شمیمہ بیگم کی جہادی شادی


شمیمہ بیگم اپنا مقدمہ ہار گئی ہے۔ وہ برطانیہ نہیں آ سکے گی۔ وہ گزشتہ چار سال سے یہ کیس لڑ رہی تھی۔ اس ملک میں داخلے کا کیس جس کی وہ شہری تھی لیکن جسے اس نے اپنی مرضی سے چھوڑا تھا۔ یہ وہی برطانیہ ہے جہاں وہ پیدا ہوئی۔ جس نے اس کے والدین کو اپنے ملک میں رہنے، کام کرنے اور فیملی بلانے کی سہولت فراہم کی تھی۔ یہ وہی برطانیہ تھا جس نے صحت، تعلیم اور تمام بنیادی انسانی ضروریات اس کے دروازے تک پہنچائی تھیں۔ لیکن شمیمہ کے ذہن میں کسی نے یہ بٹھا دیا تھا کہ یہ کافر ریاست ہے۔ اصلی فلاحی ریاست تو اسلامی ریاست ہوتی ہے۔ اس لئے جب اس نے سنا کہ ”داعش“ کے کچھ ”مجاہدین“ نے شام میں دولت اسلامیہ کی بنیاد رکھنے کا بیڑا اٹھایا ہے تووہ صرف 15 سال کی عمر میں اپنی 2 ہم جماعت طالبات عامرہ عباس اور خدیجہ سلطانہ کے ہمراہ برطانیہ چھوڑ کر شام پہنچ گئی۔

شام پہنچنے کے ٹھیک دس دن بعد اس نے ”یاگو ریدجیک“ کے ساتھ شادی کر لی۔ یہ ایک ڈچ نوجوان تھا۔ جو ہالینڈ سے مسلمان ہو کر داعش کا ”سپاہی“ بنا تھا اور شمیمہ ہی کی طرح اسلامی ریاست بنانے آیا تھا۔ اس جہادی شادی سے شمیمہ 2 بار ماں بنی۔ مگر اس کے دونوں بچے کم عمری میں ہی فوت ہو گئے۔ کیونکہ اس نام نہاد دولت اسلامیہ میں اسلامی ریاست میں صحت کی وہ سہولتیں موجود نہیں تھیں جو کافر معاشرے میں تھیں۔ شمیمہ نے اس ریاست کی بنیاد میں اہم کردار ادا کیا۔

اس نے کلاشنکوف چلانا سیکھی اور داعش کی اخلاقی اقدار لاگو کروانے والی فورس کا حصہ بنی، عورتوں کو پردہ کروانا، مجاہدوں کے لئے خود کش جیکٹیں تیار کرنا اور اپنی ہم عمر نوجوان لڑکیوں کو جہاد کے مشن کے لئے تیار کرنا اس کی ذمہ داری تھی۔ لیکن پھر سال 2019 ءمیں جب وہ تیسرے بچے کو جنم دینے والی تھی تو اسے خیال آیا کہ برطانیہ ہی بہتر ہے کیونکہ برطانیہ میں اس کا بچہ شاید بچ جائے۔ لیکن برطانیہ کے ہوم سیکرٹری ساجد جاوید نے اس کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی اور اسے برطانیہ واپس آنے کی اجازت نہیں دی۔

یوں تو بین الاقوامی قانون یہ کہتا ہے کہ کسی ایسے شہری کی شہریت نہیں چھینی جا سکتی جو بعد میں ”اسٹیٹ لیس“ ہو جائے۔ لیکن برطانوی ہوم سیکرٹری کا کہنا تھا کہ شمیمہ کے والدین چونکہ بنگالی ہیں اس لئے وہ بنگلہ دیش جا سکتی ہے۔ اسلامی ملک بنگلہ دیش کا کہنا تھا کہ اول تو وہ اسے بنگالی شہری تسلیم نہیں کرتے کہ وہ برطانیہ میں پیدا ہوئی ہے دوم اگر وہ بنگلہ دیش آتی ہے تو ان کے قانون کے مطابق تووہ ایک دہشت گرد ہے اور اسے سزائے موت دی جائے گی۔ اس دوران شمیمہ نے شام کے ریفیوجی کیمپ میں اپنے تیسرے بچے کو جنم دیا جو چند دنوں بعد ہی نمونیہ کی وجہ سے انتقال کر گیا۔

شمیمہ کی اپیل پر برطانیہ میں ایک بحث چھڑ گئی کہ اگر وہ گوری ہوتی تو اسے یا اس کے بچے کو اس طرح مرنے کے لئے نہیں چھوڑا جاتا۔ شمیمہ کی درخواست پر برطانوی کورٹ آف اپیل نے اسے برطانیہ آنے کی اجازت دی ہی تھی کہ وزرات داخلہ اس کیس کو سپریم کورٹ لے گئی اور یہ موقف اپنا یا کہ وہ برطانیہ کی سیکورٹی کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ برطانوی سپریم کورٹ نے اس سال 22 فروری 2023 ءکے اپنے فیصلے میں برطانوی ہوم آفس کے موقف کو تسلیم کر لیا ہے اور شمیمہ بیگم کے لئے برطانیہ آمد کا دروازہ بند کر دیا ہے۔ دوسری جانب وہ اپنے شوہر کے ملک ہالینڈ بھی نہیں جا سکتی کیونکہ ہالینڈ ایسی کسی شادی کو قانونی طور پر مانتا ہی نہیں جو اٹھارہ سال سے کم عمر بچی کی ہو۔

شمیمہ بیگم کی کہانی مغربی ممالک میں پروان چڑھنے والے نوجوان نسل میں سے صرف ایک لڑکی کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ ایسے سینکڑوں نوجوانوں کی کہانی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی ممالک کافر معاشرے ہیں اور یہ سب مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ یہ نوجوان اس رومانس میں مبتلا ہیں کہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں لائیں۔ انٹرنیٹ پر کچھ ویب سائٹس ہیں جو ایسی نوجوانوں کو گھیرتے ہیں۔ اسی طرح معاشرے میں پھیلے کچھ مسلمان ”مصلح“ ان نوجوانوں کی ذہن سازی میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور انہیں ایک یوٹوپیائی ریاست کا خواب دکھاتے رہتے ہیں جہاں تمام اسلامی اصولوں اور اقدار کی پابندی ممکن ہوگی۔

برطانیہ پچھلی ایک دہائی سے ہر سال تقریباً 19 ایسے بچوں کی شہریت منسوخ کرتا آ رہا ہے جنہیں وہ اپنی سیکورٹی کے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ یورپی ممالک آئے روز ایسے نوجوانوں کو ڈی پورٹ کرتا رہتا ہے جو ایسے نظریات رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود برطانیہ، جرمنی، فرانس، ناروے، آئرلینڈ، ناروے، اور دیگر یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا سے بھی ایسی کئی بچیاں شام جا کر داعش کے سپاہیوں کی بیویاں بنی ہیں اور ایسے سینکڑوں نوجوان مغربی ممالک سے شام پہنچ کر دہشتگرد بنے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اتنی زیادہ تعداد میں مسلمان بچے ایسے پراپیگنڈہ کا شکار کیسے ہو جاتے ہیں؟ جواب بہت سادہ سا ہے ہمارے بہت سے مبلغ ایک غیر محسوس طریقے سے نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنے میزبان ممالک کے خلاف نفرت بھر دیتے ہیں۔ مثلاً آپ نماز پڑھنے جائیں تو مولانا صاحب رو رو کر دعا کر رہے ہوتے ہیں یا اللہ ان کافروں کو نیست و نابود کر دے۔ وہ اسی ملک میں بیٹھ کر اسی ملک کے لئے بددعا کر رہے ہوتے ہیں جس ملک سے تنخواہ لیتے ہیں۔

شمیمہ کا کیس جن دنوں عدالت میں تھا مجھے ایک پروگرام میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے پاکستان سے ایک بہت بڑے اینکر، کالم نگار، صحافی اور نامور دانشور آئے ہوئے تھے۔ ان کی ساری تقریر کا لب لباب یہی تھا کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ہنستے ہوئے کہا کہ میں برطانیہ آیا ہوں تو ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ حکومت کچھ نوجوانوں کو شام جانے سے روک رہی ہے۔ کوئی جائے اور اس حکومت کو بتائے کہ مشہور انقلابی نوجوان چے گویرا جو تھا وہ ارجنٹائن میں پیدا ہوا لیکن وہ انقلاب کے لئے کیوبا، کانگو اور بولیویا تک جا پہنچا تھا۔

انقلابی تو بھئی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے سوچا اس دانشور سے ضرور پوچھوں گا کہ آپ کا بیٹا یا بیٹی کب جا رہے ہیں شام میں انقلاب بپا کرنے کے لئے؟ لیکن میں نے ان سے سوال نہیں کیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ ان کی اپنی بچیاں امریکہ اور برطانیہ میں اعلی ٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ کاش ان مبلغوں کی یہ منافقت یورپ میں موجود تمام والدین کو سمجھ آ جائے تو بہت سی شمیمہ بیگم اور اس جیسے نوجوانوں کی زندگی برباد ہونے سے بچائی جا سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments