میریٹل ابیوز اور ہمارے درد


میریٹل ابیوز ( بیوی سے جنسی زیادتی، یوں تو شوہر بھی اس عنوان کا موضوع ہے لیکن فی الوقت وہ موضوع بحث نہیں۔ ) ایک اہم معاشرتی معاملہ ہے جس سے کان بند کر لینے سے کوئی فائدہ متوقع نہیں۔ درست سمت اور تہذیب کے دائرے میں گفتگو کرنے سے ہی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔

ہمارے ہاں عمومی رجحان اور رائے یہ ہے کہ بیوی سے جنسی عمل سر انجام دینے میں زیادتی کا سوال بے معنی ہے۔ بیوی سے بھی جنسی زیادتی ہو سکتی ہے کیا بھلا؟ لوگ بعد از نکاح کسی جنسی زیادتی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ اس کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس موضوع کو بیان کرنے والوں کی اکثریت اس معاملے کو زنا بالجبر، ریپ وغیرہ جیسے عنوانات کے تحت بیان کرتی ہے اور عوام خود کو ان کا مخاطب ہی نہیں سمجھتے کہ ہم تو شادی شدہ ہیں بھئی۔

بہر حال، بیویوں سے جنسی زیادتی ایک سماجی حقیقت ہے۔ تعبیرات اور تصورات کا اختلاف ہو سکتا ہے لیکن ان کی بنا پر ایک حقیقی مسئلہ سے نظریں چرانا کوئی دانشمندی نہیں ہو سکتی۔ ٹھیک ہے یہ سوالات ہمارے نہیں کہ سیکس کب ریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے؟ کیا جھوٹ بولنے سے رضامندی سے کیا جانے والا زنا ریپ ہو جائے گا؟ پچاس سالہ مرد اور 14 سال کی بچی اگر باہمی رضامندی سے سیکس کریں تو کیا یہ جائز ہو گا؟ بچوں کو کس عمر سے سیکس کرنے کی قانونی آزادی ہونی چاہیے؟

ہاں یہ بھی ہماری پسی ہوئی کمزور اکثریت کے سوالات نہیں کہ ”پاکستان میں بسنے والی عورت کو مغربی طرز کے کپڑے پہننے کی آزادی ہونی چاہیے کہ نہیں؟ راتوں کو دوستوں کے ساتھ پارٹیز کرنے اور سگریٹ پینے سے اس کا کردار کیسے خراب ثابت ہوتا ہے؟

یہ سب بجا ہے کہ یہ ہمارے سوالات نہیں، یہ ہمارے مسائل نہیں لیکن جو سوالات ہماری اکثریت کو درپیش ہیں ان کو نظر انداز کرنا نری حماقت ہوگی۔ تعلق کی سائنس ( سائنس آف ریلیشن شپس ) ، جنسیات، ازدواجی جنسی تعلق اور اس سے متعلق خاص کر اپنے مردوں کی ذہن سازی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس سے راہ فرار اختیار کر کے ہم اپنے لیے کچھ بہتر انتظام نہیں کر سکتے۔

ہمارا جنسی عمل کے متعلق تصور واضح نہیں۔ ہمارے لوگ مباشرت / سیکس کو اصلاً برا سمجھتے ہیں۔ اس سے متعلق درست معلومات اور ذرائع سے آگاہ نہیں۔ عموماً جنسی تعلق، جنسی اعضاء، جنسی کارکردگی، مرد و عورت کی جنسی ضرورتوں وغیرہ کے بارے میں لاعلم اور توہمات کا شکار ہیں۔ ازدواجی جنسی تعلق کے متعلق غلط فہمیوں اور مصنوعی غیر فطری بندشوں میں جکڑے ہوئے ہیں جس سے شادی شدہ زندگی کو پر کیف اور پر کشش بنانے سے محروم ہیں۔ مذکورہ غلط فہمیوں کے جواب کیسے فراہم کیے جائیں۔ شادی شدہ اور بالغ افراد کے درمیان جنسیات کے متعلق سنجیدہ اور مہذب گفتگو کو کیسے نارملائز کیا جائے۔ اس پر مکالمہ ضروری ہے۔

کیا یہ ہمارا معاملہ نہیں کہ اک جوان لڑکی کو جنسی طور غیر متحرک مرد کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے۔ والدین وغیرہ کی طرف سے زبردستی یا ناپسندیدگی کے باوجود کسی مرد سے باندھ دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ عورت ازدواجی جنسی تعلق کو کبھی پر کیف اور پر کشش محسوس کرسکے گی؟ بیوی سے اس کی جنسی ضرورت اور جنسی تسکین کا معلوم کیے بنا زندگی گزار دینا، زیادتی نہیں؟ عورت کے لیے اس کی اپنی جنسی ضرورتوں پر لب کشائی ممنوع بنا دینا زیادتی نہیں؟

بیوی کے لیے جنسی عمل ایک بوجھ بنا کے رکھ دینا کیا بھیانک نہیں کہ صرف بچے ہی جنتی جائے، وہ وقفہ چاہتی ہے، وہ صحت چاہتی ہے، وہ مزید بچوں سے بس کرنا چاہتی ہے، وہ مسائل سے گزر رہی ہے۔ میاں اس کے مشورے کا، رائے کا نہیں پوچھتا، احترام نہیں کرتا۔ اٹھائیس سال کی عمر میں بیوی پانچ بچوں کی ماں بننے کے بعد 40 کی دکھنے لگی ہے، مستقل سر درد رہتا ہے، کمر سیدھی نہیں، چہرے سے تازگی یوں گم ہو گئی ہے جیسے صدیوں سے خشک سالی ہو، تب بھی میاں کا اصرار مزید بچے جننے کا ہے۔

بیوی سارا دن بچوں اور گھر در سے تھکی ہاری رات کو جلد سونا چاہتی ہو، دو بول تحسین کے سننا چاہتی ہو، اک خاموش ہی سہی لیکن اعتماد و احترام کا وقت اور ساتھ چاہتی ہو اور میاں پھر بھی صرف چڑھ دوڑنے کے لیے قریب آئے۔ یہ سب زیادتیاں نہیں؟ کیا یہ سب ہمارے سماج کی کہانیاں نہیں؟ یہ ہمارے درد ہیں۔ یہ ہمارے سوالات ہیں۔ ہمیں ان کے اپنے جواب تلاشے اور تراشنے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments