تمام خواتین کو ان کا عالمی دن مبارک ہو


ہمارے ہاں صنفی امتیاز برتے جانے کا سوال بہت شد و مد سے زیر بحث رہتا ہے۔ مردوں کی ایک غالب اکثریت اس بات پر یقین کامل رکھتی ہے کہ ہمارے یہاں خواتین کو کوئی خاص مسائل درپیش نہیں۔ اگر چند خواتین کو کچھ مسائل پیش آتے بھی ہیں، تو اس کی وجہ خود ان خواتین کا طرز زندگی ہی ہے۔ اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ اکثر خواتین بھی اپنے مسائل کے لئے مردوں کی بجائے خود اپنی ہی صنف کو قصور وار سمجھتی ہیں۔

مگر سوچنے کی بات ہے کہ جس ملک میں موٹر وے پر اپنی کار میں سفر کرنے والی خاتون محفوظ نہیں، جہاں بازاروں میں چلنے والی خواتین کو جنسی ہراسانی کا شکار کرنا معمول ہو، جہاں خواتین پر ڈھائی گئی ہر قیامت، ہر جنسی واردات کے بعد ، وکٹم بلیمنگ کے تحت ذمہ داری بھی انہیں بیچاری خواتین پر ڈال دینا بہترین راہ فرار ہو، جہاں درس گاہوں میں طالبات کو اساتذہ اپنی ہوس کا نشانہ بنانے سے نہ چوکتے ہوں، جہاں دفاتر میں کام کرنے والی خواتین اپنے کولیگز کی بوالہوسی سے محفوظ نہ ہوں، جہاں اکثر خواتین کو کیریر میں آگے بڑھنے کے لئے اپنے باس کی جنسی تسکین کرنا ایک بنیادی شرط ہو، جہاں موبائل میسجنگ پر خواتین کو اپنے جنسی اعضا کی تصاویر بھیجنے والے مردوں کر برا کہنے کی بجائے اس پر کھلے الفاظ میں احتجاج کرنے والی خواتین کو ہی فاحشائیں سمجھ لیا جائے، جہاں عورت کے ذہن سے مرد خوف کھاتے ہوں اور عورت کو فقط جنسی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو، جہاں چند سالوں کی بچیاں بھی جنسی بھیڑیوں کے ہاتھوں نہ بچ پاتی ہوں، جہاں باپ ایک بیٹی کو گول روٹی نہ پکا پانے پر مار ڈالتا ہو، جہاں، اپنی جائیداد کو بچانے کی خاطر لڑکیوں کی شادی قرآن سے کر دینے کا رواج ہو، جہاں قتل کے بدلے میں قاتل کے خاندان کی لڑکی مقتول کے خاندان کو بطور ہرجانہ پیش کیا جانا کوئی عیب نہ سمجھا جائے، جہاں پردے کے بغیر گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے ہوں، جہاں کئی کئی گھروں میں کام کر کے پیسے کمانے والی عورت کا نشئی خاوند نہ صرف اس کی تنخواہ چھین لیتا ہو، بلکہ اسے زد و کوب کرنے سے بھی نہ چوکتا ہو، جہاں بھائی اپنی بہنوں کو خاندانی جائیداد میں حصہ دار بنانے سے گریزاں ہوں، جہاں قرآن پڑھانے والا مولوی نابالغ طالبہ کے ساتھ جنسی حرکات کرنے میں شرم محسوس نہ کرتا ہو، جہاں اپنی سیاسی مخالف عورتوں کی کردار کشی، اور تذلیل کرنا، ان پر شرمناک میمز بنانا ایک آرٹ سمجھا جائے، جہاں بیٹے سے تو اس کی گرل فرینڈ کے حوالے سے بات کرنا کوئی مسئلہ نہ ہو، مگر بیٹی کو پسند کی شادی تک کی اجازت نہ ہو، جہاں والدین بیٹی کو رخصت کرتے وقت یہ نصیحت کرتے ہوں کہ ’بیٹا جا اب وہی تیرا گھر ہے، وہاں سے اب تیرا جنازہ ہی انا چاہیے‘ ، جہاں شوہر کی زیادتیاں اور مظالم ایک عورت فقط اس لئے سہنے پر مجبور ہر کہ وہ معاشی طور پر اپنے خاوند کی محتاج ہے، اور اسے علم ہے کہ اس کے ماں باپ یا بھائی اس کا سہارا بننے کو تیار نہیں، اور جہاں ’اسلام نے عورت کو سب سے زیادہ حقوق دے رکھے ہیں‘ کی میٹھی گولی دے کر خواتین کا اپنے حق میں آواز بلند کرنا سخت ناپسندیدہ اور بے حیائی کا عمل قرار دیا جائے، اس ملک، اور اس معاشرے میں عورتوں کے مسائل پر بات کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہاں صنفی مسائل ہیں اور شدید ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مسائل کے حل کے لئے سنجیدگی سے کام کیا جائے۔ اس کام میں حکومت سمیت معاشرے کے ہر طبقے کا میدان عمل میں آنے کی ضرورت ہے۔

آٹھ مارچ کا دن خواتین کے عالمی دن کے طور پر دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ آئیے آج کے دن عہد کریں کہ ہم سب مل کر ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کریں گے جس میں عورت کو عورت سے پہلے ایک جیتا جاگتا، ایک سوچنے سمجھنے والا، بالکل اپنے جیسا انسان سمجھا جائے۔ جہاں الرجال قوامون على النسا کا مطلب ’مرد عورتوں پر حاکم ہیں نہ لیا جائے‘ ، جہاں، عورت ملکی قوانین کے اندر رہتے ہوئے اپنی مرضی کی ویسی ہی مالک ہو، جیسے کہ ایک مرد ہوتا ہے، جہاں عورتوں کا ونی کیا جانا، اور قرآن سے شادی کا تصور بھی نہ پایا جائے، جہاں عورتوں کو اپنی زندگی کی راہیں چننے کا مکمل اختیار ہو، جہاں بازاروں میں، بسوں میں پبلک پلیسز پر، دفاتر اور درس گاہوں میں، عورتوں کو جنسی ہراسانی کا سامنا نہ کرنا پرتا ہو، جہاں بیٹیوں، اور بہنوں کو ان کے تمام حقوق دیے جانے کا رواج ہو، جہاں رشتہ پر انکار کرنے پر لڑکیوں کے چہروں پر تیزاب پھینکنا ممکن نہ ہو، جہاں سیاسی، یا خاندانی لڑائیوں میں عورتوں کو نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔

جہاں خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں میرٹ کی بنیادوں پر ان کا حق ملتا ہو، جہاں کوئی باس اپنی خاتون ماتحت کی ترقی میں محض اس لئے رکاوٹ نہ بن سکے کہ وہ خاتون اپنے باس کی نفسانی خواہشات کے آگے جھکنے سے انکار کر دیتی ہو، جہاں ہر خاتون مالی طور پر خود مختار ہو تاکہ کوئی اسے معاشی مسائل کے ڈر سے اپنی عزت نفس پر سمجھوتا کرنے اور ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور نہ کر سکے، جہاں والدین اپنی بیٹیوں کو پراعتماد طریقے سے، اور اپنی عزت نفس کی حفاظت کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی تربیت دیں، جہاں شوہر حضرات اپنی بیگمات پر ہاتھ اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکیں، جہاں عورت کی مرضی کے بغیر کوئی اسے چھونے کا ہمت نہ باندھ سکے۔ جہاں غیرت کے نام پر عورت کا استحصال کیا جانا ممکن نہ ہو، جہاں عورت پر ظلم کرنے والے مرد کے لئے معاشرے میں سر اٹھا کے چلنا ممکن نہ ہو، اور جہاں کی مروجہ گالیوں سے عورت کا حوالہ نکال دیا جائے۔

فی الحال تو یہ سب ایک دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے، مگر پچھلے کچھ عرصے میں اس حوالے سے بڑھتی آگہی کو دیکھ کر ایک امید کی کرن دکھائی دے تو رہی ہے۔

تمام خواتین کو آپ کا عالمی دن بے حد مبارک۔ اپنے حقوق کے حصول کے سفر میں حصول منزل تک آپ کے ساتھ۔ آپ کے مشن کے ساتھ۔

دل نا امید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام، مگر شام ہی تو ہے

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments