ریپ کریں؟ جیل بھیجیں؟ یا مار دیں؟


”ان لڑکیوں کو ریپ کرنا چاہیے تاکہ ان کو مزا چکھایا جا سکے“
ریپ؟
لڑکیوں کو؟
کس بات پہ بھلا؟
کون ہے یہ کہنے والا؟
کس کس نے سوچی یہ بات؟
بات دل کو چیر گئی لیکن ایک بہت پرانے سوال کا جواب مل گیا۔

گزرے ہوئے وقت سے ہمیں بچپن سے ہی محبت رہی بہت۔ وقت کی گتھیاں سلجھانا، جو ہوا کیوں ہوا کا جواب تلاش کرنا ہمیں بے حد مرغوب۔ کتابیں پڑھو یا فلمیں دیکھو، دو چار سوال تو بھوتوں کی طرح ناچنے ہی لگیں گے سامنے۔

سب سے بڑا سوال جو صدیوں کا سفر ہمارے سامنے اٹھاتا ہے اور ہمیں اس کا تسلی بخش جواب نہیں مل پاتا وہ ہے عورت کی تذلیل۔

جنگ ہو یا آزادی، دشمن کو مزا چکھانا ہو یا فتح کا جشن، مغرب ہو یا مشرق، قرون اولی ہو یا وسطی، قدیم روایات ہوں یا جدیدیت، مرد کی وحشت عورت کو تار تار کرنے میں ہی پناہ ڈھونڈتی ہے۔

تقسیم کا قصہ ابھی قصہ پارینہ نہیں بنا، بچھڑنے والوں کے زخم ابھی بھی ہرے کے ہرے۔ اس کامیابی کا جشن لکیر کے دونوں طرف بسنے والوں نے عورت کو روند کر منایا۔ عورت مسلمان ہو یا ہندو، ارے عقل کے اندھو تھی تو عورت نا۔ تمہارے ہی گلی محلے میں رہنے والی، کسی دوست یار کی ماں بہن بیٹی یا بیوی، وہی روپ اور رشتہ جو دونوں طرف تھا۔ کیا سوچا کسی نے کہ ایسے ہی قد بت کی ایک جیتی جاگتی مورت تو اپنے گھر بھی بیٹھی ہے۔ بے شمار عورتیں برباد کی گئیں، بے شمار اپنی جان سے گئیں۔

کیا کسی فیصلہ ساز نے عورت سے معافی مانگنے کی کوشش کی؟ کیا زمین اور ملک تقسیم کرنے والوں نے قبل از وقت سوچا کہ عورت کا کیا ہو گا؟

ایسا ہونا تھا، ہوتا آیا تھا۔ تاریخ تو ہمیشہ اگل دیتی ہے سب کچھ۔ چلیے سب کچھ نہیں تو بہت کچھ۔

دونوں طرف کے بڑے تاریخ سے بخوبی واقف تھے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم میں تن بدن قربان کرنے والیوں کی سسکیوں کی بازگشت فضا میں ابھی تک موجود تھی پھر کس لیے اس اہم ترین پہلو سے پہلو تہی کی گئی؟ یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں چرا لی گئیں؟

تاریخ شاہد ہے جنگوں میں عورت ریپ ہوتی تھی، مرتی تھی جو بچ جاتی تھی وہ قیدی بن کر لونڈی یا کنیز کی زندگی گزارتی تھی۔ اس تاریخی حقیقت سے کسی جنگ کو استثنا حاصل نہیں۔

یہ ہے مردانگی کا وہ خراج جو بھرتی ہے عورت اور یہی ہے وہ ذہنیت جو چودہ پندرہ برس کی لڑکیوں کو آپس میں لڑتا دیکھ کر سوچتی ہے کہ ان کو سزا ریپ کی صورت میں دینی چاہیے۔

لاہور کے ایک سکول میں ٹین ایج لڑکیاں آپس میں تکرار کرتی ہیں، کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی صورت میں لڑائی شروع ہوتی ہے۔ تین لڑکیاں مل کر ایک کی ٹھکائی لگاتی ہیں۔ یہ ہے وہ منظر جو ہم سب نے دیکھا۔

کچھ دیر کو لڑائی کی وجوہات رکھیے ایک طرف اور یہ بتائیے کہ کیا اس عمر کے لڑکے آپس میں مارپیٹ نہیں کرتے؟

کیا آپ کا بیٹا گلی میں دوسروں سے پٹ کر یا سکول میں دوسرے لڑکوں کو پیٹ کر کبھی گھر نہیں آیا؟
کیا کبھی ان لڑکوں کے لیے کبھی کسی نے واویلا کیا کہ انہیں سزا ریپ کی صورت میں ملنی چاہیے۔

اصل میں ہوا یہ ہے کہ سب لڑکیوں کو یوں لڑتا دیکھ کر چونک گئے ہیں اور بھنویں اچکا کر سوچ رہے ہیں کہ ایسے کیسے؟

یہ لڑکوں والی ہاتھا پائی چھپکلی سے ڈرنے والیوں نے کیسے اپنائی؟

دوسرا عنصر ہے لڑکیوں کا ایلیٹ کلاس سے تعلق سو ساری قوم میدان میں کود پڑی۔ حب علی یا بغض معاویہ کی اعلی مثال۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ یو این او کی 2018 میں چھپنے والی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

دنیا بھر میں پائے جانے والے ٹین ایجرز میں سے پچاس فیصد طلبا و طالبات سکول میں یا سکول سے باہر اپنے ہی ساتھیوں سے زد و کوب ہوتے ہیں۔ جسمانی، ذہنی اور جذباتی تشدد تیرہ سے پندرہ برس کی عمر کے ایک سو پچاس ملین بچوں کی پڑھائی متاثر کرتا ہے۔ ایک سو پچاس ملین بچے یعنی پندرہ کروڑ ٹین ایجر بچے۔

یونی سیف کی ڈائریکٹر ہینریٹا فور کہتی ہیں

”تعلیم کا مقصد پرامن معاشروں کا وجود ہے لیکن دنیا میں لاکھوں بچے اپنے سکول میں ہی محفوظ نہیں۔ انہیں ہر روز خطرات سے گزرنا پڑتا ہے جن میں دنگا فساد، گینگ میں شامل ہونے کا دباؤ، جسمانی و ذہنی تشدد، جنسی ہراس منٹ اور اسلحے کا سامنا شامل ہے۔ متاثرہ بچے ڈپریشن اور اضطراب میں مبتلا ہو کر خودکشی کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ تشدد ایک نہ بھولنے والا تجربہ ہے جس سے کسی بچے کو نہیں گزرنا چاہیے۔

ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں ہر قسم کا متشدد حربہ اور طریقہ انگلی کی ایک جنبش پہ موجود ہے ”

سکول میں دنگا فساد ایک بدصورت حقیقت ہے اور اس کے اسباب سمجھنے کے لیے ہمیں ٹین ایج ذہنیت کھنگال کر دیکھنا پڑے گا۔

مختلف اقدار ؛

حالیہ ریسرچ کے مطابق بچوں میں دنگا فساد اس وقت دیکھنے کو ملتا ہے جب مختلف بیک گراؤنڈ اور مختلف اقدار سے تعلق رکھنے والے بچے اپنی اخلاقی اقدار کی بنیاد پر ایک دوسرے سے الجھ پڑیں۔

ایسا اس وقت ممکن ہے جب بچے ایک دوسرے کا لحاظ نہ کرتے ہوئے اپنی یا دوسرے کی حد پار کریں۔
جگ ہنسائی کا خوف؛

ٹین ایج بچوں کو سکول میں اپنا امیج بہت عزیز ہوتا ہے۔ اس پہ اگر ذرا سی بھی آنچ آنے لگے اور یہ ڈر ہو کہ دوسرے بچے انہیں کمزور تصور کریں گے، یہ عنصر ان کی برداشت سے باہر۔ سو بہت سی لڑائیوں کا بنیادی سبب طاقتور امیج کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہوتی ہے۔

پاپ کلچر ؛

ٹین ایج میں بچے حقیقت اور تخیلاتی ٹی وی شوز کو ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں۔ ٹی وی میں ماچو مین یا وومین نظر آنے والوں کی نقالی کرتے ہوئے دنگا فساد کرنے کا اصل مقصد ہیرو یا ہیروئن سے متاثر ہونا ہے۔

راز افشا ہونا ؛

ہو سکتا ہے آپ نے فلموں میں دکھائی جانے والی جرم کی دنیا کا مشہور عالم سلوگن سن رکھا ہو، snitches get stitches۔ یعنی جو مخبری کرے وہ سزا کاٹے۔

ٹین ایج بچوں میں بھی یہ سلوگن سننے کو ملتا ہے، ایک ایسی وارننگ کہ جو کوئی راز کھولے گا، پھینٹی کھائے گا۔

دو ہزار بیس میں گلوکار سدھو موسی والا کی البم کا نام بھی یہی تھا۔

دنیا بھر میں ٹین ایج بچوں میں ہونے والی لڑائیوں کی وجوہات ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیں۔ ان وجوہات کی بھی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک نشے کی لت ہے۔ دنیا بھر میں ماہر تعلیم، سکول انتظامیہ، ماہر نفسیات اور والدین ان تمام وجوہات پر غور کرتے ہوئے ان کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حل ایسا ہو جس سے کسی بھی فریق کا نقصان نہ ہو۔ آخرکار سب ہی اپنے ماں باپ کے جگر گوشے ہیں اور معاشرے کا مستقبل۔

ہمارے ہاں لاہور میں ہونے والے حالیہ واقعے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے غم و غصے کا اظہار کیا لیکن ایسا جو حقیقت سے کوسوں دور تھا۔

جو حل ٹویٹر پہ ہماری نظر سے گزرا، ہمارا مضمون اسی ایک فقرے سے شروع ہوا۔ کچھ دیر کے لیے زبان گنگ ہو گئی اور حواس شل۔ ایسا کیسے سوچا؟ کس نے سوچا؟ کیوں سوچا؟

پھر بتائیے آپ سب کیا کریں ان ٹین ایج لڑکیوں کا؟
ریپ کریں؟ جیل بھیجیں؟ یا مار دیں؟
کچھ اور کرنا تو آپ کو آتا نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments