وقت قیام آنے پر سجدے میں گرنے والے


چائے کا جرعہ لیتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً 600 ارب ڈالر ہیں جبکہ ہم دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں یا ہو چکے ہیں کاسہ گلے میں لٹکائے ہم قریہ قریہ گھوم رہے ہیں دنیا ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں اس کا سبب کیا ہے؟

اس کا سوال سن کر مجھ پر سکوت طاری ہو گیا۔ سکوت کا دورانیہ پانچ منٹ تک بڑھا تو قدرے بلند آواز میں بولا میرا سوال سن کر تمھارے منہ میں دہی کیوں جم گیا لب تو ہلا دیں۔

جی میں آپ کے سوال کا جواب کھوج رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں؟ ہندوستان اور پاکستان ایک ہی دن دنیا کے نقشے پر علیحدہ علیحدہ مملکت کی حیثیت سے نمودار ہوئے ہندوستانی لیڈرشپ پہلے دن سے ہی اس بات پر متفق ہو گئی کہ ہمارے ہاں جمہوری طرز حکومت ہو گا۔ جی ہاں وہی جمہوری طرز حکومت جس کی تعریف امریکہ کے دانشور صدر ابراہیم لنکن نے کی تھی یعنی ”عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے، عوام پر“ محض تین سال سے کم عرصہ میں ہندوستان کا آئین معرض وجود میں آیا اور 26 جنوری 1950 ء کو نافذ کیا گیا۔ پاکستان ایک ایسا ملک تھا جو فوج کی مدد کے بغیر محمد علی جناحؒ نے حاصل کیا۔ بابائے قوم نے اپنی تقریر میں پاکستان میں طرز حکومت کے خد و خال تو بیان کر دیے تھے مگر قدرت نے انھیں موقع نہیں دیا کہ وہ آئین سازی کرتے۔ ایک سال کے عرصے میں وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔

لیاقت علی کے قتل کے بعد ملک محلاتی سازشوں کا شکار ہو گیا اقتدار پر ان لوگوں نے قبضہ کر لیا جن کا پاکستان بنانے میں کوئی ہاتھ نہیں تھا ہمارے سیاست دان ان قوتوں کے آگے کٹھ پتلی بن کر رہ گئے۔

پاکستان کی دوسری دستور ساز اسمبلی نے 29 فروری 1956 ء کو پہلا آئین ون یونٹ کی بنیاد پر بنایا جس میں مغربی پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں کو ختم کر کے ایک صوبہ قرار دیا گیا۔ مغربی پاکستان کی 46 فیصد آبادی کی نمائندگی، صوبہ مشرقی پاکستان کی 54 فیصد آبادی کے برابر قرار دی گئی اس پر مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں نے اس غیر منصفانہ اور جابرانہ آئین کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن طاقت، دھونس دھاندلی اور ہارس ٹریڈنگ سے قائم ہونے والے اس کٹھ پتلی دستور ساز اسمبلی سے اس متنازع آئین کو منظور کروا لیا گیا تھا۔

1956ء کا آئین صدارتی طرز کا تھا جس میں گورنر جنرل سکندر مرزا کے اختیارات صدر سکندر مرزا کو مل گئے تھے جس نے گورنر جنرل غلام محمد کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے چار وزرائے اعظم برطرف کیے تھے۔ محض ڈھائی سال کے عرصے میں اس غیر متفقہ آئین کی گردن مروڑ کر سکندر مرزا نے ملک پر مارشل لاء کی لعنت مسلط کر دی تھی۔ سیاستدان آمر کے سامنے کھڑے نہ ہو سکے بلکہ سجدے میں گر گئے۔ سکندر مرزا کو برطرف کر کے خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان دس سال مملکت کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔

جنرل ایوب خان نے جب مارشل لاء لگایا تو پاکستان کی سیاسی لیڈر شپ مزاحمت کرنے کی بجائے ان کی قربت اختیار کرنے کے راستے تلاش کرتی رہی۔ تاکہ اقتدار میں حصہ مل جائے۔ ایوب خان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو قصر صدارت پر ایک بادہ نوش جنرل یحییٰ خان نے قبضہ کر لیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور حکومت میں پاکستان ٹوٹ گیا۔ مگر جرنیلوں نے کمال ہوشیاری سے پاکستان ٹوٹنے کی ذلالت کا طوق سیاستدانوں کے گلے میں لٹکا دیا یاد ہو گا جنرل باجوہ نے ریٹائرڈ ہونے قبل ایک بار پھر سیاستدانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

ذوالفقار بھٹو نے پاکستان کو متفقہ جمہوری آئین دیا۔ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور انھیں پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ ضیاءالحق نے اقتدار پر جب قبضہ کیا تو سیاست دانوں نے مزاحمت کرنے کی بجائے مٹھائی تقسیم کی۔

ذوالفقار بھٹو نے پاکستان کو متفقہ جمہوری آئین دیا۔ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور انھیں پھانسی گھاٹ تک پہنچایا۔ ضیاءالحق نے اقتدار پر جب قبضہ کیا تو سیاست دان قیام کرنے کی بجائے ضیاء کے سامنے کورنش بجا لائے اور بھٹو کے ہٹانے پر مٹھائی تقسیم کی۔

ضیاءالحق کی گود میں میاں نواز شریف کی سیاسی پرورش ہوئی میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے سیاستدان سمجھے جاتے ہیں۔ نواز شریف بے نظیر حکومت گرانے کے لئے دوبارہ استعمال ہوئے۔ 99ء میں مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا دیا۔ پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان مشرف کے اس غیر جمہوری اقدام پر اس کے سامنے بچھ گئے۔ نواز شریف کو پابند سلاسل کیا گیا۔ قدرت نے انہیں موقع دیا کہ وہ کھڑے ہو جاتے سجدہ سہو نہ کرتے مگر انہوں نے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی اور سیاہ رو آمر سے معاہدہ کر کے جدہ بھاگ جانے میں عافیت سمجھی۔ سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید غوث شاہ بھی نواز شریف کے ساتھ پابند سلاسل تھے ان کا کہنا تھا کہ میاں نواز شریف ہمیں ڈٹ جانے کا سبق دیتے اور ہمیں اس دن پتہ چلا جب وہ بریف کیسوں سمیت جدہ پہنچ گئے۔

کوئی دن جاتا نہیں تھا جب گجرات کے چوہدری برادران مشرف کی توصیف میں کلمہ نہ کہتے ہوں۔ آمریت کی طویل سیاہ رات کے بعد جمہوریت کا پھریرا ایک بار پھر لہرایا پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی لوٹ مار کا ایسا دور چلا کہ کہنے والے کہتے ہیں کہ جنرل کیانی نے بھی اس بہتی گنگا میں اشنان کیا۔ جنرل کیانی جب بھی زرداری سے ملاقات کے لیے آتے تو زرداری ان سے مکالمہ کرتے جنرل کاروبار کیسا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ نواز شریف ایک بار پھر میمو گیٹ سکینڈل میں فوج کے آلہ کار بنے وہ کالا کوٹ پہن کر عدالتوں کے سامنے پیش ہوئے۔

نواز شریف اقتدار میں آئے انھیں پانامہ کیس میں نکالا گیا۔ ان پر کیسز بنے انھیں نا اہل کر کے پس زنداں کیا گیا۔ وہ جیل کے مچھروں سے ڈر گئے جیل کی سختی برداشت نہ کر سکے۔ اندرخانے جنرل سے ہاتھ ملا کر ایک بار پھر لندن بھاگ گئے۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی بات چلی سیاستدان اس پر ڈٹ جاتے مگر سب سیاست دان ہاتھ بندھ کر جنرل باجوہ کے سامنے مودبانہ کھڑے ہو گئے اور اسمبلی سے ان کی مدت ملازمت میں توسیع پر متفقہ قرارداد پاس کروائی۔

میرے دوست ہندوستان کی ترقی کا راز جمہوریت میں پوشیدہ ہے۔ ہندوستان کے سیاست دان پہلے دن سے یہ سمجھ گئے تھے کہ ملک کو ترقی کی طرف لے جانا ہے تو غیر جمہوری طاقتوں کا آلہ کار نہیں بننا بلکہ انھیں ان کی حدود میں رکھنا ہے۔ ایک بار ممتاز دانشور عرفان صدیقی صاحب نے مجھے بتایا کہ ہندوستان کا ایک جنرل سیکرٹری دفاع کو بتائے بغیر وزیر دفاع سے ملاقات کے لیے چلا گیا جب اس کا علم ہندوستانی وزیراعظم نہرو کو ہوا تو انھوں نے کھڑے کھڑے جنرل کو برطرف کر کے گھر بھیج دیا۔

ہمارے سیاست دان سمجھتے ہیں کہ اقتدار کا راستہ راولپنڈی کے ”بڑے گھر“ سے ہو کر جاتا ہے اور وہ اس گھر کے مکین سے تعلق بنانے کے لیے ہر طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ بڑے گھر تک رسائی کے لیے ایک ہاتھ میں پالش اور دوسرے ہاتھ میں برش لئے بھی تیار رہتے ہیں۔

سیاست دان جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کے لیے ایک صفحہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر عوام کی محرومیاں دور کرنے کے لئے ایک صفحہ پر کیوں نہیں آتے؟ ایک دوسرے کو برداشت کرنے تک تیار نہیں ہیں۔ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنا ہے تو تمام سیاستدان چارٹر آف ڈیموکریسی سائن کر کے انتخابات کی طرف چلے جائیں عوام جس کو مینڈیٹ دے دوسرے اسے تسلیم کریں۔ جس دن یہ ہو جائے گا ہمارا ملک پڑوسی دیش سے زیادہ زرمبادلہ رکھنے والا ملک بن جائے گا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments