پشتونخوا وطن کے افتادگان خاک کی خواہشات


یوں تو کہا جاتا ہے کہ خواہشات پر کوئی پابندی نہیں اور یہ سچ بھی ہے کہ خواہشات پر پابندی ہو بھی نہیں سکتی۔ روئے زمین پر موجود اربوں انسان دل میں کوئی نہ کوئی خواہش لے کر پھرتے ہیں۔ کسی کے خواہشات پورے اور کسی کے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ کسی کے خواہشات بڑے، کسی کے چھوٹے چھوٹے خواہشات ہوتے ہیں۔ ایک انسان کے بڑے خواہشات دوسرے کے لئے چھوٹے بھی ہوسکتے اور کسی کے چھوٹے خواہشات کسی کے لئے بڑے ہوسکتے ہیں۔ ان خواہشات کا تعین انسان کی اپنی اور اس کے ارد گرد کی مادی حالت کرتی ہیں۔ کسی سرمایہ دار کے بیٹے کی فراری گاڑی لینے کی خواہش اور کسی غریب کی یہ خواہش کہ بیٹی کی عزت سے شادی کروا سکے ان کے ارد گرد کے مادی حالت کی عکاسی کرتی ہیں۔

دریائے آمو سے اباسین دریا کے درمیان واقع خطے میں آباد کروڑوں پشتون بھی اپنے دلوں میں چند خواہشات لے کر پھرتے ہیں جو کہ شاید ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے لئے چھوٹی خواہشات ہوں لیکن یہاں بہت بڑی اہمیت کے حامل خواہشات تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ پشتون افتادگان خاک کی خواہش ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے اس پار خیبر پشتونخوا، اٹک، میانوالی اور بلوچستان میں موجود پشتون اضلاع پر مشتمل ایک علیحدہ صوبے پشتونستان کا قیام ہو تا کہ پشتون ملی وحدت و ملی تشخص قائم ہو۔

یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ پشتون وطن میں موجود خدا کی نعمتوں پانی، گیس، تیل، کوئلہ، کرومائیٹ، فلورائیڈ، زمرد، ماربل وغیرہ پر یہاں کے باشندوں کا پہلا حق تسلیم کیا جائے۔ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ملک بھر میں پشتونوں کے ساتھ نسلی امتیاز نہ رکھا جائے، ان پر لطیفے نہ بنائے جائیں، ڈراموں اور فلموں میں ان کو دہشت گرد، انتہا پسند، و جنگجو نہ دکھایا جائے۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے مادر وطن کو سامراجی جنگوں کے لئے میدان جنگ نہ بنایا جائے، ان کے بچوں کی غلط برین واشنگ کر کے انہیں جنگ کا ایندھن نہ بنایا جائے، ان کے مادر وطن کو ایک وار تھیٹر نہ بنایا جائے۔

یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی گلیوں اور سڑکوں پر موجود چیک پوسٹیں ان کی تذلیل نہ کریں۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے وطن میں جبری گمشدگی، ماورائے آئین قتل، ٹارگٹ کلنگز، لینڈ مائنز اور مصلح جتھوں کا خاتمہ ہو۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ دنیا یہ حقیقت جان سکے کہ یہ دہشتگرد نہیں بلکہ ان پر دہشتگردی مسلط کی گئی جس میں ان کا وطن جل کر راکھ ہوا، ان کے بچے مرے، عورتیں بیوہ، بچے یتیم، گھر و دکانیں تباہ اور ان کی عزتیں منڈیوں میں نیلام ہوں۔

یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کو بچوں کو جدید تعلیم اور صحت کی سہولیات ملیں۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے وطن میں موجود یونیورسٹیاں کسی فوجی چھاؤنی کا منظر پیش نہ کریں۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے وطن میں عزت کا روزگار ملے تاکہ عرب ممالک، کراچی و پنجاب کی سخت گرمی میں مسافری سے ان کی جان چھوٹے۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ پشتو ان کی قومی زبان ہو اور یہی ان کے وطن کی دفتری، عدالتی و تعلیمی زبان ہو۔ یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے لباس، زبان، ثقافت کا احترام ہو۔

یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی رائے (ووٹ) کا احترام ہو، پاکستان میں پارلیمان کی بالادستی ہو، داخلہ و خارجہ پالیسی پارلیمان بنائے، سینیٹ با اختیار ہو، قوموں کے درمیان برابری ہو، سویلین سپریمیسی ہو، میڈیا آزاد و غیر جانبدار ہو، تمام ادارے آئین کے متعین کردہ حدود میں کام کریں، افغانستان میں یہاں سے مداخلت بند ہو۔

یہ پشتون خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں انسان سمجھا جائے۔

ان خواہشات کو دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کے اور ان کے ارد گرد کے مادی حالات کیا ہوں گے ۔ البتہ یہ بات بھی یاد رکھ لینی چاہیے کہ خواہشات ہر ایک کے لئے صرف خواہشات کی حیثیت نہیں رکھتی۔ کچھ لوگ اپنے خواہشات کی تکمیل کو ہی زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں اور پھر اس راہ میں آنے والی ہر مصیبت کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتے ہیں۔ پشتونخوا وطن میں بھی ایسے لوگ ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں جو ان خواہشات کی تکمیل کو اپنے مقاصد بنا چکے ہیں اور یہ افراد ”سیاسی کارکنان“ کہلاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments