجنوں ہٹ فلموں کے مصنف جاوید اختر ہیں۔‘

سلیم سے علیحدگی کا فیصلہ

ایک ساتھ کئی ہٹ فلمیں دینے والے سلیم اور جاوید نے کچھ عرصے بعد ایک دوسرے سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔

میں نے جاوید اختر سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ’سلیم صاحب میری زندگی میں ایک طویل عرصے تک فادر فگر کی طرح رہے۔ کسی سٹیل، سیمنٹ یا ٹیکسٹائل فیکٹری میں اگر تال میل نہ بھی ہو تو آپ پارٹنر بنے رہ سکتے ہیں۔ لیکن جب آپ مل کر سکرپٹ لکھتے ہیں تو منظر کو ماپنے کے لیے نہ کوئی ترازو ہوتا ہے نہ گز اور فٹ جیسا کوئی پیمانہ۔ لکھنے کے شعبے میں اس طرح کام کرنا آسان نہیں تھا۔‘

’پھر کچھ ایسا ہوا کہ زندگی نے ہمارے دوستوں کے حلقے الگ کر دیے۔ میرے کچھ دوست الگ ہو گئے، کچھ ان کے دوست الگ ہو گئے۔ پھر ہم نے اپنی شامیں الگ الگ گزارنا شروع کر دیں اور ہمارے درمیان فاصلے پیدا ہو گئے۔‘

’ایک دن مجھے احساس ہوا کہ وہ جو ہمارا ایک دوسرے سے رشتہ تھا جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کی ان کہی باتوں کو سمجھ سکتے تھے، وہ رشتہ اب باقی نہیں رہا، پھر ہم نے ایک ساتھ کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ پل کہیں ٹوٹ گیا تھا جس سے ہم ایک دوسرے کے خیالات دیکھ سکتے تھے اور ایک دوسرے کے دل تک پہنچ سکتے تھے۔‘

شبانہ اعظمی سے ملاقات

معروف اداکارہ شبانہ اعظمی بتاتی ہیں کہ جاوید اختر سے ان کی ملاقات فلم ڈائریکٹر سائی پرانجپے کے گھر ہوئی۔

جاوید نے ان کی فلم ’سپرش‘ یعنی لمس دیکھی اور انھیں اس قدر پسند کیا کہ انھوں نے سائی کو ان کے یونٹ سے متعارف کرانے پر اصرار کیا۔

شبانہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جاوید نے وہ فلم بہت باریک بینی سے دیکھی تھی اور اس کے ڈائیلاگ تقریباً یاد کر لیے تھے۔

جاوید کا کہنا ہے کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ وہ شبانہ اعظمی سے پہلی بار کب ملے تھے۔ دونوں ایک ہی ماحول میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔

بمبئی میں اس دور کے ترقی پسند مصنفین میں علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، عصمت چغتائی، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی شامل تھے۔

ہر کوئی اس ایک بڑے خاندان کا حصہ تھا۔ یہ سب ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے۔ ایک دوسرے کے بچوں کو جانتے تھے اور ان کے بچے بھی ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی کی وجہ سے شبانہ اور میں پہلی بار کہیں ملے ہوں گے۔

شبانہ اعظمی کہتی ہیں کہ ’بعض اوقات لوگ مذاق میں کہتے ہیں کہ ہماری ارینجڈ میرج ہونی چاہیے تھی کیونکہ ہمارا پس منظر ایک جیسا ہے۔ میرے والد اور ان کے والد کی دوستی ہوا کرتی تھی۔‘

جاوید کہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ میرے اندر جو ادھورا پن تھا وہ شبانہ سے مل کر ختم ہو گیا۔

جاوید اختراور شبانہ اعظمی

جاوید اختر کی نرم دلی

شبانہ اعظمی کہتی ہیں: ’بظاہر ایسا لگ سکتا ہے کہ جاوید بہت لاپرواہ ہیں، لیکن وہ ایک ذمہ دار انسان ہیں۔ وہ کسی ایسے شخص کو کبھی نہیں بھولتے جس نے برے دنوں میں ان کا ساتھ دیا ہو۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں، اگر آپ نے کسی کے ساتھ اچھا کیا ہے تو اسے کبھی یاد نہ کرو، اور نہ ہی کوئی امید رکھو کہ وہ بدلے میں تمہارے لیے کچھ کرے گا۔‘

’ایک دن جانکی کٹیر کی چھت پر ایک بلی چڑھ گئی تھی، جو پلیٹ سے روٹی جھپٹ کر لے جا رہی تھی۔ جب عملے میں سے ایک نے اسے بھگانے کی کوشش کی تو جادو نے چلا کر کہا، اسے لے جانے دو، وہ اپنے بچوں کے لیے لے جارہی ہے۔ وہ باہر سے جتنے سخت نظر آتے ہیں اندر سے اتنے ہی نرم ہیں۔‘

جاوید اختر

شعر دیر سے کہنا شروع کیا

جاوید اختر کو نازک خیالی ورثے میں ملی ہے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں:

’میں اور میری تنہائی

اکثر یہ باتیں کرتے ہیں

تم ہوتی تو کیسا ہوتا

تم یہ کہتی تم وہ کہتی

تم اس بات پر حیراں ہوتی

تم اس بات پر کتنا ہنستی‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنے بڑے نغمہ نگار ہونے کے باوجود جاوید اختر نے اپنی زندگی کا پہلا شعر 1979 میں کہا۔

جاوید کہتے ہیں: ’لڑکپن سے جانتا ہوں کہ چاہوں تو شاعری کر سکتا ہوں، لیکن میں نے اس وقت تک نہیں کی، یہ بھی شاید میری ناراضگی اور میراث کی علامت ہے۔ شعر کہہ کر گویا میں نے اپنے ورثے اور اپنے والد کے ساتھ صلح کر لی ہے۔‘

اپنے والد کے بارے میں پوچھے جانے پر جاوید اختر نے کہا: ’میرے والد نے ایک بار مجھ سے کہا تھا، مشکل زبان میں لکھنا بہت آسان ہے، لیکن آسان زبان میں لکھنا بہت مشکل ہے۔ ان کی شاعری میں مشکل الفاظ بہت کم تھے۔ الفاظ کا ذخیرہ بہت بڑا تھا۔‘

جاں نثار اختر کی شاعری دھیمی آنچ کی شاعری ہے۔ 18 اگست 1976 کو جاں نثار اختر اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

اپنی وفات سے نو روز قبل انھوں نے اپنی آخری کتاب پر آٹو گراف دیتے ہوئے لکھا تھا، ’جب ہم نہ رہیں گے تو بہت یاد کروگے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments