وومین ڈے اور ہماری عورتیں


ہمارے سماج میں عورت کے مسائل کیا ہیں؟ ہماری عورتوں کی اکثریت کن کن تکالیف سے گزرتی ہیں؟ ان سوالوں کا جواب تو خود عورت ہی بہتر دے سکتی ہے لیکن شاید ایک باشعور، حساس اور عورت کو انسان کی طرح دیکھنے سمجھنے والا مرد بھی کچھ اندازہ کر سکتا ہے۔ غور و فکر کا عادی ذہن اور مشاہدہ کی صلاحیت رکھنے والی آنکھ، اپنی بصیرت سے بہت کچھ معلوم کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے کسی گاؤں میں رہنے والی خاتون، چھوٹے شہروں میں بسنے والی عورتیں، وہ سب گھریلو عورتیں جن کو تعلیم اور معاشی استحکام حاصل کرنے کے مواقع نہیں ملے، جو پندرہ / سولہ سال کی عمر میں عملی طور عورت کے درجے پر فائز کردی گئیں، یہ سب وہ عورتیں ہیں جن کو اس مضمون میں ”ہماری عورتیں“ کہا گیا ہے، جن کو ہمارے سماج کی اکثریتی عورتیں کہا گیا ہے۔ ان کے مسائل کیا ہیں؟

ہماری ان عورتوں کو تعلیم سے محروم کیا جاتا ہے۔ بچپن سے ہی گھر داری اور کثرت اولاد کی وجہ سے ماں کے ساتھ اس کے بچوں کی دیکھ بال میں لگا دیا جاتا ہے۔ کھیتوں پر ہل چلانے، کہیں پانی بھرنے اور مویشیوں کی دیکھ بال کی ذمہ داری بھی ان کو دی جاتی ہے۔ کبھی چھوٹی عمروں میں بیاہ دیا جاتا ہے۔ اپنا جیون ساتھی چننے کا حق نہیں دیا جاتا۔ نکاح کے معاملے میں ان کی مرضی اور رائے کو اتھارٹی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان کی جسمانی نشو و نما کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ کثرت اولاد کے سبب ان کی جوانیاں تباہ کردی جاتی ہیں۔ اس کے لیے شوہر کی گالیاں سننا اور سہنا نارمل روٹین بنا دی گئی ہے۔ اس کو تھپڑ اور گھونسے بھی احتجاج پر آمادہ نہیں کر سکتے۔ نشئی، موالی، نکما، جنسی طور ناکارہ شوہر بھی اگر گلے پڑ گیا ہے تب بھی رشتہ نہیں توڑا جا سکتا۔ طلاق یافتہ ہونا اک گالی بنا دی گئی ہے۔ بیوہ ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرنا اس کے شوقین ہونے کا اشارہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ عورت کے لیے جنسی ضرورت کی تکمیل کا مطالبہ فحاشی ہے۔ خالی شک کی بنیاد پر ہی مرد بڑے سے بڑا فیصلہ لے لیتا ہے، بدنامی اور خواری پھر بھی عورت کے حصہ میں ہی رکھی جاتی ہے۔

ان حالات میں رہنے بسنے والی عورتوں کو روٹی پکانے، گھر کا جھاڑو پوچا لگانے، نقاب کرنے، سادہ و روایتی لباس پہننے سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، جاب حاصل کرنا ان کا ٹارگٹ نہیں، وہ ان پر نہیں سوچتیں۔ وہ اس کو بھی خوشی خوشی قبول کرتی ہے کہ جتنے وسائل ہیں ان میں ہی زندگی گزار لوں گی۔ وہ خواہشیں بھی اپنے لیے نہیں پالتی۔ وہ تو شروع دن سے بچوں کے لیے سوچنا شروع کر دیتی ہے۔ کئی صورتوں میں شادی اس کی اپنی زندگی کا اختتام ثابت ہوتی ہے۔ اس کو بس اتنی خوشی چاہیے کہ وہ تعلیم حاصل کر سکے، شادی کرنے کا فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہو۔ بچوں کی پیدائش میں اس کی صحت کا سودا نہ کیا جائے، اسے، اس کی صحت اور زندگی کو مہلت دی جائے، وقفہ دیا جائے۔ گھر کے کام کاج سے انکار اس کو نہیں، بس کام کے بعد بھی تذلیل اسے چیر دیتی ہے۔ اس کو یا اس کے گھر کو ضرورت ہو تو وہ چند روپے پیسے کمانے کا فیصلہ خود سے کرسکے، وہ اپنے شوہر سے احترام پر مبنی محبت کا تعلق چاہتی ہے اور شوہر کے گھر میں صرف اسی کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہے۔

مسائل تو اور بھی ہیں۔ کارو کاری، ونی، پیدائش سے پہلے ہی رشتوں کا طے ہوجانا، ماں باپ کی ربوٹک فرمانبرداری کہ وہ جو بھی کہیں آمنا و صدقنا کہنا، شوہر کی اجازت کے بغیر زندگی کا کوئی فیصلہ ہی نہ کر سکنا وغیرہ۔ سماج میں جاری عورتوں پر جبر و تشدد کی مختلف صورتوں کو ہم دیکھتے سنتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ سنگین نوعیت کی اور بہت عام ہیں۔ ان کو ایمرجنسی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیں۔ خصوصاً عورتوں کے حق میں آواز اٹھانے والیوں کو کچھ ان خواتین کی طرف بھی دیکھنا چاہیے۔ وومین ڈے کو مخصوص طبقے کی مضبوط عورتوں کا ایونٹ بنانے کی بجائے اس کو مظلوم عورتوں کی پسی ہوئی اکثریت کے حقوق بحال کرنے کی تحریک بنانے پر دھیان دینا چاہیے۔ اس طرح شاید اس معاشرے سے کئی طبقات ان کے ہم آواز بن سکتے ہیں اور اجتماعی جدوجہد سے ہماری عورتوں کو زندگی جینے کا موقع مل سکتا ہے۔

آپ کی اس ایک دن کی تقاریر، نعروں اور رویوں سے عوام کو ایسا تاثر ملتا ہے کہ شاید آپ مرد و عورت کے درمیان نفرتوں کو پروان چڑھانے کی شعوری یا غیر شعوری کوششوں میں ہیں۔ صرف طاقتور طبقات کی عورتوں کو مزید مضبوط بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ آپ کی گفتگو میں عام پاکستانی عورت کی تکلیفوں کا چرچا سننے میں نہیں آتا۔ عام پاکستانی عورت کے مسائل اور تکلیفوں سے آپ کو واقفیت نہیں یا ان کے مسائل کو اہم ترین نہیں سمجھتیں۔ آپ کی جدوجہد کے نتیجے میں ابھی تک عام پاکستانی گھریلو عورت کو فائدہ ملتا ہوا نظر نہیں آیا۔ اس کے حالات جیسے آٹھ مارچ منانے سے پہلے تھے اب بھی ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ کبھی فرصت ملے تو اس پر ضرور سوچیے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments