نور مقدم قتل کیس: ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد، ریپ کے جرم میں بھی موت کی سزا سنا دی گئی


اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت کے خلاف اپیل ناصرف مسترد کر دی ہے بلکہ ریپ کے جرم میں انھیں دی گئی سزا میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے 24 فروری 2022 کو ظاہر جعفر کو قتل کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنائے جانے کے ساتھ ساتھ ریپ کے الزام کے تحت 25 سال قید بامشقت، اغوا کا جرم ثابت ہونے پر دس سال قید جبکہ دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ اسی کیس میں مقامی عدالت کی طرف سے ظاہر جعفر کے ملازمین کو دس، دس سال قید کی سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔

تاہم مقامی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی۔

پیر کے روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے اس کیس میں محفوظ فیصلہ سُناتے ہوئے ناصرف ٹرائل کورٹ کی سزاؤں کو برقرار رکھا بلکہ ریپ کے جرم میں ظاہر جعفر کو دی گئی 25 سال قید بامشقت کی سزا کو بھی سزائے موت میں بدل دیا۔

یاد رہے کہ 27 سالہ نور مقدم کو 20 جولائی 2021 کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون فور کے ایک مکان میں قتل کر دیا گیا تھا اور اسی روز پولیس نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو گرفتار کر لیا تھا۔

مقامی عدالت نے اس مقدمے میں 24 فروری 2022 کو ظاہر جعفر کو سزائے موت جبکہ ان کے دو ملازمین جان محمد اور افتخار کو دس، دس سال قید کی سزا سُنائی تھی۔ ظاہر جعفر کے والدین ذاکر جعفر اور عصمت آدم جی سمیت مقدمے میں نامزد دیگر ملزمان کو بری کر دیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے متعدد سماعتوں کے بعد اس کیس میں فیصلہ 22 دسمبر 2022 کو محفوظ کیا گیا تھا جو آج سنایا گیا ہے۔

ظاہر جعفر

اس مقدمۂ قتل میں مجموعی طور پر 12 ملزمان شامل تفتیش رہے جن میں سے چار ملزمان یعنی مرکزی ملزم ظاہر جعفر، اُن کے والد ذاکر جعفر، سکیورٹی گارڈ افتخار اور مالی جان محمد زیرِ حراست بھی رہے۔

دیگر آٹھ ملزمان کو ٹرائل کورٹ میں دورانِ سماعت ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔ رہائی پانے والوں میں سے چھ ملزمان تھیراپی ورکس کے ملازمین تھے جبکہ دیگر دو میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی والدہ اور اُن کا باورچی جمیل شامل تھے۔

ملزمان پر 14 اکتوبر 2021 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی اور مقدمے کا فیصلہ فرد جرم عائد ہونے کے لگ بھگ 17 ہفتے بعد ہوا تھا۔

عمومی طور پر پاکستانی عدالتوں میں قتل کے مقدمات کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں ہوتا تاہم اس مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں اس مقدمے کا فیصلہ سُنانے کا حکم دیا تھا۔

مقررہ مدت تک مقدمے کا فیصلہ نہ ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے مقررہ مدت میں چھ ہفتے کی توسیع کی اور جب اس دوران بھی فیصلہ نہ ہو سکا تو پھر ٹرائل کورٹ کے جج کی درخواست پر اس میں مزید چار ہفتوں کی توسیع کر دی گئی تھی۔

نور مقدم کا قتل

وہ گھر

وہ گھر جہاں نور مقدم کو قتل کیا گیا تھا

سنہ 2021 میں عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل جب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تہوار کی تیاریاں عروج پر تھیں تو اچانک ٹی وی چینلز پر شہر کے بیچوں بیچ ایک لڑکی کے قتل کی خبر نشر ہونا شروع ہوئی۔

وقت کے ساتھ اس قتل کی افسوسناک تفصیلات سامنے آنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس خبر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔20 جولائی کی شب اسلام آباد کے تھانہ کوہسار کو موصول ہونے والی ایک فون کال سے لے کر سات ماہ تک جاری رہنے والی عدالتی کارروائی تک 27 سالہ نور مقدم کا قتل ملک میں خواتین کے خلاف جرائم، ان کے عدم تحفظ اور اس سے منسلک بحث کا مرکز بن گیا تھا۔

جب پولیس اس شب ایف سیون میں موجود مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر پہنچی تو ملزم موقع پر موجود تھا جبکہ نور مقدم کی موت واقع ہو چکی تھی۔

نور مقدم کے والد سابق سفارت کار شوکت مقدم کی مدعیت میں درج ایف آئی آر کے مطابق ‘گھر کے اندر جا کر دیکھا تو میری بیٹی کو بے دردی سے تیز دھار آلے سے قتل کر کے اس کا سر جسم سے کاٹ کر الگ کر دیا گیا تھا۔’

سر تن سے جدا کر کے قتل کرنے کی مخصوص تفصیل دل دہلا دینے والی تھی لیکن جوں جوں کیس کی تحقیقات آگے بڑھتی گئیں، نور مقدم کی موت کے حوالے سے مزید کربناک تفصیلات سامنے آتی رہیں۔

جہاں نور مقدم کے قتل کی مذمت کی جا رہی تھی وہیں اس مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی ایک تصویر بھی شیئر کی جا رہی تھی جس میں وہ زمین پر منھ کے بل لیٹے ہوئے تھے، ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ان کے کپڑوں پر خون کے نشانات واضح تھے۔ اس وحشیانہ قتل کی تفصیلات وقتاً فوقتاً پولیس کی ابتدائی تفتیش کے ذریعے سامنے آنا شروع ہوئیں تو اکثر افراد کے سنگین خدشات سچ ثابت ہونے لگے۔

مقدمے کے آغاز ہی سے ایک بات تو واضح تھی اور وہ یہ کہ یہ مقدمہ جتنا عدالت میں لڑا جانا تھا، اتنی ہی بحث اس پر سوشل میڈیا پر کی جانی تھی۔

اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اس قتل کا نوٹس لیا گیا تھا اور پولیس کو سائنسی بنیادوں پر تفتیش کرنے کا کہا گیا تھا۔ بلآخر ٹرائل کورٹ میں متعدد سنسنی خیز پیشیوں کے بعد عدالت نے ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر سزائے موت، قید بامشقت اور جرمانے جیسی سزائیں سنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32491 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments