سعادت حسن منٹو کی کتاب دھواں


سعادت حسن منٹو کا شمار ہیجان خیز اردو ادب کے سرخیلوں میں ہوتا ہے۔ جس نے عورت، معاشرے اور جنس پر کام کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب عصمت چغتائی بھی اس میدان میں اپنا قدم جما رہی تھے۔ دونوں کی تحریریں پڑھ کر یہ حقیقت آشکار ہو جاتی ہے کہ دونوں مصنف سگمنڈ فرائیڈ سے متاثر نظر آتے ہیں۔

سعادت حسن منٹو ایک حقیقت پسند ادیب تھا جس کو معاشرتی تنزلی کا گہرا علم تھا اور اس سماجی تنزل پر طنزیہ انداز میں تنقید کی تھی۔ انہوں نے تقسیم ہندوستان سے پہلے کالی شلوار، بو، اور دھواں جیسی مختصر کہانیاں لکھ کر مقدمات کا سامنا کیا۔ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد انہوں نے ٹھنڈا گوشت لکھ کر پاکستان میں بھی عریانیت کے مقدمے کا سامنا کیا جس میں انہیں 300 روپے جرمانے کے ساتھ 3 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

دھواں ان کی 137 صفحات پر مشتمل 13 مختصر کہانیوں کی کتاب ہے جو 1941 میں شائع ہوئی تھی۔

مذکورہ کتاب میں دھواں کے نام کی پہلی کہانی جوانی کے جنسی احساسات اور خواہشات کے بارے میں بات کرتی ہے۔ اس کہانی میں مسعود کی ایک بہن کلثوم ہے جو مسعود سے اس کی کمر میں درد کا بہانہ کر کے دبانے کو کہتی ہے۔ مساج کے دوران مسعود کو اپنی جسم میں تھرتھرا ہٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس دوران مسعود کی والدہ بھی اپنے والد کے سر کی مالش کر رہی ہوتی ہے۔ یہ مختصر کہانی لیزبیئن سیکس یعنی دو لڑکیوں کے باہمی ہم جنسیت پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ نمبلہ جو کلثوم کی دوست تھی کلثوم کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ ایک دن جب مسعود نے اچانک دروازہ کھولا تو دیکھا کہ نمبلہ اور کلثوم دونوں ایک دوسرے کو چھو رہی ہیں اور مسعود کو دیکھتے ہی دونوں نے اپنے اپ کو لحاف میں چھپا لیا۔

دوسری مختصر کہانی کا نام ترقی پسند ہے جس میں طنزیہ و مزاح سے معاشرتی مسائل پر بات کی گئی ہے۔ جوگندر سنگھ ایک کلرک اور افسانے لکھتے تھے جن کو اپنی تعریف سننے کا شوق تھا وہ اور ان کی اہلیہ امرت کور اپنی غربت کے باوجود بہت مہمان نواز تھے اور ادبی شخصیات کو مدعو کیا کرتے تھے۔ ہریندر ناتھ ترپاتی جو مختصر کہانی نویس تھے نے جوگندر سنگ کے کہانیوں کی تعریف کی تھی۔ جب جوگندر سنگھ کو اس بابت معلوم ہوا تو جوگندر سنگھ نے اسے اپنے گھر مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ دنوں کے بعد ہریندر ناتھ ترپاتی اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ ان کی دعوت پر جوگندر کے گھر آئے اور ایک مہینہ گزارا۔ جوگندر ناتھ اور ان کی اہلیہ جو غریب تھے اب مہمانوں سے تنگ آچکے تھے اور چاہتے تھے کہ ہریندر کی فیملی اب چلی جائیں۔ انہوں نے محسوس کیا کہ ہریندر کو دوسروں کے جذبات اور غربت کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور یہ کہ مہمان نوازی اتنی طویل نہیں ہونی چاہیے۔ اسی دوران جوگندر سنگھ کو اپنی بیوی کے ساتھ ہمبستری کی خواہش محسوس ہوتی ہے جو اس نے ہریندر ناتھ کے تقریباً 21 دنوں کے قیام کے دوران نہیں کی تھی۔ ایک رات وہ اپنی بیوی سے باتھ روم میں ملتا ہے اور اسے 12 بجے اسی باتھ روم میں تیار رہنے کو کہتا ہے۔ جب جوگندر سنگھ عین وقت پر پہنچتا ہے اور دروازہ کھٹکھٹاتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ ہریندر ناتھ ترپاتی باہر آ کر دروازہ کھولتا ہے۔ اور اسے کہتا ہے کہ آپ بڑی جلدی آئے میں نے ابھی ابھی نئی کہانی لکھ کر ختم کر چکا ہوں۔

اس کہانی میں دو ادیبوں کے ایک ساتھ بیٹھنے پر گفتگو بھی کی گئی ہے۔ کہ جب وہ اکٹھے محفل سجاتے ہیں تو ہمیشہ اپنے ادبی پاروں کی بات کرتے ہیں اور دوسروں کے کاموں پر تنقید کرتے ہیں۔

نیا سال ایک اور مختصر کہانی ہے جس میں منٹو نے ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کی ہے جو چار سال سے شدید بحرانوں کی زد میں ہے جس کی وجہ سے وہ مصائب کا سامنا کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں اس نے انتھک جدوجہد بھی کی۔ یہ شخص ایک ایسے اخبار کا ایڈیٹر ہے جس کی سرکولیشن صرف 200 ہے۔ کہانی میں منٹو نے اس کی مایوسی کی تصویر کشی کی ہے اور جب نیا سال قریب آتا ہے تو وہ نئے سال کا استقبال بھی پچھلے سالوں کی طرح کرتا ہے جس میں انہوں نے بے پناہ مسائل کا سامنا کیا ہوا ہوتا ہے۔ دوسری طرف منٹو ایس پر پر تنقید کرتا ہے کہ ایڈیٹر مختلف مسائل کی وجوہات کو سمجھنے اور غور کرنے سے گریزاں تھا اور ان مسائل کی وجوہات اور اس کے حل پر۔ سوچنے کو بے فائدہ سمجھتا ہے۔

چوتھی کہانی کامیڈی ہے۔ اس کہانی میں ایک کردار کا نام شوکت ہے جو چوہے پکڑنے میں ماہر تھا۔ ایک دن ارشد (ارشد شوکت کا پڑوسی تھا) کے گھر اس کی پڑوسی سلمیٰ تھا ارشد کے گھر آتی ہے۔ سلمی ایک خوبصورت، دلکش، اور پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ جب وہ بیٹھتی ہے تو اسے ارشد کے گھر چوہا نظر آتا ہے۔ اسی دوران ارشد نے سلمیٰ سے شرط لگائی کہ وہ 15 سے 20 منٹ میں چوہے کو پکڑ لے گا اور اگر وہ شرط جیت گیا تو وہ سلمیٰ سے جو چاہے گا تو وہ انکار نہیں کرے گی۔ سلمیٰ شرط لگانے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ ارشد چوہے کو چوہے دان کی مدد سے پکڑتا ہے جو اسے شوکت نے دیا تھا۔ اور شرط جیت کر سلمیٰ سے بوسہ لیتا ہے۔ وہ دل ہی دل میں شوکت کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اگر شوکت نے چوہے دان نہ دیا ہوتا تو چوہے کو پکڑنا ناممکن تھا۔ ادھر شوکت خود سلمیٰ کے عشق میں گرفتار تھا۔

پانچویں کہانی چوری میں ایک بوڑھا آدمی کچھ لڑکوں کو بچپن میں اپنی کی ہوئی چوری کے بارے میں کہانی سناتا ہے اور کہتا ہے کہ پہلی چوری کے بعد بھی وہ چوریاں کرتا رہا۔ اس کہانی کے آخر میں ابہام ہے جب بوڑھا آدمی چوری کا جواز پیش کرتا ہے اور اس پر فخر بھی کرتا ہے۔

کہانی نمبر چھ کا عنوان قاسم ہے اس میں ایک نوکر اور اس کے مالک کے رشتے کی بات ہوتی ہے۔ قاسم جو کہ۔ نوکر ہے اس پر گھر کے کام کا بوجھ تھا۔ جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو چاقو سے دو بار اور پھر تین بار بلیڈ سے کاٹ لیتا ہے تاکہ اسے کام سے کچھ آرام کا موقع مل سکے۔ ایک دن اس نے بلیڈ سے اپنی انگلی بری طرح کاٹ لی جس کی وجہ سے اس کے ہاتھ میں جراثیم پھیل جاتی ہے وہ گھر جہاں وہ مزدوری کرتا ہے وہ اسے نکال لیتے ہیں دوسری طرف غربت کی وجہ مناسب علاج نہ ہونے سے قاسم کا ہاتھ کٹ جاتا ہے۔ وہ گداگر بن جاتا ہے لیکن وہ گداگری کو دوسروں کی نوکری سے بہتر گردانتے ہے وہ خوش ہے اور سوچتا ہے کہ اس پر اب ان کے پرانے مالکوں کے کاموں کا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ اس پر اب غصہ کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ اب تھکا ہوا نہیں ہے اور اس کے پاس سونے اور آرام کرنے کے لیے کافی وقت ہے۔

کہانی نمبر سات میں ایک شاعر، اس کی انقلابی سوچ اور معاشرتی اور سیاسی بربریت اور وحشت کی بات ہوتی ہے۔ کہانی میں منٹو ایک باغ میں ایک شاعر سے ملتا ہے جو اداسی گانے گاتا ہے اور منٹو سے کہتا ہے کہ وہ ایک انقلابی شاعر ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کہ بے گناہوں کو مارنے والے انگریزوں کا ظلم ختم ہو جائے گا۔ وہ جلیانوالہ باغ کے واقعے کا خاکہ پیش کرتا ہے جس میں وہ دعویٰ کرتا ہے کہ 2 ہزار لوگ مارے گئے تھے۔ وہ بربریت کو لعنت کہتا ہے۔

کہانی نمبر آٹھ کا نام لالٹین ہے جس میں وہ گزرے ہوئے یادوں کی بات کرتا ہے، گاؤں کی زندگی کا شہر کی زندگی سے موازنہ کرتا ہے جہاں گاؤں کی زندگی میں سکون ہونے کا ذکر ہوتا ہے۔ کہانی میں وزیر ایک عورت تھی جس کے پاس لالٹین تھی اور وہ شبیر (مصنف کا دوست) سے پیار کرتی تھی۔ شبیر رات کو گانا گاتا تھا۔ وزیر جب بھی اس کی آواز سنتی تو وہ لالٹین جلاتی تھی۔ اور جھاڑیوں کے پیچھے چھپ جاتی یا اخروٹ کے درخت کے نیچے انتظار کرتی رہتی۔ لیکن شبیر کو وزیر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

کہانی نمبر دس ان پھولوں کے بارے میں ہے جو منٹو کے مطابق ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ جب پھول ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں تو باغبان آتا ہے اور انہیں توڑ لیتا ہے۔

کہانی نمبر 11 جس کا نام گرم سوٹ ہے ایک کامیڈی ہے اور اس میں ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کی گئی ہے جو بیکار اور بے وقوف ہے جو دوسروں کے بل پر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ کہانی میں گنڈا سنگھ گرمیوں میں بھی گرم سوٹ پہنتا تھا کیونکہ وہ غریب تھا اور اس کے پاس مزید سوٹ نہیں ہوتے۔ وہ صفائی کا پابند نہیں تھا، منہ اور ہاتھ دھوئے بغیر ناشتہ کرتا تھا اور 6 ماہ تک نہیں نہاتا تھا اور کھانے کے بعد پردے سے ہاتھ پونچھتا کرتا تھا۔ گرمیوں میں اس نے کئی دن عبدالحمید کے گھر میں گزارے جس کی وجہ سے حمید اور اس کی بیوی تنگ آچکے تھے۔ ایک دن حمید نے گنڈا سنگھ کو بتایا کہ ان کا گھر چھوٹا ہے اور گرمیوں میں ان کے خاندان کے لیے دوسرے شخص کو برداشت کرنا مشکل ہے۔ گنڈا سنگھ اس سے کہتا ہے کہ وہ اسے ایک ایسا مشورہ دے کہ ایک طرف اسے گرمیوں گزارنے کے لیے ٹھنڈی جگہ پر رہنا چاہیے اور دوسری طرف اسے اپنا گرم سوٹ بھی پہننا چاہیے کیونکہ 3 ماہ بعد پھر سردیاں آ رہی ہیں۔ اور اسے اس گرم سوٹ کی پھر ضرورت پڑے گی۔ حمید اور اس کی بیوی نے اسے شملہ بھیجنے کا فیصلہ کیا جو ایک ٹھنڈی جگہ تھی۔ گنڈا سنگھ وہاں جا کر خوش تھا۔ کہ اب اسے اپنا گرم سوٹ نہیں اتارنا پڑے گا۔

کہانی نمبر 12 کا موضوع ایک افسردہ شخص ہے جو اپنے والد جو کہ پیسوں کی ہوس کا شکار تھا۔ کا نشانہ بنتا ہے جس سے اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے موہن جو ٹرین میں سفر کر رہا تھا ایک طالب علم سے جو اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہتا ہے کہ اس کے والد نے اسے کہا کہ تم پاگل ہو۔ اس کے بعد اس کی بیوی نے اسے 10 یا 15 دن کی شادی کے بعد چھوڑ دیا۔ طالب علم موہن سے پوچھتا ہے کہ تمہارے والد نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اس کا باپ لالچی ہے۔ موہن اپنی بیوی کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ پاگل نہیں ہے، واپس لانے کے لیے اپنے سسر کے گھر دہلی جا رہا تھا۔ اور وہ اپنی بیوی شوسیلا کو یہ باور کرائے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتا ہے۔

پریشانی کا سبب اس کتاب کی آخری مختصر کہانی ہے۔ نعیم ایک کہانی نویس ہیں جو فلموں کے لیے لکھتے ہیں۔ عاشق حسین ایک رقاص ہے عاشق حسین زہرہ جو کہ ایک طوائف تھی کے گھر جاتا ہے۔ ایک دن عاشق حسین اپنے 2 دوستوں کے ساتھ زہرہ کے گھر گیا اور نعیم کو گاڑی میں بٹھا کر چھوڑ دیا۔ اس کے دو دوستوں نے زہرہ کے گھر سے پنکھا چرا لیا۔ زہرہ نے پولیس میں شکایت کی اور پولیس نے ان سے پنکھے برآمد کر لیے۔ پولیس نے ان دونوں سے تفتیش کی کہ ان کے ساتھ اور کون تھا انہوں نے نعیم کا بھی بتایا جو کہ گاڑی میں بیٹھا تھا حالانکہ نعیم کو نہ چوری کا پتہ ہوتا ہے نہ زہرہ کے طوائف ہونے کا اور نہ ہی ان کو یہ پتا تھا کہ عاشق حسین زہرہ کے گھر جا رہا ہے وہ اور عاشق حسین باہر گھومنے کے غرض سے نکلے تھے کہ عاشق حسین نے راستے میں اپنے دو دوستوں کو ساتھ لیا۔ اور زہرہ کے گھر گئے۔ اس طرح عاشق حسین کے دوستوں کی ایما پر نعیم کو بھی گرفتار کیا گیا جو کہ اس معاملے میں بے گناہ تھا۔ دوسری طرف عدالت میں زہرہ نے بھی جھوٹ بولا اور نعیم پر ڈکیتی کا الزام بھی لگایا۔ کہ وہ بھی باقی چوروں کے ساتھ شامل تھا۔ ان الزامات کی وجہ سے نعیم پریشان ہو جاتا ہے۔ اس مختصر کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ ایک بے گناہ اور معصوم انسان اپنے غیرت کے بارے میں کتنا حساس ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مختصر کہانی اس وقت کے عدالتی اور انتظامی نظام پر بھی تنقید کرتی ہے کہ ایک بے گناہ کو کیسے پھنسایا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments