بھکاری دلہن کی آپ بیتی


بڑے عرصے سے ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اب کی بار تو معاشی مسائل نے کچھ زیادہ ہی پریشاں کر رکھا ہے۔ ملک میں ڈالر ہے اور نہ ہی خام مال، کہ جس سے پروڈکشن چلتی رہے۔

گاہک، دکاندار، ہول سیلر، ڈسٹری بیوٹر، کمپنیاں اور امپورٹرز تک سب کی واٹ لگی ہے۔ نمک سے لے کر سونے تک ہر چیز کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہی۔ بندہ نام کی شے آپ کو خوشحال نہیں ملے گا؛ المختصر!

انہی سوچوں میں گم گودام کے کونے میں پڑے چند کارٹنوں کو دیکھ رہا تھا اور تسبیح پڑھی جا رہا تھا، کہ ویلے بندے کو ویلے وقت میں رب کی حمد و ثنا کرنی چاہیے ؛ کہتے ہیں خالی دل و دماغ پہ شیطان حاوی ہوجاتا ہے۔ الامان الحفیظ

اسی اثناء اٹھارہ انیس سالہ ایک بھکارن کی آواز کانوں کان پڑی، ”بھائی جان! اللہ کے نام پہ کچھ امداد کرو؛ بچے بھوکے ہیں، کھانے کے لئے کچھ نہیں۔“

ہفتوں سے بے روزگاری ہماری مقدر بنی رہی، جیب میں تو ہمارے بھی سو پچاس روپے کے علاوہ کچھ تھا نہیں، سو ”معاف کر دو بابا، آگے جاؤ“ کہ کر پھر سے تسبیح میں مشغول ہوا۔

بھکارن نے کہا، پیسے نہیں تو کچھ سودا سلف دے دو، غریب کے بچے دعا بھیجیں گے۔ ہم نے پھر جھٹلا کر کہا ”معاف کر دو نا بابا، آگے بڑھو“ ۔

بھکارن لڑکی کی نظر دکان میں پڑے پانی کے کولر پہ پڑی۔ اس نے کہا، بھائی جان ایک گلاس پانی پی لوں؟
ہم نے اجازت دی تو وہ آئی اور پانی کے دو تین گلاس پی گئی۔
پھر کچھ دیر آرام کی غرض سے وہیں بیٹھی رہی۔ جمع شدہ نوٹوں کو ترتیب دیتی اور گنتی رہی۔

چہرہ، ہاتھ، پاؤں اور کپڑے قدرے گندے میلے تھے مگر نقش کی اچھی معلوم ہوئی۔ پٹھے پرانے دوپٹے میں سے میلے جکڑے مگر لمبے بال نظر آ رہے تھے۔ آنکھوں اور گالوں کی بات نہیں کرتے، کہ بات آگے بڑھ جائی گی۔

اپنی تنہائی دور کرنی کی غرض سے ہم نے پوچھا، تم نے کہا بچے بھوکے ہیں، تمہارے بچے بھی ہیں کیا؟

لڑکی نے سر اٹھایا، کچھ دیر کے توقف سے بولی، ہاں میری ایک بیٹی ہے۔ گھر میں دادی کے پاس چھوڑ رکھی ہے۔ باہر گرمی سے بیمار ہو گئی تو مجھ ہی کو پریشانی جھیلنی پڑے گی۔

آپ کی عمر تو زیادہ نہیں ہوگی، اتنی جلدی شادی کی کیا ضرورت تھی؟ ہم نے پوچھا۔

بھکارن لڑکی نے لمبی سانس لی اور پاؤں پھیلا کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگایا اور کہا، لمبی کہانی ہے بھائی، آپ تو پانی کے لئے ماتھے پہ بل لائے اجازت دیتے ہیں ؛ میری آپ بیتی کیا سنیں گے!

وہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر خود ہی بولی پڑی،

بھائی جان! میں ماں باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں، والد کی محنت مزدوری سے گھر میں ہم تینوں کا اچھا رہن سہن چلتا تھا۔ چار سال پہلے میرے والد کا ایکسیڈنٹ ہوا، وہ چلنے پھرنے سے تو گئے، ساتھ ذہنی مریض بھی بن بیٹھے۔ ان کی بیماری کے بعد ہم دو چار ماہ میں جمع پونجی کھا بیٹھے۔ کچھ عرصہ رشتہ داروں اور محلے داروں نے تعاون کیا، پھر وہ بھی تنگ آ گئے اور ہاتھ اٹھا گئے۔

ہم سفید پوشی کے مارے فاقے کاٹتے رہے مگر کب تک کرتے؟
والد کے ادویات، روٹی کپڑا مکان اور باقی گھریلو ضروریات کے لئے بالآخر سڑک پہ نکلنا پڑا۔

میں اور میری والدہ بازار آتے اور لوگوں سے تعاون کی اپیلیں کرتے۔ کچھ ہی دنوں میں ہمیں ”بھکارن“ کا لقب ملا اور ہم باقاعدہ مستقل طور پہ بھیک پہ گزارہ کرنے والے بن بیٹھے۔

بھائی جان! جیسا کہ میں نے بتایا ہم پیشہ وار بھکاری نہیں تھے، ہمیں تو مانگنے کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا۔ ہم بازار میں گاڑیوں کے ریل پیل اور لوگوں کے ہجوم سے ڈرتے ڈرتے خود کو بچا بچا کر اپنا رزق تلاشتے۔

شروع کے دنوں میں دو چار سو روپے سے زائد کچھ بھی گھر نہیں لے کے گئے۔ جبکہ ان دو چار سو میں والد کی بیماری کے اخراجات اور گھریلو کاروبار چلانا ناممکن تھا۔ اسی پریشانی کے عالم میں اک دن سڑک کنارے بیٹھے تھے کہ ایک اور بھکارن ہاتھ میں روٹی پکڑے، درمیان میں رکھا کباب کھاتی ہمارے پاس آئی۔ علیک سلیک کے بعد حال احوال پوچھا تو ہم نے اپنا دکھڑا سنایا۔ وہ مزے سے کباب کھاتی رہی اور چلتے وقت کہ گئی،

”مولا ہے نا، وہ وسیلہ بنا دے گا آپ کا بھی“

گرمیوں کی تپتی دوپہر سے چھپے ہم مارکیٹ کے ٹھنڈے بیسمنٹ میں بیٹھے تھے۔ اسی اثناء ہمارے پاس ایک جوان لڑکا آیا اور پچاس کا نوٹ دیتے بولا ”تمہیں استاد بلا رہے ہیں۔ وہ شاید تمہیں کچھ روپے پیسے دینا چاہتا ہے“

والدہ نے کہا بیٹا جا کے دیکھو اس لڑکے کے استاد کیا کہ رہے، میں والدہ کو وہی چھوڑ کے آگے گئی تو دیکھا استاد کے ہمراہ چار آدمی اور بھی تھے۔ یہ ڈرائیور لوگ تھے جو اڈہ میں گاڑی کھڑی کر کے یہاں بیٹھے شغل میلا کر رہے تھے۔ وہ بڑی مونچھوں والے گرمی کے موسم میں کندھے پہ بڑی چادر رکھے میری طرف مسک رہے تھے۔ ان میں ایک نے مجھ سے پوچھا ”کتنی رقم لو گی؟“

میں بغیر سمجھی ہی بولی، جی جتنے بھی آپ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا چلو اچھی رقم دیں گے، لیکن تمہیں یہاں کچھ دیر روکنا پڑے گا۔ مجھے اسی جوان لڑکے کے ساتھ بیسمنٹ کے ایک دکان میں جانے کو کہا۔

لڑکا مجھے ہاتھ سے پکڑے کمرے کی جانب لے جا رہا تھا۔ بجائے مزاحمت کے، میں گھر بار کی مشکلوں کے بارے میں سوچتی رہی، کہ شاید کچھ رقم ملنے سے بہتری آ سکے۔ انہی سوچوں میں تھی کہ لڑکا مجھے کمرے میں داخل کرا چکا تھا۔ وہاں اندھیرا سا تھا، لڑکے نے پہلے ہاتھ لگائے اور پھر چادر چار دیواری کے تقدس کو پاؤں تلے روندا ڈالا۔

بھائی جان! یہاں تک تو میں سہ گئی مگر میرے پیروں تلے زمین تب نہ رہی جب وہ پانچوں کے پانچ مونچھوں کو تاؤ دیتے کمرے میں داخل ہوئے۔ میں نے منت سماجت کی، خدا، رسولوں، اماموں اور مزاروں کے واسطے دیے مگر انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، وہ انسان نما جانور اور وحشی مجھ پہ کھود پڑے اور میرے عزت و آبرو کو تار تار کر گئے۔

میں چیختی چلاتی رہی، مگر چار دیواروں، چھت اور سنسان مارکیٹ بیسمنٹ میں مجھ غریب کو کون سنتا؟
بھائی جان، ان بے حسوں و بے غیرتوں نے مجھے وہیں بے یار مددگار چھوڑ دیا اور چلتے بنے۔

سنسان بھوت بنگلے اور کچی زمین پہ پڑی میرے بدن میں آگ کے شعلے جلتے رہے، درد کی لہریں اٹھ رہی تھی، میری انگ انگ فریادی تھی، میں تکلیف سے بلبلا رہی تھی اور زار و قطار رو رہی تھی مگر وہاں کوئی آنسو پونچھنے والا نہ تھا۔

کچھ دیر بعد جسم کی ساری قوت جمع کر کے رینگتے لرزتے والدہ کی جانب بڑھی، مجھے دیکھتے ہی اماں سمجھ گئی مگر انجان بنی رہی۔

رات کو گھر آئے تو مجھ سے کھانا نہ کھایا گیا، والدہ پیالے میں یخنی لاتے ہی بولی، بیٹی اب یہی اپنا مقدر ہے، بازار جائیں گے تو بازاریوں کے ہاتھ تو چھیڑیں گے نا۔ تم کھانا کھا کے سو جاؤ، میں تمہارے ابا کے کپڑے بدل دوں۔

بھائی جان، اماں کا یک لخت کلیجہ تو پہلے ہی دو لخت ہو چکا تھا، والدہ کو میری تکلیفوں کا بھی اندازہ تھا۔ مگر وہ مجھ پہ ظاہر نہیں کر رہی تھی۔

اور میں، میں اکیلے ہی اپنے دوروں کی درماں بنی رہی۔
دوپٹے کے پلو سے وہ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی، اس کے گلے سے بغض کی آوازیں بھی آ رہی تھی۔

اس کی باتیں سن کے میری آنکھیں بھی بھر آئی۔ مگر میں سوائے افسوس کے اور کیا کر سکتا تھا۔ کچھ توقف کے بعد میں نے پوچھا،

دوبارہ کبھی تمہارے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آیا؟
بھکارن ہنستے ہوئے بولی،

بھائی جان! واقعہ نہیں واقعات ہوتے رہے ہیں، اس کے بعد تو نہ روکنے والا سلسلہ چل پڑا، بلکہ یہ تو روزمرہ کا معمول بن چکا، کبھی ٹرک بس اور ورکشاپوں کے استادوں نے زیر کیا، کبھی ریڑھی بانوں نے اپنا زور دکھایا تو کبھی خاکروبوں نے چت کیا۔

اماں نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ بازار جائیں گے تو بازاریوں کے بھینٹ تو چڑھتے رہے گے۔

بھائی جان! ہر بازاری نے من مرضی کی رقم دی، من مرضی کے بندے لائے اور من مرضی کے گالیاں دی، کپڑے پھاڑے اور کام لیا۔ یہی تو تھا اب روزی روٹی کا وسیلہ۔

لیکن بھائی جان ہم نے ہمیشہ ایمانداری سے کام کیا ہے، کبھی پیسے لے کر بھاگے نہیں، کبھی وقت اور جگہ طے کر کے وعدے سے مکرے نہیں، کبھی کام کے بعد دام نہیں بڑھائے اور نہ ہی کبھی چوری چکاری کی۔

سنا ہے دھندے میں بے ایمانی سے رزق میں برکت نہیں رہتی اور دوسرا یہ کہ مولا کا لگایا ہوا وسیلہ بند ہونے کا ڈر بھی ہے۔

بھکارن کی باتیں سن کے ہماری حیرت اور دلچسپی میں اضافہ ہوا۔ وہ تحمل سے بیٹھی رہی۔ ہم نے تسبیح ٹیبل پہ رکھی اور گویا ہوئے۔

”تمہاری شادی کیسے ہوئے؟“

بھکارن ہلکی سی مسکرائی، ہماری طرف دیکھتے شرمائی اور پھر اداسی کے عالم میں ایک اور لمبی سانس لیتے بولی،

بھائی جان! میں اور میری والدہ ایک دن مسجد کے باہر نمازیوں کے سامنے جھولی پھیلائے بیٹھے تھے کہ مجھ پہ ایک بوڑھی بھکاری عورت کی نظر پڑی، یہ پہلا موقع تھا جب کوئی بھکاری دوسری بھکاری سے بجائے سبقت لے جانے کے اسے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے اور چہرے پہ بجائے ماتم ظاہر کرنے کے خوشی کے آثار دکھائے دے رہے ہیں۔

بوڑھی بھکارن عورت میری والدہ کے پاس آئی اور میری تعریفوں کے ڈھیر لگاتے کہنے لگی، بہن تمہاری بیٹی تو بڑی پیاری ہے، ناز و نقش کی بھی اچھی ہے اور خوش الحان بھی ہے، بھیک مانگتے روتی ہے تو لوگ ترس کھاتے اس کی جھولی بھر رہے ہیں، واہ واہ

بوڑھی عورت نے خوشامدی پل باندھنے کے بعد بغیر وقت ضائع کیے والدہ سے اپنے بیٹے کے لئے میرے رشتے کی بات کی۔

اماں بھی جیسے انتظار میں تیار بیٹھی تھی، ادھر ابھی نمازیوں کی قطاریں آ رہی تھی اور ایک یہ لوگ تھے جو رشتے جوڑے جا رہے تھے۔

اماں نے لڑکے کے بارے پوچھا تو بوڑھی بھکارن بولی؛

بہن جی، میرا اچھا خاصا پیارا اکلوتا بیٹا ہے۔ ہزار پندرہ سو دن کی مزدوری کرتا ہے جبکہ پندرہ سو دو ہزار تو میں بھی سمیٹ لیتی ہوں۔ تمہاری شہزادی کو بیاہ کر لے جائیں گے تو کچھ ہاتھ پاؤں یہ بھی تو مارے گی نا۔ ہم تینوں کا زبردست اور خوشحال گزر بسر ہو گا۔

دو بوڑھی بھکارن عورتوں نے آپسی صلاح مشورے سے رشتہ طے کر لیا اور اٹھ کھڑے سامنے بیکری کی جانب دوڑے، وہاں منہ میٹھا کیا اور ایک عدد مٹھائی مسجد کے سامنے بھیک مانگتے میرے واسطے بھی لے آئے۔

بھائی جان! آپ نے تو سنا ہو گا، ”ایک فقیر کو دوسرا فقیر برا لگتا ہے“ لیکن دنیا میں پہلی مرتبہ کسی بھکارن کو دوسری بھکارن پسند آ گئی۔

بات پکی ہوئی تو رخصتی سے پہلے اماں نے دو چار دن مجھے گھر ہی بیٹھنے کو کہا، آخر کچھ دنوں کی مہمان جو ٹھہری۔ ہمارے ہاں رخصتی ہوتی ہے، شادی نہیں۔ والد بھی خوش تھے کہ بیٹی کی ذمہ داری ادا ہو گئی۔

بھائی جان! آپ کو یقین نہیں آئے گا، لیکن میں میک اپ، نئے کپڑوں اور نئے پیزار میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔ میں نے ہاتھوں پہ مہندی، گالوں پہ لالی، ماتھے پہ بندی اور سرخی بھی لگائی تھی۔

ایک ”بھکاری دلہن“ کے لئے یہ سنگار کسی فلمی ہیروئن کے میک اپ سے کم نہیں۔

رخصتی کے بعد پہلی مرتبہ لڑکے یعنی میرے دلہے کو میں نے دیکھا۔ اچھا تھا، خوبصورت اور جوان، کلین شیو اور چھوٹی چھوٹی مونچھیں رکھی تھی، سر کے بال پیچھے کو موڑے رعب دار نظر آ رہا تھا۔ شادی کے بعد دو چار دن تو خوب خاطر مدارت ہوئی۔ میاں تو میرے پاس سے ہٹتے ہی نہیں تھے۔ کہتے کہ تم پرستان سے خاص میرے لئے آئی ہو؛ حالانکہ مجھے تو ساس نے مسجد کے سامنے بھیک مانگتے دیکھا تھا۔

ہم نوبیاہتا جوڑے کی کھسر پھسر دیکھ کے ساس کی ساسو ممتا جاگ اٹھی۔ ابھی شادی کو ہفتہ ہفتہ چار دن ہوئے تھے کہ ساس نے مجھے کام پہ یعنی بھیک مانگنے بھیج دیا۔ خود گھر پہ ہی رہی کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔

بھائی جان! میں خوش تھی کہ میری شادی ہو گئی، در بدر سر بسجود اور رنگ برنگے بازاریوں کے بھینٹ نہ چھڑنے کی امید جو بندھ گئی۔

کہتے ہیں شادی نیا جیون دیتی ہے، میں اس جیون کی بہتری کے لئے لوگوں کے ہاتھ نہ آنے کی نیت کر چکی تھی۔ اس فیصلے سے دن بھر روپے کم ہی ہاتھ آتے، لیکن میرے اور شوہر کے رقم ملا کر اچھا گزارہ ہوتا رہا۔ میری شادی کے بعد ساس نے بھیک مانگنے سے پکی چھٹی کر لی تھی، مگر میں کچھ نہ بولی کہ بوڑھی ہے اب۔ ہم کما کے پورا کریں گے۔ مہینہ دو شوہر میرے ساتھ بہت اچھا رہا۔

کچھ عرصے میں میری کوکھ سے پھول کھلنے کو آیا اور میرا پاؤں بھاری ہونے لگا تو پھر سے اک امتحان میرا انتظار کرتے سامنے کھڑا تھا۔ شوہر پریگننسی حالت میں بیوی سے آنکھیں پھیرنا اور اپنا اصل تیور دیکھنا شروع ہو گیا۔ وہ دن بھر گھر میں آرام کرتا اور شام کے وقت مجھ سے پیسے لے کر نشہ کرتا یا دوسری بھکارنوں کے ساتھ منہ کالا کرتا۔

بھائی جان! میری بیماری دن بدن بڑھتی رہی، لیکن مجھے روزانہ کام پہ جانا پڑتا۔ اب اکیلے میں کتنا کما سکتی ہوں؟ پھر سے فاقے شروع ہوئے، پھر مشکلات بڑھ گئیں۔ اور پھر سے مجھے دھندا شروع کرنا پڑا۔

اب پھر روز کسی ٹرک بس کے ڈرائیور، کسی ورکشاپ کے مکینک، کسی خاک روب یا ریڑھی بان کی ہوس پوری کرنی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی لوگ آتے ہیں اپنی آگ بجھانے۔

بھکارن کی آہ و زاریاں سن کے میرے حواس شل ہو گئے۔ میں سوچ رہا تھا کیا یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں ہوتا رہا ہے؟

میں اسے جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ میرے سامنے زندہ مثال تھی۔

میں نے برائے اظہارِ تعزیت و افسوس کے لئے چند رسمی الفاظ کہے ( اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتا تھا؟ آخر ظالم معاشرے کے شہری جو ٹھہرے )

میں نے برائے معلومات اس سے پوچھا،
کیا کوئی بندہ خدا واسطے مدد کرتا ہے یا سبھی کی نظر نیچے ہے؟

بھائی جان! خدا اور خدا کی ماننے والے ہی فقیر کی مدد کرتے ہیں۔ ترس کھانے والوں میں زیادہ تر لوگوں کی اپنی غرض اور لالچ ہوتی ہے۔ کوئی ہمیں روپے دے کر ثواب کمانا چاہتا ہے تو کوئی اپنی ڈوبتی کشتی بچانے کی خاطر، کوئی نوکری کی تلاش میں خیرات کرتا ہے، تو کوئی اپنے بال بچے یا کاروبار کا صدقہ اتارتے ہیں۔

ان میں کچھ لوگ واقعی خدا ترس ہوتے ہیں، جنہیں ہم ایسے انسانوں پہ رحم آتا ہے۔
وہ خاموش ہوئی تو میں نے پوچھا،
تم جو امید سے تھی، تمہاری بیماری کا کیا بنا؟

بھائی جان! کیا بتاؤں، ہماری طرح اکثر لڑکیاں تو بچہ ضائع کر دیتی ہیں یا پیدا کر کے کچرے ڈھیر یا کھنڈر وغیرہ میں پھنک آتے ہیں۔ مگر میرے ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا۔

آوے کو کون روک سکتا ہے؟

میں سرکاری ہسپتال گئی تو بیڈ خالی نہیں تھے، نرسوں نے چیک کیا نہ ہی جگہ دی؛ لیکن میں وہی فرش پہ سر کی چادر اوڑھ کے لیٹ گئی۔ علی الصبح درد شروع ہوئے تو وہاں جھاڑو دینے والی ماسیوں نے میرا ساتھ دیا اور بچے کو میرے گود میں رکھ کر مبارکباد دی۔

بھائی جان! آپ جو سنتے ہیں نا کہ ہسپتال میں بیڈ نہ ملنے پر عورت نے زمین پہ بچہ جنا، دراصل وہ ہم لوگ ہی ہوتے ہیں۔

خدا جانے بھکارن اپنا واقعہ سنا رہی تھی یا مجھے آئینہ دیکھا رہی تھی۔

پتہ نہیں کیوں میرے پاس اس کی باتوں کے جواب نہیں تھے، بھکارن سے پوچھنے کے لئے صرف سوال ہی تھے جو پوچھے جا رہا تھا۔

اس کی ساری باتیں سن کے میں نے پوچھا،
”کیا تم ایسی ہی زندگی گزارو گی یا یہ سب چھوڑ کر اچھی زندگی گزارنے کی طرف آؤ گی؟
اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور پوچھا، اچھی زندگی سے کیا مراد ہے آپ کی؟
نیز یہ اچھی زندگی ہوتی کیا ہے؟
کیا اچھی زندگی چاہنے سے مل بھی جاتی ہے؟
کیا دنیا والے ہمیں اچھی زندگی گزارنے دیں گے؟

ایک مرتبہ پھر اس نے مجھے لاجواب کر دیا۔ میرے معصومانہ سوالوں کو وہ مجرمانہ ثابت کر گئی اور مجھے اپنا آپ بے حس لگنے لگا۔

اس کا چہرہ سرخ ہوا اور شاید وہ اشتعال کے قریب تھی۔ مجھے لگا مجھ سے لڑ پڑے گی یا وہ اپنے ہی بال نوچ ڈالے گی۔

بھکارن نے بڑے کڑک لہجے اور سیدھے سادے الفاظ میں کہا،
کیا آپ یا آپ جیسے باقی لوگ مجھے اچھی زندگی دلا سکتے ہیں؟ نہیں نا۔
کیا آپ یا آپ جیسے باقی لوگ آج کے بعد مجھے بغیر دھندے کیے پیسے دیں گے؟ نہیں نا!
کیا آپ یا آپ جیسے باقی لوگ ہمارے ساتھ نا انصافی کرنے والوں کو کٹہرے میں لائے گے؟ نہیں نا!
کیا آپ یا آپ جیسے باقی لوگ ہمارے سر پہ ہاتھ رکھ کر اپنائیں گے؟ نہیں نا!
تو پھر ہم کیسے اچھی زندگی کا خواب دیکھ سکتے ہیں؟
آپ لوگوں کے لئے ہم کھیل کھلونے کی مانند ہیں ؛ جسے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھنک دیتے ہو۔
تف ہے انسان کہلانے والوں پر،
تف ہے ایسے نیکیوں اور ایسے نیکو کاروں پر!

جب تک معاشرے میں ظلم کا نظام موجود ہے، ہم ایسے بھاری لوگ ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اور ہمیشہ دس بیس روپوں کے لئے اپنی عزتیں لٹواتی رہیں گے ؛ کیونکہ جینا تو ہے۔

اس نے پھر اپنے پٹے پرانے دوپٹے کے پلو سے آنسو پونچھے۔ تھوڑی دیر خاموش رہی، پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور بڑے عاجزانہ انداز میں پرامید ہو کر شروع کے الفاظ کہے،

”بھائی جان، اللہ کے نام کچھ امداد کرو، کھانے کے واسطے کچھ نہیں، غریب کے بچے دعا بھیجیں گے“
میرا گھنٹہ ڈیڑھ بھکارن کی روداد سنے میں صرف ہوا تھا۔ اٹھ کھڑا ہوا اور کہا،
”معاف کرو بابا، آگے جاؤ“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments