امجد اسلام امجد: محبت فاتح عالم


یونیورسٹی دور میں کی گئی غیر نصابی سرگرمیوں کا نشہ ابھی تک ہرن نہیں ہوا۔ جب تازہ تازہ یونیورسٹی کے سالانہ مجلے (میگزین) کی ذمہ داری ملی تو پہلے سے طے شدہ جزئیات کے ساتھ کھل کھیلنے کا موقع ملا۔ معمول اور پچھلی روایات کے برعکس کچھ ایسا کرنے کا عزم بنا کہ جس سے نہ صرف باہر کے لوگوں کا یونیورسٹی سے بطور خاص تعارف ہو سکے بلکہ یونیورسٹی کے اندر کی خلقت کی بیرونی نابغہ روزگار ہستیوں سے روشناسی بھی کروائی جا سکے۔ اپنی فطرت اور پسند کے مطابق کام کا موقع مل جائے تو لاشعور بھی عود آتا ہے اور ایسے ایسے تخلیقی خیالات مل جاتے ہیں کہ کئی گئی محنت پوری کی پوری وصول ہو جاتی ہے۔

مجلے میں ایک نیا باب متعارف کروایا جس میں معتبر اور نامور ہستیوں کے انٹرویوز شامل کیے جانے تھے۔ لیکن اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ان انٹرویوز میں معمول کے بچپن سے شوق تھا جیسے روایتی سوال و جواب نہ ہوں۔ اور ایسے سوال تو بالکل بھی نہ ہوں جو پہلے ہی کئی دفعہ پوچھے جا چکے ہوں۔ یکسانیت کا شکار کاروبار زیادہ دن نہیں چل سکتا۔ بازار میں پہلے سے دستیاب جنس ہی اگر بیچنا ضروری ہو تو اس کا کہیں سے دستیاب جنس سے مختلف نظر آنا لازمی ہے یا اسے کسی نئے مختلف طریقے سے پیش کرنا (بیچنا) ہو گا۔ بقول سہیل لاشاری صاحب کہ آپ کو دوسرے کے مقابلے میں چڑھ کے آنا ہو گا ورنہ کچھ عرصہ بعد خود ہی نڈھال سے ہو کے دکانداری بند کر دیں گے۔

نئی جوانی ’نئی کتاب‘ نئی نوکری ’نئی جگہ‘ نئے خیال اور نئی ذمہ داری کی کامیابی کے لئے کی جانے والی محنت کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ کچھ دن لگا کے پہلے انٹرویو کا قرعہ امجد اسلام امجد صاحب کے نام کا نکالا۔ اس نام کے پیچھے پی ٹی وی کا اردو ڈرامہ وارث اور ان کی نظم کا وہ دلگیر اقتباس تھا کہ:

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گرے
تو یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے

انٹرویو کے لئے مقررہ وقت پہ ان کے دفتر جا پہنچے۔ ان دنوں وہ لاہور میں چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے کرتا دھرتا تھے۔ دفتر کی خاص بات اس کا کتابوں سے بھرا ہوا ہونا تھا اور میز پہ بھی جابجا کتابیں ہی پڑی ہوئی تھیں۔ دفتر بھی کوئی بہت وسیع و عریض نہیں تھا البتہ ایک طرف مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے صوفے ضرور لگائے گئے تھے اور سامنے پڑے شیشے کے میز پہ ہی چائے کا سامان رکھا ہوا تھا کہ اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لئے حسب مقدار و حسب ذائقہ چائے بنائیں اور نوش کریں۔

امجد صاحب نے کرسی سے اٹھ کے استقبال کیا تو اس عزت افزائی پہ بڑی خوشی ہوئی۔ پوچھنے لگے آپ انجینئرنگ یونیورسٹی والے ہیں ناں۔ اس تصدیقی عمل کے بعد انہوں نے اپنے دفتر میں موجود پی ٹی وی لاہور سنٹر کے ہدایتکار ایوب خاور اور کراچی سے تشریف لائیں ایک شاعرہ (نام بھول گیا) سے نہایت اچھے الفاظ میں تعارف کروایا۔

صوفے کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے کہ یہاں تشریف رکھیئے ’چائے پئیں‘ بس پانچ منٹ کے بعد انٹرویو شروع کرتے ہیں۔ اسی دفتر میں پہلی بار تعویذ (ٹی بیگ) والی چائے پینے کا اتفاق ہوا۔ چائے کا کپ ابھی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچا تھا کہ امجد صاحب اپنا ضروری کام نپٹا کے ہمارے ساتھ آن بیٹھے۔

رسمی حال احوال اور یونیورسٹی کے تعارف کے بعد ’وارث‘ سے گفتگو کا آغاز کیا۔ بڑی حیرت ہوئی کہ انہوں نے ہر گز یہ نہیں کہا کہ اس وقت کمیونزم کا دور دورہ تھا ’ہر کوئی وڈیرہ شاہی کے خلاف تھا اور انہوں نے کمال دانشمندی سے اپنی نبض شناس طبیعت کے باعث معاشرے کی دکھتی رگ بھانپ لی تھی اور چودھری حشمت جیسے معاشرتی کردار کو پردہ سکرین پہ لے آئے‘ نہ ہی انہوں نے یہ کہا کہ شب و روز ایک کر کے جاندار مکالمے لکھے کہ ڈرامہ جب دیکھا جائے تو بالکل اصل کا تاثر جانا چاہیے ’یا انہوں نے ایسا بھی کچھ نہیں کہا کہ ڈرامے کی عکس بندی (شوٹنگ) کے دوران وہ ہمیشہ سیٹ پہ ہوتے تھے اور فنکاروں کی جملوں کی ادائیگی یا چہرے کے تاثرات درست کرواتے تھے کہ مطلوبہ مقصد اور معیار حاصل کیا جا سکے بلکہ انہوں نے انتہائی کسر نفسی سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اس سادہ دور میں صرف ایک ہی ٹی وی چینل ہوتا تھا اور شام میں لوگوں کے پاس کوئی خاص مصروفیت نہیں ہوتی تھی تو اس لئے شاید وہ ڈرامے کا انتظار کیا کرتے تھے۔

جتنے بھی سوالات پوچھے گئے ان کے جواب میں اگر کوئی عنصر مشترک تھا تو وہ محبت تھا۔ اور محبت کے وسیع معانی بھی صرف انہی کے ہاں دیکھے گئے۔ موجودہ دور کے درپیش معاشرتی ’سماجی حتیٰ کہ اقتصادی مسائل کا حل بھی انہوں نے محبت ہی تجویز کیا تھا کہ اسی کی بنیاد پہ ہم اپنے معاشرے میں صبر‘ اخوت ’قناعت‘ حمایت اور تعاون جیسی خوبیاں قائم کر کے آگے بڑھ سکیں گے۔ امجد صاحب کا بتایا ہوا حل اس وقت بھی کارآمد تھا اور آج بھی ناگزیر ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ محبت اس فانی دنیا میں آفاقی حقیقت ہے اور یہ حل ہر وقت اور زمانے میں کام آئے گا تو ہرگز بھی غلط نہ ہو گا۔

محبت کی اصل روح اور حقیقت کو پانے کے لئے خود کو محبت ہی کے حوالے کرنا پڑے گا ورنہ ہمارے ہاں پائے جانے والے نام نہاد دانشور ’موقع پرست راہنما اور گل و بلبل کی محبت تک محدود رہ جانے والے اس بحر بیکراں کی وسعت کو نہیں پہنچ سکتے۔ امجد اسلام امجد ہی نے محبت کے بارے کہا تھا کہ:

محبت ایسا رشتہ ہے
کہ جس میں بندھنے والوں کے
دلوں میں غم نہیں ہوتا
محبت ایسا دریا ہے
کہ بارش روٹھ بھی جائے
تو پانی کم نہیں ہوتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments