قہر میں ڈوبے دیس کے باسی ”زین شاہ“ اور ان کے ساتھیوں کا سفر


ان کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے ہیں، خون بہ رہا ہے، زخموں سے چکنا چور ہیں ان کے قدم، لیکن دیکھو تو پھر بھی ثابت قدم ہیں۔ لہو لہان پیروں سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ عجیب انسان ہیں جنہیں اپنی جسمانی کیفیت اور صحت کے سنگین مسائل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جنہیں اپنے اہلخانہ بیوی بچوں کی ذرا سی فکر نہیں ہے۔

راہ وفا کی طویل مسافت کے ان مسافروں کا جذبہ تو دیکھیے۔ ان کے پاؤں پھٹنا شروع گئے ہیں، کھال نرم و ملائم ہو کر اترنے لگی ہے لیکن پھر بھی فلک شگاف نعروں کی گونج کے ساتھ ان کی رفتار تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ دیکھنے والے پریشان ہیں کہ آخر یہ لوگ کس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، یہ کیسا جنون ہے جو انہیں رکنے نہیں دے رہا،

ارے لوگو! یہ تو سندھ وطن کے سچے عشق کا جام پیے ہوئے مسافر ہیں اور عشق تو ہے ہی ایسی چیز جو دنیا و مافیہا سے بے نیاز بنا دیتا ہے۔ شاید امیر مینائی نے ایسے ہی عاشقوں کے لیے کہا تھا

”عشق میں جان سے گزرتے ہیں گزرنے والے، موت کی راہ نہیں دیکھتے مرنے والے“
”اٹھے اور کوچۂ۔ محبوب میں پہنچے عاشق، یہ مسافر نہیں رستے میں ٹھہرنے والے“

میری مراد سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر سید زین العابدین شاہ اور ان کے ہزاروں رفقاء سفر ہیں جو سندھ وطن کی بحالی کے لیے مسلسل پیدل چل کر نماز عشق ادا رہے ہیں، عاشقوں کا قافلہ ”سندھ مارچ“ سکھر جہان خان لکھی غلام شاہ شکارپور گڑھی یاسین مرزا پور مدیجی نؤں ڈیرو لاڑکانہ میہڑ خیرپور ناتھن شاہ دادو وغیرہ سے گزر کر اب ضلع جامشورو کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ سیلاب زدہ سندھ کی بحالی، وطن کے باسیوں کی خوشحالی کی امید کے ساتھ، اور مہنگائی بھوک بدحالی بے روزگاری کے خاتمے کے سنہری خواب لے کر 15 فروری کو ایس یو پی (سندھ یونائیٹڈ پارٹی) کا قافلہ سکھر سے کراچی کے لیے ”پیدل“ روانہ ہوا۔

پیدل مارچ کا قافلہ یومیہ 25 کلومیٹر کے حساب سے سفر طے کرتا ہوا جا رہا ہے۔ رات 8 بجے قافلہ رک رہا ہے صبح کو 8 بجے پھر سے رخت سفر باندھ کر منزل کی جانب چل رہا ہے۔ مارچ میں خواتین بھی بڑی تعداد میں شریک ہیں۔ چند معذور نوجوان بھی نظر آئے جو وقفے وقفے سے پیدل سفر طے کر رہے ہیں یقیناً یہ عشق کا کارواں ہیں اس میں ہر طبقے کے لوگ شریک ہیں، ما سوائے سندھ دشمن سوچ رکھنے والوں کے۔

”سندھ مارچ“ میں سید زین شاہ کے ساتھ جگدیش آہوجا، روشن برڑو، امیر حسن پنہور، منیر حیدر شاہ، عیدن جاگیرانی، حاتن خان شر، امیر علی تھیبو سمیت ایس یو پی کے دیگر رہنما بھی شامل ہیں۔ تمام اضلاع میں شہر شہر قریہ قریہ بستی بستی ”سندھ مارچ“ کا والہانہ استقبال کیا جا رہا ہے۔ جیے سندھ قومپرست جماعتوں کے کارکنان، جی ڈی اے اور تحریک انصاف سمیت پیپلز پارٹی کی مخالف تمام جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنان پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے قافلے کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔

یہ مارچ حیدرآباد سجاول ٹھٹھہ وغیرہ سے ہوتا ہوا 19 مارچ کو کراچی پہنچ کر ایک بہت بڑے جلسے کے انعقاد کے ساتھ اختتام پذیر ہو گا، ایس یو پی کے صدر سید زین شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ 19 مارچ کو کراچی میں ہونے والا جلسہ تاریخی ہو گا، جلسہ میں لاکھوں افراد شریک ہو کر موجودہ کرپٹ اور بوسیدہ نظام حکمرانی سے بغاوت کا اعلان کریں گے۔

سچی بات ہے کہ سید زین شاہ تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ زین شاہ نے اس عظیم اور تاریخی عمل سے سندھ میں سیاسی جمود کو توڑا ہے۔ حالانکہ شاہ صاحب خود صحت کے حوالے سے فٹ نہیں ہیں، خاص طور پر امریکہ میں روڈ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہونے کے بعد ان کے گردن کی ہڈی میں سخت تکلیف ہے۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ زین شاہ کی عمر اور صحت دونوں اس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ اتنا بڑا سفر کریں اور وہ بھی مکمل طور پر پیدل۔ لیکن زین شاہ کا کہنا ہے کہ قربانی کے بغیر اقوام کی تقدیر نہیں بدلتی۔ لہٰذا سندھ کے عوام کے حقوق کی حاصلات کے لیے قربانی دینا پڑے گی۔

سید زین شاہ قومپرست سیاست کے بانی کردار جی ایم سید صاحب کے پوتے اور سید امداد محمد شاہ کے فرزند ہیں، جی ایم سید کو کون نہیں جانتا؟ آپ ان کے خیالات نظریات اور سیاسی فیصلوں سے اختلاف رکھ سکتے ہیں لیکن ایک بات تو طے ہے کہ جناب جی ایم سید کے بغیر سندھ اور پاکستان کی تاریخ نا مکمل ہے۔ زین شاہ کے والد امداد محمد شاہ نے بھی اپنی زندگی جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد میں گزار دی، ایم آر ڈی تحریک میں کلیدی کردار کیا۔

تاریخ گواہ ہے کہ سن کے سادات نے ہمیشہ سندھ کی خوشحالی کے لیے جدوجہد کی۔ قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا۔ ہتھکڑیوں کو اپنے من پسند شخص کے گلے کے ہار کی طرح محبت کے ساتھ قبول کیا ہے۔ جی ایم سید صاحب سے لے کر امیر حیدر شاہ امداد محمد شاہ جلال محمود شاہ اور سائیں زین شاہ تک سن کے سیدوں کی بہت بڑی تاریخ ہے، اس خاندان نے ہمیشہ سندھ کے روشن مستقبل کے خواب دیکھے ہیں اور اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ہر دور میں عملی میدان میں رہ کر اپنے حصے کا کردار بھی ادا کیا ہے۔

زین شاہ نے اپنے دادا، والد، اور بڑے بھائی کی پرامن سیاسی جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھا ہے۔ 15 فروری کو جب سکھر سے سندھ مارچ کا آغاز ہوا تو رپورٹنگ کے دوران میں نے سید زین شاہ سے استفسار کیا کہ آپ کے اس پیدل مارچ کے مقاصد کیا ہیں۔ سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارا وطن اس وقت تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران کا شکار ہے۔ سندھ کے عوام پہلے ہی بھوک بدحالی اور بے روزگاری سے پریشان حال تھے کہ اوپر سے سیلاب اور بارشوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔

عالمی امداد کی لالچ میں مختلف علاقوں میں کٹ لگا کر سندھ کو ڈبویا گیا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا حکومت نے تمام عالمی امداد ڈکار لی ہے محض بحالی کے اعلانات کے علاوہ عوام کو کچھ بھی نہیں ملا، گھروں کی تعمیر کے لیے تاحال ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا لوگ سڑکوں پر اور کھلے آسمان تلے دربدر و رسوا ہو رہے ہیں۔

زین شاہ نے کہا کہ سندھ کی وحدت پر حملہ کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ مزید صوبے بنانے کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کو فی الفور کالعدم کیا جائے سندھ ہمارا تاریخی وطن ہے اس کی تقسیم کی کوشش ملکی سالمیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے مترادف ہو گا۔ جبکہ یہ مارچ مہنگائی کے خلاف بھی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے مہنگائی کو دنیا کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔ جس کی وجہ سے بے روزگاری اور غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ بدامنی بھی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں خاموش نہیں رہا جاسکتا۔

سید زین شاہ نے اعلان کیا ہے کہ مارچ مکمل ہونے کے بعد گھر نہیں بیٹھیں گے، اس کے بعد جدوجہد کے اگلے مرحلے کا اعلان ہو گا، سندھ کی بحالی کی تحریک تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی۔ جبکہ آئندہ انتخابات میں بھی ایس یو پی نے بھرپور انداز میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments