ٹوکیو کی دہلیز پر (5)


ٹوکیو جاپان کا دل اور اہم ترین شہر ہے۔ یہ پریوں کا دیس بھی کہلاتا ہے اور شہر دلفریب بھی۔ جس کی ہر چیز خوبصورت اور ہر ادا دلفریب ہے۔ جدید قدیم کا سنگم اور تضادات سے بھر پور ہے۔ بظاہر تضادات لیکن دونوں ایک دوسرے میں سمائے ہوئے۔ بیک وقت نیا اور پرانا اور اسی میں اس کی خوبصورتی ہے۔ ایک جانب سکائی سکر پر دوسری جانب لکڑی کا بنا ہوا قدیم مکان ایک جانب بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹ سٹور دوسری طرف کھلونوں اور وی سی آرز کے کھوکھے، قدیم و جدید آپس میں اس طرح گھلے ہوئے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے کے بغیر تصور نہیں کیا جا سکتا وگرنہ اس شہر کا جو حسن اور دل آویزی ہے اس سب کچھ سے محروم ہو جاتا۔

آپ کسی بھی بڑی مارکیٹ میں چلے جائیں، کسی بھی شاہراہ پر آپ کو بڑے بڑے سنور دکھائی دیں گے اور ساتھ ہی قدیم طرز کی دکان جہاں مچھلی تیار کی جا رہی ہے اور اس کو بانس کے پیالے میں رکھ کر اسی روایتی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے جیسا کہ پرانے زمانے سمورائے کے دور میں ہوتا تھا۔ روایت ان کی زندگیوں میں شہد کی طرح گھلی ہوئی ہے۔ ایک گیشا گرل قدیم روایتی لباس پہن کر شام کو رکشہ میں سوار اپنی منزل کی طرف اس طریقے سے جاتی ہے جو صدیوں سے اس کا چلن رہا ہے۔

ایک جاپانی جب صبح کو گھر دفتر اور فیکٹری کی طرف نکلتا ہے تو بہترین مغربی سوٹ زیب تن کرتا ہے جس پر ایک سلوٹ نہیں ہوتی۔ وہ زیادہ تر نیلے رنگ کو پسند کرتے ہیں اور بیشتر جاپانی نیلے رنگ کے سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں۔ ہر شام جب کوئی جاپانی شام کو گھر واپس آتا ہے تو کمونو پہنتا ہے اور گھر میں دو زانو ہو کر چو کی نما میز پر چاپ سنک کے ساتھ چاول کھاتا ہے جو پر کھوں سے آج بھی اس کی من پسند غذا ہے۔ کمپنی کی طرف سے پارٹی ہو رہی ہے تو ایسے کمرے میں جمع ہو جاتے ہیں جہاں کاغذ کے روایتی پر دے اور دیواریں لگی ہوئی ہیں وہاں بیٹھ کر وہ جاپانی مشروب سا کے ’sake پیتا ہے۔ نیا پرانا جدید و قدیم الیکٹرانک بلب کی طرح جلتا بجھتا، جدید و قدیم جگمگ کرتا اس طرح کہ خوبصورتی حسین سے حسین تر ہوتی چلی جاتی ہے۔

میں اس وقت اس شہر دلربا میں ٹوکیو انٹرنیشنل سنٹر کی دہلیز پر کھڑا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کدھر کا رخ کروں۔ فرسٹ اپریل کا دن تھا میری جیب میں دو ہزار ین تھے جو رات سنٹر کے کا ؤنٹر سے ملے تھے کچھ امریکی کرنسی اور پانچ سو پاکستانی روپے جو لا ہور سے کراچی ائر پورٹ تک پہنچتے پہنچتے بچ گئے تھے۔ ہاتھ میں انڈر گراؤنڈ چلنے والی ٹرینوں کا نقشہ تھا شہر اجنبی نہ کوئی واقف نہ آشنا کسی سے ملنا نہ کوئی گائیڈ۔ میں اسی سوچ میں غلطاں کھڑا تھا کہ کدھر جاؤں اس شہر کی ڈور کا سرا کہاں سے ملے گا سمجھ نہیں آ رہا تھا سامنے سڑک تھی سورج کل سے دکھائی نہیں دیا تھا۔

ہم کو تو خطر ہ تھا کہ سورج دیس میں جا کر سورج سوا نیزے پر ہو کر سروں پر ناچے گا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ مہینوں آنکھیں اس کو دیکھنے کو ترسیں گی۔ چند قدم چلنے کے بعد ڈیفنس کا دفتر آیا جس کے بڑے گیٹ میں سے فوجی گاڑیاں اندر باہر آ جا رہی تھیں۔ ڈیفنس کا دفتر کہاں سے آ گیا سنا تھا کہ جاپان میں کوئی فوج نہیں ہے کہ جب امریکہ نے جاپانی طاقت کو ملیا میٹ کر کے اس کو دو زانو کیا تھا تو سرنڈر کے بعد اہم ترین شرط یہی عائد کی گئی تھی کہ جاپان آرمی نہیں رکھ سکے گا اور اس کا ڈیفنس خود امریکی آرمی کرے گی اس کو کہتے ہیں شر سے خیر پیدا ہونا۔ اور یہیں سے تباہی کے بعد تعمیر کی ابتداء ہو گئی۔

امریکہ نے تو اس خیال سے پابندی لگا دی تھی کہ جاپان آرمی بہت طاقتور آرمی ہے اس کی طاقت کو کچل کر اسے نیست و نابود کر دیا جائے اور پھر جاپان سر نہ اٹھا سکے۔ اس وقت شاید تھنک ٹینک نہیں ہوتے تھے جو امریکہ کو سمجھاتے کہ تم تو جاپان کی طاقت کچلنے کی بجائے اس کے اندر طاقت کا انجیکشن لگا رہے ہو

میرے سامنے مال روڈ لاہور کی طرز کی ایک بڑی شاہراہ گزر رہی تھی دائیں بائیں اور اس پر چلنے والوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ جوان مردو خواتین خوش لباس خوش اطوار اپنی لگن میں اتنے تیز چل رہے تھے جیسے دوڑے جا رہے ہوں اس وقت نہ آپس میں بول چال، نہ کوئی بے مقصد رکا ہوا، نہ کوئی سگریٹ کے کش لگا تا خوش گپیوں میں مصروف، نہ تانک جھانک، نہ کوئی ریلنگ پر کھڑا میری طرح دنیا کا تماشا دیکھ رہا تھا۔ ہر آدمی مصروف اور اپنے کام پر جانے کے لئے بے قرار میرے ساتھ ایک گروسری کی شاپ تھی جس کے باہر ایک مشین لگی ہوئی تھی جس کے اوپر سگریٹ کے پیکٹوں، کوکا کولا، دودھ اور دوسری مشروبات کی تصویریں لگی ہوئی تھیں اور ان کے نیچے ان کی قیمت لکھی ہے۔ سکہ ڈالیں اور بٹن دبائیں تو کوکا کولا کا ٹن باہر، سگریٹ چاہیے تو پیکٹ ایک سیکنڈ میں باہر، سکہ ڈالیں اور اپنی مطلوبہ چیز نکال لیں۔ خاص طور پر رات کا وقت ہے مارکیٹ بند ہو گئی ہے آپ گرم کافی پینا چاہتے ہیں تو یہ سروس چوبیس گھنٹے موجود رات کے اندھیرے میں بھی اور دن کے اجالے میں بھی۔

میں جس چوک پر کھڑا تھا یہ اچھی گایا ”کا علاقہ کہلاتا ہے۔ میں اپنے سامنے نہ رکنے والے طوفان کو کھڑا نہ جانے کتنی دیر دیکھتا رہا۔ ٹوکیو جاپان کا دل ہے اور مجھے معلوم نہ تھا کہ آج میں ٹوکیو کے دل کے قریب کھڑا ہوا تھا سامنے تالاب میں بوڑھے کانٹا ڈال کر مچھلی کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ ویسے جب ایک ہفتے بعد میرا یہاں سے گزر ہوا تو بھی اسی طرح خالی ٹوکری لے کر بیٹھے تھے میں نے یہیں سے سڑک کو عبور کیا سامنے چڑھائی چڑھ کر اور پل عبور کر کے میں ایک ہموار جگہ پر آیا تو دائیں طرف کتابوں کا ایک بڑا سٹال دکھائی دیا۔

وہیں میری نظر پڑی تو دیکھا عراق کا مسٹر الخاصی ایک جاپانی دوست کے سامنے کھڑا میگزین پڑھ رہا تھا۔ لیکن منہک اتنا کہ میں ساتھ جا کر کھڑا ہوا تو اسے معلوم نہ ہو سکا کہ کوئی آیا ہے۔ یا اللہ! الخالصی اور پڑھائی میں نے رسالے پر نظر ڈالی تو میرا خون منجمد ہونے لگا وہاں تحریر کی بجائے تصویر تھی ایک نہیں بے شمار میں نے ایک جھرجھری لی اور جاپانی دوست سے کہا مجھے ذرا سب وے اسٹیشن دکھا دو ۔ اسٹیشن ساتھ ہی تھا اس نے بتایا کہ دیکھیں سب وے اسٹیشن کا اوپر مونوگرام بنا ہوا ہے اس کو پہچان لیں جہاں دکھائی دے سیڑھیوں سے اتر جایا کریں نیچے سٹیشن ہو گا۔

میں کوئی پچاس کے قریب سیڑھیاں اتر کر گیا دیکھا وہاں تو ایک دنیا آباد تھی پلیٹ فارم لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اسٹیشن کیا تھا اچھی خاصی ایک بڑی مارکیٹ تھی ضروریات زندگی کی ہر شاپ موجود روشنی اتنی کہ چاروں طرف دن کی طرح اجالا تھا اتنے میں دیکھا کہ ہمارا ایک ٹیچر مسٹر ہاگی ہارا ٹرین سے اتر رہا ہے میں دوڑ کر اس سے ملا کہ جناب اتریں نہیں ایک سٹیشن تک میں بھی ٹرین کی سیر کرنا چاہتا ہوں ہم ٹرین میں بیٹھ گئے۔ مسٹر ہا گی ہارا سے میں نے پوچھا میں نوکیومنٹر سے آ رہا تھا راستے میں آپ کے دفاع کا آفس دیکھا سنا تھا کہ امریکہ نے جاپان پر آرمی رکھنے کی پابندی لگادی ہے۔ تو پھر یہ کون سی آرمی ہے۔

اور یہ بھی سنا ہے کہ آپ کی آرمی بہت ظالم اور جابر تھی۔ ”آپ کہہ سکتے ہیں کیونکہ جنگ کے دنوں میں ہر آرمی ظالم اور جابر ہوتی ہے اور پھر مخالف فریق کے خلاف اتنا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ وہی کچھ لگنے لگتا ہے جو پراپیگنڈہ کرنے والوں کی منشا ہوتی ہے۔

آپ کو معلوم نہیں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے علاوہ جاپان کے ہر شہر پر اتنی بمباری ہوئی تھی کہ تمام شہر تباہ ہو گئے تھے جب امریکی افواج نے جاپان پر قبضہ کیا تو بے رحم اور ظالمانہ بمباری کا خاتمہ ہو گیا روزانہ ہزاروں لاشیں گر رہی تھی اس سے تو نجات مل گئی لیکن وہ جو کسی قوم اور ملک کا وقار ہوتا ہے وہ خاک میں مل گیا۔ مسٹر ہاگی ہا رایہ تو قوم کو جنگ میں جھو نکلنے سے قبل سوچنا چاہیے۔

ٹھیک ہے لیکن جس طرح انسان حالات کا اسیر ہوتا ہے اسی طرح قو میں بھی اس کے بھنور سے نہیں نکل سکتیں۔ انسانی جانوں کی تباہی تو رک گئی لیکن ہماری مصیبتوں کا خاتمہ نہ ہو سکا معیشت ہماری تباہ ہو گئی تھی فیکٹریاں خام مال نہ ملنے کی وجہ سے بند پڑی تھیں فیول ملنا محال ہو گیا تھا ہر آدمی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا تھا۔ ہر طرف بھوک اور ننگ کا راج تھا۔

”یہ صورت حال نہ صرف افسوس ناک تھی بلکہ شرمناک تھی کھانے کو کچھ نہ ملتا تھا کئی کئی روز فاقے کرنے پڑتے تھے اور یہ سب سے زیادہ تکلیف دو چیز تھی صورت حال یہ ہو گئی تھی کہ خوراک کے بدلے لوگ اپنی جائیدادیں بیچ رہے تھے آپ ان کے قیمتی سے قیمتی خاندانی اثاثے سے لے کر عورت تک خرید سکتے تھے اس وقت جو بڑی سے بڑی کمپنیاں ہیں اور اربوں ڈالرز کا کاروبار کر رہی ہیں ان کے مالکوں سے ان دنوں کا پوچھیں وہ اپنی یادداشتوں کو کریدتے ہوئے آپ کو بتائیں گے کہ وہ ایسے دن کبھی نہیں بھول سکتے جب کوشش کے باوجود ان کو اور ان کی فیملی کو کئی کئی روز کھانے کو ایک نوالہ بھی نصیب نہ ہو تا تھا“ ۔

”ان کے وزن دن بدن کم ہو رہے تھے اور آہستہ آہستہ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے تھے“ میں اس کی داستان غم سننے میں مصروف تھا اتنے میں ایک خاتون نے میری طرف ہاتھ بڑھایا اس کے ہاتھ میں کسی کمپنی کا لٹریچر تھا دوسرے ہاتھ میں ٹشو پیپرز کا ایک پیک۔ یہ آپ کے لئے ہے۔ میں نے اس کی طرح نگاہ کی۔ نوجوان، خوبصورت گداز جسم وہ مسکرائی۔ مسکراہٹ دراصل کاروباری دنیا کا اولین تحفہ ہے۔ میں پرانا اور نیا جاپان دیکھ رہا تھا۔ اور دونوں کا موازنہ کر رہا تھا۔ ایک ہڈیوں کا ڈھانچہ دوسرا جس سے جوانی کا شعلہ بھڑک رہا تھا جس پر سارے زاویے اور قومیں قربان نیا پرانا جلتا بجھتا جاپان۔

جھلمل کرتا جاپان۔

مسٹر ہاگی ہارا جب میں مال روڈ پر تھا میں نے دیکھا کوئی آدمی فارغ دکھائی نہیں دیا۔ نہ ہی کسی کو کوئی روک کر سیاست پر گفتگو کر رہا ہے نہ کرکٹ پر کنٹری کر رہا تھا نہ کوئی الجھ رہا تھا۔ آفس، فیکٹری سٹور جہاں جہاں انہوں نے ڈیوٹی پر پہنچتا ہے وہ اس کی دھن میں چلے جا رہے ہیں عجیب قوم ہے ہر کوئی بھا گا جا رہا ہے۔ مسٹر ہا گی ہارا آپ کی قوم کو سکون نہیں مل سکتا اس کو اس طرح دیکھ کر تو میں بے سکون ہو گیا ہوں۔

مجھے لگتا ہے آپ کی قوم آرام و سکون سے محروم ہے اور حس مزاح سے بھی۔ وہ کیسے؟ مسٹر ہارا مسکرایا دیکھیں کسی آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہے ہر ایک نے تفکرات کی چادر اپنے چہرے پر لپیٹ رکھی ہے۔ اگر چہ گڈریا تو مجھے دکھائی نہیں دے رہا ہے لیکن اس کی چھڑی کے ڈر سے پوری قوم بھیڑوں کے گلے کی طرح آگے بھاگی جا رہی ہے۔ الیکٹرانس میں تو آپ نے کمال حاصل کر لیا ہے لیکن سائنسی ترقی نے آپ کو بھی مشین کا پرزہ بنا دیا ہے۔

اور آپ کا گڈریا شاید روبوٹ کی شکل میں پیچھے بیٹھا آپ کو ریموٹ سے چلا رہا ہے۔ وہ مسکرایا ”العلوانی سن“ یہ کام کا وقت ہے کام کو ہم عبادت سمجھتے ہیں۔ جو بات آپ کر رہے ہیں وہ کام کے بعد کی ہے کام کے بعد ہمیں دیکھیں کہ اس کو ہم کس طرح انجوائے کرتے ہیں۔ ہم ہنستے بھی ہیں خوش گپیاں بھی کرتے ہیں دوستوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں ہوٹلوں میں جاتے ہیں سیر و سیاحت کرتے ہیں باغوں میں جاتے ہیں ہم ہنگامہ انگیز زندگی کے باوجود سینما ہال جاتے ہیں کا بوکی تھیٹر جاتے ہیں۔ کون سے کام نہیں کرتے لیکن کام کے اوقات میں نہیں فارغ وقت میں۔

مسٹر ہارا یہ کابوکی تھیٹر کیا ہوتا ہے۔

لعلوانی سن، یہ روایتی تھیٹر ہے ہماری روایات سے جڑا ہوا سمورائے کے زمانے کا تھیٹر ہے جس میں روایتی انداز میں ایکٹر پرفارم ‏ کرتے ہیں۔ تھیٹر کے اندر پورا ماحول روایتی ہوتا ہے۔ روایتی سٹیج ہوتی ہے کرداروں کا روایتی گیٹ اپ ہوتا ہے اور سب کچھ روایتی کہانی کے گرد گھومتا ہے۔ اگر چہ اس میں نئی جنریشن بہت کم جاتی ہے، کیونکہ یہ بہت سلو ہوتا ہے، لیکن ہال اب بھی کھچا کھچ بھرا ہوتا ہے۔

”لعلوانی سن مجھے آپ بھی دوسرے لوگوں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ سر آپ لوگوں میں خوبصورتی اتنی ہے کہ بندہ اس میں کھو جاتا ہے ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، سوچتا ہوں آپ لوگوں میں رہ کر شاید مجھے سکون اور شانتی مل جائے۔ لعلوانی سن، اس ہنگامہ خیز زندگی میں آپ کو شانتی کیسے ملے گی؟ مسٹر ہارا شانتی ظاہر کی دنیا سے نہیں ملتی شانتی مجھے آپ لوگوں کے اندر سے پھوٹتی دکھائی دیتی ہے۔ میں نے موضوع بدلا۔

”مسٹر ہارا ویسے آپ آفس فون کرنے گئے تھے یا اپنی مسز کو بتانے کہ اس وقت آپ کہاں پر ہیں۔
مسٹر ہارا کا قہقہہ بلند ہوا۔

سر کار آفس میں بتایا ہے کہ ہمارے ایک سٹوڈنٹ ہیں لعلوانی سن ان کو تمام شہر چل پھر کر دیکھنے کا شوق ہے میں ان کو اسکارٹ کر رہا ہوں۔ جانتے ہوں انہوں نے کیا کہا۔ کیا؟ وہ سن کر پریشان ہو گئے ہے اور کہہ رہے ہیں کہ شاید آپ کے مہمان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ ٹوکیو شہر بہت بڑا ہے کم ازکم ساتھ ستر میل پر پھیلا ہوا ہے پیدل چل کر اسے دیکھنے کا تو آج تک ہم میں حوصلہ نہیں ہوا۔ وہ ہنس رہے تھے کہ پھر آپ ان کے لئے ایک ماہ کی چھٹی لے لیں۔

اب میرا قہقہہ بلند ہوا۔ ”بس آپ نے یہ کہہ دیا تو بات ختم ہو گئی وہ یقین کر لیں گے کہ آپ سچ بول رہے ہیں“ ۔ کہ واقعی آپ میرے ساتھ ہوں گے۔ جی بالکل ہم جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اس میں کوئی سوچ نہیں ہوتی سچ ہوتا ہے۔ ٹرین رک گئی تھی ہم اتر کر پلیٹ فارم سے نکلنے لگے تھے۔ وہاں چھوٹے چھوٹے بیریئر لگے ہوئے تھے اور ہر بیریئر پر ایک پولیس مین بیٹھا ہوا تھا۔

نہیں نہیں یہ پولیس مین نہیں ہیں ریلوے کی وردی میں ملبوس ریلوے ملازم ہیں۔ یہ گائیڈ ہیں جو مسافروں کو گائیڈ کرتے ہیں۔

مسٹر بارانے اس کو دو ٹکٹ دیے اور پوچھا ”کتنے پیسے مزید بنتے ہیں“ کیوں کہ راستے میں میں نے مسٹر ہا گی ہارا سے کہا تھا کہ اس سٹیشن کی بجائے اگلے سٹیشن پر اتریں گے۔ اس نے کہا تھا ٹھیک ہے جتنا ٹکٹوں کا فرق بنے گا وہ ہم گائیڈ کو دے دیں گے۔ ”500 ین“ ریلوے ملازم نے کہا

مسٹر ہا گی ہارا نے اس کو 500 ین دیے اس نے ساتھ پڑے ہوئے سکوں کے ڈھیر پر پھینک دیے۔

ہم نے بیریئر کراس کیا لیکن میں پریشان تھا ”سر کوئی رسید نہیں! نہ ہی آپ نے ڈیمانڈ کی نہ اس نے دی۔ کام کیسے چلے گا“

”ہم جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں اور وہی سچ ہوتا ہے“

”یا الہی میں کیسے مذہب دشمن ملک میں آ گیا ہوں صبح سے گھوم رہا ہوں ہر آدمی خود خدا بنا ہوا ہے جہاں نہ کسی کو ابھی تک کوئی عبادت کرتے دیکھا ہے نہ ہاتھ میں تسبیح ہے نہ کوئی عبادت گاہ نہ اللہ اللہ نہ کوئی مذہبی شخصیت ایک ہی رٹ جو ہم کہتے ہیں وہی سچ ہوتا ہے۔

چلو کوئی تو ان کا بھگوان یا خدا ہو گا۔ کسی کو اپنی بات کی تصدیق کے لیے قسم اٹھاتے نہیں دیکھا ایک دوسرے پر اس قدر اعتماد نہ کوئی حلف اٹھاتا ہے نہ کوئی اٹھواتا ہے۔ جو کہتا ہوں سچ کہتا ہوں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا۔

”لیکن مسٹر ہارا اتنا اعتماد بھی ٹھیک نہیں۔ دیکھنا یہ ریلوے کمپنی ایک روز خسارے میں چلی جائے گی اور ٹرین کی بجائے آپ پیدل سفر کر رہے ہوں گے۔ اگر اعتماد کی فضا یہی رہی تو پیسے کی چمک تو بڑے بڑوں کو بہا کر لے جاتی ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ہم جو کہتے ہیں وہی کرتے ہیں۔ اب آپ میرے ساتھ چل پھر رہے ہیں کچھ وقت کے لیے اس کے بعد گھر چلے جائیں گے تو کون آپ سے پوچھے گا کیا آپ انسان کے اندر کا منفی پہلو کیسے ختم کر سکتے ہیں؟

سر ہم فلاسفر نہیں ہیں اور ہمارے سربراہ کو پتہ ہوتا ہے بلکہ یقین ہوتا ہے کہ ہم کام کر رہے ہیں اور اسے ہمارے آرام کا بھی پتہ ہوتا ہے۔ ”لیکن سر اس طرح تو زندگی کا مزہ کیا رہ جاتا ہے اور انسان مشین کا پرزہ بن جاتا ہے۔ نہ جس نے جھوٹ بولنا ہے نہ دھوکا دینا ہے نہ کوئی فریب کاری کرنی ہے۔

ہاں سر یہ تو ٹھیک ہے لیکن زندگی کا مزہ تو کام سے آتا ہے۔ مظاہرات فطرت دیکھیں ٹوکیو کی رونقیں دیکھیں اس شہر کے مشہور مقامات اور ان کا پس منظر دیکھیں یہ دیکھیں یہ جگہ جہاں ہم کھڑے ہیں یہ دریائے سمیدا ہے sumeda ”کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ یہ ٹوکیو کے بیچ میں سے گزرتا ہے لیکن اس کی اہمیت وہ نہیں جو دریائے ٹیمز کو لندن میں حاصل ہے۔

روم کا دریا Tiber بھی تو بین الاقوامی شہرت رکھتا ہے ”ہاں اسی طرح پیرس میں دریائے سین ہے۔ البتہ زمانہ گزرا، Edo کے زمانے میں یہ دریا بہت مشہور تھا لیکن آپ شاید جانتے ہوں گے کہ ہمارے پاس جاپان میں زمین کی بہت قلت ہے اور ٹوکیو میں تو اس کی بہت زیادہ کمی ہے اور اسی لیے بہت مہنگی ہے اس کمی کے پیش نظر اس دریا کے اوپر عمارات بنا بنا کر اس کو مختلف مقامات پر ڈھانپ دیا گیا ہے اب یہ دریا عمارتوں کے نیچے نیچے بہتا ہے۔

گویا یہ خفیہ ایجنسیوں کی طرح زیر زمین ہی کام کرتا ہے دیکھیں اس پر یہ کتنی خوبصورت برج بنائی گئی ہے۔ برج کا جو طرز تعمیر ہے وہ کتنا شاندار ہے۔

اس برج کا نام یودوباشی ہے۔ اس کا نام اس نئی نویلی دلہن کے نام پر ہے جو عین شادی کے روز گم ہو گئی تھی۔ کوئی پانچ سو سال قبل کی بات ہے کہ ایک سمورائے کو روسوز و کی اپنے عہدے سے دستبردار ہو کر ایدو کے ضلع نا کا نو میں رہنے لگ گیا۔ اگرچہ وہ بہت امیر تھا لیکن اس کی حرکتیں اچھی نہیں تھیں۔ اس نے اپنا سارا خزانہ مختلف مقامات پر دفن کیا۔ چونکہ اس نے یہ کام ایک مزدور سے کروایا تھا اس لیے جب اس کا سرمایہ محفوظ ہو گیا تو اس نے اس مزدور کو قتل کروا دیا۔ اور اس کی لاش اس برج کے نیچے دریا میں پھینک دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس سمورائے کی بیٹی سوزو کی ایک نوجوان ہمسائے ”مسٹر کو جبیرا“ سے شادی طے ہو گئی تھی۔

”ایک روز جب ان کی شادی ہو رہی تھی، زبر دست طوفان آیا اور سونو حیران کن طریقے سے گم ہو گئی اور پھر اس کا پتہ نہ چل سکا۔ سوزو کے ہمسائے بتاتے ہیں کہ اس طوفان باد و باراں میں ایک بہت بڑا اژدہا نمودار ہوا اور مسٹر سوزو کی کے گھر داخل ہو گیا اور نوجوان لڑکی کو ہڑپ کر کے اسی پل کے نیچے غائب ہو گیا۔ ان کا خیال تھا کہ سوزو سے اس کے مظالم کا بدلہ لیا گیا ہے۔ اور اس پل کا نام سوگائے میز لو برج تھا لیکن بعد میں اس کا نام یورو باشی پڑ گیا۔ آپ حیران ہوں گے کہ اس کے بعد آج تک کسی دلہن نے اس برج پر چلنے کی جرات نہیں کی۔

”مسٹر ہاکی ہارا انسان جتنی بھی ترقی کر جائے اس کی اساطیری دنیا اس کی روایات اس کا ماضی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا کیا دریا اور عمارتوں کی طرح آپ کی روایات نئی دنیا کے نیچے دب کر گم نہیں ہو جائیں گی۔ جدید وقدیم کا سنگم اور تسلسل ٹوٹ جائے گا۔

وہ ہنسا آپ بہت سمارٹ ہیں ہماری روایات ختم نہیں ہو سکتیں۔ یہ ہمارے خون میں شامل ہیں جب آپ ہمارے درمیان رہیں گے ہمارے شب و روز دیکھیں گے ہمارے تہوار دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کس کس طرح پرانی دنیا کی ایک ایک روایت اور اس کی ایک ایک تفصیل ہمارے سینوں میں محفوظ ہے اور وہ کس طرح اگلی جنریشن میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔

اور یہ دوسری مشہور برج ہے اس کا نام کو تو توئی باشی Kototoibashi ہے۔ اس کا تعلق تو شہزادہ آریوا رامار یہارا ‏Ariwaramarihara سے ہے جو نہ صرف شہزادہ تھا بلکہ اپنے وقت کے چھ مشہور گیت نگاروں میں سے ایک تھا۔ جو اس وقت کے ایک بڑے وارڈلارڈ کی بیٹی کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ لیکن لارڈ اپنی بیٹی کی شادی نوجوان بادشاہ سیواٹینوSeiwaa Tenno سے کرنا چاہتا تھا، جس کی عمر ابھی صرف نو سال تھی۔

”اچھا کم عمری کی شادی کی بیماری ہر جگہ پائی جاتی تھی“

ہاں۔ اس بے جوڑ شادی سے بچنے کے لیے دونوں گھر سے بھاگ نکلے لیکن وارلارڈ کے سپاہیوں نے ان کو گرفتار کر لیا اور آخر کار اس کی شادی و ہیں ہوئی جہاں اس کا باپ چاہتا تھا اور جو رواج کا تقاضا تھا یعنی اس کم عمر لڑکے سے۔ اور آخر کار وہ ملکہ بنی اور شہنشاہ یوزائیوٹینو کی والدہ۔ وہ نوجوان شاعر ہر روز اس پل پر آتا اس کے چکر لگاتا۔ اس نے مشہور ہائیکو لکھی‏ ”

”کیا میں پوچھ سکتا ہوں“
”May I ask the world-renowned Miakodori
Birds of the Capital.
My love
Where is she ”

یہ پرندے سیگل تھے اور ”کیا میں پوچھ سکتا ہوں“ کو جاپانی زبان میں کوتاتوئی kotatoi کہتے ہیں اور پل کو جاپانی زبان میں باشی کہتے ہیں اور اسی طرح ان دونوں کی محبت اور شہزادے کے دل سے نکلنے والی چیخ جو سوال میں بدل گئی اس کے مطابق اس پل کا نام kototoibashi پڑ گیا۔

میں نے کہا ”مسٹر ہا گی ہارا زندگی کا المیہ دیکھیں کہ ایک لمحے وہ دونوں مقدر کے ایک ہی دھارے پر سوار تھے لمحے نے کروٹ لی تو ایک ملکہ بن گئی دوسرے سے شہزادگی چھن گئی وہ محل میں چلی گئی شہزادے کے حصے میں محرومیاں آئیں وہ ہر روز دل گرفتہ ہو کر اس پل پر پہنچتا جو بھی ان کا مقام ملاقات تھا۔

پل بھی وہی تھا وہی سبزہ تھا وہی پھول تھے وہی آسمان تھا دریا کے پانیوں کا وہی بہاؤ تھا وہی سیگل تھے جو پہلے کی طرح آسمان پر چکر لگاتے رہتے مگر اس کو جس کی تلاش تھی وہ نہیں تھا وقت آگے گزر گیا تھا اور اس کا نام و نشان نہیں مل رہا تھا۔ گھنٹوں وہ پل کے ارد گرد رہتا وہ ایک ایک چیز کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا پانی کے بہاؤ کو دیکھتا دریا کے کنارے اگے ہوئے پھولوں کو دیکھتا نیلے آسمان کو دیکھتا آسمان پر ملکوتی پرندوں کو دیکھتا اور ان سے سوال کرتا

” کیا میں تم سے پوچھ سکتا ہوں آسمان پر اڑنے والے پر ندو
کہ میری محبت کا کیا انجام ہوا
اور میرے دل کی راحت کہاں گم ہو گئی ہے ”
”مسٹر ہا گی ہارا کیا میں بھی اس سے ملتا جلتا سوال“ آپ سے پوچھ سکتا ہوں ”
”ابھی نہیں“ یہ کہہ کر مسٹر ہاگی ہارا مسکرایا

”وقت آنے پر “ خدا کرے آپ پر وہ وقت نہ آئے آپ اجنبی ہیں آج آپ کا پہلا دن ہے ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے معلوم نہیں اس سوال تک پہنچنے کے لئے آپ کو کن کن مراحل سے گزرنا پڑے۔

”ابھی نہیں“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments