جو میں سچ کہوں تو


عموماً کہا جاتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم غلام ہیں۔ ہم امریکہ کے غلام ہیں، ہم قرض دینے والے اداروں کے غلام ہیں، ہم سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے علاوہ چوہدریوں، خانوں، سرداروں اور وڈیروں کے غلام ہیں۔ ہم پیروں فقیروں، مذہبی پیشواؤں اور علماء کے غلام ہیں۔ ہم اپنی اپنی اناؤں اور نفس کے غلام ہیں۔ ہم غلامی کی مختلف تہوں اور پردوں میں دبے ہوئے لوگ ہیں۔ لیکن ہر چھ مہینے سال بعد کوئی ایسا واقعہ ہو جاتا ہے جو اس عمومی سوچ کی نفی کر دیتا ہے۔

ہم تو انفرادی طور ہر طرح سے آزاد ہیں۔ کسی سرکاری ملازم کا جی چاہتا ہے تو کام کرتا ہے نہیں چاہتا تو نہیں کرتا۔ کسی جج کا جو فیصلہ دینے کو جی چاہتا ہے قانون کی اپنے مطابق تشریح کر کے دے دیتا ہے۔ ایک ہی نوعیت کے معاملے میں دو مختلف ججز مختلف فیصلے دے دیتے ہیں اور دونوں پر عملدرآمد ہو جاتا ہے ۔ یا ایک ہی جج ایک ہی نوعیت کے معاملے میں دو مختلف اوقات میں مختلف فیصلے دیتا ہے۔

سڑک پر سفر کرتے ہوئے ہر شخص کو من مانی کرنے کا اختیار دیکھتا ہوں تو آزادی کا احساس مزید اجاگر ہو جاتا ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے ٹریفک قوانین کی پرواہ کیے بغیر کرتا ہے۔ ہر شخص اتنی جلدی میں ہے کہ میں نکل جاؤں باقی بھاڑ میں جائیں۔ موٹر سائیکل والے کو اگر اپنی جان کی پرواہ نہیں تو رکشہ ڈرائیور، بس ڈرائیور اور ٹرک ڈرائیور کو کسی کی پرواہ نہیں۔

تاجر حضرات مرضی کی قیمتیں وصول کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ بے دھڑک دو نمبر مال بیچیں یا ذخیرہ اندوزی کریں وہ آزاد ہیں۔ ہر مارکیٹ اور بازار میں دکانوں کے اگے بیچ سڑک کے دکانیں کھل چکی ہیں جہاں پیدل چلنا بھی دشوار ہو جاتا ہے کیونکہ ہم آزاد ہیں۔

قبضہ گروپس، مافیاز اور بدمعاش زمینوں پر ناجائز قبضے کرنے میں آزاد ہیں۔ حتی کہ اربوں روپے کی سرکاری اراضی پر بھی قبضہ کرنے میں آزاد ہیں۔

لسانی، علاقائی اور مذہبی گروہ کھلے عام نفرت انگیز لٹریچر کی ترویج و اشاعت میں آزاد ہیں۔ ہر مذہبی کتب بیچنے والی دکان فرقہ ورانہ کتب سے بھری پڑی ہے۔

ہم اس قدر راست باز مسلمان ہیں کہ کسی بھی شخص پر توہین مذہب یا توہین رسالت کا الزام لگا کر اسے قتل کرنے میں آزاد ہیں۔ حقیقتاً ہم مادر پدر آزاد ہیں۔

جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم قوم نہیں ہجوم ہیں ان سے گزارش ہے کہ اپنے اس قول پر نظر ثانی کریں۔ ہم ہجوم نہیں وحشی جانوروں کا ریوڑ ہیں۔ کیونکہ انسانوں کے ہجوم میں بھی کچھ انسانیت ہوتی ہے۔

ہم میں سے ہر شخص سخت گیر مسلمان ہے مگر اس ایمان افروز ملک کا ہر شہری امریکہ اور یورپ جانا چاہتا ہے۔ ایک طرف اسلام کے جوشیلے سپاہی امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی اور ہالینڈ کو گالیاں دیتے ہیں۔ ان کے خلاف جلوس نکالتے ہیں۔ دوسری طرف انہیں ملکوں سے خیرات لیتے ہیں اور ان جنت نظیر ملکوں میں زندگی بسر کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔

اب وقت آ گیا ہے کہ اگر اس ملک کے عوام کو واقعی ایک قوم میں ڈھالنا چاہتے ہیں تو صرف تین اداروں کو ایک پیج پر آنا پڑے گا۔ سب سے پہلے فوج۔ اسے بلڈی سویلینز کی سوچ رد کر کے آئین اور قانون کی پابندی کرنی پڑے گی۔ اس ملک کے شہریوں کے ساتھ آقا اور غلام کا سلسلہ بند کر کے ہم جیسا شہری بننا پڑے گا۔

دوسری عدلیہ۔ اسے نظریہ ضرورت ہمیشہ کے لئے دفن کر کے آئین او قانون کی پاسداری کرنی پڑے گی۔ تیسرے علماء کرام کو کسی بھی فرقے یا مذہب کے تحریر و تقریر سے گریز کرنا پڑے گا۔ اپنی زبانوں کو لگام دینی پڑے گی۔ وہ کون سا عالم دین ہے جس پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیا۔ سیکڑوں علماء پر توہین مذہب کا الزام لگ چکا ہے۔ خدا وہ وقت نہ لائے کہ اسلام کے جوشیلے سپاہی کسی عالم دین کو توہین رسالت کے جرم میں سڑکوں پر گھسیٹ گھسیٹ کر آگ لگا دیں۔ ​

ابھی وقت ہے سمجھ جائیں۔ یہ پاکستان ہم سب کا ہے۔ وہ بلوچی ہیں، سندھی ہیں، گلگتی ہیں، پشتون ہیں۔ پنجابی ہیں، براہوی ہیں چترالی ہیں۔ سنی ہیں یا شیعہ ہیں۔ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ہیں۔ یہ کسی ایک شخص یا گروہ کی ذاتی جاگیر نہیں۔ یہ ملک کسی کے باپ کی وراثت نہیں کہ قانون ہاتھ میں لے لے۔ ابھی وقت ہے واربرٹن کے واقعے میں ملوث مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔ ابھی وقت ہے کہ توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی جائے۔ توہین مذہب کا الزام لگانے والے کو بھی مقدمے کا فیصلہ ہونے تک قید میں رکھا جائے۔ ورنہ یہ ملک پر امن لوگوں کے لئے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ صرف بربادی ہوگی بربادی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments