میرے والد عبدالباسط کی گہری محبت اور دانائی کی باتیں


 

کینیڈا میں میرے شاعر چچا جان عارف عبدالمتین کے صد سالہ جشن ولادت پر ایک اجنبی دوست نے میری بہن عنبرین کوثر سے فرمائش کی کہ ڈاکٹر خالد سہیل سے کہیں کہ وہ اپنے والد عبدالباسط کے بارے میں بھی کچھ لکھیں۔ چنانچہ یہ کالم ان قدر دان کی خواہش کی تکمیل کے لیے لکھا گیا ہے ۔

۔ ۔ ۔
(1)
۔ ۔ ۔

میری بچپن کی بہت سی یادوں میں سے ایک یاد میرے والد عبد الباسط کا اپنے شاعر چچا عارفؔ عبدالمتین کو دس سے پندرہ صفحوں کے طویل خط لکھتے دیکھنا تھا۔ اس وقت تک میرے والد ایک صوفی منش انسان بن چکے تھے جبکہ میرے چچا جان ایک سوشلسٹ شاعر تھے۔ میرے چچا جان نے کبھی میرے والد کے خطوط کا جواب نہیں دیا۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ میں نے اپنے والد کو چھیڑنے کے لیے کہا

’ ابا جان عارف چچا آپ کے خطوط کا جواب اس لیے نہیں دیتے کیونکہ وہ ان خطوط کو پڑھتے ہی نہیں ہیں۔ ‘
انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
’ بیٹا یہ محبت نامے ہیں کاروباری خطوط نہیں ہیں۔ ‘

میرے والد کے طویل خطوط کی متواتر وصولی کے دس برس کے بعد جب میرے چچا جان نے اپنی شاعری کا نیا مجموعہ۔ صلیب غم۔ شایع کیا تو اس کو میرے والد کے نام منسوب کر دیا۔ ان کے اس عمل نے مجھ پر ثابت کر دیا کہ انہوں نے نہ صرف وہ خطوط پڑھے بلکہ بہت غور سے پڑھے اور ان سے بہت متاثر بھی ہوئے تھے۔ بعد میں میرے چچا جان بھی ایک صوفی شاعر بن گئے۔

میں ایک طویل عرصے تک اپنے والد کے طویل خطوط کے بارے میں سوچتا رہا۔ میرا خیال ہے بہت سے بھائی خطوط کا جواب نہ ملنے پر خط لکھنا چھوڑ دیتے مگر میرے والد نے ایسا نہیں کیا۔ میں سوچتا ہوں

کیا چیز ان سے خطوط لکھواتی رہی؟
ان کو کس چیز نے متحرک رکھا؟
ان کی دل شکنی کیوں نہیں ہوئی؟
انہوں نے یہ سلسلہ کیوں نہیں روکا؟
ایک طویل عرصے کے غور و فکر کے بعد میں جس نتیجے پر
پہنچا ہوں وہ ہے گہری محبت۔

میرے والد کو میرے چچا جان سے گہری محبت تھی۔ ان تمام بھائیوں سے زیادہ جن کو میں نے اپنی زندگی میں ایک دوسرے سے محبت کرتے دیکھا ہے۔ ان خطوط میں محبت کے ساتھ ساتھ فلسفہ بھی تھا۔ میرے والد نے ان خطوط میں اپنا علم ’تجربہ اور ذہانت نچھاور کر دیے تھے۔ انہوں نے ان خطوط میں اپنی روحانی فکر بھی شامل کی تھی۔ اسی لیے اک بار میرے چچا جان نے مجھ سے کہا تھا

’ تمہارے والد چاہے عمر میں کم ہوں مگر دانائی میں مجھ سے بڑے ہیں۔ ‘

انسانی نفسیات کے اک طالب علم ہونے کی حیثیت کے میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ ’میرے والد نے اپنے اندر اتنے گہری محبت کو کیسے پروان چڑھایا؟ ‘ میرا خیال ہے اس کا تعلق ان کے نفسیاتی بحران سے ہے۔ اس بحران کے بعد انہوں نے معرفت کی راہ اختیار کی۔ اہل خانہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ذہنی توازن کھو دیا ہے وہ سمجھتے تھے انہوں نے اپنا خدا پا لیا ہے۔ خاندان والے سمجھتے تھے ان کا نروس بریک ڈاؤن ہوگیا ہے لیکن ان کو کامل یقین تھا کہ ان کا
SPIRITUAL BREAKTHROUGH

ہوا ہے۔ لوگ انہیں صوفی صاحب کہنے لگے۔ جب وہ صوفی بنے تو ان کی محبت میں گہرائی پیدا ہوئی۔ ان کی اس گہری محبت سے مستفید ہونے والوں میں ان کے بھائی کے ساتھ ساتھ میں بھی شامل رہا۔

اب جب کہ میں اپنے والد کے ذہنی بحران ’معرفت اور ان کی گہری محبت کے بارے میں سوچ رہا ہوں تو مجھے بچپن کا وہ واقعہ یاد آ رہا ہے جب ہمارے ہمسائے اپنے احاطے میں ایک کنواں کھودنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک بچے کی حیثیت سے میں اس کھدائی کو بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا۔ چونکہ ہمارے علاقے میں پانی نہیں تھا اور لوگ قریب کے ایک دریا سے پانی بھر کر لاتے تھے اس لیے ہمسایوں کے لیے یہ بہت اہم تھا کہ کنواں کھودا جائے۔ چند فٹ کھودنے کے بعد ہم سب کو پانی نظر آیا۔

میں بہت خوش ہوا اور سمجھا ہمارا کام پورا ہو گیا مگر میرے والد نے مجھے بتایا کہ نہیں ابھی لوگوں کو اور کھودنا پڑے گا چونکہ ابھی جو پانی ہے وہ کپڑے دھونے کے لیے تو ٹھیک ہے مگر اتنا صاف نہیں کہ پینے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ بیس فٹ کی اور کھدائی کے بعد پانی کی اک اور گہری سطح نظر آئی جس کا پانی اتنا صاف تھا کہ لوگ اسے پی بھی سکتے تھے۔

کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ شاید لوگوں کے دلوں میں بھی دو طرح کی محبت ہوتی ہے۔ سطحی محبت اور گہری محبت۔ زیادہ تر لوگ صرف سطحی محبت کر سکتے ہیں۔ جب کہ میرے والد کی طرح چند لوگ گہری محبت کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور کبھی کبھار ان لوگوں کو اس گہری محبت تک پہنچنے کے لیے ایک بحران ’ایک امتحان اور ایک آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگ اس گہری محبت تک زندگی کے تجربات سے خود پہنچ جاتے ہیں۔ اور کچھ کو کسی استاد یا ماہر نفسیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں ایک تھراپسٹ بن سکا اور پچھلے تیس برسوں سے اپنے مریضوں کے نفسیاتی مسائل حل کرنے اور گہری محبت تک رسائی میں ان کی مدد کرتا رہا ہوں۔ میں انہیں گہری محبت کا تحفہ اس لیے پیش کر سکتا ہوں کیونکہ میں نے وہ تحفہ اپنے والد سے حاصل کیا ہے۔

میرا ایک شعر ہے
؎ میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں
اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں
جو لوگ اس روشنی تک پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ گہری محبت کرنے کے بھی قابل ہو جاتے ہیں۔
۔ ۔ ۔
(2)
۔ ۔ ۔

میرے والد فرمایا کرتے تھے ’جب بادشاہ فوت ہوتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے محلات‘ کھیت ’گھوڑے اور کشتیاں ورثے میں چھوڑ کر جاتے ہیں لیکن جب سنت‘ سادھو اور صوفی دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کے لیے دانائی کی باتیں چھوڑ کر جاتے ہیں جو نسل در نسل ان کے بچوں ’بچیوں‘ پوتے پوتیوں ’نواسے اور نواسیوں کی زندگی کی تاریک راتوں میں مشعل راہ کا کام کرتی ہیں۔

جب میں اپنے والد کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے ان کی بہت سی دانائی کی باتیں یاد آتی ہیں۔ مجھے یاد ہے جب میں نے آٹھویں جماعت کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور سکول میں اول پوزیشن حاصل کی اور آپ کے دوست مبارکباد دینے آئے تو آپ نے بڑے احترام سے کہا

’میرا بیٹا اللہ کی امانت اور فطرت کا ایک تحفہ ہے۔ میں صرف اس کی دیکھ بھال کرنے والا ہوں اور اس کی کامیابی کے لیے کوشاں ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ اس نے اتنا اچھا کام کیا۔‘

مجھے ان کے الفاظ کی دانائی سمجھنے میں بہت وقت لگا۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ وہ نہ صرف مجھ سے محبت کرتے تھے بلکہ مجھ پر فخر بھی کرتے تھے اور میری آزاد خیال شخصیت کا احترام بھی کرتے تھے۔

جب میں دسویں جماعت میں تھا تو سکول کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ میری مقبولیت کو دیکھ کر میرے دوست پرامید تھے کہ میں الیکشن جیت جاؤں گا۔ جب میں نے اپنے والد صاحب سے اجازت مانگی اور درخواست کی کہ وہ میرے نامزدگی کے کاغذات پر دستخط کر دیں تو آپ نے انکار کر دیا۔

مجھے اس بات کا دکھ ہوا اور پوچھا
’آپ نے دستخط کیوں نہیں کیے؟‘

والد صاحب نے پوچھا ’کیا آپ صدر بننا چاہتے ہیں؟‘
میں نے ایمانداری سے جواب دیا ’جی ہاں بننا چاہتا ہوں‘
کہنے لگے ’پھر تمہیں نا اہل قرار دینا چاہیے‘
میں نے پریشان ہو کر پوچھا ’آخر کیوں؟‘

کہنے لگے ’کیونکہ تم طاقت چاہتے ہو اور جو شخص طاقت کا خواہشمند ہوتا ہے وہ اندر سے کمزور ہوتا ہے اور اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور طاقت حاصل کرنے کے بعد مغرور و متکبر ہو جاتا ہے۔ ‘

پھر انہوں نے وضاحت کی

’میرا یقین ہے کہ کسی بھی طبقے میں لوگوں کو اپنے رہنما کا خود انتخاب کرنا چاہیے۔ ایسے رہنما کا جو ان کی بہتر خدمت کر سکے اور اس شخص کو اپنی انکساری کی وجہ سے وہ پیشکش ٹھکرا دینی چاہیے۔ اسے انکار کر دینا چاہیے لیکن اگر لوگ اصرار کریں تو اسے اقرار کرنا چاہیے اور خدمت کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ ہمیں عوام کی خدمت کرنا سیکھنا چاہیے حکمرانی کرنا نہیں

WE NEED TO LEARN TO SERVE NOT RULE
میں خاموش رہا۔ میں نے سوچا میرے والد ایک مثالیت پسند انسان ہیں حقیقت پسند نہیں۔

برسوں بلکہ دہائیوں بعد جب میں اسرائیل کے کبوتز گیا تو مجھے یہ دیکھ کر اپنے والد کی دانائی کا معترف ہونا پڑا کہ کبوتز کے لوگ اپنے رہنما کا انتخاب اسی طریقے سے کرتے ہیں جس کا ذکر میرے والد نے کیا تھا۔

عوام انتخاب کرتے ہیں
رہنما انکار کرتا ہے
وہ اصرار کرتے ہیں
انکار اقرار میں بدل جاتا ہے
وہ رہنما دو سال خدمت کرتا ہے
پھر وہ نیا رہنما چنتے ہیں۔

اس مشاہدے سے اندازہ ہوا کہ میرے والد حقیقت پسند تھے بشرطیکہ ان کے خیالات اور نظریات پر کوئی عمل کرنے والا ہو۔

میرے والد میں حس مزاح بھی موجود تھی۔ جب میں نے کالج کے مشاعروں میں اپنی غزلیں نظمیں پڑھ کر انعامات حاصل کرنے شروع کیے تو انہوں نے مجھے ایک لوک کہانی سنائی۔ آپ نے فرمایا

’ایک گاؤں میں ایک ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ ایک روز وہ چوراہے میں بیٹھا رو رہا تھا
لوگوں نے پوچھا کیوں رو رہے ہو؟
کہنے لگا میرا کوئی بیٹا نہیں بچا۔
لوگوں نے پوچھا سب سے بڑے بیٹے کا کیا ہوا؟
اس کی شادی ہو گئی اب وہ اپنی بیوی کا ہو گیا۔

دوسرے بیٹے کا کیا ہوا؟
وہ گاؤں سے شہر چلا گیا اب وہ شہر کا ہو گیا۔
لیکن سب سے چھوٹا بیٹا نہ تو شہر گیا ہے اور نہ ہی اس نے شادی کی ہے اس کا کیا ہوا
وہ شاعر بن گیا ہے۔
یہ کہہ کر وہ شخص پھر رونے لگا

میرے والد نے کہا ’میرا تو ایک ہی بیٹا ہے اور وہ بھی شاعر بن گیا ہے۔
اور ہم دونوں زور زور سے ہنسے۔

میرے والد اور میں اپنے فلسفیانہ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ دل جیتنا دلیل جیتنے سے زیادہ اہم ہے

WINNING HEARTS IS MORE IMPORTANT THAN WINNING ARGUMENTS

چند سال پیشتر جب میں لاہور میں تھا اور اپنے والد کی قبر پر حاضری دینے گیا تو مجھے ندا فاضلی کی دلگداز نظم یاد آئی۔

وہ نظم حاضر خدمت ہے
تمہاری قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا تم مر نہیں سکتے
تمہاری موت کی سچی خبر جس نے اڑائی تھی وہ جھوٹا تھا
وہ جھوٹا تھا وہ تم کب تھے
کوئی سوکھا ہوا پتہ ہوا سے گر کے ٹوٹا تھا
مری آنکھیں تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں سوچتا ہوں وہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بدنامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے جب بھی کاغذ قلم اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی پہ پاتا ہوں
بدن میں جتنا بھی میرے لہو ہے وہ
تمہاری لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
تمہارے قبر پر میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا۔
۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments