عمر بھر لمبی جدائی


پہلا حصہ: بہن پاکستان میں، بھائی انڈیا میں

عمر دراز نے بتایا کہ وہ صورت گڑھ میں نائی کی دکان پر بال کٹوا رہا تھا کہ ساتھ کپڑے کی دکان چلانے والے سردار جی نے پوچھا کہاں سے آئے ہو۔ میں نے کہا ’پاک پتن، پاکستان سے۔ چک 26 ایس پی ہے‘ ۔ گاؤں کا نام سنتے ہی وہ مجھ سے لپٹ گیا۔ میں ہکا بکا تھا کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ عجب اتفاق دیکھئیے کہ تقسیم سے قبل اس کا خاندان 36 ایس پی میں آباد تھا۔ اس نے اپنے گاؤں کی ایک ایک گلی، ہر ایک نکڑ، ہر ایک گھر، سب کھیت اور پیڑوں کے بارے پوچھا، بات کی۔

سیدی مینی، شیرو دین دار اور مہر دین کا پوچھا۔ پنڈ کے تمام کھوہوں (کنووں ) کے بارے پوچھا۔ پوچھا کہ ان کے گھروں میں اب کون رہتا ہے۔ ان کی زمینوں میں کون کھیتی کرتا ہے۔ پاکپتن بابا فرید درگاہ پر اب بھی میلا لگتا ہے؟ کیا اب بھی وہاں کشتی کبڈی کے مقابلے ہوتے ہیں؟ کیا اب بھی چھوٹے بچے اپنے باپ کے کندھے بیٹھ کر میلے دیکھتے ہیں؟

اس کے سوال تھم نہیں رہے تھے۔ وہ اپنے گاؤں کی مٹی کے ہر ذرے، درختوں کے ایک ایک پتے اور کھیت میں اگی ہر کونپل کی بات کرنا چاہتا تھا۔

کپڑے کے بیوپاری اس سکھ دکان دار نے ایک اور سکھ دوست کو بلا لیا۔ وہ دوست سنتالیس سے پہلے پاک پتن کے قریبی گاؤں ٹبہ نانک سر کا رہائشی تھا۔ ٹبہ نانک سر کے سردار جی نے آتے ہی جپھی ڈالی۔ کتنے چاؤ سے، حسرت بھری آنکھوں سے، بے بسی بھرے لہجے میں وہ نانک کے ٹبے بارے باتیں کرتا رہا تھا۔ وہاں لگنے والے میلے کو یاد کرتا رہا۔ گاؤں کے مسلمان، ہندو اور سکھوں کے بھائی چارے کو بیان کرتا رہا۔ کتنی محبت، کتنی چاہت اور کتنی بے بسی تھی اس کی باتوں میں۔ آسمان کی طرف دیکھ کر کہتا تھا رب ایک بار دکھا دے اپنا پنڈ۔ بس۔ پھر زندگی کے دن جو باقی رہ گئے ہیں چین سے گزر جائیں گے۔

وہ دونوں سکھ دوست عمر دراز سے کہتے کہ ہم سب ایک ہی گاؤں اور علاقے کے باسی ہیں۔ ہماری جڑیں ایک ہی دھرتی میں پیوست ہیں۔

دکان سے اٹھتے ہوئے انہوں نے مجھے دو لوئیاں تحفے میں دیں۔ مجھے گلے لگا کر روتے رہے۔ سکھ دکاندار نے ماموں عمر دین سے التجا کی کہ جتنے دن میرے پاکستان والے گاؤں سے آئے مہمان یہاں ہیں، روزانہ تھوڑی دیر کے لیے عمر دراز کو دکان پر بھیج دیا کریں۔ اپنے دیس کی باتیں کر کے من کو سکون ملتا ہے۔

پھر اس نے کھاتے والی کاپی پہ پتا لکھوایا۔ ’چک نمبر 36 ایس پی، ڈاک خانہ 37 ایس پی، پاک پتن‘ ۔ آہ بھری اور مسکرا کر کہا ’ارے وہی پرانا پتا ہے ابھی ہمارے گاؤں کا۔

گاؤں کا پتا تو وہی پرانا تھا، گاؤں والوں کے پتے سنتالیس میں کافی بدل گئے تھے۔
ان کے والد چک 36 ایس پی کے نمبر دار اور زمین دار تھے۔

عمر دراز نے بتایا کہ بعد میں وہی سکھ دکان دار، ٹبہ نانک سر کا سردار اور ان کا بیٹا پاکستان آئے تو اپنے گاؤں دیکھنے 36 ایس پی میں بھی آئے۔ چک 35 میں اپنے دوست سید علی آرائیں سے ملے۔ شوکی خان کا گھر ان کا گھر ہوا کرتا تھا کبھی۔ یارو کے گھر بھی گئے۔ یہ بھی ان کا پرانا گھر تھا۔ در و دیوار سے لپٹ کر روئے۔ ہاتھوں پہ مٹی مل کر منہ پہ ملتے رہے۔ جس صحن میں کبھی وہ کھیلا کرتے تھے، ہنسا کرتے تھے اسی میں بیٹھ کر دھاڑیں مار کر آنسو بہاتے رہے۔ کہتے کہ چارپائیاں بچھا دیں کچھ پل یہاں لیٹنا چاہتے ہیں۔ تکیے لگا کر کچھ دیر لیٹے رہے۔ اپنے گھر میں پل دو پل ایک بار پھر سے سونا چاہتے تھے۔ بیتی زندگی پھر سے جینا چاہتے تھے۔

اپنے گھر کے صحن سے مٹھی بھر مٹی اٹھا کر ساتھ لے گئے۔

ساتھ والے گاؤں چک نمبر 35 ایس پی بھی گئے اور ٹاہلی والا کھوہ اور نمبو والا کھوہ کی زمین دیکھی جہاں کبھی وہ کھیتی کرتے تھے۔ اپنے لنگوٹیے یار کالو آرائیں سے ملے۔ ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے رہے۔ سکھ سردار نے کہا ’کالے یار یاد ہے وہ دن جب 35 اور 36 چک کی لڑائی ہوئی تھی۔‘ ہاں ہاں یاد ہے ہم نے ہی آپ لوگوں کو روکا تھا ’کالے نے فخر سے کہا۔ سردار بولا‘ تمہارا سر کھول کے بھیجا تھا تمہیں واپس ’۔ دونوں ہنستے ہنستے لپٹ گئے اور قہقہے کب سسکیوں میں بدل گئے یہ انہیں بھی معلوم نا پڑا۔

گاؤں سے نکلتے ہوئے پہاڑی کیکر کے پاس رکے، پلٹ کر آخری بار اپنے گاؤں کو دیکھا۔ رو رو کر کہنے لگے کہ اب دوبارہ کون سا مڑ کر آنا ہے کبھی۔ سنتالیس میں ہم سے یہ گاؤں چھوٹا تھا اب دوبارہ ہم چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اب کی بار تو شاید ہم کبھی لوٹ کر نا آ سکیں۔ اب کی بار تو آخری بار ہے۔

پھر قریبی گاؤں ٹبہ نانک سر گئے۔ یہ ان کے ساتھ دوسرے سکھ سردار کا گاؤں تھا۔ وہاں وہ اپنے گھر گئے، وہاں بیٹھے، بیتے دنوں کو یاد کیا، آنسو بہاتے رہے، گاؤں کی گلیوں میں گھومے پھرے، گردوارے میں ماتھا ٹیکا، درگاہ پہ سلام کیا، گاؤں کی مٹی ایک پوٹلی میں باندھ کر ساتھ لیے گاؤں سے نکل آئے۔

گاؤں سے نکل کر انہیں پاک پتن شہر میں درگاہ بابا فرید پہ جانا تھا۔ عمر دراز کہتا ہے کہ میں نے راستہ بتایا تو وہ ہنس کر بولے کہ بھائی ہم ساری دنیا کو بھول سکتے ہیں، اپنے گاؤں، ان گلیوں، پگڈنڈیوں اور راستوں کو نہیں بھول سکتے۔ یہ ہمارا علاقہ ہے۔ ہمیں گاؤں سے پاکپتن جاتے راستے کا ہر موڑ، ہر کھڈا اور ہر خم یاد ہے۔ اپنی جنم بھومی کا ہر گھر، ہر کھیت، ہر پیڑ، ہر کھوہ ہمیں یاد ہے۔ یہ سب ہمارے من میں آباد ہے اب۔ آنکھیں موند کر بھی ہم ان راستوں پر چل سکتے ہیں۔

عمر دراز نے اپنی ماں کی کہانی میں سکھ سرداروں کی کہانیاں بھی شامل کر لیں تھیں۔ بٹوارے کی کہانیاں سرحد کے دونوں پار جا بجا بکھری پڑی ہیں۔ کتنے ہی لوگ زخمائے ہوئے ہیں جو ترستی نگاہوں سے اپنی دھرتی کو دیکھنے کے لیے ترس رہے ہیں۔

عمر دراز نے کہانی سمیٹنا چاہی۔ بتایا کہ انڈیا میں ان کا قیام ایک ماہ کا تھا۔ خوب دن گزرے۔ بچھڑے ملے، پچاس برس کے دکھ سکھ سانجھے کیے۔ اسی دوران اپنے آبائی گاؤں ’تلواڑہ‘ بھی گئے۔ باپ دادا جن گلیوں میں چلتے تھے انہی گلیوں میں پھرے۔ تلواڑہ میں اب بھی مسلمان، ہندو اور سکھ مل کر رہتے ہیں۔

تیس دن کا ویزہ ختم ہو گیا۔ ہاجرہ حیران تھی کہ یہاں تو وقت کو پر لگ گئے تھے۔ جب انڈیا آنے کا ویزہ لگا تھا اور روانگی کے دن کے انتظار میں وقت کم بخت ٹھہر ہی گیا تھا۔ ایک ایک پل پورے سال بھر کا ہو گیا تھا۔ اور اب دیکھو تیس دن کا وقت ایک ہی پل میں ہوا ہو گیا تھا۔

واپسی پہ ہاجرہ اپنے بھائیوں، بہنوں اور ان کے بچوں سے لپٹ لپٹ کر روئی۔ کیسی دبدھا کا سامنا تھا کہ جانے کو من نہیں کرتا تھا اور رک بھی نہیں سکتی تھی۔

ہاجرہ نا چاہتے ہوئے بھی بوجھل قدموں سے گھر سے نکلنے لگی تھی۔ جیسے پرانے کپڑے کو کیکر کی کانٹوں بھری ٹہنیوں سے کوئی زور سے کھینچ لے اور وہ تار تار ہو جائے۔ ہاجرہ نے بھائیوں کے ترلے کیے کہ پاکستان ضرور آنا۔ ’جیسے ماں کو یقین تھا کہ اب کی بار ہم بچھڑے تو پھر شاید کبھی دوبارہ نا مل سکیں گے‘ عمر دراز کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔

بس اب کی بار ہاتھ چھوٹا تو پھر لمبی جدائی ہو گی۔ تبھی تو ہاجرہ کے قدم اٹھ نہیں رہے تھے۔

عمر دراز اور ہاجرہ بی بی پاکستان لوٹ آئے تھے۔ بہن بھائیوں کے اس ملاپ کے بعد ہاجرہ بس سال دو سال زندہ رہیں۔ پھر یہ دنیا ہی چھوڑ دی۔ بھائیوں تک بہن کی موت کی خبر بھی جانے پہنچی یا نا پہنچی۔

کیسے پڑوسی ملک ہیں یہ جہاں لوگ ایک دوسرے سے جڑوں کی طرح جڑے ہوئے ہیں اور پھر بھی بہن کی موت کی خبر بھی بھائی تک نا پہنچ سکے۔

ساون کی گھٹا برس پڑی تھی۔ نیم کی شاخوں سے چھن کر بارش کی بوندیں ہم کو بھگو رہی تھیں۔ عمر دراز کی کہانی تو ختم ہو گئی تھی لیکن اس کی آنکھیں بھی اب ساون کی بدلی کی طرح بوندیں ٹپکا رہی تھیں۔ چھم چھم چھم۔

(مضمون کا پہلا حصہ ’بہن پاکستان میں، بھائی انڈیا میں‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے )

 

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments