محمد عثمان جامعی کی فکاہیہ تصنیف: چپ رہا نہیں جاتا
پاکستان میں ادیب و شاعر حضرات روزی روٹی کے لئے صحافت کے شعبے میں آتے رہے ہیں خواہ وہ فیض احمد فیض جیسے عظیم شاعر ہوں یا خدا کی بستی کے خالق شوکت صدیقی۔ اور بھی ایسے بہت سے نام ہیں۔ کاش ہم اپنے شاعروں اور ادیبوں کو فکر معاش سے بے نیاز اور صرف کتابوں کی رائلٹی پر آسودہ حالی فراہم کر سکتے۔ اگر کسی ترقی یافتہ مغربی ملک میں رہتے ہوئے عثمان جامعی نے وہاں کے سیاسی حالات کے بارے میں، سر سید، سینتالیس، سیکٹر انچارج جیسا ناول لکھا ہوتا تو وہ بیسٹ سیلر کا درجہ پاتا اور کئی ایوارڈ حاصل کرتا۔
مگر پاکستان میں ادب، شاعری اور صحافت ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں کیونکہ عثمان جیسے نابغوں کو گھر بھی چلانا ہوتا ہے۔ عثمان جامعی سے میرا پہلا تعارف روزنامہ ایکسپریس میں احفاظ کی میگزین ٹیم کے ایک انتہائی با صلاحیت رکن کے طور پر ہوا۔ خود احفاظ بھی انہیں اپنے جانشین کے طور پر دیکھتے تھے۔ اب جامعی کی طنز و مزاح پر مبنی تحریروں کا مجموعہ ’چپ رہا نہیں جاتا‘ سامنے آیا ہے تو وہ اس دور میں شفیق الرحمٰن اور مشتاق احمد یوسفی کی روایت کو آگے بڑھاتے نظر آتے ہیں۔
اس کا اندازہ آپ کو ان کی تحریروں کے عنوانات سے ہی ہو جاتا ہے جیسے ”میاں بکتا ہے۔ بولو خریدو گی؟“ ۔ یا ”ایک انڈا ادھر آیا ہے تو اس سوچ میں ہوں“ اسی طرح ”کتوں کی طبقاتی تقسیم“ میں لکھتے ہیں۔ ’کتے دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ”ایک کتا اور دوسرا بہت ہی کتا“ اسی طرح فیس بک ہے مجبوری، کیسے ہو دوری ”میں لکھتے ہیں :‘ ہمارے ایک دوست نے اپنے صاحبزادے کے سامنے انکشاف کیا کہ ان کی نوجوانی کے زمانے میں فیس بک نہیں تھی۔
صاحب زادے نے چونک کر اینڈرائیڈ فون سے نظریں ہٹائیں اور کچھ دیر والد کو حیرت سے تکتے رہے، جس کے بعد انہوں نے دو باتیں کیں“ ابو، آپ نے داڑھی کب رکھی؟ دراصل بہت دنوں بعد آپ کی شکل دیکھی ہے۔ ’۔ اس سوال کے بعد بولے ”اچھا آپ کے دور میں فیس بک نہیں تھی۔ تب تو بڑی فراغت ہو گی۔ کچھ کر لیتے!“ ۔ یہ سن کر موصوف کا فیس ریڈ بک ہو گیا۔ اسی طرح ”ہوتا سپر مین جو پاکستان میں“ ہمارے تہذیبی رویوں کی عکاسی کی گئی ہے۔
شفیق الرحمٰن کے جملوں کی طرح ان کے بھی بہت سے جملے قارئین کے ذہن سے چپک کر رہ جائیں گے اور سالوں بعد بھی انہیں یاد آئیں گے۔ جیسے بچپن میں پڑھا ہوا شفیق الرحمٰن کا یہ جملہ مجھے آج بھی یاد آتا ہے، ”گیند آئی اور شیطان کے ہاتھ سے چپک گئی“ ۔ اسی طرح عثمان کے بھی بہت سے جملے ہیں جنہیں پڑھ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ آتی ہے اور اکثر ہنسی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہاں میں ان کے کالم ”نثری قصیدہ۔ صحافت کی نئی صنف“ کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گی۔
اپنی ہم پیشہ برادری کو آئینہ دکھانا آسان نہیں ہوتا لیکن عثمان ہنستے مسکراتے بہت سے قصیدہ گو صحافیوں کو آئینہ دکھا گئے۔ اس سے بھی بڑھ کر ان کا کالم ”نوبل انعام کے صحیح حق دار“ ہے۔ ظاہر ہے میں یہاں پورا کالم نقل نہیں کر سکتی۔ صرف راؤ انوار کے بارے میں دو چار سطریں پڑھ لیں جنہیں آصف زرداری پیار سے بہادر بچہ کہتے ہیں۔ پروین شاکر کو ایسے بچوں سے واسطہ نہیں پڑا تھا ورنہ وہ‘ بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے ’والا شعر یوں کہتیں۔
”جگنو پہ بھی یہ گولی برسنے کی ضد کریں۔ بچے ہمارے عہد کے سفاک ہو گئے۔ میں اپنی بات ان کی سلیکٹڈ تحریر کے ساتھ ختم کروں گی۔ ویسے بھی پچھلے چند سالوں سے سلیکٹ کا لفظ بہت سننے میں آ رہا ہے۔ عثمان جامعی نے اساتذہ کے کلام میں اس کو دیکھا ہے اگر میر تقی میر کہتے تو یوں کہتے : آگ تھے ابتدائے عشق میں ہم۔ اب سلیکٹڈ ہیں انتہا ہے یہ۔ غالب اس لفظ کو یوں استعمال میں لاتے : آگے آتی تھی سلیکٹڈ پہ ہنسی۔ اب کسی بات پر نہیں آتی۔ علامہ اقبال اپنے کلام میں اسے یوں لاتے : ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے۔ بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں سلیکٹڈ پیدا۔ اس کے علاوہ قربانی کے جانوروں کا ایک مکالمہ پڑھنا نہ بھولئے گا، کیسے لوگ مذہبی فرائض بھی کرپشن کی آمدنی سے ادا کرتے ہیں۔
- چوتھے ستون کا مرثیہ - 28/09/2024
- پولیو ورکر کا ریپ: پدر سری معاشرے کی بد صورتی کی بدترین مثال - 26/09/2024
- لیبر فورس میں عورتوں کی شمولیت: رکاوٹیں - 25/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).