جب ایک ہدایت کار نے امیتابھ بچن سے کہا ’تم شاعر کے بیٹے ہو، اداکاری نہیں شاعری کرو‘


چالیس کی دہائی میں مشہور امریکی گلوکار اور اداکار فرینک سیناترا کو مشہور کرنے کے لیے ان کے پریس ایجنٹ جارج ایونز نے ایک غیر معمولی منصوبہ بنایا۔

اس نے 12 نوجوان خواتین کی خدمات حاصل کیں، جن سے کہا گیا کہ وہ اس وقت ’فرینکی فرینکی‘ چلانا شروع کریں جب فرینک سیناترا گانا شروع کریں اور تھوڑی دیر بعد بیہوشی کا ڈرامہ رچائیں۔

ایونز نے تھیٹر سے ان بیہوش لڑکیوں کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولینس کا بھی انتظام کیا تھا۔ انھوں نے اس موقع کے لیے فوٹوگرافروں کا بھی انتظام کر رکھا تھا تاکہ اس وقت لی گئی تصاویر سے تشہیر ہو سکے۔

ان لڑکیوں کو پانچ پانچ ڈالر دیے گئے اور ایونز نے اپنی نگرانی میں تین دن تک ان کو ریہرسل کرائی۔

نیویارک کے پیراماؤنٹ تھیٹر میں فرینک سیناترا کے شو کے اختتام سے قبل ایونز یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ انھوں نے تو صرف 12 لڑکیوں کو رکھا تھا جبکہ حقیقت میں 30 بیہوش ہو گئیں۔

مشہور امریکی گلوکار فرینک سناترا

مشہور امریکی گلوکار فرینک سناترا

ایک بار جب یہ کہانی بالی وڈ اداکار امیتابھ بچن کو سنائی گئی تو وہ پہلے مسکرائے اور پھر بولے ’کسی کو پکڑ کر ہیرو تو بنایا جا سکتا ہے، لیکن جب کیمرہ چلنے لگتا ہے تو وہ اکیلا رہ جاتا ہے، اداکاری تو اسے خود کرنی پڑتی ہے۔‘

دراصل، امیتابھ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ پبلسٹی کا شور انسان کو ایک خاص مقام تک لے جا سکتا ہے، لیکن اس سے آگے جانے کے لیے ٹیلنٹ کا ہونا بھی ضروری ہے۔

شکر ہے کہ امیتابھ کو اپنے کیریئر کو فروغ دینے کے لیے ایسی چالوں کا سہارا نہیں لینا پڑا۔

امیتابھ کا نام کیسے رکھا گیا؟

امیتابھ 11 اکتوبر 1942 کو الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام پیدائش کے دن ہی رکھا گیا تھا۔ ان کے والدین کے خاندانی دوست پنڈت امرناتھ جھا نے مشورہ دیا کہ اس وقت ملک کے ماحول کو دیکھتے ہوئے ان کا نام ’انقلاب‘ رکھا جائے۔

امیتابھ بچن پر حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’امیتابھ بچن دی فار ایور اسٹار‘ کے مصنف پردیپ چندرا کہتے ہیں جس دن امیتابھ کی پیدائش ہوئی، اس دن مشہور شاعر سمترانندن پنت انھیں دیکھنے کے لیے آئے تو بچے کو دیکھ کر انھوں نے کہا ’بچن، دیکھو وہ کتنا پرسکون ہے، بالکل ایسے ہی جیسے دھیان کرنے والے امیتابھ۔‘

امیتابھ کے والد تیجی بچن نے اپنے ذہن میں پنت جی کے کہے ہوئے الفاظ ’امیتابھ، ‘امیتابھ‘ کو دہرایا اور کہا ’واہ کیا خوب نام ہے۔‘

ہری ونش اور تیجی دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کا نام امیتابھ رکھیں گے۔

گھر میں ان کو امیت کے نام سے پکارا جاتا تھا، لیکن ان کی ماں ’منا‘ کہتی تھیں۔ امیتابھ کے چھوٹے بھائی اجیتابھ کا نام ’بنٹی‘ تھا۔

کالج کی ڈرامہ سوسائٹی سے اداکاری کا آغاز

نینی تال کے شیروڈ سکول میں پرائمری تعلیم کے بعد امیتابھ بچن نے دہلی کے کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں انھیں ڈراموں میں کام کرنے کا کافی موقع ملا۔

کالج کی ڈرامہ سوسائٹی کے سربراہ فرینک ٹھاکرداس امیتابھ کی آواز سے بہت متاثر ہوئے۔

ہوا یوں کہ تھیٹر کی مشہور شخصیت پرتاپ شرما کے بھائی کو ایک ڈرامے میں مرکزی کردار کے لیے چنا گیا۔ ایک موقع پر انھوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر ڈرامے میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔

ٹھاکر داس کے سامنے ایک مسئلہ تھا کہ اب یہ کردار کس کو دیا جائے۔ امیتابھ نے یہ کردار ادا کرنے کی پیشکش کی اور ٹھاکر داس نے اس پر اتفاق کیا۔ اس موقعے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے امیتابھ نے شاندار اداکاری کی اور ناظرین کا دل جیت لیا۔

بعد میں امیتابھ نے مرانڈا ہاؤس میں ہونے والے ڈرامے ’ریپ آف دی بیلٹ‘ میں بھی اداکاری کی۔

اس وقت ممبئی تھیٹر کی دنیا میں نام کمانے والی ڈولی ٹھاکر مرانڈا ہاؤس میں پڑھتی تھیں۔ امیتابھ کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا، ’ان دنوں امیتابھ خاموشی سے کونے میں بیٹھا کرتے تھے، وہ بہت شرمیلے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی اجیتابھ ان سے زیادہ اچھے لگتے تھے۔‘

بی اے پاس کرنے کے بعد، امیتابھ نے کولکتہ میں نوکری شروع کی۔ دو سال بعد جب انھوں نے بلیکر اینڈ کمپنی میں کام کرنا شروع کیا تو وہاں ناصرف ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوا بلکہ دفتر آنے جانے کے لیے کار بھی دی گئی۔

فلم فیئر مقابلے میں ناکامی

اداکاری میں امیتابھ کی دلچسپی دیکھ کر ان کے چھوٹے بھائی اجیتابھ نے فلم فیئر ٹیلنٹ مقابلے میں ان کی ایک تصویر بھیجی۔

پردیپ چندرا بتاتے ہیں کہ ’اس مقابلے کے فاتح کو 2500 روپے اور ایک فلم میں کام کرنے کا موقع دیا جانا تھا۔ لیکن امیتابھ کا وقت نہیں تھا، انھیں منتخب نہیں کیا گیا۔ سنجے اور فیروز خان کے بھائی سمیر نے وہ مقابلہ جیت لیا۔‘

’اس سے پہلے، دھرمیندر اور راجیش کھنہ یہ مقابلہ جیت چکے تھے۔ یہ بھی ایک ستم ظریفی کہلائے گی کہ اپنی سریلی آواز کا ثبوت دینے والے امیتابھ آل انڈیا ریڈیو کے ووکل ٹیسٹ میں ناکام ہو گئے تھے۔‘

امیتابھ کی فلموں میں انٹری کی وجہ تیجی بچن اور سنیل دت اور نرگس دت کی دوستی تھی۔

تیجی بچن نے 1968 میں دہلی میں معروف فلم ڈائریکٹر ساون کمار سے ملاقات میں بتایا تھا کہ ان کا بیٹا فلموں میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ان دنوں وہ مرزا غالب پر فلم بنانے کا ارادہ کر رہے تھے۔ انھوں نے امیتابھ کو مرزا غالب کا کردار دینے کا بھی ارادہ کر لیا تھا۔ لیکن ان کو جاننے والوں نے دلیل دی کہ امیتابھ غالب کے کردار میں فٹ نہیں ہوں گے، کیونکہ وہ بہت لمبے ہیں، جب کہ غالب کا قد بہت چھوٹا تھا۔

فلم پروڈیوسروں نے نظر انداز کیا

سنیل دت کی سفارش پر مشہور ہدایت کار بی آر چوپڑا نے امیتابھ کا سکرین ٹیسٹ لینے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس سکرین ٹیسٹ میں امیتابھ کی لائنیں تھیں کہ ’جب بھی آپ مجھے اس طرح دیکھتے ہیں، میں سب کچھ بھول جاتا ہوں، میں کیا ہوں ، کہاں ہوں ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آتا۔‘

ان دنوں امیتابھ مشہور فلمساز تاراچند برجاتیہ سے ملنے بھی گئے۔ لیکن وہاں بھی کام نہیں بنا۔

برجاتیہ نے ان سے کہا، ’تم بہت لمبے ہو، تمہیں اپنے والد کے پیشے کو اپنانا چاہیے، تم ان کی طرح اچھے شاعر بن سکتے ہو۔‘

کچھ سال بعد برجاتیہ نے امیتابھ کو اپنی فلم ’سوداگر‘ میں بطور ہیرو سائن کیا۔

پہلا رول

امیتابھ کو پہلی فلم مشہور فلم ڈائریکٹر خواجہ احمد عباس نے دی تھی۔ ڈائریکٹر ٹینو آنند کی دوست نینا سنگھ نے ان سے درخواست کی کہ وہ عباس صاحب کو امیتابھ کی کچھ تصاویر دکھائیں۔

پردیپ چندرا کہتے ہیں، ’تصاویر دیکھنے کے بعد عباس صاحب نے امیتابھ کو بلاوا بھیجا۔ امیتابھ خاص طور پر کلکتہ سے عباس سے ملنے آئے تھے۔‘

’امیتابھ کے جانے کے بعد عباس نے تینو سے کہا کہ وہ امیتابھ کو 5000 روپے دیں گے، چاہے یہ فلم ایک ماہ میں بنے یا ایک سال میں۔ جب ٹینو نے یہ بات امیتابھ اور ان کے بھائی کو بتائی تو وہ زیادہ خوش نہیں ہوئے۔ یہ رقم امیتابھ کی دو ماہ کی تنخواہ کے برابر تھی۔‘

امیتابھ کی خواجہ احمد عباس سے ملاقات کا ذکرعباس کی بھانجی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کیا۔

سیدہ نے بتایا کہ ’عباس نے اپنے سکریٹری عبدالرحمان کو بلایا اور امیتابھ کے کنٹریکٹ کو ڈکٹیٹ کرنے لگے۔ انھوں نے ایک بار پھر امیتابھ سے ان کا پورا نام اور پتہ پوچھا۔ امیتابھ نے اپنا نام بتایا اور پھر رک کر کہا، بیٹا ڈاکٹر ہری ونش رائے بچن۔‘

یہ سن کر خواجہ احمد عباس چلائے ’جب تک میں تمہارے والد کی اجازت نہ لے لو اس معاہدے پر دستخط نہیں ہو سکتے۔ وہ میرے جاننے والے اور سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ کمیٹی میں میرے ساتھی ہیں۔ آپ کو مزید دو دن انتظار کرنا پڑے گا۔‘

اس طرح خواجہ احمد عباس نے کنٹریکٹ کی بجائے ہری ونش رائے بچن کو ٹیلی گرام ڈکٹیٹ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ اپنے بیٹے کو اداکار بنانے کے لیے تیار ہیں؟

دو دن بعد سینئر بچن کا جواب آیا، ’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘

اس طرح امیتابھ نے 15 فروری 1969 کو اپنی پہلی فلم ’سات ہندوستانی‘ سائن کی۔

اردو کا امتحان

اس فلم میں ٹینو آنند بھی اداکاری کرنے والے تھے لیکن اسی وقت ستیہ جیت رائے نے انھیں اپنے پاس بلا لیا۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تینو آنند کا کردار امیتابھ بچن کو دیا گیا اور امیتابھ جو کردار پہلے ادا کر رہے تھے وہ محمود کے بھائی انور علی کو دیا گیا۔

انہی دنوں امیتابھ کی ملاقات رشی کپور سے ہوئی۔

رشی کپور نے اس ملاقات کو اپنی سوانح عمری ’کھلم کھلا‘ میں یاد کیا ہے۔ انھوں نے لکھا، ’میں ٹینو آنند کا دوست تھا اور اکثر ان کے گھر جاتا تھا۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک دبلا پتلا آدمی زمین پر بیٹھا ہے اور خواجہ احمد عباس کو تحریری امتحان دے رہا ہے۔‘

’دراصل، عباس چاہتے تھے کہ امیتابھ اردو کا امتحان دیں، کیونکہ فلم کے بہت سے ڈائیلاگ اردو میں تھے۔‘ امیتابھ نے بھی اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’اس وقت مجھے اردو بالکل نہیں آتی تھی۔‘

شراب سے پرہیز

امیتابھ کو اپنی پہلی ہی فلم ’سات ہندوستانی‘ میں نیشنل ایوارڈ ملا تھا۔

پردیپ چندر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’عباس صاحب بہت کم بجٹ میں فلمیں بناتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی جب وہ بہت خوش ہوتے تو اپنے کسی ساتھی کو 50 روپے دیتے اور ان سے جشن منانے کو کہتے۔‘

امیتابھ کو یہ 50 روپے ایک بار ملے۔ رقم ملتے ہی تینوں دوستوں بچن، جلال آغا اور انور علی نے اس شام کو یادگار بنانے کا فیصلہ کیا اور تینوں نے بہت زیادہ شراب پی۔

اگلے دن انور علی نے بچن کو مشورہ دیا کہ جب تک آپ انڈسٹری میں نام نہیں بنا لیتے شراب کو ہاتھ نہ لگائیں۔ امیتابھ نے اسی وقت شراب نوشی ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس فیصلے پر انھوں نے ساری زندگی عمل کیا۔ جب ان کے بھائی اجیتابھ کی شادی ہوئی تب انھوں نے شراب کے دو گھونٹ ضرور پیے۔

لاگاتار دس فلموں کی ناکامی

سات ہندوستانی کے بعد قسمت نے امیتابھ بچن کا ساتھ نہیں دیا۔ ان کی لگاتار 10 فلمیں باکس آفس پر مات کھا گئیں۔

1971 میں ان کی فلم ’پروانہ‘ آئی جس میں نوین نشچل ہیرو تھے اور امیتابھ نے منفی کردار ادا کیا۔

اسی دوران سنیل دت نے انھیں اپنی فلم ’ریشما اور شیرا‘ میں کام کرنے کا موقع دیا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ یہ ایک گونگا کردار تھا۔

بعد میں ہری ونش رائے بچن نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ’یہ امیتابھ کی اداکاری کی مہارت کا اصل امتحان تھا کیونکہ انھیں اپنے تمام جذبات سامعین تک پہنچانے تھے۔‘

ایک بار امیتابھ بچن خواجہ احمد عباس کے ساتھ ہرشی کیش مکھرجی سے ملنے ان کے گھر گئے۔ ان دنوں وہ اپنی فلم ’آنند‘ کے لیے ایک اداکار کی تلاش میں تھے۔

امیتابھ کو دیکھ کر انھیں لگا کہ انھیں اپنا ’بابو موشے‘ مل گیا ہے۔

اس سے پہلے وہ اس کردار کے لیے مشہور بنگالی اداکار اتم کمار کو لینا چاہتے تھے۔ بعد میں انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا ’میں نے امیتابھ کی آواز اور سنجیدہ نظروں کی وجہ سے ان کو منتخب کیا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ امیتابھ نے اس فلم میں راجیش کھنہ کو مات دی۔‘

یہ بھی پڑھیے

ریکھا اور امیتابھ کی محبت: جب جیا بچن نے اس شرط پر فلم سائن کی کہ آئندہ امیتابھ ریکھا کے ساتھ کوئی فلم نہیں کریں گے

امیتابھ بچن کی موت کو شکست دینے کی 38 سال پرانی کہانی

آنند: راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کی وہ فلم جس کو دیکھنے کے بعد ہر آنکھ اشک بار تھی

امیتابھ اور جیا کی قربت

امیتابھ کی کوئی سولو ہٹ ابھی تک نہیں آئی تھی۔ اس دوران امیتابھ کی جیا بھدوری کے ساتھ قربت بڑھ گئی تھی اور دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے تھے۔

سال 1971 میں ہرشی کیش مکھرجی اپنی فلم ’گڈی‘ میں ان دونوں کو لینا چاہتے تھے لیکن آخری وقت میں انھوں نے اپنا فیصلہ بدل لیا جس سے دونوں کو شدید دکھ ہوا۔

اگلے سال، بی آر اشارا نے امیتابھ اور جیا کو اپنی فلم ’ایک نظر‘ میں ایک ساتھ کام کرنے کا موقع دیا۔

انھوں نے دھرمیندر کے سیکرٹری دینا ناتھ شاستری کے کہنے پر امیتابھ اور جیا کو یہ فلم آفر کی تھی۔ لیکن وہ اندر سے سمجھ رہے تھے کہ جیا سکرپٹ سننے کے بعد فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیں۔

لیکن اشارا کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی اور دونوں نے فلم میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

دونوں کو ایک اور فلم ’ایک تھی سودھا، ایک تھا چندر‘ میں سائن کیا گیا تھا۔ یہ مشہور مصنف ڈاکٹر دھرم ویر بھارتی کے ناول ’گناہوں کا دیوتا‘ سے متاثر کہانی تھی لیکن مالی مجبوریوں کی وجہ سے اس فلم کی شوٹنگ مکمل نہیں ہو سکی۔

اداکاری کی تعریف

امیتابھ کی ابتدائی فلمیں تو فلاپ ہوئیں لیکن ان کی اداکاری نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔

پردیپ چندرا کہتے ہیں، ’اگر امیتابھ کے پاس ٹیلنٹ نہ ہوتا تو انھیں ایک کے بعد ایک 12 فلمیں نہ ملتیں۔ انھیں تیسری فلم کے بعد ہی بوریا بستر باندھنا پڑتا۔‘

ان کے ساتھ کام کرنے والے اداکاروں نے ان کی تعریفیں کرنا شروع کر دیں۔ سب سے پہلے اوم پرکاش نے جو ان کے ساتھ ’پروانہ‘ میں کام کر رہے تھے، ان کی اداکاری کی تعریف کی۔

بچن کے ساتھ 27 فلموں میں کام کرنے والے مشہور ولن پریم چوپڑا نے بھی ان کی اداکاری کی تعریف کی۔ لیکن ہٹ فلمیں نہ دینے کی وجہ سے انھیں کئی فلموں سے بھی ہٹا دیا گیا۔

سال 1972 میں انھیں ایک فلم ’اپنے پرائے‘ کے لیے سائن کیا گیا۔ کندن کمار اس کی ہدایات دے رہے تھے۔ فلم کے ایک بڑے حصے کی شوٹنگ کے بعد بچن کو ڈراپ کر دیا گیا اور ان کی جگہ سنجے خان کو لیا گیا۔ اس فلم کا نام بھی بدل کر ’دنیا کا میلہ‘ کر دیا گیا۔

جاوید اختر کی سفارش پر ’زنجیر‘ کا کردار

جب پرکاش مہرا نے ’زنجیر‘ بنانا شروع کیا تو دھرمیندر، راج کمار اور دیوآنند نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اس فلم کو مسترد کر دیا۔

پردیپ چندر بتاتے ہیں کہ ’پھر جاوید اختر نے کہیں سے ان کا ٹیلی فون نمبر تلاش کیا اور انھیں فون کیا اور کہا کہ وہ انھیں اپنا سکرپٹ بتانا چاہتے ہیں۔ ان دنوں امیتابھ اتنے مصروف نہیں تھے۔‘

’سکرپٹ سننے کے بعد، امیتابھ نے جاوید سے پوچھا کہ کیا ان میں یہ کردار کرنے کی صلاحیت ہے؟ جاوید نے انھیں سمجھایا کہ اگر کوئی یہ کردار کر سکتا ہے تو وہ آپ ہو۔‘

کئی سال بعد امیتابھ بچن نے جاوید اختر سے پوچھا کہ ’آپ نے پرکاش مہرا سے کس سوچ کے ساتھ مجھے فلم میں کاسٹ کرنے کے لیے کہا؟‘

جاوید کا جواب تھا، ’میں نے ’بمبے ٹو گوا‘ دیکھی اور ایک لڑائی کی شروعات میں آپ چیونگم کھا رہے تھے، جب آپ گھونسہ لگنے کے بعد اٹھے تو بھی اسے چبا رہے تھے، اس منظر کو دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ زنجیر فلم آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔‘

جاوید اختر پرکاش مہرا کے ساتھ روپتارا اسٹوڈیو پہنچے، جہاں امیتابھ جیتندر اور ہیما مالنی کے ساتھ فلم ’گہری چال‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی امیتابھ نے اپنے کیرئیر کی 13ویں فلم سائن کی۔

یہی نہیں اس فلم میں ان کی ہونے والی بیوی جیا بھدوری کو بطور ہیروئن سائن کیا گیا تھا۔ بعد میں امیتابھ سے پوچھا گیا کہ اگر انھیں زنجیر نہ ملتی تو وہ کیا کرتے؟

امیتابھ نے جواب دیا ’میرے پاس کوئی متبادل منصوبہ نہیں تھا۔ زنجیر واحد فلم تھی جو اس وقت میرے ہاتھ میں تھی۔‘

’ناراض نوجوان‘ کا عروج

1973 میں ریلیز ہوئی زنجیر سپر ہٹ فلم ثابت ہوئی۔ اسے فلم فیئر ایوارڈز میں نو کیٹیگریز میں نامزد کیا گیا تھا۔ پران پر بنائی گئی اس فلم کا گانا ’یار ہے ایمان میرا‘ اس سال کا سب سے مقبول گانا ثابت ہوا۔

اس فلم نے ایک نامعلوم اداکار کے درجے سے اٹھا کر امیتابھ کو سپر اسٹار بنا دیا۔ یہاں سے ہی ان کا ’اینگری ینگ مین‘ کا امیج بننا شروع ہوا۔

حالانکہ امیتابھ بچن کا ماننا ہے کہ اینگری ینگ مین کی تصویر کے بیج ہرشی کیش مکھرجی کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ’نمک حرام‘ کے دوران بوئے گئے تھے۔

ہرشی کیش مکھرجی نے ایک بار کہا کہ ’میں نے محسوس کیا کہ اس میں صرف ایک نظر اور اپنی آواز سے کردار کو طاقتور بنانے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ اسی لیے میں نے انھیں نمک حرام میں ناراض نوجوان کا کردار دیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments