ڈاکٹر عبد السلام :عالم سائنس میں پاکستان کی شناخت


دنیائے سائنس میں بے شمار ایسے سائنس دان گزرے ہیں جن کے محیر العقول نظریات، ایجادات اور دریافتوں سے اہل عالم انگشت بہ دنداں ہے۔ انھوں نے اپنی زیرک اور دقیق النظر صلاحیتوں کو ایسے روپ اور عمل میں ڈھالا کہ تیسری دنیا کے لیے رفاہ عام ثابت ہوئیں۔ انیسویں صدی سے تا حال سائنس کا زمانہ ہے۔ روز بہ روز سائنس بڑھ چڑھ کر ترقی کر رہی ہے۔ آج ہم اپنے جوانب و اطراف میں جدید سائنسی اشیا اور جدید ٹیکنالوجیز کے کمالات و احسانات دیکھ سکتے ہیں۔ اسی تناظر میں ڈاکٹر اقبال نے آفاقی شعر کہا تھا کہ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

عملی اور نظری میدان جہاں اہل مغرب (نیوٹن، گلیلیو، آئن سٹائن اور نیکولا ٹیکسلا وغیرہ ) نے سائنس میں ان گنت خدمات سر انجام دیں وہیں اہل مشرق نے اپنی زرخیز مٹی سے ذہین و فطین و فہیم و علیم لوگوں (ستیندر ناتھ بوس، سی وی رامن، میگھناد ساہا) کو جنم دیا۔ مغرب نا صرف ان کی سائنسی کاوشوں اور خداداد صلاحیتوں کا معترف ہے۔ بلکہ انھیں عالمی شہرت یافتہ انعامات سے بھی نوازا۔ اسی ضمن میں بر عظیم پاک و ہند میں ڈاکٹر عبدالسلام بلاشبہ ایسی نمائندہ شخصیت ہیں جو عالم سائنس میں پاکستان کی آواز ہیں۔ آپ نے ایوان سائنس میں عملی اور نظریاتی طور پر ایسی مشعل جلائی کہ جس کی روشنی سے تیسری دنیا سمیت کئی قلوب و اذہان منور ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر سلام دنیا کے بہترین سائنسی نظریات رکھنے والے سائنسدانوں میں شامل ہیں۔

ڈاکٹر عبد السلام غیر معمولی ذہانت و لیاقت کے مالک اور نابغہ شخصیت تھے۔ آپ نے 29 جنوری 1926 کو شہر جھنگ کے ایک عام گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے والد کا نام چودھری محمد حسین تھا جو پیشے کے لحاظ سے محکمہ تعلیم میں ہیڈ کلرک تھے۔

ڈاکٹر سلام نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر ہی سے حاصل کی۔ آپ بھر پور دلجمعی سے اپنی تعلیم پر توجہ مرکوز کرتے رہے۔ آپ کو بچپن ہی سے علم و ادب کے حصول کا فطری ذوق تھا۔ جھنگ کالج سے میٹرک اور انٹر کا امتحان اول حیثیت سے پاس کیا۔ اس کے بعد تاریخی ادارے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ یہ ادارہ آپ کے لیے نہایت مفید ثابت ہوا۔ ڈاکٹر سلام کو گورنمنٹ کالج سے بے پناہ عقیدت تھی۔ آپ گورنمنٹ کالج میں راوی رسالے کے مدیر اعلا اور کالج یونین کے صدر بھی رہے۔

ڈاکٹر سلام ایک تو بچپن ہی سے ادبی ذوق رکھتے تھے اور دوسرا گورنمنٹ کالج کی ادبی فضا نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آپ انگریزی اور اردو ادب سے نہایت شغف رکھتے تھے۔ مرزا غالب اور اقبال آپ کے پسندیدہ شاعر تھے۔ آپ نے دونوں شخصیات پر مضامین بھی قلم بند کیے۔ گورنمنٹ کالج ہی سے آپ اول درجے میں بی۔ اے آنرز اور ایم۔ اے ریاضی کے امتحانات میں کامیاب ہوئے۔ انعام کے طور پر آپ کو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے کیمبرج یونی ورسٹی پڑھائی جاری رکھنے کا وظیفہ جاری ہوا۔

آپ کا رجحان پارٹیکل فزکس میں تھا۔ جو مادے کے بنیادی ذرات سے متعلق ہے۔ یوں کیمبرج یونی ورسٹی سے آپ نے ڈاکٹریٹ (رینورملائزیشن آف میسن تھیوری ) کی ڈگری وصول کی۔ بعد ازاں وطن واپسی پر آپ اپنے ہی مادر علمی گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی میں شعبۂ درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ آپ کا تعلیمی سلسلہ نہایت روشن اور ذمہ دارانہ تھا۔

آپ پاکستان میں مشیر سائنس کے عہدے پر بھی فائز رہے اور اٹامک انرجی کمیشن میں پاکستان نیو کلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ادارے کی بنیاد رکھی۔ پاکستان میں سائنسی تعلیم اور اس کی ترقی و فروغ کے لیے ہمہ دم کوشاں رہے۔ آپ کا دماغ سائنسی افکار کی موزوں آماجگاہ تھا۔ آپ پاکستان کو دنیا کے رو بہ رو دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ پاکستان میں تمام سائنسی تناظرات میں آپ بالواسطہ و بلاواسطہ طور پر منسلک رہے۔ مگر مقام افسوس ہے کہ بعد میں آپ کی ہمہ جہت شخصیت سے استفادہ نہ کیا گیا بلکہ اکثر کام مسترد کر دیے گئے۔

ڈاکٹر سلام کو اپنے سائنسی افکار پر بہت ناز تھا اور وہ انھیں منصۂ شہود پر لانے کے لیے بے تاب تھے۔ پاکستان میں چوں کہ سائنسی اور دوسرے تحقیقی اور معیاری ادارے نہیں تھے لہذا ڈاکٹر سلام کو اس سلسلے میں دوبارہ کیمبرج یونی ورسٹی جانے کی سوجھی۔ بقول آپ کے، آپ اس کشمکش میں مبتلا تھے کہ فزکس یا پاکستان، کس کو ترجیح دوں؟ آخرکار آپ نے سائنس کے میدان میں تحقیقی تشنگی کو دور کرنے کے لیے پاکستان کو خیر باد کہہ دیا۔ کیمبرج میں آپ نے کئی حیران کن تحقیقی مقالے لکھے۔ یہیں سے آپ کو مقبول سائنس دان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس اعتراف میں آپ کو دنیا کے بہترین شہرت کے حامل 25 ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ڈاکٹر سلام دنیا کے بہترین تعلیمی ادارے کیمبرج اور امپیریل کالج، لندن میں پروفیسر بھی رہے۔ ڈاکٹر عبد السلام سائنس کے فروغ اور اس کی ترویج کے لیے بہت متحرک انسان ثابت ہوئے۔ جس طرح مصلح قوم سر سید نے مسلمانان ہند کو نئے علوم سے روشناس کروانے اور ان کے حصول کے لیے تعلیمی ادارے (علی گڑھ یونیورسٹی) قائم کیے۔ اسی طرح عبد السلام کی روح بھی کسی ایسے ہی ادارے کی منتظر تھی۔ پرہیز ہود بھائی کے بقول ڈاکٹر سلام کا سب سے عظیم کارنامہ، جس پر وہ نوبل انعام کے مستحق تھے، اٹلی کے شہر ٹریسٹ میں انٹر نیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس (ICTP) جیسے تحقیقی ادارے کا قائم کرنا تھا۔

اس ادارے نے سائنس کے تحقیقی میدان میں انقلاب بپا کر دیا۔ اس ادارے سے آج ہزاروں سائنسدان مستفید ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں ایسے ہیں جنھوں نے نوبل انعام حاصل کیے۔ یہ شاہکار ادارہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے محققین کے لیے پارس پتھر ثابت ہوا۔ ڈاکٹر سلام جیسی ضوریز شخصیت نے اپنے وطن میں اس تحقیقی ادارے کی عدم موجودگی کے درد کو محسوس کیا اور اس احساس کو دوسروں پر حاوی ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے لہذا یہ ادارہ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ بعد میں آپ کی پہلی برسی پر اس ادارے کے نام میں آپ کے نام کا اضافہ کر کے عبد السلام انٹر نیشنل سینٹر فار تھیوریٹیکل فزکس رکھ دیا گیا۔

ڈاکٹر سلام نے فزکس کے میدان میں نظریاتی سطح پر بلند ترین اور بالکل اچھوتے افکار پیش کر کے سائنسی دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ آپ نے رینورملائزیشن، سپر سمٹری، پروٹون ڈیکے، پتی سلام ماڈل، کوانٹم پلانکس اور سلام سٹینڈرڈ ماڈل /گرینڈ یونائیٹڈ جیسی کئی تھیوریاں پیش کیں۔

ڈاکٹر صاحب کو 1979 میں فزکس میں ”یونیفیکیش آف الیکٹرو میگنیٹک اینڈ ویک فورسز“ جیسی تحقیق پر نوبل انعام ملا۔ اس تھیوری کی وضاحت کچھ ایسے ہے کہ کائنات ذرات سے مل کر بنی ہے۔ جنھیں جوہری ذرات یا ایٹمز کہتے ہیں ان ذرات کو کون سی قوتیں جوڑ کر رکھتی ہیں اور ان میں وزن کہاں سے اور کیسے آتا ہے؟

کائنات میں بنیادی طور پر چار قوتیں کار فرما ہیں۔ کشش ثقل، مقناطیسیت، مضبوط قوت اور نیوکلیائی کمزور قوت۔ ڈاکٹر عبد السلام کے بقول تمام قوتوں کا ماخذ ایک ہی قوت ہے۔ یوں آپ نے ان قوتوں کے اتحاد پر مختلف نظریات دیے جن پر تجربات بھی ہوئے۔ آخر کار ڈاکٹر سلام نے الیکٹر میگنٹک اور ویک فورسز کے اتحاد کو یقینی بنا ڈالا اور کہا کہ یہ دونوں فورسز ایک ہی فورس کی دو شکلیں ہیں اور اسے الیکٹر و ویک فورس کا نام دیا۔ یہ پارٹیکل فزکس سے متعلقہ موضوع ہے اور پارٹیکل یا ذرات کائنات کے آغاز میں اہم نظریات کا احاطہ کرتے ہیں۔

1979 میں اس ناقابل فراموش کارنامے پر عبدالسلام کے ساتھ ان کے معاونین ماہر طبعیات اسٹیون وین برگ اور شیلڈن لی گلاشو کو نوبل انعام سے نوازا گیا۔

آپ کی اس تھیوری کو معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے بھی اپنی مشہور کتاب ”اے بریف ہسٹری آف ٹائم“ میں سراہا ہے۔

آپ کو مختلف ممالک سے چالیس سے زائد ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں مل چکی ہیں اور آپ تیس سے زائد ممالک میں سائنسی تحقیق اور فروغ سے متعلق اکیڈمیز کے رکن رہ چکے ہیں۔

ڈاکٹر عبد السلام ایک سچے محب وطن تھے آپ کو کئی ممالک کی طرف سے نیشنیلیٹی کی پیشکش بھی ہوئی، مگر آپ نے اس خیال سے مسترد کردی کہ ان کا اعزاز ”نوبل انعام“ پاکستان کے بجائے کسی اور ملک سے منسوب نہ ہو۔ ڈاکٹر سلام نہایت منکسرالمزاج اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ حلقہ احباب میں سب کے ساتھ محبت بھرا رشتہ تھا۔ آپ پاکستان سمیت غریب اور ترقی پذیر ممالک سے غربت اور جہالت کے خاتمے کے خواہش مند تھے اور محنت شاقہ سے اس کے سد باب کے لیے ہر ممکن معاونت فرمائی۔

آخری وقت میں بیماری نے آ گھیر لیا اور یہ عظیم اور برق رفتار دماغ رکھنے والا عظیم انسان اور ممتاز سائنس دان بالآخر 21 نومبر 1996 کو لندن میں وفات پا گیا۔

آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق اپنے وطن کی مٹی ( ربوہ) میں والدین کے قدموں میں سپرد خاک کیا گیا۔

ڈاکٹر سلام اصل معنوں میں پاکستان کا جید ہیرو ہے مگر مقام حیف ہے کہ اس جلیل القدر ذہن کو اپنے وطن میں وہ درجہ عالی میسر نہ آ سکا جس کے وہ حق دار تھے۔ اس کی وجوہات ہمارے سماج میں سائنسی شعور کا فقدان اور تعصب پسندی ہے۔ یوں ہر سال آپ کا یوم پیدائش اور یوم وفات خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ مگر جب تک آپ کے مداح موجود ہیں، آپ کے کام اور نام کی عظمت کا ڈنکا دنیا بھر میں بجتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments