یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟


اتوار کے دن ثمینہ نے ڈھیر سارا کھانا پکایا۔ چکن اور گوبھی کا سالن، چنا چاٹ اور پکوڑے۔ اس کے دونوں کالج کے بچے آنے والے تھے۔ فروری کی ایک خنک شام تھی۔ وہ انتظار میں تھی۔

امی ہم بہت تھک گئے ہیں، آپ یہاں ہمارے اپارٹمنٹ آجائیں، اس کی بیٹی نے ٹیکسٹ کیا۔ ثمینہ نے کھانا ڈبوں میں بند کیا، گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھا اور شہر کی مشرقی طرف ڈرائیو کرنا شروع کیا۔ گاڑی میں ریڈیو پر ہپ ہاپ گانے بج رہے تھے۔ اس نے بدل کر ساحر لدھیانوی کے گانوں کا ری مکس لگایا جو حال ہی میں ایک جنوب ایشیائی فنکشن میں سنے تھے۔ عمدہ شاعری لیکن کچھ بہت اداس۔ مثلاً دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے؟ حال ہی میں ایک کشمیری دوست کی ماں نے بتایا کہ اس گانے کے اداکار نے خودکشی کرلی تھی۔

٭٭٭

اتوار کے دن صبح سے ٹینا کے ماں باپ جھگڑ رہے تھے۔ اس کا باپ شدید غصے میں تھا۔ وہ اوکلاہوما میں رہنے والا ایک ٹرمپ سپورٹر اور کٹر عیسائی تھا۔ یہ لوگ نارمن، اوکلاہوما کے مشرقی حصے میں رہتے تھے جہاں اوکلاہوما یونیورسٹی کے قریب چھوٹے اور پرانے گھر بنے ہوئے تھے۔ ٹینا کی ماں اس کو شانت کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ اس نے کھانا پکایا اور وہ تینوں کھانے کی میز پر بیٹھے۔ ٹینا کے کندھے سکڑے ہوئے تھے اور اس کے لمبے بالوں نے آدھے چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر پاسٹا اپنی پلیٹ میں ڈالا تو اس کے ناخنوں پر سرخ پالش لگی دیکھ کر اس کے باپ کا پھر سے پارا چڑھ گیا۔ وہ اپنی بیوی پر چلایا، یہ سب تمہارا قصور ہے کہ ہمارے ایک ہی بیٹے کا دماغ بالکل خراب ہے! وہ خود کو ٹم نہیں ٹینا سمجھتا ہے۔ تم دونوں جہنم میں جاؤ گے اور مجھے بھی لے جاؤ گے!

لیکن اس میں۔ ۔ ۔

ابھی ٹینا کی ماں کے منہ سے اتنی ہی بات نکلی تھی کہ اس کے باپ نے سامان اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور حلق کے بل چلانے لگا کہ نکل جاؤ ٹم، میرے گھر سے نکل جاؤ۔ ٹینا کی ماں رونے لگی۔ میرے بچے نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا ہے۔

باہر شدید سردی ہو رہی تھی۔ ٹینا نے اپنی جیکٹ چڑھائی، اپنا سفری بیگ بستر کے نیچے سے نکالا، اس میں کچھ کپڑے اور جوتے ڈالے، ایک پانی کی بوتل اور وہ ساری گولیاں جو اس کو سائیکاٹرسٹ کئی مہینوں سے دے رہے تھے وہ بھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ اس نے گھر کا دروازہ کھولا تو اوکلاہوما کی ناقابل پیش گوئی یخ بستہ ہوا نے اس کے چہرے پر ایک تھپیڑا سا لگایا۔

٭٭٭

ثمینہ نے پہلے فلڈ ایونیو پر سیدھا ٹرن لیا پھر رابنسن روڈ پر الٹا۔ شام کی روشنی کم ہو رہی تھی اور رات کی سیاہی پھیل رہی تھی۔ پورٹر روڈ کے قریب سے ایک گاڑی کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں تیس میل فی گھنٹہ چلتے ہوئے اس کی نظر روڈ کی دائیں جانب ایک نوجوان پر پڑی۔ اس کی عمر کوئی سترہ سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس کے لمبے بالوں کی لٹ چہرے کے بائیں جانب لٹکی تھی جس کو آنکھوں سے دور رکھنے کے لیے اس نے سر بائیں جانب جھکایا ہوا تھا۔ اس کی نظریں زمین کی طرف تھیں اور وہ ایک پلاسٹک کا گلابی رنگ کا پہیوں کے ساتھ چلنے والا مستطیل شکل کا بیگ سیدھے ہاتھ سے لڑھکاتے ہوا سردی میں ٹھٹھرتا چلا جا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گمبھیر اداسی تھی۔

اس روڈ کے کنارے پر ایک ہوم لیس شیلٹر تھا۔ معلوم نہیں اس بچے کا کیا قصہ ہے؟ اس بات کو سوچ کر ثمینہ کا دل اداسی سے بھر گیا۔ جب ریڈ لائٹ پر گاڑی رکی تو اس نے گلابی سوٹ کیس کے بارے میں سوچا اور مڑ کر پیچھے جانے کا فیصلہ کیا۔ پورٹر سے یو ٹرن لے کر وہ واپس آئی اور اس نوجوان کے پاس گاڑی روکی۔ ہیلو! اس نے دوستانہ انداز سے مسکرا کر اس کو کہا۔ وہ ایک لمحے کو ٹھٹھک گئی اور شرمیلے اور کچھ شک سے بولی، ہائے۔

سردی بہت زیادہ ہے، کیا میں آپ کو کہیں تک رائیڈ دے سکتی ہوں؟ ثمینہ نے پوچھا۔
مجھے بس اس سامنے والے ہوم لیس شیلٹر میں جانا ہے جو زیادہ مشکل نہیں ہے۔ آپ کا شکریہ۔ اس نے کہا۔

ٹھیک ہے، آپ یہ لے لیں! ثمینہ نے ایک چنے چاٹ کا پیکٹ اس کو تھما دیا جو اس نے بغیر مزاحمت کے قبول کر لیا۔

نائس بیگ! ثمینہ نے جاتے ہوئے انگوٹھا اٹھا کر کہا!

ثمینہ یونیورسٹی کے بازو میں ہی اپنے بچوں کے اپارٹمنٹ پہنچی جہاں انہوں نے ساتھ میں کھانا کھایا اور فٹ بال کا سوپر بول دیکھا۔ کینساس سٹی کے چیف جیت گئے تھے۔ اس نے اپنے بچوں کو دیکھا۔ اگر بچے نظروں کے سامنے ہوں اور خوش ہوں تو دنیا میں سب کچھ ٹھیک محسوس ہوتا ہے اس نے سوچا۔

٭٭٭

ٹینا نے اس مختصر الوجود ایسٹ انڈین لیڈی کے جاتے ہی، سڑک کے کنارے بیٹھ کر جلدی جلدی چنا چاٹ کھانی شروع کی۔ اس نے دیکھا کہ چک پیز ہیں اور ان میں ٹماٹر، پیاز اور ہرا دھنیا کچھ مصالحوں کے ساتھ ڈلے ہوئے ہیں۔ وہ جلدی جلدی کھاتی گئی۔ کچھ دیر میں اس کا منہ جلنا شروع ہو گیا تھا اور آنکھوں سے اور بھی پانی بہنے لگا۔ اس نے اپنا بیگ کھول کر پانی کی بوتل نکالی اور اس کو غٹاغٹ پی گئی۔ کپڑوں کے نیچے سے سفید گولیوں کی تھیلی کا کونا جھانک رہا تھا۔ اس نے اس تھیلی کو نکالا، کچھ لمحے کے لیے اسے دیکھا اور اپنی ہتھیلی میں دو تین بار اچھالا۔ وہ گہری سوچ میں تھی لیکن اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک واپس آ چکی تھی۔ اس نے یہ تھیلی سڑک کے کنارے پر موجود گٹر میں پھینک دی اور اپنا گلابی سوٹ کیس اٹھا کر پھر سے چلنا شروع کر دیا۔

(یہ کہانی ہم سب کے مدیران کے ساتھ اردو شارٹ اسٹوری رائٹنگ کورس کے دوران لکھی گئی ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments