تنہائی سے تنہائی کو بہلاتی: عبیرہ احمد کی شاعری


عبیرہ احمد کی نظموں کا مجموعہ ” لکھتے رہنا” میں نے ابھی پڑھا ہے۔ نظم کی دنیا میں یہ ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ ان نظموں میں زبان و بیان کی صفائی، شیرینی اور بے ساختگی نمایاں ہیں۔ کتاب کا نام نظم ” لکھتے رہنا” پر رکھا گیا ہے اور اس نظم میں جو دو حصوں میں ہے، زبان کی لطافت اور جدت ادا ہے۔ اس مجموعے کی تمام نظمیں بیان کی لطافت کی حامل ہیں۔ تخیل کی نازک خیالی اور وسعت ہے۔ حقائق اور واقعات پر مبنی نظمیں بھی ہیں
” آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتادی

ڈرتے ڈرتے دروازے کی اوٹ سے باہر جھانکا

ہر ملنے والے کو پرکھا، ہر احساس کو آنکا

کھل جاتا تھا ہر دستک پر ایک پرانا ٹانکا

ایک کواڑ ذرا سرکایا اور زنجیر چڑھا دی

آدھے دن کا کام تھا میں نے پوری عمر بتا دی”

کیا خوبصورت نظم ہے۔ سادہ الفاظ ، پوری کہانی بیان کرتے  ہیں۔ کوئی گورکھ دھندہ نہیں اور خیال کی ترسیل مکمل اور مستعدی سے ہوتی ہے۔

عبیرہ احمد کی نظموں میں معنوی نظام کی بھی بھرپور عکاسی ہے۔تنہائی کی نظم کا آخری بند دیکھئے

” بہت چھوٹی سی اک تقریب رکھی ہے

نہ اب شب زادگی سے کوئی شکوہ

نہ زمانے کے تغافل سے شکایت ہے

ضرور آنا

مرے غم کی نہایت ہے”

رایئگاں۔ رونمائی۔ معافی نامہ۔ مولد۔ کیمپس ، اور صبح بخیر زندگی ، بھرپور تاثر کی نظمیں ہیں۔

” شہر کے اک بلند ایواں میں

سرد کمرے میں چند خوابوں کی

آج تقریب رونمائی تھی”

بھرپور تخلیقی صلاحیت سے لیس یہ نظمیں اپنے عہد کے مزاج اور اسلوب سے مکمل ہم آہنگ ہیں۔

 ” آیئنہ پوچھتا ہے”، “زندگی راستہ دے “” پیاسا راجہ “

 ایسی نظموں میں عبیرہ احمد کے ذاتی بحران کے اشارے بھی ملتے ہیں جو یقیننا سماجی بحران کی دین ہیں۔

نظم  ” صدر کی اجازت سے ” ادبی تنظیموں کے اجلاسوں پر ہلکی پھلکی طنز ہے۔

ان تمام نظموں میں سب سے عمدہ خصوصیت یہ ہے کہ طوالت کا شکار نہیں ہیں اور شاعرہ نے اختصار سے کام لیتے ہوئے اپنے ما فی الضمیر کا اظہار موزوں طور پر کیا ہے۔ کہیں اگر کسی خیال میں کوئی پیچیدگی محسوس بھی ہوتی ہے تو اس کو بھی سادہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور یہ بات قاری کے لیے بہت ہی اہم ہے۔

ایک اور بات جو ان نظموں کے مطالعے سے سامنے آتی ہے وہ ان نظموں کا آہنگ ہے جو نغمہ ریز اور ترنم سے بھرپور ہے۔ یہ نظمیں ایک خاص بیٹ پر گائی بھی جا سکتی ہیں۔

تخلیق کار، افسانہ نگار ہو یا شاعر اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات سے متاثر ہو کر ہی لکھتا ہے۔ عبیرہ احمد کی نظموں میں اس سماج کی موجودگی تو ملتی ہے جس میں وہ رہ رہی ہیں لیکن عام آدمی کے مسائل کی طرف شاید ان کی توجہ نہیں گئی۔ نظموں کا لہجہ جدیدیت کے قریب تر ہے اس لیے قاری یہ توقع رکھتا ہے کہ آیئندہ کی نظموں میں ذاتی آشوب کے ساتھ سماجی آشوب کا ذکر بھی ہو۔

 ” دعویٰ”

تنہائی میرا حصہ ہے

خاموشی میری ماں بولی

وحشت دیدہ راتیں  مجھ پر آغوش کشا

حق ہے میرا سناٹے پر “

” خمار مستعار” کے عنوان تلے ، اس کتاب میں مایا اینجلو اور  ایملی ڈکسن کی کچھ نظموں کا خوبصورت ترجمہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔

کتاب کی اشاعت کے بعد کی عبیرہ احمد کی کچھ نظمیں میری نظر سے گزری ہیں۔   امید  ہے کہ عبیرہ ، نظم گوئی کے اس سفر میں بہت جلد اپنی پوری ادبی قد و قامت سے سامنے آیئں گی۔

دلکش سرورق کے ساتھ  یہ کتاب  کولاج  نے شائع کی ہے ۔ حصول کتاب کے لیے (03214036980) پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments