غبارہ موومنٹ کا جوکر


فنکار (اگر واقعی فنکار ہو تو ) اپنے کام، اطوار، روئیے، اور گفتگو (فن کارانہ و غیر فن کارانہ) کے علاوہ اپنے بظاہر حلیے اور ظاہراً شخصیت سے بھی جان لیا جاتا ہے۔ اور اس جاننے سے پہچاننے کی ابتدا ہوتی ہے۔

میرا پہلا تعارف ان کے اسی ظاہراً فن کارانہ لک سے ہوا تھا۔ یہ 2007 کے غروب ہونے سے ذرا پہلے مہینوں کی بات ہے جب میں ہر شام اپنی کچی پکی نظموں، غزلوں سمیت گول باغ پہنچ کر عمران ازفر اور ریحان اقبال کی سماعتوں کا منتظر رہتا۔ اس شام چائے خانے کی میز پر اک اور فرد بھی موجود تھا۔ جس کی باریک کمر کرسی کی پشت سے ٹکی تھی اور بازو مسلسل نلکے کی ہتھی کی طرح حرکت کرتا، کہ میز پر سموسے کی پلیٹ موجود تھی۔ پھر اس نے پانی کا آدھ بھرا گلاس گلے میں اتارا اور گھنی چمکتی (چمکنے کا راز کڑوے تیل کا ملنا بعد میں معلوم پڑا) لشکارے مارتی مونچھوں کو صاف کیا، چائے کی بالائی پر پھونک مارتے ہوئے چسکی لی، میز پر پڑی مارون کی بڑی ڈبیا (بڑی اس لئے کہ اس وقت تک 10 سگریٹ کی چھوٹی ڈبیا بھی میسر تھی) کو ، کور سے جھٹکا دے کر کھولا، سگریٹ نکالی، آگ دی، طویل کش لیا، ہوا کا مرغولہ ہوا میں چھوڑا۔ یہ تھے احمد ندیم تونسوی۔

اس مختصر سے تعارف کے بعد اکثر گول باغ سے ملحقہ چائے خانے میں نظر آنے لگے۔ کبھی کبھی دوستوں کے ہمراہ ان سے ملاقاتیں بھی ہو جاتیں، مگر ہمارے درمیان بھی گفتگو نہ ہوئی۔ جب ایک دن غزل کے کسی شعر پر وہ اچانک بولے۔ ’کہنا کیا چاہتے ہو؟‘ میں نے عرض کی۔ ’ہاں مگر بات تو ساری ہے سلیقے کی، پیش کش کی، بیان کی، جو بات بناتا بھی ہے، بگاڑتا بھی۔ وہی کسی بھی چیز کو بامعنی بھی کرتا ہے اور بے معنی بھی۔ تو شعر یا تو بے معنی ہوتا ہے یا با معنی، یعنی شعر یا تو شعر ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔

میں نے کچھ سمجھنے کی کوشش کی تھی مگر سمجھ نہ سکا تھا۔ کرخت اور تیکھے لہجے نے مزید سوال پوچھنے کی ہمت نا چھوڑی تھی۔ اگلا روز افسانے کا تھا۔ اور مجھے حیرت ہوئی۔ انہوں نے بنا کچھ اور کہے پوچھے بغیر بس اک تھپکی دی اور کہا ’ہاں بچے افسانہ لکھا کر ۔ غالب کے بعد غزل میں کچھ باقی نہیں ہاں البتہ افسانہ منٹو کے بعد ہو سکتا ہے۔‘ اس دن کے بعد یہی معلوم پڑا وہ صاحب اسلام آباد جا چکے ہیں۔ مجھے نہ یہ معلوم تھا وہ کون ہے، یہاں کہاں، کس کے پاس، کس لئے آیا تھا اور وہاں کب، کس لئے، کس کے پاس چلا گیا ہے۔ مگر وہ مجھے افسانہ لکھنے کی ہمت دے گیا۔

ان سے دوسرا تعارف ان کے افسانوں کے ذریعے ہوا اور تب جاننے سے پہچاننے والے معاملے کی پیچیدگیاں کم پڑنے لگیں۔ پہلے حیرت اور پھر یقین ہوا کہ واقعی منٹو کے بعد افسانے میں گنجائش باقی ہے۔ جیسے جیسے افسانے ملتے چلے گئے میں پڑھتا چلا گیا، پڑھتا چلا گیا۔

اس کے بعد انہیں ملتان آرٹس فورم کی ہفتہ وار نشستوں میں دیکھا۔ پر معاملات میں ابھی بھی پیچیدگی باقی تھی۔ کبھی وہ اجلاس کے دوران ہی اگلی نشست کی پشت پر کہنیاں موڑے، بازوں سے رحل بنائے سو جاتے۔ اور کبھی اچانک کسی تحریر، نظم یا شعر پر آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتے تو حرف، لفظ، جملے، پیراگراف اور پوری تحریر کے پرخچے اڑ جاتے یا شعر بے معنی ہو جاتا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو وہ کرسی پر اکڑوں خاموش بیٹھے رہتے کہ منٹو کے افسانے ’قبض‘ کا کردار یاد آنے لگتا۔

اور کبھی انتہائی خوش گوار جذباتیت میں کوئی چیز پسند آ جانے پر تخلیق کار کا نام یا لالہ کہہ کر ۔ آہا، آہا۔ واہ خوب ہے کی حقیقی صوتیات سے پورے اجلاس کو روشناس فرماتے۔ غزل پر گفتگو سے بچنے کے لئے اکثر چشمہ نہ ہونے کا بہانہ کرتے اور کہنیوں کی رحل میں چہرہ چھپائے اگلی نشست کی پشت پر پھر سو جاتے۔ میں تب بھی یہی سوچتا تھا ’یہ آدمی یا تو غزل سے بے انتہا نفرت کرتا ہے یا بے پناہ محبت‘ ۔ اسی لئے تو ان کا مطالبہ ہے۔ ’ملک آزاد ہو سکتا ہے، محمد حسین، ابوالکلام، اور نظم آزاد ہو سکتی ہے تو غزل کیوں نہیں؟‘

ان کا ملتان سے اسلو (وہ اسلام آباد کو یہی کہتے ہیں) آنا جانا یوں ہی قائم ہے۔ مگر جب وہ ملتان ہو تو آپ انہیں گول باغ کے قریب چائے خانے پر پا سکتے ہیں کہ یہی ان کا ٹھکانا ہے اور درحقیقت یہ چائے خانہ انہیں کی رونقوں سے آباد ہے (کم از کم نوجوان ادیبوں کے لئے)۔ تقریباً تمام دوست بالخصوص خالد سعید تو ان کی موجودگی میں تباش کی دال تغاری نوش فرمانے کے قائل ہیں۔ یوں تو وہ گول باغ کے بارے میں کہتے ہیں۔ ”گول باغ بھی عجیب دنیا ہے پیارے، اک بار کسی میں گھس جائے تو جان نہیں چھوڑتی۔

“ اور یہی حقیقت ہے آپ ان کے ساتھ وہاں موجود ہیں تو 1 / 2 یا 2 / 3 چائے کی پیالیوں پر تمام الجھنوں سے آزاد ادب، آرٹ، فن، فلم، اور بالخصوص منٹو اور یوسفی پر بات کر سکتے ہیں کہ وہ منٹو کو سب سے بڑا کہانی کار اور یوسفی کو گزشتہ و موجودہ صدی کا سب سے بڑا نثار نہ صرف خود تسلیم کرتے ہیں بلکہ آپ کو بھی منوا کر رہتے ہیں۔ وہ خود جس طرح آسائشوں نما الجھنوں سے پاک، سادہ، اور آسان زندگی جی رہے ہیں وہ پیچیدگیوں کی شکل میں انہیں ایک پراسرار پیراڈاکس بنا دیتی ہے۔ بنا کسی ریپر، وال پیپر، اور کیمو فلاج کے۔ در حقیقت یہ سادگی ان کی زندگی کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ چونکہ ان کے ساتھ انہوں کے کمپرومائز بھی کیا ہے اڈجسٹمنٹ بھی۔

اگر وہ خوش گوار موڈ میں ہو تو ان کا مخصوص قہقہہ کثرت سے سنا جا سکتا ہے۔ جو ٹھہر ٹھہر کر ان کے گلے سے برآمد ہوتا ہے۔ اور خاصی دیر تک گونجتا رہتا ہے۔ اس موڈ میں وہ خوش گوار طبیعت کا پردہ موٹی آواز پر ڈال کر آپ کو کسی خوب صورت گیت کی یاد دلا دیتے ہیں اور کسی فقیر غریب کو اپنے لنگر سے چائے بھی پلا دیتے ہیں، وگرنہ اس خوش گواری کی غیر موجودگی میں وہ خاموش بیٹھے سڑک پر گزرتے ہجوم کے ساتھ اپنی آنکھوں اور کبھی کبھی چہرے کو دائیں سے بائیں گھماتے رہیں گے اور ایسے موقع پر کسی غریب فقیر کو روپیہ دو یا ایک سگریٹ دینے سے بھی انکار کر کے بھگا دیں گے۔

چائے کے دوروں کے بعد صاحب ملازمت دوستوں کو سبز یا ہری پتی میز پر پٹخنے کا کہنے کے بعد وہ واحد غیر ملازم ہوں گے جن کی پتی سب سے پہلے گرے گی۔ کتاب کے اشاعتی مراحل میں کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور درستی سے جتنی انہیں کوفت اور چڑ ہے بعین اتنی ہی کسی بھی ملازمت کے لئے انٹر ویو دینے سے، سو کسی بھی قسم کی ملازمت سے آزاد ہیں۔

وہ کسی بھی نوجوان تخلیق کار، شاگرد یا جونیئر سے زندگی، فن، تجربات اور معاشقوں (صرف اس کے ) پر کھل کر بات کرنے کے قائل ہیں۔ مگر صد شکر کہ ان سینئرز میں شامل نہیں جو اچھا افسانہ لکھنے لے لئے چرس پینے کو لازم و ملزوم جانتے ہیں۔ وہ نوجوانوں (صرف تخلیقی) شاعروں (صرف نثری نظم کے) اور فلموں (سیونٹیز کی آؤٹ ڈور) کو جتنا پسند کرتے ہیں اتنا ہی خواتین، نقادوں اور نالائق پروفیسروں سے ڈرتے ہیں۔

جوانی میں ہاکی کے اچھے کھلاڑی تو تھے ہی یقیناً اچھے آوارہ گرد بھی ہوں گے۔ نوے کی دہائی کی ابتدا میں انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے بعد 12 ویں صدی کی ابتدا میں اپنے ایم۔ فل کے زمانہ طالب علمی کو زندگی کا سنہری وقت سمجھتے ہیں۔ جی تو وہ آج بھی زمانہ طالب علمی کی زندگی رہے ہیں، اسی نوسٹیلجیا میں، اسی طرز میں۔ اگر ان کے کمرے کا دورہ کیا جائے تو تمام بے ترتیبی اور بکھراؤ میں جو ایک واحد چیز آپ کو ترتیب اور سلیقے میں نظر آئے گی، وہ کتابیں، اخباری تراشے یا ان کی اپنی تحریروں کے کچھ کاغذ ہو سکتے ہیں۔

عموماً ادیبوں کی طرح کتابوں، کاغذوں کے انبار اور میلے کے شوقین نہیں۔ شیلف پر بھی وہی کتابیں سجاتے ہیں جو پڑھنا چاہتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں چونکہ کچھ کتابیں پڑھنے کے لئے ہوتی ہیں اور کچھ ان کی تحریر شدہ زبان کو جاننے کے باوجود سرے سے پڑھی ہی نہیں جا سکتی۔ اچھا قاری اچھے قصاب کی طرح کتاب کو دیکھتے ہی تحریر کے ریشے ریشے سے واقف ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی اکثر پڑھی لکھی کلاس کی طرح لباس و غذا کے کریزی نہیں نہ ہی انگریزی زبان بولنے کے خود ساختہ ٹھیکیدار ہیں۔ مزاح اور گالیوں کے لئے مادری زبان پسند کرتے ہیں۔ ایک بار مجھ سے پوچھا ’معلوم ہے جوکر ہے کیا؟‘ میں نے منٹو کے ٹھنڈا گوشت سے جواب کی کوئی سبیل ڈھونڈی مگر انہوں نے ہاتھ سے لغو اشارہ کرتے ہوئے اپنے لئے اردو کا ناون اور عضو کے لئے سرائیکی کا ناون استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ جوکر کیا ہے۔ اب مجھے تاش کا جو کر ہمیشہ نااہل لگتا ہے۔

تمام گرمیاں ٹی شرٹوں اور سردیاں لوکار اوڑھے گزار دیتے ہیں۔ ہاں البتہ با وقت ضرورت انگریزی زبان و لباس کے استعمال سے کتراتے نہیں۔ ہر چیز کے متعلق بنا کسی دیر کے اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں مگر اکثر اس کے اظہار سے گریز کرتے ہیں اور کبھی کبھی بنا کسی تاخیر کے فوراً اک فیصلے کی صورت سنا دیتے ہیں۔ یہی حال کچھ لکھنے کا ہے نہ لکھیں تو برسوں نہ لکھیں اور لکھنے بیٹھیں تو بعد از عشا لکھنے بیٹھے تو فجر سے پہلے مکمل کیے، بنا فجر ادا کیے سو جائیں۔

آج کے لکھنے والوں کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ چھپنے اور پڑھنے کو ان کے پاس اچھے میڈیم اور فورمز موجود ہیں۔ اسی لئے اپنے دور کے ان اساتذہ سے جو ’ہم ہی تو سب ہیں‘ کے اصول پر جیتے تھے آج بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی کرتے تھے۔ جتنے کم لیکھک انہیں بھاتے ہیں اس سے کہیں کم لیکھتوں کو پسند کرتے ہیں۔ متن کو مصنف سے الگ رکھ کر اس کا لطف لینے اور ڈی کنسٹرکشن کے قائل ہیں۔ فلیپ اور دیباچوں کو مصنف اور قاری کے درمیان ہڈی تصور کرتے ہیں اور صرف بھلے نین نقشے والے مصنفین کی تصاویر کا کتاب پر ہونے کا کہتے ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے اگر ان کی کتاب کبھی آئی تو مع تصویر و بنا فلیپ و دیباچوں کے ہو گی۔

سنہ 85 میں ملتان آئے اور یہی کے ہو رہے۔ تمام دوستوں کو ہمیشہ یہیں رکنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ملتان سے محبت کا عالم یہ کہ اگر بس چلے تو کل محبوب مخلوق کے ساتھ صرف سردیوں اور بہار میں ملتان آ بسیں۔ باقی دنوں میں تو خیر۔ ”گرد، گرما، گدا و گورستان۔“

وہ آپ کو مختلف نسلوں اور ذاتوں کی خواتین کے طرز محبت اور ان کے تعلقات کی نوعیت پر ایک مفت لیکچر دینے کی اہلیت کے حامل ہیں۔ بنا یہ بتائے آیا وہ ان ذات پات اور قبائل کی تقسیم پر یقین بھی رکھتے ہیں کہ نہیں۔ ان کی پسند کا معیار غیر معمولی پن ہے بھلے وہ صرف کرداروں میں ہی کیوں نہ جھلکتا ہو پھر وہ اس کردار سے کسی بھی حقیقی وجود جتنی محبت کرنے پر بضد رہتے نظر آئے گے۔

اس دور میں ٹیکنالوجی اور تکلفات سے ماورا رہنا زندگی جینا ہے یا گزارنا یہ ایک عجیب سوال ہے۔ سو۔ وہ ایک سطح پر زندگی گزار رہے ہیں اور ایک سطح پر بھرپور انداز میں جی رہے ہیں۔ اپنی سنجیدہ اور گاڑھی خاموشی میں وہ شخص جیسا بھی ہے اپنے ظاہر اور باطن میں ایک مکمل، حقیقی اور خالص فن کار ہے جو اپنی زندگی اپنے جنون اور فن سے جوڑے بنا جینے کا ہرگز قائل نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments