دو بول پیار کے – فکشن


سُنیں! ناشتہ لگا دیا ہے۔ آ جائیں۔ فوزیہ نے بیٹے کے لیے پراٹھا بیلتے ہوئے ہی باورچی خانے سے ہی زور دار آواز لگائی۔ اس کے چہرے سے بیزاری اور پزمژدگی جھلک رہی تھی۔
”ہاں۔ ہاں لگاؤ۔ تھوڑی دیر میں آتا ہوں ذرا کمرہ سمیٹ دوں“ ۔ فیصل نے کمرے سے ہی آواز لگائی۔

”آپ نے تو کہا تھا ناشتہ لگاؤ، میں آ رہا ہوں۔ چائے آپ کو کھولتی چاہیے، پراٹھا توے سے اُترا ہوا۔ اب کمرے سمیٹتے رہیے گا اور سب ٹھنڈا ہو جائے گا پھر میں گرم نہیں کروں گی۔ ابھی بتا رہی ہوں۔“

اس آدمی کا روز کا یہی دھندا ہے۔ بندے کو اتنا بھی سگھڑ نہیں ہونا چاہیے۔ کمرہ ناشتے سے پہلے ہی درست کرنا ضروری ہے کیا۔ جبکہ معلوم ہے کہ مجھے دو ہی باتوں سے چڑ ہے، ایک کھانے کی میز پر دیر سے آنے پر اور دوسرا بنا بتائے گھر دیر سے آنے پر۔ لیکن نہیں! سمجھ ہی نہیں آتی اتنی سی بات۔ مجھے تو لگتا ہے یہ دونوں کام جان بوجھ کر صرف مجھے ستانے کے لیے کرتے ہیں۔ اُس نے تصور میں ہی شوہر کو کسی ڈیڑھ دو سال کے بچے کی طرح دونوں بازوں سے پکڑا اور اُٹھا کر کُرسی پر پٹخ دیا اور کان مروڑ کر جلدی جلدی سے ناشتہ ختم کرنے کی ہدایت بھی کی۔ معلوم نہیں کیوں، اس کے دماغ میں چنگاریاں سلگا رہی تھیں۔ ایسی کیفیت میں وہ خود اپنے آپ کو نہیں پہچان پاتی تھی۔ یہ سوچ کر ایک لمحے کو اس کو کوئی خیال آیا اور اس نے فون کھول کر اپنی ”مائی کلینڈر“ ایپ پر نظر ڈالی۔ کلینڈر دیکھ کر اس نے لمبی سانس بھری اور فون واپس بند کر کے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔

”لو آ گیا۔“ میاں نے کرسی گھسیٹ کر بیٹھتے ہوئے، مسکرا کر کہا۔ اب تک فوزیہ اس کے کان مروڑ کے ریلیکس ہو چکی تھی۔ یونیورسٹی سے واپسی پر دہی، انڈے اور بریڈ لیتے آئیے گا۔ فوزیہ نے خود ہی چائے دوبارہ گرم کر کے سامنے رکھتے ہوئے فرمائش کی۔

” یار یہ آج کل کے نوجوانوں کو کیا ہو گیا، ماں باپ بٹھا کر کھلا رہے ہیں، جیب خرچا دیتے ہیں پھر بھی ان سے پڑھائی نہیں ہوتی ہے۔“ شوہر نے افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
دہی فل فیٹ لائیے گا۔ فوزیہ نے اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی شرط عائد کر دی۔

اب اس لڑکے کو دیکھو، ماں باپ نے کسی دوردراز علاقے سے پیٹ کاٹ کاٹ کر پڑھنے بھیجا ہے، مگر اس سے پڑھائی نہیں ہوتی۔ اب فیل ہو گیا ہے تو میل کر کر کے میری جان کھا رہا کہ سر کچھ نمبر بڑھا دیں۔ ”، فیصل نے فون پر اُلٹے ہاتھ سے اسکرول کرتے ہوئے کہا۔

” بیٹا، نوالے چھوٹے کھاؤ، کتنی بار کہا ہے۔ سمجھ کیوں نہیں آتی۔ ایک ہی بات دس مرتبہ کیوں دہرانی پڑتی ہے؟“ فوزیہ نے بیٹے ڈانٹ پلائی۔ بیٹے نے جُز بُز ہو کر کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ فیصل نے نظر بچا کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

”اور آپ نے میری بات سنی؟ اور یہ کھاتے ہوئے فون کیوں دیکھ رہے ہیں؟ پلیز بند کریں۔ اُس کا رخ اب شوہر کی طرف تھا۔
”لو بیگم بند کر دیا۔ خوش۔“ فیصل نے فون بند کر کے ایک طرف رکھ دیا۔

”شکریہ۔“ فوزیہ نے خوش ہو کر کہا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے بد گمانی نے اس کے ذہن میں ڈنک مارا، نہیں، ایسے آرام سے فون چھوڑنے والے نہیں ہیں۔ ، خود ہی بند کرنے والے ہوں گے اور احسان مجھ پر رکھ دیا۔ ”

اچھا! اب میں چلوں۔ پلیز، دوا کھا لینا۔ اوکے، اللہ حافظ۔ ”
”ہاں کھا لوں گی۔ خدا حافظ۔“
مگر گھر کے کاموں میں پھر اس کے ذہن سے دوا لینا نکل گیا۔


کیا پکاؤں، کیا پکاؤں؟ برتن دھوتے دھوتے یہ سوال اُس کے دماغ میں ایسا گھومتا رہا جیسے کپڑے دھونے کی مشین میں پڑے کپڑے گول گول گھومتے رہتے ہیں۔
اچار گوشت، فیصل کا فیورٹ، نہیں نہیں، کل ہی تو کڑھائی بنائی تھی۔
چنے کی دال لوکی، نہیں، سنی نہیں کھاتا۔ کوئی دوسری ہانڈی ساتھ بنانی پڑے گی۔

آلو کے پراٹھے، ہاں یہ ٹھیک ہے۔ آٹا گندھا ہوا ہے۔ بس بھرتا ہی بنانا پڑے گا، کباب فریزر سے نکال لوں گی۔ ہاں بس یہی فائنل ہے۔
اوہ، انہیں دھنیا لانے کا تو بتایا ہی نہیں۔
اُس نے کال ملائی۔
ہیلو۔ دوسری طرف سے فیصل نے دو تین گھنٹیوں کے جواب دیا۔
”سُنیں، دھنیا بھی لے آئیے گا۔ میں بتانا بھول گئی تھی۔“
”تو یار ٹیکسٹ کر دیتیں۔ میں گاڑی چلا رہا ہوں۔ “
”اوہ، سوری۔ میرے ذہن سے نکل گیا۔ اچھا اللہ حافظ۔

”پتا نہیں میں اتنی بے صبری کیوں ہوں؟ ڈرائیونگ کرتے کال وصول کرنا خطرناک ہے۔ میں خود منع کرتی ہوں کہ نہ سنا کریں۔ اور دھنیا اتنا بھی ضروری نہیں اور فیصل نے تو کبھی اعتراض نہیں کیا کہ کھانے میں دھنیا نہیں ہے۔ یہ تو میں نے ہی فرض کیا ہوا ہے۔ آخر میں باورچی خانے کو اتنا سنجیدہ کیوں لیتی ہوں؟ پیٹ ہی تو بھرنا ہے؟ لیکن نہیں یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی، لیکن۔ لیکن نہیں اب کھانے کی شکل اچھی نہ لگے تو کھانے کا کیا خاک دل چاہے گا؟“

اُف کیا مصیبت ہے۔ ”اُس پر جھنجھلاہٹ طاری ہونے لگی۔ اس کا موڈ گرگٹ کی طرح رنگ بدل رہا تھا۔


کہاں گئے، کہاں گئے؟ تین بجے کا کہے گئے تھے اور اب پانچ بج رہے ہیں اب تک نہیں آئے۔ گھر کے دروازے سے اپنے کمرے تک فوزیہ کے بیسیوں چکر لگ چکے تھے۔ بس ایک بار گھر سے باہر پیر نکل جائیں اس آدمی کے لیے دوبارہ گھر کے اندر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ٹہلتے ہوئے وہ مسلسل خود کلامی کر رہی تھی۔ ٹن ٹن ٹن۔ آ گئے شاید۔ فوزیہ نے انتہائی مشقت سے مسکراہٹ لبوں پر سجا کر دروازہ کھولا۔

”کہاں رہ گئے تھے آپ؟ فون تو کر دیا ہوتا دیر سے آنے کا۔“ شکوہ کیے بغیر اس سے رہا نہیں گیا، لیکن لہجے میں شکوے کے بجائے فکر کا تاثر نمایاں تھا۔
” ارے یار، اسٹور پر ایک دوست مل گیا تھا۔ باتوں میں ایسے مگن ہوئے کہ وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔“ فیصل نے شاپنگ بیگ اور لیپ ٹاپ بیگ کے ساتھ گھر میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

” تین گھنٹے تک کیا باتیں کر رہے تھے۔ آپ نے تو عورتوں کو بھی مات دے دی ہے۔“ فوزیہ نے شاپنگ کے تھیلے کھولتے ہوئے کہا۔
”دہی فُل فیٹ نہیں ملی۔ میں لو فیٹ لے آیا ہوں۔ “

ارے! تو نہیں لاتے کیا ضرورت تھی میں نے یہ تھوڑی کہا تھا کہ لازمی لائیے گا۔ اور یہ کیا! دھنیا منگایا تھا پودینہ کیوں لے آئے؟ چڑچڑاہٹ نے پھر فوزیہ کو گھیر لیا۔
”زبانی کلامی بولو گی تو یہی ہو گا۔ لکھ کر دیا کرو نا۔ تمھیں پتا ہے میں بھول جاتا ہوں، اور ویسے بھی دونوں ہی گھانس پھونس ہیں کوئی بھی ڈال لو کیا فرق پڑتا ہے۔ “ فیصل نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

اینڈرسن اور فوکو آپ کے دماغ پر سوار رہتے ہیں، ایک ایک بالشت لمبی غزلیں اور نظمیں آپ کو یاد ہو جاتی ہیں، مگر میرے دو چار کچن آئٹم آپ سے یاد نہیں ہوتے اور خبردار میرے دھنیے پودینے کو گھانس پھونس کہا، کھانوں کا سنگھا رہیں یہ۔ ”

اچھا بھئی نہیں کہتا۔ آئندہ لسٹ لکھ کے بھیجا کرو تاکہ ایک چیز بھی ادھر سے اُدھر نہ ہو، کوئی برانڈ تبدیل نہ ہو، کسی چیز کا سائز، رنگ غلط نہ لے آؤں۔ فیصل کہتا ہوا باتھ میں گھس گیا۔ واپس آ کر اس نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا۔ ”ابھی کھا لیا تو ایکسرسائز نہیں ہو گی۔“ اس نے کہا او ر ٹی وی کھول کر اس کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔

” سنیں، شادی میں سوٹ پہنیں گے۔ سوٹ یا شلوار قمیض؟“
” شلوار قمیض پہن لیں گے۔“ ٹی وی پہ نظریں جمائے جمائے غائب دماغی سے کہا۔

”اچھا سنو، وہ اس ہفتے ہم کالج کے سب دوست مل رہے ہیں۔ میں وہاں جا رہا ہوں۔ رات دیر ہو جائے گی۔ تم انتظار نہ کرنا۔ سو جانا۔“

کیا؟ فوزیہ کی آنکھیں حیرت سے کُھلی رہ گئیں۔ ”آپ کو میں نے ایک مہینے پہلے سے بتایا ہوا ہے کہ اس ہفتے میری بہن کے دیور کی شادی پر جانا ہے۔ پھرآپ نے دوستوں سے حامی کیوں بھری؟ مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ آپ کوئی نہ کوئی چن چڑھائیں گے۔ جب تک روز یاد نہ دلاؤ آپ کو کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ اب اگر آپ نہیں گئے تو میری بہن کے سسرال والے کیا کہیں گے کہ بہنوئی کے نخرے تو دیکھو آیا ہی نہیں۔ ہماری خوشی میں خوش نہیں ہے۔“ غُصّے میں وہ بولے ہی گئی۔

”اوہ، ذہن سے نکل گیا۔ لیکن مجھے جانا پڑے گا کافی عرصے بعد پروگرام بناہے۔“ فیصل نے بے نیازی سے کہا۔ ”تم بچے لے کر اکیلی چلی جانا شادی کے جھمیلے میں کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہو گی کہ میری کمی محسوس کرتا پھرے اور کون سی یہ تمہارے اپنے میکے کی شادی ہے۔ “

”بس ہو گئی ہے میری۔ دنیا کو جواب دینے مشکل ہو جاتے ہیں میرے لیے کہاں ہے شوہر؟ ، کہاں ہے شوہر؟“ یک دم فوزیہ کا پارہ آسمان پر تھا۔

یار تم بھی حد کرتی ہو۔ تمہارے ہر رشتے دار کی شادی میں جاتا ہوں۔ ایک آدھ میں شرکت نہیں کروں گا کیا ہو جائے گا۔ پارٹی مس نہیں کر سکتا، مجبوری ہے۔ اچھا، پلیز اب ناراض نہ ہونا۔ ”وہ واپس ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گیا۔

خلاف توقع جب کافی دیر کے لیے خامشی چھا گئی تو اُسے خطرے کا احساس ہوا۔ غصے میں فوزیہ کا چپ ہونا کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا۔ اُس نے اپنے کمرے میں جا کر دیکھا تو وہ سوٹ کیس کھولے اپنے اور بچوں کے کپڑے اُس میں ٹھونس رہی تھی۔ وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھی، آنسو تواتر سے بہے رہے تھے۔ کبھی وہ انہیں اور کبھی بہتی ناک دُوپٹے سے صاف کر رہی تھی۔

ارے، یہ کیا؟ یہ کیا کر رہی ہو؟ اُ س نے پوچھا۔ فیصل کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔
امّی کے جا رہی ہو آپ دوستوں سے دوستیاں نبھائیں۔ میں تنگ آ گئیں ہوں اکیلے رہ رہ کے اکیلے دنیا داری نبھا تے نبھاتے؟ میں ناراض نہیں ہوں بس جا رہی ہوں۔ بچّوں کو میں کمپاونڈ سے ہی لے لوں گی۔ کریم بُلا لی ہے۔

”اتنی سی بات پہ کیوں اتنا ناراض ہو رہی ہو ڈارلنگ“ ، فیصل نے اُس کے آنسو اُسی کے ڈوپٹے سے صاف کیے اور سوٹ کیس ایک طرف رکھ دیا۔

اتنی سی بات، آپ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ چاہے میں کتنا ہی زور دے کر کہوں کہ فلاں دن وقت نکال کر رکھیے گا، مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے۔ مگر نہیں، کوئی نا کوئی کام نکال کر بیٹھے ہوتے ہیں۔ کبھی کام ہے، کبھی دوستوں کی سنگت ہے، کبھی خدا جانے کیا کیا مصروفیت ہے۔ مہینے دو مہینے میں گھنٹہ دو گھنٹہ نکالنا کیا اتنا مشکل کام ہے؟ بتائیں۔ آخر آپ کے ساتھ مصیبت کیا ہے؟ وہ طیش میں بلند آوازبولے چلے گئی۔ اس کے آنسو بے تحا شہ بہہ رہے تھے، سرخ ناک بار بار پونچھتے ہوئے اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ وہ خود ہر بار بھول جاتی تھی اس کی اچھی خاصی خوش مزاج خونخواری میں کیوں تبدیل ہوجاتی تھی۔

فیصل چپ چاپ اس کے گلے شکوے سنتا رہا اور ساتھ ساتھ اس کی کمر بھی سہلارہا تھا۔ وہ چپ ہو گئی تھی اور اب بس ہچکیاں لے رہی تھی۔ فیصل اٹھا اور پانی کے ساتھ ایک موڈ اسٹیبیلائزر ٹیبلٹ لاکر اسے دی۔

یہ لو، کھاؤ۔ تمہیں معلوم ہے نا تم پی ایم ایس کے دوران کتنی چڑچڑی ہو جاتی ہو۔ صبح سے چڑ چڑا رہی ہو اور ابھی دیکھو تم نے ایک دور پرے کے رشتے دار کی شادی پر نہ جانے کی بات پر کتنا واویلا کر رہی ہو حالانکہ میں کسی وجہ سے تمہاری ایک بہن کی شادی میں نہیں جا سکا تھا مگر اس پر تم نے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگر دوا وقت پر یاد سے لے لو تو اس طرح جان ہلکان نہیں کرنی پڑے تمہیں۔ بچے بھی کبھی کبھی گھبرا جاتے ہیں۔ اور میں تمہارے لیے وقت کیوں نہیں نکالوں گا؟ تم میرے گھر کی ملکہ ہو، میرے بے بیز کی ماما ہو۔ تم مجھے کھانا دیتی ہو تو میں پیٹ بھرتا ہوں، تم تو میری خدا ہو۔ فیصل نے شرارت سے کہا تو فوزیہ نے اسے خشمگیں نگاہوں سے دیکھا اور پھر، ہونہہ، کر کے منہ پھیرلیا۔

”ارے یار ذہن سے نکل گیا تھا۔ سمجھو کینسل۔ شادی پر جاؤں گا، تم سے زیادہ اہم تھوڑی ہے پارٹی۔ اچھا چلو وہ بیگ بھی خرید لو جو تمہیں جعفر جیز پر پسند آیا تھا۔ اور کچھ چاہیے بتاؤ۔“ اس نے فوزیہ کو ایک دو بار گد گدیاں شروع کر دیں۔ اسے معلوم تھا کہ ایک بار وہ ہنس پڑی تو اس کا سارا غصہ رفو چکر ہو جائے گا۔

” سنو، آج تو تم نے مجھے اتنا کم ڈانٹا ہے۔ وہ تو کہا ہی نہیں تم نے کہ، آپ بہت بدمعاش آدمی ہیں۔ جب تم مجھے لڑتے ہوئے بدمعاش نہیں کہتیں تو میں اسے مس کرتا ہوں۔ اب جب تک تم مجھے دل بھر کر برا بھلا نہیں کہو گی تو غصہ کیسے اترے گا؟ اس نے فوزیہ کی تھوڑی اٹھا کر اس کو دیکھا۔ مگر وہ مسلسل غصے میں اس سے نظریں نہیں ملا رہی تھی۔“ اچھا، مجھے دیکھو۔ دیکھو۔ ”ایک لمحے کو جیسے ہی فوزیہ نے نظر اٹھائی، اسی لمحے فیصل نے جان بوجھ کر تیز تیز پلکیں جھپکا تے ہوئے اسے معصومیت طاری کر کے دیکھا تو وہ مسکرا پڑی۔

” کیوں تنگ کرتے ہیں؟“ اس نے فیصل کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں شکوہ کیا۔
” تنگ کہا ں کرتا ہوں۔ “ فوزیہ کے ہونٹوں پر بوسہ دے کر اس نے کہا۔ ”میں تو پیار کرتا ہوں۔ “
”بہت بدمعاش ہیں آپ۔“ اس نے مسکرا کر کہا۔

” آئی لو یو یار، بس تم اپنا خیال نہیں رکھتی ہو پھر پریشان ہوتی ہو۔ چلو، اب میرے اور میرے پیارے پیارے بے بیز کے لیے فرنچ فرائز تو بنا دو۔ بہت دل چاہ رہا ہے۔ تم بچوں کو بلاؤ اور اس دوران میں ذرا ایکسر سائز کر لوں،“ فیصل بیڈ سے اٹھ کر اس کے سامنے کھڑا ہوا اور اس کے دونوں ہاتھ تھام کر اسے بھی کھڑا کر دیا۔

ایک گھنٹے بعد فوزیہ نے سب کو ڈائننگ ٹیبل پر بلا لیا۔ چائے، فرنچ فرائز کے ساتھ اس نے فیصل کی پسندیدہ میٹھی دہی بوندیاں بھی بنا لی تھیں۔

” اچھا میں یہ کہے رہی تھی، آپ پارٹی میں چلے جائیں۔ وعدہ کر کے نہ جانا اچھی بات نہیں۔ بہانہ کر دوں گی کہ کسی کام کے سلسلے میں شہر سے باہر گئے ہیں۔ ویسے بھی آج کل سب تصاویر بنوانے میں ہی اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ صحیح سے ملنے ملانے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ آپ بو ر ہوجائیں گے۔ رہنے دیں۔ “ اس نے چھوٹی بیٹی کی پلیٹ میں کیچپ انڈیلتے ہوئے کہا۔

چلو ٹھیک ہے۔ جیسا تم کہو۔ میں تو بس تمہارے حکم کا غلام ہوں۔ ”فیصل نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔ وہ ایسا پرسکون تھا جیسے معلوم ہو کہ آخر میں فوزیہ نے یہی کہنا ہے۔

” بس رہنے دیں۔ مکھن لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے مگر کرتے اپنی مرضی ہیں۔ “ اس نے محجوب ہو کر کہا اور کچن میں چلی گئی، رات کھانے میں اس نے آلو کے پراٹھوں کے بجائے اچار گوشت بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments