ناول بت پرستوں کی نئی نسلیں (2)


نوٹ : بت پرستی ان کا مذہب نہیں تھا۔ یہ تو ان کے اذہان کے جنگلوں میں ہزاروں سالوں سے پھیلا ہوا، وہ سم ہلاہل تھا، جو ان کی نسلوں کی شریانوں میں لہو کی طرح سرایت کر چکا تھا۔ وہ کسی رنگ، بے رنگ، وجودی یا غیر وجودی بت کو تراش کر اس کی پراسرار انداز میں پوجا شروع کر دیتے۔ کچھ دیر بعد انہیں احساس ہوتا کہ یہ تو خود ان کے ہاتھوں سے تراشا ہوا ہے، تو اسے پاش پاش کر دیتے۔ مگر پرانے بت کے ٹکڑوں کو پاؤں تلے روندنے اور نیا بت تراشنے کے درمیان بس ایک مختصر سا وقفہ ہوتا تھا۔

—————————————————-
دوسرا باب : نئی نسل نئے راستے

فضل داد کئی لمحے تک وہیں کھڑا رہا۔ نور بانو نے جاتے جاتے جو کہا تھا اور جو اس کے چہرے پر شرارت تھی وہ فضل داد کے لئے بہ یک وقت خوشی اور حیرت کا باعث بن گئی تھی۔ وہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا کہ یہ سب کیا تھا۔ وہ اس معاملے پر غور کرتا ہوا پلنگ کی ایک نکر پر بیٹھ گیا۔ تبھی اس کے معدے نے اسے بتایا کہ اس نے تو ابھی تک ناشتہ بھی نہیں کیا۔ اسے سخت بھوک لگ رہی تھی۔

اس نے ناشتہ منگوایا اور ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیر کے لئے سو گیا۔
اس کی آنکھ کھلی تو نور بانو پھر وہاں موجود تھی۔ وہ گلدان میں پھول سجا رہی تھی۔
فضل داد نے لیٹے لیٹے اس کی طرف دیکھا ”اب کیا صرف پھول سجانے آئی ہو؟“ ۔
نور بانو اس کی طرف دیکھے بغیر ”نہیں، اب تو میں آپ کے کمروں کی دیکھ بھال کرنے آئی ہوں“
”تو میری دیکھ بھال کون کرے گا؟“
”اتنے نوکر چاکر ہیں آپ کے یہاں۔ وہ کس لئے ہیں؟“
فضل داد اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”مطلب میرے سب کام اب تم میرے نوکروں پر چھوڑنا چاہتی ہو؟“
”تو وہ پیسے کاہے کے لیتے ہیں پھر؟“
فضل داد اس کے قریب پہنچ گیا۔
”مگر میں تو چاہتا ہوں کہ میرے سب کام تم کیا کرو“ وہ نور بانو کی طرف بڑھا۔
نور بانو تھوڑا پیچھے ہٹ گئی۔
”یہ تم مجھ سے ڈرتی کیوں رہتی ہو؟“

”اس لیے کہ میرا نام ملک فضل داد نہیں ہے، اور آپ یہ بھی بھول رہے ہیں کہ میں منشی چراغ دین کی بیٹی ہوں“ ۔

”تو چلو! تم فضل داد بن جاؤ اور میں منشی انکل کی بیٹی بن جاتا ہوں“ ۔
نور بانو نے ایک لمبی سی آہ بھری ”کاش ایسا ہو سکتا“ ۔
”اور اگر ہو تا تو تم کیا کرتیں؟“

ابھی فضل داد جواب کا انتظار ہی کر رہا تھا کہ نور بانو نے بڑھ کر دونوں بازو اس کی گردن میں ڈالے اور زور دار طریقے سے اس کے لب چوم لیے۔ پھر بولی ”جواب ملا کہ نہیں؟“ اور دوبارہ سے گلدان میں پھول سجانے لگی۔

”مل گیا مل گیا، جان من پورا جواب مل گیا“ ۔

اس بار فضل داد نے اس سے ویسا ہی سلوک کیا، جیسا نور بانو نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ پھر کتنی دیر تک دونوں ہنستے رہے۔

فضل داد سمجھ گیا کہ بوس و کنار سے تو وہ گھبرائے گی نہیں اور باقی، ابھی تو نہیں۔ ابھی تو بالکل بھی نہیں۔

اب پہلے تھوڑی سی بات ”ملک پور“ کے اجزائے ترکیبی پر۔ جب ملک فتح داد نے ان زمینوں کو آباد کرنا شروع کیا تو اسے جہاں سے بھی کاشت کاری کی سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ میسر آئے، انہیں یہاں لے آیا۔ ان میں سے کچھ تو جلد ہی مایوس ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے، لیکن باقیوں نے اسی مقام کو اپنا مسکن بنا لیا۔ ملک فتح داد کے گھر کے آس پاس اپنی جھونپڑیاں بنا لیں اور کام میں جٹ گئے۔ آہستہ آہستہ ان کی جھونپڑیاں مناسب گھروں میں تبدیل ہو گئیں، بچے بڑے ہو گئے اور ساتھ ہی گاؤں بھی پھیل گیا۔

مگر ابھی بھی حالات ایسے تھے کہ کسی کی جیب اجازت نہیں دیتی تھی، جو وہ گاؤں سے باہر رشتہ داریاں کر سکتے، سوائے فتح داد کی آئندہ نسلوں کے۔ یوں ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ میں صرف چند باراتیں ہی گاؤں سے باہر گئیں اور اتنی ہی کہیں باہر سے اس گاؤں میں آئیں۔ ورنہ باقی سب لوگ آپس میں ہی رشتہ داریاں کرتے رہے۔ یوں اب یہ سارا گاؤں آپسی رشتہ داروں کا ہی بن چکا تھا۔ سب ایک دوسرے کے مامے چاچے نانے دادے اور کزن وغیرہ تھے۔

سال میں چار بار گاؤں میں میلہ لگتا تھا۔ جس میں عورتیں، بچے، بوڑھے سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ خاص طور پر لڑکیاں اور عورتیں اس سے خوب لطف اندوز ہوتیں اور جی بھر کے خریداری بھی کی جاتی اور ایک دوسرے کو تحفے بھی دیے جاتے۔

اب، جب سبھی آپس میں رشتہ دار تھے تو اکثر اوقات چھوٹے موٹے اختلافات بھی ہوتے رہتے تھے اور کبھی کبھی بات تو تو میں میں تک بھی چلی جاتی۔ مگر جب بھی ایسا ہوتا تو دونوں فریقین اپنا معاملہ لے کر منشی چراغ دین کے پاس پیش ہو جاتے۔ منشی چراغ دین نہ صرف یہ کہ ملک جہاں داد کا دایاں ہاتھ اور اس کا نائب سمجھا جاتا تھا، بلکہ ایک معتبر کے طور پر اس کی عزت بھی بہت کی جاتی تھی۔ ملک جہاں داد کی صحبت میں اس نے بھی یہی سیکھا تھا کہ کسی کے ساتھ بھی ظلم یا زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔

سو عام طور پر ایسے تمام جھگڑوں میں وہ صلح صفائی کروا دیتا یا ضرورت ہوتی تو کوئی دوسرا فیصلہ کر دیتا۔ وہ بے شک کوئی عیار آدمی نہیں تھا، مگر اسے ہوشیار، چالاک ضرور کہنا پڑے گا کہ وہ ہر بار اہم معاملات کو خود حل کرنے کی بجائے، ملک جہاں داد کے سامنے پیش کرنے کو فوقیت دیتا۔ ملک جہاں داد ہمیشہ دونوں فریقین کو بہت غور اور پوری ہمدردی سے سنتا۔ پھر جب وہ فیصلہ سناتا تو وہ بھی دونوں فریقین کو دل سے قبول ہوتا۔ یہی وجہ تھا کہ ”ملک پور“ میں کبھی پولیس کی آمد نہیں ہوئی تھی۔

ملک جہاں داد کے سامنے پیش ہونے والے مقدمات میں لڑکے لڑکیوں کے واقعات بھی ہوتے تھے۔ جو کبھی کبھار فضل داد بھی سن لیتا تھا کیونکہ وہ بھی اکثر ایسے موقع پر وہاں موجود ہوتا تھا۔ وہ ہر بار سوچتا کہ اس لڑکی نے کیوں خود کو اس لڑکے کے حوالے کر دیا؟ اور وہ بھی کھیتوں یا ایسی ہی کسی نا معقول جگہ پر۔ وہ جاننے کی کوشش کرتا کہ یہ صرف جسمانی ضرورت ہے یا کوئی محبت وغیرہ یا پھر دونوں؟ اب وہ ان معاملات کا موازنہ اپنے اور نور بانو کے تعلقات سے بھی کرنے لگا تھا۔ یہ اور بات کہ وہ کبھی بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ پاتا۔

ایسے ہی ایک بار اللہ دتہ نامی ایک مزارعہ کے بیٹے کا مقدمہ جہاں داد نے سنا۔ اللہ دتہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر آیا تھا۔ اس نے بتایا کہ ابھی ایک سال پہلے، اس کی منگنی، یہیں ملک پور میں اپنے رشتہ داروں میں کی تھی۔ منگنی کے وقت بے حد خوش تھا۔ منگنی اس کی مرضی سے ہوئی تھی۔ اور اب جب کہ اس نے دس جماعتیں پاس کر لی ہیں، تو کہتا ہے شادی شہر کی کسی لڑکی سے کرنا چاہتا ہے، جسے ہم جانتے بھی نہیں۔ میرے دو بیٹے اور ہیں جو کاشتکاری میں میری مدد کرتے ہیں۔ دو بیٹیاں ہیں، جن کی ابھی شادیاں کرنی ہیں۔ اگر میں اس کی بات مان کر منگنی توڑ دوں تو ہماری تو یہاں دشمنی بن جائے گی۔ میں یہاں کیسے رہوں گا؟ اپنے باقی بچوں کی شادیاں کیسے کروں گا؟ پھر اس بے چاری بچی کا کیا قصور ہے کہ اس کی منگنی ٹوٹ جائے؟

ملک جہاں داد نے سب سننے کے بعد کہا ”خدا اور رسول کے بعد ، ملک پور، ہی ہمارا سب کچھ ہے۔ ہم سب نے مل کر اور ہمارے بزرگوں نے اس کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ سو سال سے زیادہ پرانا ہے ہمارا یہ گاؤں۔ مگر آج تک یہاں پولیس نہیں آئی۔ ہر طرح کے معاملے کو ہم نے خود ہی نمٹایا ہے۔ نہ کبھی کسی کے رشتے ٹوٹے نہ دشمنی تک نوبت آئی۔ اب اگر اس لڑکے کی وجہ سے ایسا ہو گا تو اسے سوچ لینا چاہیے کہ یہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ میں خود کوئی فیصلہ نہیں کر رہا نہ اسے کوئی حکم دے رہا ہوں (پھر فضل داد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا) مگر یہ ضرور بتا دوں کہ اگر میرا یہ اکلوتا بیٹا، جس کو میں نے بڑے لاڈ پیار سے پالا ہے، میری مرضی کے خلاف چل کر کوئی ایسی حرکت کرے گا جس سے“ ملک پور ”مسائل کا شکار ہو گا یا میرے خاندان کے نام پر بٹہ لگے گا تو میں اپنی ساری زمین اور جائیداد اپنی بیٹیوں کے نام کردوں گا اور پھر اسے باقی زندگی اپنے بل بوتے پر گزارنا ہوگی۔ اگر اس لڑکے نے تمہاری مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھا کر ملک پور کے امن کو نقصان پہنچایا، تو ملک پور میں داخل ہونا تو دور کی بات ہے، میں اسے ملک پور کے آس پاس سے بھی نہیں گزرنے دوں گا اور پھر جہاں بھی رہے گا وہاں بھی کم از کم میں اسے سکون سے تو نہیں رہنے دوں گا“ ۔

فضل داد جب ملک جہاں داد کی یہ سب باتیں سن رہا تھا تو اسے ایسا لگا، جیسے اس کا باپ یہ سب صرف اسے سنانے کے لیے کہہ رہا ہے۔ سو اس نے باپ کی اس بات کو دل میں بٹھا لیا اور اب بھی کبھی کبھی باپ کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں گونجتے رہتے تھے۔ حالانکہ اس واقعہ کو کم از کم دو ڈھائی سال گزر چکے تھے۔

اللہ دتہ کے بیٹے نے تو باپ اور سسر سے معافی مانگ کر اپنی منگیتر سے شادی بھی کرلی تھی اور کاشت میں باپ کا ہاتھ بھی بٹانے لگا تھا۔ اب تو اللہ دتہ کو ایک پوتے کا دادا بنے ہوئے بھی ایک سال گزر چکا تھا۔ ملک پور والے تو اس واقعہ کو کسی حد تک بھول بھی چکے تھے۔ لیکن اگر کوئی نہیں بھول پایا تھا تو وہ تھا ملک فضل داد۔

اب آئیے واپس نور بانو اور فضل داد کے معاملات کی طرف۔

نور بانو صبح فضل داد کی طرف آنے سے پہلے، حویلی میں کام کرتے ہوئے دوسرے لوگوں کا اچھی طرح جائزہ لیتی کہ کون اس وقت کہاں کام کر رہا ہے؟ اور فضل داد کے کمرے سے کوئی بھی کتنی دور ہے؟ جب وہ فضل داد کے کمرے میں داخل ہوتی تو وہ اکثر ابھی سو رہا ہوتا۔ نور بانو پہلے اسے غور سے دیکھتی کہ سو رہا ہے یا سونے کی ادا کاری کر رہا ہے۔ یہ یقین ہونے کے بعد کہ وہ سو رہا ہے۔ وہ اس کے پاس بیٹھ جاتی اور پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی۔

وہ پھر بھی سویا رہتا تو اس کے لبوں کا ایک بوسہ لے کر اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی۔ اس کے انگ انگ سے خوشی اور شرارت پھوٹ رہی ہوتی۔ اگر فضل داد ایسے میں جاگ جاتا، تو بوس و کنار کا ایک پیریڈ فوراً لگ جاتا اور باقی کام بعد میں ہوتے۔ اگر وہ سویا رہتا تو بوس و کنار کی باری بعد میں آتی، پہلے کمرے کی صفائی، جتنی کہ اس کے سوتے ہوئے ہو سکتی، ہو جاتی۔

عام طور پر وہ خوش خوش آتی اور صبح کے یہ دو گھنٹے، دونوں کے، نہایت پر مسرت گزرتے۔ اس کے جانے کے بعد فضل داد نہا دھو کر ناشتہ کرتا، پھر دو ڈھائی گھنٹے اپنی پڑھائی کرتا اور دوبارہ تھوڑی دیر لیٹ جاتا۔ دوپہر جنسی تسکین کا سامان کرتا۔ شام سے رات گئے تک وہ صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دیتا۔ ایسے موقع پر اسے اکثر باپ کے یہ الفاظ یاد آتے کہ جنسی آسودگی کے بعد انسان اپنے دوسرے کام زیادہ توجہ سے کر سکتا ہے۔ وہ پر سکون نیند سوتا اور اس کی صبح بھی زیادہ تر اچھے ماحول میں ہوتی۔

لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ نور بانو پہلے تو آتی ہی تاخیر سے، پھر اس کا موڈ بھی آف ہوتا۔ فضل داد کے کریدنے پر وہ اکثر اسے ٹالنے کی کوشش کرتی، مگر آخر کار اسے بتانا ہی پڑتا کہ آج پھر ماں کے ساتھ چخ چخ ہوئی ہے۔ اس کا موقف ہمیشہ یہی ہوتا کہ ماں {بھاگ بھری} نے اسے بلا وجہ ڈانٹا ہے۔ اس کا کوئی قصور نہیں تھا۔ نور بانو یہ سمجھتی تھی کہ ماں جو اس کو جوانی کے طعنے دیتی ہے تو در اصل ماں کو اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس کی جوانی ڈھل رہی ہے۔

مگر اس کی جوانی کے ڈھلنے میں میری کیا خطا ہے؟ یہ تو وقت کے ساتھ ہوتا ہی ہے اور اگر اولاد کو اس کا الزام دینا ہی ہے تو پہلے میرے دونوں بھائیوں کو دے۔ جو مجھ سے عمر میں بھی بڑے ہیں۔ ایسے دن، سارا وقت، فضل داد اسے تسلیاں دیتا اور چپ کرواتا رہتا، اور وہ اس کی آغوش میں دبک کر روتی رہتی۔ البتہ اگلے دن پھر وہی ہنستی کھیلتی اور شرارتیں کرتی ہوئی نور بانو کمرے میں آ موجود ہوتی۔

کبھی کبھی نور بانو کا ایک اور رخ بھی سامنے آتا۔ وہ کسی بھی بات سے شروع ہو کر، کھانا وغیرہ لے کر آنے والی یا دوسرے کام کرنے والی لڑکیوں کو لے کر سوال پہ سوال داغتی رہتی۔ اسے لگتا کہ فضل داد کے بیڈ سے، صوفے سے بلکہ ہر جگہ سے دوسری لڑکیوں کے بدن کی بو آتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ شام کے بعد کا تمام کوڑا، بہت احتیاط سے کہیں دور پھینکا جاتا تھا۔ بستر کی چادریں وغیرہ اسی وقت بدل دی جاتی تھیں۔ مبادا اس کی شاموں کا کوئی ثبوت وہاں رہ جائے۔ فضل داد کو در پیش اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ نور بانو کو دوسری لڑکیوں والی پوری بات بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا۔ دونوں کے پاس مستقبل کا کوئی واضح نقشہ نہیں تھا اور وقت گزر رہا تھا۔

انہی دنوں فضل داد کی چھوٹی بہن جمیلہ جان کی شادی کی بات بھی شروع ہو گئی۔ جمیلہ جان ابھی ایف۔ اے کے دوسرے سال میں تھی۔ خود فضل داد کی ماں گوہر جان کے لیے جب ملک جہاں داد کا رشتہ آیا تھا، تو وہ بھی ایف اے کے دوسرے سال میں پڑھ رہی تھی اور رشتہ پکا ہوتے ہی اسے کالج سے ہٹا لیا گیا تھا۔ وہ لاکھ روتی رہی کہ اسے کم از کم ایف اے کا امتحان تو دینے دیا جائے مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ملک جہاں داد چونکہ خود صرف میٹرک پاس تھا، اس لیے اسے خود سے زیادہ پڑھی لکھی بیوی منظور نہ تھی۔

دوسرا ظلم گوہر جان کے ساتھ یہ ہوا کہ شادی کے بعد اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق اس کے باپ اور بھائیوں نے اس کے گھر آنا تقریباً تقریباً ترک کر دیا۔ کبھی عید شب برات پر اسے تحفے ضرور بھیجے جاتے، لیکن باپ اور بھائیوں سے اس کی ملاقات اگر ہوتی بھی تو سر سری سی۔ کبھی اس کے گھر آ کر رات رہنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ گوہر جان سمجھتی تھی کہ اسی وجہ سے سسرال میں اپنا مقام بناتے بناتے اسے کافی وقت لگا تھا۔

گوہر جان کی شادی کے وقت تو ملک جہاں داد کے گھر کی اصل حکمرانی اس کی ماں کے ہاتھ میں تھی۔ ملک جہاں داد کا کام صرف نو کروں کو تنخواہیں دینے یا ضرورت پڑنے پر ان میں تبدیلیاں کرنے تک محدود تھا۔ مگر پھر ساس کے فوت ہو جانے کے بعد آہستہ آہستہ گوہر جان نے تمام انتظامات خود سنبھالنے شروع کیے۔ یہاں تک کہ نوکروں کو تنخواہ دینا یا ان میں تبدیلیاں کرنا بھی اب اس کے اختیار میں تھا۔ لیکن بیٹیوں کے رشتوں کے معاملے میں ابھی بھی اس کی بات نہیں سنی جا رہی تھی۔ اس سلسلے میں جہاں داد مکمل ڈکٹیٹر بنا ہوا تھا اور وہ بالکل بے بس تھی۔

فضل داد کی دوستی تو خیر باپ کے ساتھ ہی تھی کہ دونوں ایک دوسرے کے راز دار بھی تھے لیکن محبت اسے اپنی ماں گوہر جان سے تھی۔ وہ اپنی بہنوں کو بہت پیار کرتا تھا، اور وہ بھی اسے دل و جان سے چاہتی تھیں۔ جمیلہ جان کے ہونے والے سسرالیوں کو شادی سے پہلے اس کے ایف اے کرنے میں کوئی اعتراض نہ تھا، سو ملک جہاں داد نے بھی کسی دوسری رائے کا اظہار نہ کیا۔ لیکن گوہر جان تو چاہتی تھی کہ اس کی بیٹیاں کم از کم بی اے کی ڈگری ضرور حاصل کریں اور بیٹیوں کی بھی یہی خواہش تھی۔

اس لیے گوہر جان نے فضل داد سے بات کی، کہ وہ اپنے ہونے والے بہنوئی سے مل کر یہ گارنٹی حاصل کرے کہ جمیلہ کو شادی کے بعد پڑھائی جاری رکھنے کی اجازت ہو گی۔ چاہے اسے یہ امتحان پرائیویٹ ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ فضل داد نے ماں کے کہنے پر اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور ہونے والے بہنوئی ملک نیاز احمد سے ملاقاتیں شروع کر دیں۔ ملک نیاز احمد سول انجینئر کی حیثیت سے ایک بڑی نجی فرم میں اچھی تنخواہ پر ملازم تھا اور کھلا ذہن رکھتا تھا، اس لیے فضل داد جلد ہی اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انہی ملاقاتوں کے دوران ہی فضل داد کے ملک نیاز احمد اور اس کے بھائی ملک فیاض احمد سے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے۔ ملک فیاض احمد سے، بعد میں، اس کی دوسری بہن ثریا جان بیاہی گئی۔

مائیں تو یوں بھی اپنے بچوں میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہت دور سے بھانپ لیتی ہیں، جبکہ فضل داد کی تو آج کل ماں سے پہلے کی نسبت ملاقات بھی زیادہ چل رہی تھی۔ وہ کیسے نہ جان لیتی کہ بیٹا سوچوں کے کس بھنور میں گرفتار ہے! اور پھر ایک دن موقع پا کر گوہر جان نے ملک جہاں داد سے اس شک کا اظہار کر دیا کہ فضل داد کسی لڑکی کے معاملے میں ملوث ہے۔ وہ ملک پور والی حویلی میں پہلے سے زیادہ رہنے لگا ہے اور شہر کے دوستوں سے بھی اس کی ملاقاتیں کم ہو گئی ہیں۔ کالج کے لیکچر وہ کس طرح پورے کر رہا ہے، اس کی بھی خبر نہیں۔

ملک جہاں داد نے گوہر جان کو تو اس کا ’وہم‘ کہہ کر چپ کروا دیا، لیکن خود اسے خاصی تشویش ہوئی کہ اگر کسی کو روز نئے نئے پھل

کھانے کو مل رہے ہوں تو وہ کسی ایک پھل پر اکتفا کیوں کرے گا؟ اسے اپنا فار مولا فیل ہونے کا خدشہ ہوا۔ اس نے منشی چراغ دین سے بات کی اور دونوں مل کر چھان بین میں مصروف ہو گئے۔ انہوں نے اپنے طور پر کافی کوشش کی، لیکن انہیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ پھر فضل داد کی لسٹ والی لڑکیوں سے فرداً فرداً سوال کیے گئے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ آخر کار نور بانو سے بھی پوچھا گیا کہ شاید اسے کچھ خبر ہو۔ مگر وہ صاف مکر گئی۔ الٹا اس نے فضل داد کی بلند کرداری کی تعریف میں لمبی چوڑی تقریر کر ڈالی۔ نور بانو کا بیان تھا کہ وہ تو سارا دن بیٹھا کتابیں پڑھتا رہتا ہے، کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا، چہ جائیکہ کوئی اور بات! ۔

ملک جہاں داد اور منشی چراغ دین یہ سوچ کر ہنستے رہے کہ وہ فضل داد کو کتنا شریف اور بلند کردار سمجھ رہی ہے۔ کتنی بھول بھالی ہے یہ لڑکی ابھی تک۔

فضل داد ان سب معاملات سے بے بہرہ اپنی زندگی میں مگن تھا۔ البتہ اب اس کا یہ احساس شدت اختیار کرتا جا رہا تھا کہ وہ نور بانو کی محبت میں گرفتار ہو چکا ہے اور وہ بھی بری طرح سے۔ باپ کے سکھائے ہوئے کچھ سبق بھی اس کی نظر میں مشکوک ہو رہے تھے۔ وہ باقاعدہ محسوس کرنے لگا تھا کہ جنسی عمل کے لیے بھی سب عورتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ کچھ تعاون کرتی ہیں، کچھ خود سپردگی سے آگے کچھ جانتی ہی نہیں۔ کچھ باقاعدہ حصہ دار بن جاتی ہیں، لیکن وہ بھی ہیں جو صرف تھوڑی دیر اس کے صوفوں پر بیٹھنے اور بڑے نرم بیڈ پر لیٹنے کے لیے آتی ہیں۔

اس سے زیادہ انہیں وہاں آنے میں کوئی کشش ہی نہیں ہوتی۔ ان کے رویوں سے تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کے نزدیک جنسی عمل میں لطف کا عنصر صرف مرد کا حصہ ہے۔ عورت تو صرف مرد کو خوش کرنے کے لئے پیدا ہوئی ہے۔ خود فضل داد کو بھی ایسی عورتوں میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی وہ کبھی کبھی ذائقہ کی تبدیلی کے لئے انہیں بلا لیا کرتا تھا۔

جہاں داد کو منشی کے ساتھ مل کر فضل داد کے بارے میں چھان بین کرنے سے، بے شک کچھ نہیں ملا تھا، مگر وہ مطمئن بھی بہر حال نہیں ہوا تھا۔ ایک دن جب وہ دونوں ملک پور سے شہر کی طرف واپس جا رہے تھے۔ گاڑی فضل داد ڈرائیور کر رہا تھا اور ان دونوں کے علاوہ گاڑی میں اور کوئی موجود نہیں تھا تو جہاں داد نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے فضل داد سے براہ راست سوال کر دیا۔

”کیا تم مجھے بتانا پسند کرو گے کہ حویلی میں اتنا زیادہ وقت کیوں گزارنے لگے ہو؟ اور کیا اس طرح تمہاری پڑھائی کا حرج نہیں ہو رہا؟“

فضل داد جیسے اس سوال کے لیے پہلے سے تیار تھا، باپ کی طرف دیکھے بغیر بولا ”میں اپنی پڑھائی کے لیے ہی زیادہ وقت یہاں گزارتا ہوں۔ شہر کے دوستوں سے کٹ کر اور دوسرے ہنگاموں سے دور یہاں مجھے پورا سکون حاصل ہوتا ہے۔ اگر آپ کو کوئی شک

ہے تو رزلٹ آنے تک انتظار کیجیے۔ امید ہے آپ کو اطمینان حاصل ہو گا ”۔
جہاں داد نے چند لمحے خاموشی اختیار کی۔ پھر مخاطب ہوا۔

”اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے، لیکن اگر کوئی اور بات ہے، کوئی مسئلہ ہے تو مجھے بتاؤ، تاکہ میں کوئی بندوبست کروں کوئی راستہ نکالوں، ورنہ بعد میں مجھے الزام نہ دینا۔ میں تمہارا باپ ہی نہیں، تمہارا دوست بھی ہوں اور پھر تم میرے اکلوتے بیٹے ہو۔ میں تمہیں دکھی نہ دیکھ سکوں گا“ ۔

فضل داد نے پورے وثوق سے کہا ”ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ بالکل پریشان نہ ہوں“ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا، اگر باپ سے نور بانو والے معاملے پر بات کرے گا تو اسے فوراً روک دیا جائے گا۔ بات آگے بڑھانے کی بجائے فوراً ختم کر دی جائے گی۔ پھر شاید نور بانو سے اس کی ملاقات بھی نہ ہو سکے اور اگر اس نے بغاوت کرنے کی کوشش کی تو تمام زمین اور جائیداد اس کی بہنوں کے نام کردی جائے گی۔ اسے شاید گھر سے بھی نکال دیا جائے۔

اتنی عیش و آرام کی زندگی جو وہ اب گزار رہا تھا سب چھن جائے گی اور یہ سب برداشت کرنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ وہ اس معاملے پر پہلے بھی غور کر چکا تھا کہ اگر وہ بغاوت کرے گا تو باپ کی زمین جائیداد سے تو جائے گا ہی، نور بانو بھی اسے نہیں ملے گی حالانکہ نور بانو اسے کئی بار بتا چکی تھی کہ گھر میں اس کی شادی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر وہ کچھ کرنا چاہتا ہے تو ابھی کرے۔ بعد میں اسے بے وفا نہ کہے۔ کیونکہ وہ بے وفا نہیں ہے لیکن ماں باپ کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانا بھی اس کے بس کی بات نہیں ہے۔

جہاں داد نے گھر پہنچ کر گوہر جان کو ساری بات بتائی۔ مگر گوہر جان بضد تھی کہ بے شک وہ اس لڑکی کو نہیں جانتی اور کوئی ٹھوس گواہ بھی اسے میسر نہیں لیکن اس کا اندازہ غلط نہیں ہو سکتا۔ فضل داد جو بھی کہہ رہا ہو اور وہ لوگ جیسی بھی چھان بین کر چکے ہوں، پر اصل معاملہ ویسا ہی ہے، جیسا کہ اس کا شک ہے۔ جہاں داد نے اسے جھاڑ دیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر جہاں داد کی طرف دیکھا، لیکن چپ رہی۔

جب رزلٹ آیا تو سب حیران رہ گئے۔ اس نے بی اے بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا۔ اسے فوراً لاء کالج میں داخلہ مل گیا، اور اس نے کالج جانا بھی شروع کر دیا تو جہاں داد نے پھر گوہر جان سے بات کی کہ اس کا اندازہ غلط نکلا۔ مگر گوہر جان اپنی بات پر اڑی ہوئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ بے شک وہ کوئی ثبوت فراہم نہیں کر سکتی لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ جو اسے محسوس ہوتا ہے وہ غلط ہو۔ تو پھر ہوا بھی وہی جو آخر کار ایسے معاملات کا ہوتا ہے۔

ایک دن نور بانو تو پہلے کی طرح، اپنی تسلی کرنے کے بعد ہی فضل داد کے کمرے کی طرف آئی۔ مگر اس کے فوراً بعد بھاگ بھری {نور بانو کی ماں } بھی

کوئی کام یاد آنے پر اس کے پیچھے آ گئی۔ فضل داد اور نور بانو کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی ایسے اچانک اس کمرے میں آ سکتا ہے۔ وہ چوما چاٹی میں مصروف تھے اور بھاگ بھری نے دیکھ لیا۔ مگر وہ ان کو دیکھ کر فوراً واپس لوٹ آئی۔ وہ دونوں اتنے مگن تھے کہ انہیں بھاگ بھری کے آنے اور واپس جانے کا احساس تک نہ ہوا۔ بھاگ بھری واپس آ کر سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ عورت سیانی تھی، نور بانو کے واپس آنے پر بھی خاموش رہی۔ نور بانو کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ ماں اسے دیکھ چکی ہے۔ وہ بھی اسی طرح باقی دن کے کاموں میں مصروف رہی جیسا کہ وہ روز ہوتی تھی۔ بھاگ بھری نے رات کو منشی سے بات کی اور دونوں سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

اتفاق سے دوسرے دن فضل داد شہر جا رہا تھا تو منشی چراغ دین نے اس کے ہاتھ پیغام بھیج کر ملک جہاں داد کو بلوا لیا کہ کچھ کسانوں کا مسئلہ ہے، ملک صاحب جتنی جلدی ہو سکے آ کر اسے نمٹائیں ورنہ بات ہاتھ سے نکل بھی سکتی ہے۔

ملک جہاں داد کا تو ابھی فوراً ملک پور آنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، مگر منشی کا پیغام سن کر اسے لگا کہ بات یقیناً کوئی بڑی ہو گی، بصورت دیگر منشی اسے ایسا پیغام نہ بھیجتا۔ وہ دوسرے دن ہی ملک پور آ پہنچا۔

منشی چراغ دین نے رو رو کر ملک جہاں داد کو سارا ماجرا سنایا۔ ملک جہاں داد کو بے شک ابھی بھی یقین تھا کہ بات جنسی تعلق تک نہیں پہنچی ہو گی کہ فضل داد ایسی بے وقوفی نہیں کر سکتا۔ مگر پھر بھی دونوں نے مل کر پروگرام بنایا کہ نور بانو کی جلد از جلد شادی کردی جائے۔ اور وہ بھی ملک پور سے باہر کہیں دور۔

ملک جہاں داد صرف دو ہی دن وہاں رک کر واپس شہر آ گیا۔ اس نے گوہر جان کو پورے واقعہ سے آگاہ کیا۔ زندگی میں پہلی بار اس کو شاباش دی اور شکریہ بھی ادا کیا۔ (معافی بھی مانگنا چاہتا تھا مگر اتنی ہمت نہ ہوئی) ۔ پھر اسے اپنا ارادہ بتایا اور پروگرام بنا کر گوہر جان، فضل داد اور اس کی دونوں بہنوں کو کاغان کی سیر کرنے کے لیے بھیج دیا۔ گوہر جان کو تو وجہ ہی معلوم تھی اور دونوں بہنیں کافی دیر سے کاغان کی سیر کے لیے جانا چاہتی تھیں، اس لیے وہ بھی خوش ہو گئیں۔ البتہ فضل داد کو نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے ساتھ جانا پڑا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments