حدیقہ کیانی اور ملاں صاحب کی دعا


ہم اپنی تخلیق پر غور کریں تو خدا نے تخلیق انسانی کی بنیاد محبت کو بنایا ہے۔ انسان فطرت سلیم پر پیدا ہوا۔ آپ کبھی غور فرمائیے فطرت میں پائے جانے والے حسن و جمال پر لمحہ بھر غور و فکر آپ کو فوراً کہیں پہنچا دیتا ہے کسی ہاٹ لائن سے ملا دیتا اشرف المخلوقات کا خلق پر تدبر کر کے خالق تلک پہنچنا جمالیات کے ذوق کے بغیر ممکن نہیں۔ طالب علم کی نگاہ میں حسین عورت کا خوش گلو ہونا کائنات کا سب سے بڑا جمال ہے۔

غامدی صاحب نے تو کمال ہی کر دیا یہ کہہ کر کہ یہ انسانی جمالیات کے لیے زینت کی جن چیزوں کو مسلمانوں پر حرام قرار دیا جاتا ہے یہ خدا نے درحقیقت پیدا ہی مسلمانوں کے لیے کی ہیں۔

1998 میں ایک لڑکی پاکستانی موسیقی کے میدان میں واقعی ”بوہے باریاں تے کندھاں ٹپ کے“ ہوا کا ایسا سریلا جھونکا بن کر آئی کہ واقعی اس نے بازی جیت کر اپنے نام کر لی۔ یہ محترمہ حدیقہ کیانی تھیں۔ کوئی ایسا چوک چوراہا نہیں تھا، کوئی ایسا چوہارہ نہیں تھا، کوئی ایسا جشن و خوشی کا سماں نہیں تھا جہاں اس گانے کی بازگشت نہیں سنی تھی۔

پاکستان کے ساتھ چند چیزیں جڑی ہوئی ہیں۔ اور وہ چیزیں آپس میں بھی جڑی ہوئی ہیں۔ پاکستان میں شدید گرمی میں ایک مہینہ بارش نہ ہو تو مخلوق خدا خشک سالی اور قحط سے مرتی ہے اسی ایک مہینے میں بارش ہو جائے تو سیلاب سے۔ سیلاب کے ساتھ چند خبریں ضرور نتھی ہوتی ہیں۔ فلاں کی زمین بچانے کے لیے اتنے گاؤں زیر آب آ گئے۔ بند میں پہلے سے شفاف تھے۔ پچھلے سیلاب کے بعد بند ابھی تک پکے نہیں کیے گئے تھے۔ سیلاب کی وارننگ کے باوجود لوگوں کے لیے انتظامات نہیں کیے گئے۔ محکمانہ غفلت۔ انکوائری کا اعلان۔ ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ سیلاب زدگان کی بحالی تک چین سے نہ بیٹھنے کے حکومتی اعلانات۔ ہیلی کاپٹر سے دورے۔ جناب آدم کے گندم کے دانے کی یاد میں آٹے کے لیے ترستی مخلوق۔ امدادی کارروائیاں کرتی تنظیمیں، رضاکار اور آخر پہ خشک سالی اور سیلاب دونوں کی وجوہات کا خود ساختہ اعادہ کرتی ملائیت۔

ملائیت، اس مضمون کو لکھنے کے لیے تحریک بنی۔ ہمارے ملاں صاحب اس ریاستی انتظام میں ایک آئیڈیل محرک کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا تمام امور میں رعایا کے حقوق اور ریاستی فرائض کے انتظامی معاملات کا رخ اپنے ذاتی مفاد کے لیے مذہب کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ قدرتی آفات کو مجرمانہ طور پر مکافات سے جوڑ کر لوگوں کو توبہ تائب کے لیے اپنے حجرے کے گرد جمع کر کے خدا کے نام پر اپنا ٹھیلا آباد فرما لیتے ہیں۔ آج تلک یہی سمجھ نہیں آئی کہ کہ کیا صرف غریب ہی گنہگار ہیں۔ یہ تفہیم تو عادل و منصف خدا کے بنیادی تعارف ہی کے خلاف ہے کہ امیر کا بنگلہ تعمیر کرنے کے باعث آنے والی نام نہاد قدرتی آفت غریب کا گھروندہ پھر سے گرا دے۔

سوشل میڈیا کے ظہور سے قبل یہ باتیں اس طرح سے آشکار نہیں تھیں لیکن لاؤڈ سپیکر کو شیطانی چرخہ اور کیمرے کی آنکھ کو حرام العین قرار دیتی ملائیت اب اس کے ذریعے اپنی تضادات سے بھرپور مذہبی تفہیم و تشریح لوگوں تلک پہنچاتی رہتی ہے۔ فیس بک کے کیپٹل کی بجائے سمال ”f“ کو صلیب قرار دیتے اور اسے یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دیتے ایک مشہور عالم دین اگلی ہی پوسٹ میں فیس بک کے دس لاکھ فالورز (وہ بھی f سے) کا جشن مناتے ہیں تو اب تو حیرت بھی نہیں ہوتی۔

ملائیت کی ہر تان عورت ہی پر ٹوٹتی ہے۔ سیلاب، زلزلے کو عورتوں کے لباس سے جوڑتی ملائیت کا خصوصی طور پر ”جینز“ پہننے پر اعتراض ہے۔ ملاں صاحب عورتوں کے جینز پہننے اور موسیقی کو سیلاب کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ اگلی صفوں میں بیٹھے ٹھیکیداروں اور سرکاروں کو کچھ نہیں کہتے کیونکہ وہ بند اور پشتوں میں مٹی ڈال کر ان کا سیمنٹ اپنے محلات سے ملاں صاحب کے حجرے، مسجد، مدرسے تک لگاتے ہیں۔ اس کے بعد ملاں صاحب سیلاب زدگان کے لیے غیبی امداد کی دعا مانگتے ہیں اور بار بار کسی توفیق نامی چیز کا ذکر فرماتے ہیں۔ اور اپنے حجرے کو لوٹ جاتے ہیں۔

آپ غور فرمائیے گا پاکستان میں بڑے بڑے گدی نشین، پیرو مرشد سرکار وغیرہ ہیں ان میں سے ہر ایک کو نوٹوں میں تولا جاتا ہے حتی کہ ان کے بچوں کی شادیوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کی خبریں آتی ہیں کبھی نہیں دیکھا کہ ان میں سے کبھی کسی نے کہا ہو کہ بھئی اس بار عرس کے پیسے چڑھاوے منتیں مرادیں سیلاب زدگان کو دی جائیں کہ یہی توفیق ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ملائیت بنیادی طور پر فطرت سلیم ہی کی ضد ہے۔ یہ اپنے اندر وہ ثقالت، وہ کثافت اور وہ سختی رکھتی ہے جو کہ جمالیات کا الٹ ہیں۔

بہرحال پچھلے دو تین دن سے سوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ 1998 میں ”بوہے باریاں“ گانے والی محترمہ حدیقہ کیانی صاحبہ نے اپنی تنظیم ”وسیلہ راہ“ کے ذریعے بلوچستان میں سیلاب زدگان کے سو گھروں کے ”بوہے باریاں اور کندھاں“ چھت سمیت تعمیر کرنے کا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ جمالیات کی ایک خوبصورت صنف موسیقی کے ذریعے پیسے اور شہرت کما کر مصیبت زدہ خلق کے لیے درد دل رکھنے والوں کی مدد سے جینز پہن کر 100 عدد گھر بنانے کی توفیق حاصل کرنے والی پاکستان کی قابل فخر بیٹی محترمہ حدیقہ کیانی کی اس کاوش کو سرخ سلام۔ موسیقی اور جینز والی حدیقہ کیانی ملاں صاحب کی سیلاب زدگان کے لیے غیبی مدد اور توفیق کی دعا کی قبولیت ہے۔ مادام کے ساتھ ملاں صاحب کی مبارک بھی بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments