کتاب: زرد موسم کی یاد داشت


زرد موسم کی یاد داشت۔ ارشد رضوی کی نئی کتاب ایک علامتی خود نوشت ہے۔ سرورق بھی بہت خوب ہے۔ سرسوں کے پھولوں جیسا خوبصورت پیلا رنگ، کالی مردانہ قمیص اور کالر کے اوپر چہرے کی بجائے پھول۔ سوانح عمریاں تو بہت پڑھیں مگر اس علامتی خود نوشت کی بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ دراصل نثر ہے ہی نہیں۔ ہر باب ایک خوب صورت نظم ہے۔ ارشد رضوی کو لگتا تھا کہ کہانی اس سے بچھڑ گئی۔ بہت دن وہ اس سے روٹھی رہی لیکن جب اس کتاب کے لکھنے سے پہلے موت ارشد رضوی کے گھر آئی اور گھر والوں سے ان کی زندگی یعنی ایک ننھے منے فرشتے کو چھین کر لے گئی تو کہانی چھوڑ گئی۔

یعنی رائٹر بلاک ختم ہو گیا اور نظموں جیسے خوب صورت نثری ابواب سامنے آئے۔ اور ایک اداس اور خوب صورت کتاب سامنے آئی۔ ننھے فرشتے کی جدائی کا دکھ پھیل کر معاشرتی دکھوں میں سمٹ گیا۔ اس کتاب میں ”خوشی اور غم کے درمیانی لمحے ملتے ہیں۔ جو ہمارے پاس سے گزرتے ہیں، ویسے بھی خوشی تو چند لمحوں کا نام ہے اور غم ایک ایسی ضخیم کتاب ہے جو ختم ہونے کو نہیں آتی“ ۔ ماحولیات پر کام کرنے والے کراچی میں درختوں کی کمی کے شاکی رہتے ہیں۔

جو چند درخت بچے ہیں، ارشد رضوی ان سے ہم کلام ہوتے ہیں۔ ”لیکن درخت بھی انتظار کی دعا اوڑھے کھڑے ہیں، کئی بار مجھے لگتا ہے، دعاؤں میں اثر نہیں رہا“ ۔ بچوں سے محبت کے حوالے سے ہم ہمیشہ ماں کا ذکر کرتے ہیں۔ کبھی باپ کا ذکر بھی کر دیتے ہیں لیکن نانا نواسے کی محبت کے بارے میں جاننا ہو تو یہ کتاب پڑھیے۔ اس نواسے کی جدائی میں لکھی ہوئی کتاب جو اس دنیا میں صرف ڈیڑھ ماہ ہی رہ پایا۔ وہ اس سے ملنے قبرستان جاتے ہیں لیکن انہیں وہ صرف وہاں نہیں ملتا، وہ ان کے اندر بھی موجود ہے لیکن وہ اپنے اندر اتریں یا باہر جائیں۔ انہیں گھر تو واپس آنا ہوتا ہے کیونکہ ان کے گھر میں ایک عورت ہے جس کا وجود انہیں بہت عزیز ہے۔

جون ایلیا نے کہا تھا : آج کا دن بھی عیش سے گزرا۔ سر سے پا تک بدن سلامت ہے۔ ارشد رضوی کا دنوں کو دیکھنے کا انداز انوکھا ہے : ”خراب دنوں میں ایک دن میرے سامنے کھڑا تھا۔ کشکول تھامے اس کے پیچھے مختلف اشکال کے دن کھڑے تھے۔ ٹیڑھے میڑھے۔ ٹوٹے پھوٹے لنگڑاتے ہوئے۔ کوڑھ کی بیماری لئے لمحوں کی چھڑی سے اپنے زخم کھجاتے تھے۔

میرے پاس کچھ نہیں تھا اسے دینے کو“ ۔ ارشد رضوی اداسی کے ہی فریفتہ ہیں کیونکہ خوشی ایک بے وفا عورت کی مانند ہے۔ وہ ایک ایسے شہر میں رہتے ہیں جو شور کے خمیر سے بنا ہے۔ جب وہ اپنے گھر کی افسردگی سے باہر نکل آتے ہیں تو شور برداشت کرنا پڑتا ہے۔ بہت سوں کی طرح وہ بھی شناخت کے مسلے سے دوچار ہیں۔ وہ ایک ہندوستانی مسلمان ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ان کی ’اس شناخت کو مٹانے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ہزاروں سال میں پیدا ہوئی شناخت مر نہیں پاتی۔

بھلا ستر سالوں میں گہری کھدی لکیروں کو کیسے مٹایا جا سکتا ہے۔ ‘ ایک معصوم سے بچے کی موت نے ان کا رائٹرز بلاک تو ختم کر دیا اور انہوں نے لکھنا شروع کر دیا تو پھر لکھنے والا مرد ہو اور عورت کا ذکر نہ ہو تو یہ تو ممکن نہیں۔ ان عورتوں کا ذکر جو اپنے بدن کو سنبھالتے سمیٹتی ہوئی چلتی ہیں۔ جب بھی وہ اکیلی ہوں یا باہر مجمع سے ہو کر کسی باغ کی راہداری سے گزرتی ہوں، انہیں ایسے گمان ہے کہ ان کے بدن کی ملائمت جس میں جذبوں کی مچھلیاں ادھر ادھر بھٹکتی ہیں، انہیں سنبھالے رکھنا ضروری ہے۔

کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ ارشد رضوی رائٹر نہیں پینٹر ہیں۔ اور ہم ان کی تحریر نہیں پڑھ رہے بلکہ کوئی تصویر دیکھ رہے ہیں، ایک جگہ وہ آسمان پر بنے ہوئے نقش و نگار کا ذکر ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی مصور تصویر بنا رہا ہو۔ دوسری طرف ہر مرد مصنف کی طرح وہ بھی خواہش زدہ بھوکے جسم کا ذکر کرتے ہیں۔ جسم بیچنے والیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن جو چیز انہیں دوسروں سے منفرد کرتی ہے، وہ اداسی ہے۔ وہ لفظوں کی تلاش میں نکلنا چاہتے ہیں انہیں گم ہو جانے کا بھی خدشہ ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ وہ واپس ضرور آئیں گے۔

ان کی واپسی ایک ایسے گھر کے لئے ہو گی، جہاں ایک خوشبو دار باغ مہکتا ہے۔ اور جس کی خوشبو نے انہیں بھٹکنے نہیں دیا اور کبھی بھٹکے بھی تو رندھی آنکھیں لئے واپس لوٹ آئے کہ ایک خوشبو دار باغ ان کے انتظار میں تھا۔ اور اس خوشبو دار باغ میں ابھی ایک پھول کھلنا تھا۔ یہ ان کی تیسری تخلیقی کاوش ہے، اس سے پہلے افسانوں کا مجموعہ ”ایک سا موسم“ اور ”کچھ بے ترتیب کہانیاں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک ناول پر بھی کام کر رہے ہیں۔ یہ کتاب ’رواں بکس‘ کراچی نے شائع کی ہے اور قیمت 800 روپے ہے۔

رابطہ کا نمبر 03002902099 اور ای میل dr.javed.ar@hotmail.com ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments