تیسری بیٹی


عذرا خالہ پہلے باجی اور آپا بنیں، پھر بھابھی کہلائیں اور اب ہر چھوٹے بڑے کی خالہ تھیں۔ ہلکے سوبر رنگوں اور نفیس سلائی والے سادہ لباس پہنا کرتیں۔ شاید ہی کسی نے ان کے سر سے دوپٹہ گرا ہوا دیکھا ہو۔ ہمیشہ جارجٹ کا دوپٹہ اوڑھتیں، جس کے اطراف کروشیا کی حسین بیلیں بنی ہوتیں۔ اور ان دوپٹوں کے ہالے میں ان کا کھلا کھلا چہرہ بہت خوبصورت لگتا۔ مرد و عورت کی تخصیص کے بغیر باوقار انداز میں سب سے ملتیں۔ نہ تو کسی سے زیادہ مذاق کرنا پسند کرتیں اور نہ ہی کسی کو ایک حد سے آگے بڑھنے کی اجازت دیتیں۔ ”لوگ گستاخ ہو جاتے ہیں اگر مذاق کی اجازت دو تو۔“ یہ خاص جملہ تھا خالہ کا۔ انتہائی دلچسپ انداز میں پنجابی کے محاورے استعمال کرتیں بلکہ غصے کی حالت میں اور مذاق کے موڈ میں تو پنجابی ہی برآمد ہوتی۔ غصہ ابھی چڑھا نہیں کہ پنجابی محاوروں کا تڑکا زبان کو لگ جاتا۔ اچھی بھلی اردو بولتے بولتے فوراً پنجابی میں ڈپٹنے لگ جایا کرتیں۔

ہر کسی کے دکھ درد کو دل سے محسوس کرتی تھیں۔ کسی بھی ضرورت مند کی مدد کرتے ہوئے ان کا وہی اصول تھا کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ قرآن خوانی، میلاد اور مجلسوں میں برابر شریک ہوتیں۔ ہاں مگر سالگراہوں، منگنیوں، عقیقوں اور شادیوں وغیرہ سے دور رہتی تھیں اور دعوت بھیجنے والے کو شگن بھجوا دیا کرتی تھیں۔ چھوٹا سا محلہ تھا مگر پورا محلہ چاہتا تھا کہ ہر مشکل میں وہ خالہ سے مشورہ لیں اور خالہ ان کے گھر کی ہر خوشی غمی میں شریک ہوں۔

چونکہ نئی نئی آبادکاری ہوئی تھی لِہٰذا ذرا مختلف قسم کا سماج تشکیل پا رہا تھا۔ بہت کم لوگ یہاں پشتوں سے مقیم تھے۔ زیادہ تر لوگ دور دراز کے مختلف خطوں اور علاقوں سے آئے تھے۔ اسی لئے نہ صرف طرح طرح کی زبانیں سننے کو ملتیں بلکہ نرالے سماجی طور طریقے دیکھنے کو ملتے تھے، بلکہ ہر ایک کا کام کاج کرنے کا ڈھنگ اور گھریلو زندگی گزارنے کا طریقہ بھی منفرد تھا۔ اکثریت چونکہ تعلیم یافتہ نہ تھی تو سلیقہ اور قرینہ بھی اسی حساب سے تھا۔ دن کو رات اور رات کو دن کرنا ہی فی الحال زیادہ تر افراد کا واحد مشترکہ مشغلہ تھا۔ عذرا خالہ کے گھر کے علاوہ شاید ہی کسی گھر میں اتنی باقاعدگی سے رات کو دودھ جمایا جاتا تھا اور شاید ہی کسی کو صبح سویرے چاند کی صورت چمکتے دہی کی بڑی سی ٹکیا کو کنے میں اُنڈیل کر اسے مدھانی سے بلو کر چھاچھ بنانا آتی تھی۔ پھر خالہ جس طرح چھاچھ پر بچھی مکھن کی سفید تہہ کو ہلکے ہاتھوں سے جمع کر کے چمکدار پیڑا بنا کر اس کو علیٰحدہ پانی والے برتن میں ڈال کر رکھتیں وہ منظر بھی خوب ہوتا تھا۔ صبح سے دروازے پر لسی لینے والوں کی قطار لگ جاتی تھی اور خالہ کسی کو مایوس نہیں لوٹاتی تھیں۔

کبھی تازہ مکھن کو شہد کے ساتھ ملا کر گھر والوں کو کھلاتیں تو کبھی مکھن جمع کر کے اس سے خوشبودار اصلی گھی بنا کر ساگ، سویاں، پیہوں، اور حلوے پکاتیں اور طرح طرح کی مٹھائیاں تیار کرتیں۔ خوشبو تو من موجی ہوتی ہے لہٰذا جب ان لذیذ کھانوں کی خوشبو ایک مکان سے دوسرے مکان تک ناچتی سفر کرتی تو آس پاس رہنے والے مرد کبھی زیرِلب تو کبھی باآواز بلند اپنی بیویوں کو پھوہڑ، ناکارہ، اور نکمّی کہہ کر دل کی بھڑاس نکالا کرتے۔ اور اگر کبھی خالہ کی طرف سے چینی کی پیالی میں کسی گھر میں کچھ کھانے کی چیز بھیجی جاتی تو سب گھر والے اس سوغات پر جھپٹ پڑتے۔ جس گھر میں بھی کھانے کی کوئی ڈِش بھیجتی تھیں وہاں سے تعریفوں کے ساتھ ساتھ دوسری بار بھیجنے کا فرمائشی پروگرام ضرور ساتھ آتا۔

یہ ایک حقیقت تھی کہ ایسی سگھڑ خاتون پورے محلے میں کوئی نہ تھیں۔ ان کے چھوٹے سے سادہ سے گھر میں کوئی چیز ادھر ادھر بکھری نظر نہ آتی تھی۔ نہ صرف ہر چیز انتہائی صاف ستھری اور مناسب جگہ پر رکھی نظر آتی بلکہ گھر کا کونہ کونہ صفائی اور سلیقے سے سجا ہوتا۔ میز پوش سے میزیں ڈھکی ہوتیں۔ کرسیوں پر انتہائی نفیس کور ہوتے۔ ، پوری پوری چادروں یہ حسین کشیدہ کاری کی ہوتی۔ بچھے ہوئے بستر پہ گویا گلستان کی سجاوٹ کا گمان ہوتا تھا۔

وہ مرد حضرات جو اپنی اپنی بیویوں کے پھوہڑ پنے سے عاجز تھے، انہیں خالہ کی ہی مثالیں دیتے بلکہ کئی ایک تو خالہ کی خوشامد بھی کرتے کہ ان کی بیویوں کو نہ سہی مگر بہو بیٹیوں کو ذرا گھرداری میں طاق کر دیں۔ خالہ نے بھی کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ان کے گھر کا برآمدہ اور آنگن کبھی سلائی کڑھائی کا مرکز نظر آتا تو چاند رات یا شب برات پہ مٹھائی کی دُکان۔ قرآن پڑھنے کے لیے تو باقاعدہ ایک چٹائی بچھائی ہوتی تھی، جس پر محلے کے بچے اور بچیاں آ کر سبق لیا کرتے تھے۔ خالہ بچوں کو قرآن پڑھانے کے ساتھ، کلمے اور آیت الکرسی بھی یاد کرواتی تھیں۔ جب کوئی بچہ پہلی بار قرآن ختم کرتا تھا تو اسے نبی آخرالزماں آنحضرتﷺ کو بخشواتیں۔ پھر جب وہ دوسرا قرآن ختم کرتا تھا تو اس بچے کے گھر والوں سے پوچھ کر ان کے کسی بزرگ کو بخشوا دیتی تھیں اور اپنے پلے سے چند روپوں کی شیرینی بٹوا دیتیں۔ دو بار قرآن ختم کرتے کرتے بچے تیسواں پارہ تو حفظ کر ہی لیا کرتے تھے۔

اب کے رمضان کے دنوں میں اپنے اپنے گھروں سے افطاری کر کے جائے نماز بغل میں دابے ہر عمر کی عورت خالہ کے دروازے سے اندر آتی دکھائی دی تو معلوم ہوا کہ محلے بھر کی خواتین اب اس گھر میں ہی باجماعت تراویح کی نماز پڑھیں گی۔ مسجد چونکہ خالہ کے گھر سے چند قدم ہی آگے تھی، اس لیے مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے نشر ہونے والی مولوی صاحب کی تراویح پڑھانے کی آواز براہ راست گھر میں داخل ہوتی تھی۔ تو محلے کی عورتوں کا خالہ کے ساتھ طے پایا ہو گا کہ سب عورتیں امام صاحب کی آواز سن کر، سمجھو گھر میں ہی ان کی اقتدا میں تراویح پڑھ لیں۔ یہی وہ رمضان تھا جس کے بعد شاید پانچ نمازوں سے بات بنتی دکھائی نہ دی تو خالہ نے تہجد کی نماز پڑھنا بھی شروع کر دی۔ پھر بات آہستہ آہستہ بات اشراق، چاشت اور اوابین کی رکعتوں کی تعداد تک آ گئی۔ کہتی تھیں ابھی گوڈے گٹے اجازت دیتے ہیں جب نہ دیں گے تو معبود سے پوچھیں گے کہ اب دربار میں کیسے جھکیں؟

تو خالو جو بدکلامی کے فن سے آگاہ نہ تھے، کچھ عرصے تو خاموش اور خفا خفا رہے، پھر منہ اندھیرے ہی گھر سے نکل جانے اور اپنا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارنے کو ترجیح دینے لگے۔ رات گئے اندھیرے میں آ کر آنگن کے کونے میں بچھی چارپائی پر دراز ہو جاتے اور اگلے روز منہ اندھیرے پھر وہی سفر۔ جاتے تو اللہ جانے کہاں تھے مگر اللہ میاں کے کارخانے میں کام کی کیا کمی؟ دونوں میاں بیوی کے درمیان بول چال پہلے مختصر ہوئی پھر غالباً طنزیہ ہوئی ہو گی، مگر اب خامشی کی زبان کے اشارے کنائے رہ گئے تھے۔ خالہ شاید اپنے حقیقی محبوب کو مجازی محبوب پر ترجیح دینے لگی تھیں۔

اس کے باوجود خالو کے کپڑوں کو دھونا، انہیں استری کروا کر سلیقے سے رکھنا، جوتوں کو باقاعدگی سے پالش کروانا اور اس بات کا خاص خیال رکھنا کہ منہ اندھیرے بھی گھر سے کھائے پئے بغیر نہ نکلیں، خالہ کی سب سے بڑی ذمے داری تھی۔ ان سارے کاموں میں اب لبنیٰ بھی ان کا ہاتھ بٹانے لگی تھی۔ یوں تو خالہ کسی کی مدد لینا پسند نہیں کرتی تھیں مگر جب سے لبنیٰ کے شوہر کا بھری جوانی میں انتقال ہوا تھا، اس حادثے نے خالہ کے دل میں اس لڑکی کے لئے بہت ہمدردی پیدا کر دی تھی۔ غریب روز کی طرح موٹر سائکل پر کام کے لئے جا رہا تھا کہ غلط سمت سے آتے ٹرک کی ٹکر کے نتیجے میں موٹر سائکل یہ جا وہ جا اور وہ بدقسمت نوجوان وہیں زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ دوسری شادی کا لبنیٰ نے صاف منع کر رکھا تھا۔ شوہر کی پنشن سے گھر کا گزارہ اچھا چل رہا تھا۔ اولاد کوئی تھی نہیں۔ شوہر کی ناگہانی موت کے بعد اکیلے پن کے خوف سے پہلے تو صرف رات خالہ کے پاس گزارنے آتی تھی مگر اب دن کا بھی زیادہ حصہ خالہ کے ساتھ ہی گزرتا۔ خالہ بھی اس کے ساتھ سے خوش رہتیں کہ آج کل خالہ کے دونوں جوان بیٹے پڑھنے کی غرض سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے اور وہاں کسی ہاسٹل میں رہتے تھے۔

ابھی لٹے پٹے افراد کی آبادکاری کا سلسلہ بھی پوری طرح حل نہ ہو پایا تھا کہ مقامی اور غیر مقامی کی بحث چھڑ گئی۔ اس معاملے کو ہوا دینے میں اخبارات کی آگ پر تیل چھڑکنے جیسی بھڑکاتی خبروں کا ہاتھ زیادہ رہا تھا کہ عام آدمی تو تین وقت پیٹ بھر کر روٹی ’سر پہ چھت اور اپنے گھر اور پیاروں کی سلامتی کی فکر میں ہی گرفتار رہتا تھا۔ جو کچھ بھی تھا مگر حالات دن بہ دن قابو سے باہر ہوتے دکھائی دے رہے تھی اور زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ سندھی مہاجر جھگڑا، فسادات کی شکل اختیار کر گیا۔ نہ معلوم عام گھروں سے کیسے اتنا اسلحہ بارود نکل آیا تھا۔ کسی گھر کا کوئی لڑکا قابو میں نہ رہا۔ لڑکے ان لسانی اور گروہی معاملات میں اس حد تک پھنس گئے تھے کہ ماں باپ کی کوئی بات ان پر اثر انداز ہی نہیں ہو رہی تھی۔ ایسی شدت سے نفرت ان کے اندر جمع ہو رہی تھی کہ وہ دوسری زبان بولنے والے انسانوں کو گاجر مولی سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ماں باپ کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی بچے ہیں جنہیں کل تک ایک دوسرے کی شکل دیکھے بنا قرار نہیں آتا تھا اور آج وہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے تھے۔ وہ بزرگ زیادہ پریشان ہوئے جو ابھی کل ہی آگ اور خون کے دریا کو پاٹ کر آئے تھے اور اب جا کر کہیں ذرا سکھ کا سانس لینے کے قابل ہوئے تھے۔

شہر تو یہ چھوٹا تھا اور لوگوں میں قربت بھی تھی، مگر آگ لگے اور بجھانے والا کوئی نہ ہو تو پھر آن کی آن میں چاروں اور پھیل جاتی ہے اور یہی کچھ اس شہر کے ساتھ بھی ہوا۔ مسجدوں سے چند مولویوں نے امن، امن کی اپیلیں کیں مگر بے سود۔ اصل پریشانی تو تن بدن میں آگ لگا دینے والے وحشی نعروں سے ہوئی جنہوں نے تفریق اور نفرت دونوں کو بڑھاوا دیا۔ روز ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے ایک دو سرے سے ڈرنے لگے۔ گلیاں، چوپالیں ویران ہوئیں۔ میں کون، تو کون جیسی اجنبی فضا نے پہلے بے گانگی بڑھائی پھر خوف اور آخر میں نفرت۔ لوگوں نے گھروں میں لاٹھیاں، چھریاں، چاقو رکھنے شروع کر دیے۔ دنگے اور فسادات میں لاشوں کو ذکر عام جام ہونے لگا اور دیکھتے دیکھتے انتشار اور بلوے گھر گھر دستک دینے لگے۔

امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے باعث ہاسٹل بند ہونے پر دونوں بھائی، اپنے ایک دوست کے ساتھ گھر واپس آ چکے تھے۔ خالو زیادہ تر زمینوں پر ہوتے تھے۔ ابھی شام پوری طرح نہ ڈوبی تھی کہ گلی میں لڑکی لڑکی کا شور برپا ہوا اور پھر تھم سا گیا۔ خالہ چونکیں، ٹھٹھکیں، پھر اپنے دروازے کی طرف بڑھیں۔ مگر ایک دم سے خاموشی چھا گئی تھی گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ پراسرار خاموشی بھانپ کر وہ بند دروازے سے کان لگائے کچھ سننے کی کوشش کرنے لگیں کہ انہیں اپنی بیٹھک کے دروازے کے زور سے بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ پھر ایسا لگا گویا کوئی بھاری چیز زمین پر گری ہے۔ وہ تیزی سے مڑ کر بیٹھک کے دروازے کی طرف بڑھیں جہاں پر اٹھا پٹخ کی آوازیں اچانک تیز ہو گئی تھیں۔ لبنیٰ بھی ان کے پیچھے لپکی۔ خالہ نے بیٹھک کا دروازہ بجایا تو کوئی جواب نہ ملا۔ دوبارہ دروازے پر دستک دینے پر حمزہ کی آواز آئی،

”جی ماں۔“
”دروازہ کھولو۔“ اب کے خالہ نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔
ایک دم سناٹا۔
”دروازہ کھولو۔“ اب کی بار خالہ کی آواز اونچی تھی۔
حمزہ کے بجائے حسام نے دروازے کا پٹ ذرا سا کھول کر باہر جھانکا،
”جی؟“
”کون ہے اندر؟“ خالہ نے ڈپٹ کر پوچھا۔
”کوئی نہیں، بس ہمارا دوست راشد ہے۔“ حسام نے فوراً جواب دیا۔

مگر اگلے ہی لمحے حسام کو اندر دھکیل کر خالہ بیٹھک میں داخل ہو چکی تھیں۔
”کون ہے یہ؟“ خالہ ایک تھر تھر کانپتی لڑکی کو دیوار کے ساتھ جڑا دیکھ کر ششدر رہ گئیں۔
”سندھن ہے ماں۔ پچھلی گلی سے محلے کے لڑکوں نے پکڑا ہے۔ چھپنے کی کوشش کر رہی تھی۔“
”مگر یہاں کیوں ہے؟“
”پتہ نہیں۔ کیونکہ۔ معلوم ہے نہ باہر کیا چل رہا ہے۔“
تینوں لڑکے ایک دم سے گھبرا کر آدھے ادھورے جملوں میں بکھر کے رہ گئے۔
”امی تم فکر مت کرو۔ ہمیں پتا ہے کیا کرنا ہے۔“ اس بار حمزہ ذرا اعتماد سے بولا تھا۔

”کیا پتہ ہے تمہیں کہ کیا کرنا ہے؟“ خالہ ایک دم جلال میں آ گئیں۔ خالہ کے بگڑتے تیور دیکھ کر لڑکے گھبرا گئے تھے مگر جی کڑا کر کے حسام بولا، ”امی آپ کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ہماری لڑکیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے وہاں؟ کیا کر رہے ہیں یہ لوگ ہمارے ساتھ۔“

”خبردار جو ہاتھ لگایا اسے۔ چھوڑو اس کو، ابھی اسی وقت۔“
خالہ نے آگے بڑھ کر لڑکی کو بازو سے تھاما اور اسے لے کر بیٹھک سے باہر نکل آئیں۔
”ماں، سنو تو۔“ دونوں میں سے پتہ نہیں کون بولا تھا۔
”آواز بند۔“ خالہ کی گرجدار آواز سنائی دی۔
تینوں لڑکوں میں سے کسی کو جرات نہ ہو سکی انہیں روکنے کی۔
خالہ اسے لے کر سیدھا باورچی خانے گئیں۔

باورچی خانے کی چوکی پر نظریں جھکائے، پندرہ سولہ سال کی پیلی زرد لڑکی نے سہمی سہمی نظروں سے خالہ کی طرف دیکھا جنہوں نے سفید چاولوں کی پلیٹ پر دال ڈال کر اس کی طرف بڑھائی۔

”ابھی یہ کھا لو۔ کل صبح میں خود تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آؤں گی۔ اب تو بہت رات ہو گئی ہے۔“ خالہ نے اطمینان سے کہا۔
لڑکی مارے دہشت کے گنگ تھی۔
گھر کا پتہ تو یاد ہے نہ؟ خالہ نے بہت پیار سے پوچھا۔
لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا تو خالہ نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

لبنیٰ بھی اس واقعے سے دہشت زدہ سی معلوم ہونے لگی۔ خالہ کے دونوں بیٹے صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ ان سے ایسی توقع شاید کوئی بھی نہ رکھ سکتا تھا۔ لبنیٰ نے یہ ماجرا خود نہ دیکھا ہو تا تو شاید کبھی یقین نہ کرتی۔

” ہیں۔ خالہ ایسی پٹی بندھ جاتی ہے انسان کی آنکھوں پر؟“
اس نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
”اس سے بھی زیادہ۔“
خالہ نے رسانیت سے جواب دیا۔

اور سنو، ابھی کالی رات باقی ہے۔ مگر آج تم اور میں نہیں سوئیں گے۔ تمہارے خالو گھر ہوتے تو اور بات تھی۔
”جی“ کہتے ہوئے لبنیٰ کی آواز میں ڈر تھا۔
لڑکی نے بمشکل چند لقمے کھائے۔ خالہ نے اسے پانی پینے کے لئے کہا اور اسے لے کر کمرے میں آ گئیں۔

انہوں نے لڑکی کو اپنے بستر پر سلایا۔ اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ اور اسے چادر اوڑھا کے، ہولے ہولے سے اسے تھپکنے لگیں۔ برابر والی بچھی چارپائی پر روز کی طرح لبنیٰ کا بستر لگا ہوا تھا۔ بیٹھک سے اب کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔ باہر بھی سناٹا تھا۔ شاید باقی رات جاگ کر گزارنے کی غرض سے خالہ نے لبنیٰ کو مخاطب کیا۔

تم نے آنکھوں پر پٹی کی بات کی نہ تو اب سنو، پرانی بات ہے مگر اتنی پرانی بھی نہیں۔ دو کردار نہیں بھولتے۔ ایک اچھی شہرت کا مسلمان تھا جس کا نام تھا عبدالغفار۔ ایسی ہی نفرت کی اندھی آندھی چلی تھی ان دنوں بھی جب لوگ ادھر ادھر سے ملنے والی دلدوز خبروں سے گھبرا کر خوف، دہشت اور افراتفری کے عالم میں اپنے اپنے گھر اور علاقے چھوڑنے لگے تو فرط جذبات سے مغلوب مردوں اور روہانسی عورتوں نے عبدالغفار کو صادق اور امین سمجھ کر اپنے گھروں کی چابیاں، زیور اور دوسرا قیمتی سامان اس کے پاس رکھوانا شروع کیا کہ بھائی اسے سنبھالو یہ ہماری عمر بھر کی جمع پونجی ہے۔ جو رب نے چاہا اور بچ گئے اور واپس آنے کی کوئی سبیل نکلی تو ہماری امانتیں ہمیں واپس کر دینا ورنہ تمہیں حق ہے کہ جیسے چاہو ویسے انہیں استعمال کرو۔ سب کو معلوم تھا کہ عبدالغفار کی ہمدردیاں ہر انسان سے بلا تفریق مذہب تھیں۔ ایک زمانہ سب نے ساتھ گزارا تھا۔ خوشی غمی میں شریک ہوئے تھے۔ کئی کئی نسلوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments