ظہیر کاشمیری: بگولا رقص میں رہتا ہے


میں نے روزنامہ ’مساوات‘ کے دفتر کا داخلی گیٹ عبور کیا، سیدھا ریذیڈنٹ ایڈیٹر کے کمرے کے دروازے پر دستک دی اور اندر داخل ہو گیا۔
کہیے! سامنے میز کے پار رنگدار شرٹ پہنے، ہیٹ میز پر رکھے، تیکھے نقوش والے سُرخ و سفید ایڈیٹر صاحب نے زیرِ نظر ورق پر سے نظر اٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا۔

وہ، جی، یہ مضمون تھا۔ مساوات میں چھپنے کے لیے دینا ہے۔ میں نے ادب سے جھجکتے ہوئے کہا تھا۔
اچھا، لائیے۔ کہاں ہے مضمون؟ انھوں نے بدستور مجھے دیکھتے ہوئے جلدی جلدی کہا۔
میں نے ایک قدم آگے بڑھ کر وہ پِیلا سا لفافہ انھیں تھما دیا جس میں لائنوں والے فُل سکیپ کاغذ پر مضمون تحریر تھا۔

انھوں نے لفافہ کھولا۔ کاغذ نکالا۔ ایک نظر عنوان پر ڈالی:

نوجوانوں میں فیشن کا بڑھتا ہوا رجحان

انھوں نے اپنی گرج دار آواز میں عنوان دوہرایا۔ پھر بولے :
ٹھیک ہے۔ اسے چھوڑ جائیے۔ دیکھ لیں گے۔ اگر قابلِ اشاعت ہوا تو چھپ جائے گا۔

جی شکریہ۔ میں نے سلام کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔

میرا طالب علمانہ مضمون تو خیر اخبار میں چھپ گیا مگر یوں کسی اخبار کے ایڈیٹر کے کمرے میں گُھس جانے کی اپنی جرات پر میں خود بھی بہت دن حیران رہا۔ دسویں جماعت کا طالب علم تھا میں۔ قد کا لمبا مگر جسامت میں دھان پان۔

مساوات اخبار ہر صبح ہمارے گھر آتا تھا۔ مضمون والد صاحب نے بھی دیکھا اور شاباش دی حالانکہ وہ میرے موقف سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ پھر پوچھنے لگے :
مساوات کے دفتر کس سے ملے تھے؟
میں نے جو اباً ایک روز پہلے کا سارا واقعہ دوہرا دیا۔

ارے، کیا ظہیر کاشمیری صاحب سے ملے تھے آپ؟ انھوں نے خوش گوار حیرت سے پوچھا تھا۔
جی، وہی ہوں گے۔ میں نے مختصر سا جواب دیا۔

اگر بتا کر جاتے تو میں بھی اپنے دوست کو سلام بھجوا دیتا۔ والد صاحب نے مسکرا کر کہا۔

جی بہتر۔ آئندہ گیا تو آپ کا سلام لیتا جاؤں گا۔ میں نے جواب دیا۔

ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ والد صاحب کے ساتھ روزنامہ سیاست کے دفتر یعنی کوپر روڈ کی طرف پیدل جاتے ہوئے پہلے تو ریگل سنیما کے پاس واقع رسالہ ’پنج دریا‘ کے دفتر میں رُکے۔ چائے پی۔ وہاں سے نکلے اور ریگل چوک پہنچے تو دیکھا کہ ظہیر کاشمیری صاحب خراماں خراماں چیئرنگ کراس کی طرف چلے جا رہے ہیں۔ والد صاحب کو دیکھ کر ٹھٹھکے۔ گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ گرج دار لہجے میں خیریت دریافت کی۔ طفیل ہوشیار پوری صاحب کا حال احوال پوچھا۔ پھر میری طرف دیکھا۔ میں نے سلام عرض کیا۔

اچھا، تو یہ آپ کا برخوردار ہے۔ مجھے نام سے لگا تو تھا۔ مگر دفتر میں بات کرنے کا وقت ہی نہ تھا۔ وہی رنگوں سے بھرپور شرٹ، سفید پتلوں اور پاؤں میں سفید جوتے اور سر پر ہیٹ جمائے ظہیر کاشمیری مسکرا کر کہہ رہے تھے۔

پھر ان دوستوں نے وہیں کھڑے کھڑے صحافیوں کے مسائل، صحافیوں کی پیشہ ورانہ تنظیم میں پُھوٹ، اس کے منفی اثرات اور شعر و ادب کی صورتِ حال پر دوچار باتیں کیں اور ’خدا حافظ‘ ہو گیا۔

بیڈن روڈ پر سجی دوطرفہ دکانوں کے پاس سے گزرتے ہوئے میں نے والد صاحب سے پوچھا:
پاپا، ظہیر کاشمیری صاحب شروع ہی سے ایسے ’ٹیکنی کلر‘ ہیں؟

اچھا، تو ان کے رنگین شرٹ کے ذوق کو دیکھتے ہوئے ٹیکنی کلر کہہ رہے ہیں؟ انھوں نے پوچھا۔
جی، آپ کا کوئی ایک بھی دوسرا دوست مجھے ایسے شوخ لباس میں نہیں ملا۔ میں نے کہا۔

ہاں، ٹھیک ہے۔ ظہیر شروع ہی سے من موجی ہیں۔ اپنی ہی دُھن کے آدمی ہیں۔ نظریات کے پکے ہیں۔ عمدہ شاعر ہیں اور ہمارے پرانے دوست ہیں۔ والد صاحب نے وضاحت کی تھی۔

کئی سال بعد مجھے صحافی اور لکھاری دوست طارق کامران نے جو مساوات ہی میں کام کرتا تھا بتایا کہ صحافی برادری تو انہیں پیار سے بابا ظہیر کاشمیری پکارتی ہے۔
ٹیکنی کلر بابا۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
کیا مطلب؟ طارق نے پوچھا۔
کچھ نہیں۔ ویسے ہی منہ سے نکل گیا۔ میں نے کہا اور میرے ذہن میں پہلی ملاقات کا واقعہ بھی تازہ ہو گیا جسے بِیتے کئی سال ہوچکے تھے۔

پھر بابا ظہیر کاشمیری گاہے گاہے مجھے دکھائی دیتے رہے۔ ریگل چوک کے پاس، شیزان ریستوران والی عمارت میں جو غیر فعال لاہور پریس کلب ہوا کرتا تھا اُس میں، جس کی مخمور فضا میں حبیب جالب بھی تاش کی بازی میں مشغول ہوتے۔ پاک ٹی ہاؤس میں۔ کسی اجلاس میں، کسی مشاعرے میں۔ وہ طبعاً بلند آہنگ تھے۔ بات کر رہے ہوں یا شعر سنا رہے ہوں لہجہ ویسا ہی دبنگ رہے گا۔

ضیا دور کے آخری دنوں میں جب جمہوریت جزوی طور پر بحال ہو رہی تھی۔ بے نظیر بھٹو پاکستان لوٹ آئی تھیں۔ سرکاری ریڈیو، ٹی وی کی پالیسیاں بھی کچھ نرم پڑنے لگی تھیں۔ گیارہ برس سے بلیک لِسٹ لکھاری اب دھیرے دھیرے سرکاری ذرائع ابلاغ پر بھی سنائی اور دکھائی دینے لگے تھے۔ مجھے یاد ہے نعتیہ مشاعرے کی نظامت کے لیے اُس روز میں وقت پر ہی ریڈیو پاکستان لاہور پہنچ گیا تھا۔ پروڈیوسر ارشاد حسین صاحب نے شعرائے کرام کے ناموں کی فہرست مجھے تھماتے ہوئے کہا:

بعض شعرا پر سرکاری پابندیاں ختم ہونے کے بعد پہلا پہلا مشاعرہ ہے، بھائی، ذرا فہرست پر ایک نظر ڈال لینا۔ بہت سے بزرگ شعرا بھی مدعو ہیں۔ تقدیم و تاخیر کا کوئی مسئلہ ہو گیا تو خواہ مخواہ مشکل بن جائے گی۔

میں نے وہیں سٹوڈیوز والے کوریڈور کے دروازے پر ڈیوٹی روم کے سامنے کھڑے کھڑے ان کی تھمائی ہوئی فہرست پر نظر دوڑائی۔ خالد احمد، شہزاد احمد، مظفر وارثی، کلیم عثمانی، حافظ لدھیانوی، حفیظ تائب، منیرنیازی انجم رومانی، عارف عبدالمتین، یزدانی جالندھری۔ یہاں تک تو فہرست معمول کے مطابق ہی تھی۔ پھر میری نظر صدرِ مشاعرہ احمد ندیم قاسمی کے نام سے پہلے شہرت بخاری صاحب کے نام پر پڑی جو ابھی ابھی لندن سے لوٹے تھے اور حکومت میں تبدیلی کے بعد وہ پھر سے ادبی دنیا میں جگمگا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ہی ایک اور نام لکھا تھا: ظہیر کاشمیری۔ ظہیر کاشمیری صاحب بھی ضیا دور کے اُن معتوب لکھاریوں کی فہرست میں شامل رہے تھے جنھیں ان کے جمہوریت اور آزادی پسند نظریات کے باعث سرکاری ذرائع ابلاغ پر مدعو نہیں کیا جاتا تھا۔

ظہیر صاحب کی نظمیں اور غزلیں تو لاہور کیا پاکستان بھر کی فضاؤں میں سخت پابندیوں کے باوجود گونجتی رہی تھیں۔ میں تو انھی ظہیر کاشمیری صاحب سے متعارف تھا جن کا کہنا تھا:

موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا

ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے

میں ہوں وحشت میں گم، میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا

مگر یہ تو نعتیہ مشاعرہ تھا۔ میں ٹھٹھکا۔ ارشاد صاحب کی طرف دیکھا:
باقی سب تو ٹھیک ہے۔ ظہیر کاشمیری صاحب آئیں گے کیا اس نعتیہ مشاعرے میں؟ میں نے فہرست انھیں لوٹاتے ہوئے کہا۔

آئیں گے؟ بھائی میرے وہ آئے بیٹھے ہیں۔ جاؤ، میرے کمرے میں مل بھی لو اور انھیں ساتھ ہی لے آؤ۔ باقی شعرا اسلام شاہ کے کمرے میں ہیں۔ آج مشاعرہ سٹوڈیو میں نہیں آڈیٹوریم ہے۔ پتہ ہے نا تمہیں؟ ریکارڈنگ کا وقت ہو رہا ہے۔ بس آ جاؤ۔

ارشاد صاحب یہ کہتے ہوئے اور دو ٹیپ بغل میں دبائے اپنے مخصوص انداز میں لہکتے ہوئے سٹوڈیوز والے کاریڈور میں داخل ہو گئے تھے۔ میں نے ظہیر کاشمیری صاحب سمیت سب مہمانوں کو ساتھ لیا اور سٹوڈیوز کے آخر میں واقع آڈیٹوریم میں پہنچ گیا جہاں حاضرین پہلے سے موجود تھے۔ مشاعرہ آغاز ہوا اور میں نے ایک ایک کر کے شعرا کے نام پکارنے شروع کیے۔ ظہیر صاحب کی باری آئی جس کا میں منتظر تھا۔ میں نے اس سے قبل ظہیر صاحب سے نعت نہ سنی تھی۔ ظہیر صاحب مائیک کے سامنے آئے۔ بیٹھے۔ ایک نظر ساتھی شعرا پر ڈالی اور دوسری سامعین پر۔ ریڈیو کی فضا میں عرصہ بعد ان کی آواز گونجنے والی تھی۔

نعت پیش ہے۔
انھوں نے کہا اور پھر اپنے مخصوص دبنگ لہجے میں نعت سنانا شروع کی۔ ہر ہر شعر پر داد ملی۔

عاصی بھی تمنائی ہوا خلدِ بریں کا
یہ فیض، یہ اعجاز ہے طیبہ کے امیں کا

اے دشتِ عرب اپنی بلندی پہ ہو نازاں
تو مامن و مسکن ہے مِرے سدرہ نشیں کا

اک سجدہ تِرے نقشِ کفِ پا پہ ادا ہو
اب ایک ہی مصرف ہے گنہگار جبیں کا

اک بوریا، اک خرقہِ پیوند زدہ میں
کیا حُسن نکھر جاتا تھا غاروں کے مکیں کا

تو سطوتِ شاہاں کے لیے تیغِ مکافات
تو مونس و ہم درد ہر اک جانِ حزیں کا

وہ داد پر ہاتھ اٹھا کر جواب دیتے رہے۔

میں نے گردن گھما کر ارشاد صاحب کی طرف دیکھا دیکھا جو شیشے سے پار ریکارڈنگ انجنیئر کے پاس کھڑے تھے۔ نظر ملی۔ وہ معنی خیز انداز میں مسکرا دیے۔ گویا کہہ رہے ہوں : سُنی، ظہیر کاشمیری کی نعت؟ اس روز میں کیا سبھی ہمہ اصناف میں ان کی قادر الکلامی کے قائل اور معترف دکھائی دے رہے تھے۔

والد صاحب سے دوستی کے ساتھ ساتھ میرا ایک رشتہ ان سے اور بھی تھا اور وہ تھا حلقہِ اربابِ ذوق کا رشتہ۔ ہم دونوں حلقہ کے رُکن تھے۔ میں نے اسی کی دہائی کے اواخر میں تین بار حلقہ کے انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لیا اور ہر بار دیگر سینئر لکھاریوں کے ساتھ ساتھ ظہیر صاحب سے بھی ووٹ کی درخواست کی گئی اور انھوں نے مسکراتے ہوئے وعدہ بھی کیا تھا۔ اور ووٹ دینے آئے بھی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ حلقہِ اربابِ ذوق لاہور ان دنوں ایسا واحد اہم ادبی پلیٹ فارم تھا جس کے اجلاسوں میں بائیں بازو کے سبھی اہم ادیب شاعر بھی شریک ہوتے تھے اور دائیں بازو کے لکھاری بھی۔ ان اجلاسوں میں جہاں سلیم اختر، حبیب جالب، عارف عبدالمتین، کشور ناہید، منو بھائی، سلیم شاہد، اسرار زیدی، انتظار حسین، انیس ناگی، سعادت سعید اور یونس ادیب باقاعدگی سے شریک ہوتے وہاں اشفاق احمد، سراج منیر، تحسین فراقی، احمد جاوید اور جعفر بلوچ بھی شرکت کرتے۔ تنقید کے لیے پیش کیے جانے والے فن پاروں پر کُھل کر گفتگو ہوتی۔ اگر ظہیر کاشمیری صدارت کر رہے ہوتے تو اجلاس کے اختتام پر ہم کلام سنانے کی درخواست بھی کرتے اور وہ اپنے اشعار سے حاضرین کو مسحور کر دیتے تھے۔

اُن کی کتابیں عظمتِ آدم، تغزل، چراغِ آخرِ شب، رقصِ جنوں اور شعر و غنا سبھی والد صاحب کی نجی لائبریری کا حصہ تھیں اور یہ سب ظہیر صاحب کے دستخط کے ساتھ والد صاحب کو تحفتاً دی گئی تھیں۔

انھیں جب بھی دیکھا اپنی ہی ترنگ میں دیکھا۔ رنگین شرٹ زیبا تن کیے مال روڈ پر چلتے ہوئے بھی میں انھیں دیکھتا تو مجھے لگتا کہ جیسے کوئی رنگین جھونکا گنگناتا جا رہا ہو۔ اگرچہ ان کے ہونٹ جنبش میں نہ ہوتے تھے۔ شاید یہ ان کے اندر کی غنائیت تھی جو ارد گرد کی فضا کو بھی مدھر بنائے جاتی تھی۔ یہ میرا احساس بھی ہو سکتا ہے اور تخلیق کار کی شخصیت کا حسنِ اعجاز بھی۔ وہ تنہا ہو کر بھی تنہا نہ ہوتے تھے۔ ایک تخلیقی بے چینی مسلسل ان کی ہم قدم ہوتی۔ لاہور کی سڑکوں پر روشن روشن یہ رنگین بگولا شاید آپ نے بھی دیکھا ہو۔ اپنی ہی رو میں رواں دواں، اپنی ہی دُھن میں رقصاں۔ یہ مصرعہ گنگناتے ہوئے :
بگولا رقص میں رہتا ہے صحرا میں نہیں رہتا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments