قصہ شیر شاہ سید کے نام ایک شام کا


سورج ڈھلنے سے کچھ لمحوں پہلے کا اور سورج ڈوبنے کے بہت سارے لمحوں کے بعد کا وقت ایک عجیب ہی سا وقت ہوتا ہے۔ کبھی زندگی ڈوبتی سی لگتی ہے تو کبھی کچھ پھسلتا ہوا سا لگتا ہے۔ اس کے بر عکس صبح دم جب دروازہ خاور کھلتا ہے اور ہر جانب سے ہر قسم کی آوازیں سر اٹھانا شروع کرتی ہیں تو دل میں عجیب سی گدگدی ہوتی ہے، من میں ہلچل پیدا ہوتی ہے، دل بے اختیار پر جوش ہوجاتا ہے اور زندگی پیاری لگنے لگتی ہے۔ یہ تو خیر ہر روز کا قصہ ہے لیکن کبھی کبھی شام کا سہما ٹھٹھکا لمحہ اور اس کے آس پاس کے لمحے بھی نہ صرف اچھے لگتے ہیں، یادیں بھی چھوڑ جاتے ہیں۔

ایسی ہی ایک شام اور اس شام کے دولہا کا قصہ بیاں کرنے جا رہی ہوں۔

کچھ دن پہلے ایک شام کو ماہر امراض نسواں ڈاکٹر شیر شاہ کے اعزاز میں ایک یادگار تقریب کا اہتمام ان کے دوستوں نے کیا تھا۔ گو کہ ڈاکٹر شیر شاہ اور ان کا کام کسی تعارف، تعریف اور تقریب کا محتاج نہیں۔ پاکستان کے طول و عرض میں ایدھی مرحوم کے برابر کا جانا پہچانا نام ہے۔ جیسے ایدھی صاحب کا نام لیتے ہی ایک معصوم سا انسانی ہیولہ ذہن کے پردے پر جھلمل کرنے لگتا ہے۔ ایسے ہی ڈاکٹر شیر شاہ کا نام آتے ہی عورتوں خاص طور پر بچہ پیدا کرنے کی پیچیدگیوں کا شکار عورتوں کے لئے ان کا وجود کسی دیوتا سے کم نہیں لگتا ان کا نام سن کر اور انھیں اپنے درمیاں پا کر ان کے چہروں کی چمک بتا رہی ہوتی ہے کہ وہ کس نجات دہندہ کے ساتھ کھڑی ہیں۔

شیر شاہ پر باتیں بنانے ( مثبت) کی یہ شام امریکہ سے آئی گوہر تاج نے اپنی دوست عفت نوید کی سنگت میں سجائی تھی۔

گوہر تاج نہ صرف آئی تھیں وہ شیرشاہ کی پہلو دار شخصیت پر ایک کتاب بنام ”دل چارہ گر“ بھی مرتب کر کے لائی تھیں۔ کتاب کو مرتب کرتے ہوئے انھوں نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔ ”شیرشاہ کو نام نمود سے ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا شخص ہے جو اپنی تحریروں اور عمل سے انسانوں کے دکھ سکھ سے اتنا جڑا ہوا ہے کہ اس پر صوفی ہونے کا گماں ہو نے لگتا ہے۔ اس کے دوستوں کو اس پر فخر نہ ہو تو کیا ہو؟“

اس تقریب اور کتاب کی ترتیب کا ایک سبب ڈاکٹر شیرشاہ کا جنم دن بھی تھا۔ اس دن کی نسبت سے ان کے لئے لفظوں کے پھول پہنانے والوں میں شیما کرمانی، عفت نوید، گوہر تاج، ڈاکٹر نگہت شاہ، ڈاکٹر شاہین ظفر، ڈاکٹر ٹیپو سلطان، زوفین، زبیدہ مصطفے اور بہت سے لوگوں نے انھیں اپنی اپنی محبت اور عقیدت کے ہار پھول پہنائے۔

میں نے محبت کے ہار پھول تو نہیں پہنائے البتہ ڈاکٹر شیرشاہ کے ماضی کے حوالے سے کچھ باتیں کریں جب وہ صرف شیر شاہ تھے۔ ان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا ”بظاہر مجھ میں اور شیر شاہ میں کوئی مماثلت نظر نہی آتی لیکن ہمارے درمیان کئی دہائیوں پیچھے کی ایک بات مشترک ہے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں سے جانتے ہیں۔ جب ہم سب ہی اسکولوں کی پابندیوں سے تازہ تازہ آزاد ہوئے تھے اور اپنی آزادی کو خوب انجوائے کرتے تھے۔

ہر طرح کے جوتے، کپڑے پہن کر اور ہر طرح کے بال بنا کر کالج آتے تھے۔ ان سب سے بڑھ کر جب چاہیں کلاس گول کر سکتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا۔ ہماری کیفیت کسی بھی تازہ تازہ آزاد ہوئے پنچھی جیسی تھی۔ ہماری زندگیوں کے یہ سنہرے ایام کراچی کے ایک ایسے تعلیمی ادارے سے وابستہ ہیں جس کا نام جامعہ ملیہ اور جس کے سربراہ پاکستان کی تعلیمی تاریخ کی انتہائی معتبر شخصیت ڈاکٹر محمود حسین تھے۔

ان دنوں تازہ تازہ ملی اس آزادی سے بھرپور لطف لیتا ایک دبلا پتلا لڑکا، موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگائے، ڈھیلی ڈھالی بشرٹ پینٹ میں ملبوس اکثر بشرٹ کے ساتھ پاجامہ اور ہوائی چپل پہنے، بالوں سے بھرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، چھوٹی سی داڑھی کو کھجاتے ہوئے، اردگرد سے قطعی بے نیاز لڑکوں کو لیکچر دیتا رہتا تھا، کون سا فلسفہ پڑھاتا تھا ہم میں سے کوئی نہ جانتا تھا کہ مخلوط ادارے میں پڑھنے کے باوجود ہماری کچھ حدود و قیود مقرر تھیں۔

وقت تھوڑا آگے بڑھا تو این ایس ایف، این ایس ایف کھیلتے ہوئے پتہ چلا کہ اس دبلے پتلے، ذات میں گم لڑکے کا نام شیر شاہ ہے اور وہ علاقے کی مشہور عطیہ کلینک والی ڈاکٹر عطیہ کے صاحبزادے ہیں۔ اکثر ہمارا آ نا سامنا کالج کے مباحثوں میں بھی ہونے لگا۔

دنیا کے جنگل میں اس وقت ہم سب کی حیثیت ان پودوں کی سی تھی جنھوں نے زمین سے نیا نیا سر نکالا ہوتا ہے اور ہواؤں کے دوش پر ادھر ادھر ہل جل کر رہے ہوتے ہیں۔ اس کوشش میں اکثر پرانے درختوں کا سایہ یا سہارا مل ہی جاتا ہے۔ ہمارے کالج میں بھی اس وقت این ایس ایف اور سرخ انقلاب سے لدے پھندے کئی درخت تھے۔ جن کی سر براہی میں ہم این ایس ایف رشید گروپ اور معراج محمد خان کے followers میں شمار ہوتے تھے۔

ہمارے مقابلے میں شیرشاہ کا معاملہ تھوڑا مختلف تھا کہ وہ ایک بہت ہی متحرک، نظریاتی، سیاسی والد کی اولاد تھے۔ ان کے والد انڈیا سے کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ سانسیں لیتے ہوئے آئے تھے۔

کالج اور شیرشاہ کی باتیں کرتے کرتے ہم غلط سمت مڑ گئے ہیں۔ سیدھا چلنے کے لئے روشنی کے اشاروں پر چلنا اسی لئے بہت ضروری ہے۔ کالج کے تیسرے سال میں آنے کے بعد پتہ چلا کہ جو دبلا پتلا لڑکا اپنے ساتھیوں کو روشن خیالی، برابری، اور مارکس آزم پڑھا رہا ہوتا تھا وہ طب کے گھوڑے پر سوار ہو کے ہمارے لان اور راہ داریاں چھوڑ گیا ہے۔

وقت کا تانا بانا چلتا رہا، برسوں ہمارا ایک دوسرے سے آ منا سامنا نہیں ہوا، البتہ ادھر ادھر سے خبریں ملتی رہتیں کہ شیر شاہ ڈاکٹر بن گئے ہیں مزید تعلیم کے لئے انگلینڈ چلے گئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان واپس آئے تو مختلف ہسپتالوں اور پی ایم اے کے حوالے سے خبروں کا مرکز بنے رہے۔

Dr Sher Shah – First from the left

شیر شاہ کی طبیعت میں کیونکہ سیمابی کیفیت زیادہ ہے سو کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں، کبھی کراچی میراتھن میں کھڑے ہوتے ہیں تو چند دن بعد اندرون سندھ کیمپ میں موجود ہوتے ہیں، آندھی آئے یا طوفان ان کے ارادوں کے آگے کوئی بند باندھ نہیں سکتا۔

ان ہی گزرتے سالوں میں پتہ چلا کہ موصوف افسانہ نگار بن گئے ہیں۔ افسانہ گار بننے کے لئے دل کے جس گداز اور حساس ہونے کی ضرورت ہوتی ہے وہ تو ان میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہے۔ اس بات کو یوں بھی کہہ سکتی ہوں کہ شیرشاہ ایک مجسم احساس کا نام ہے جسے معاشرتی نا انصافیوں سے لے کر عورت کے دکھ درد تک ہر بات کا احساس سوچنے اور لکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ آج اسی حساس دل، سوچ اور ماہرانہ ہاتھوں کی بدولت اس ملک کی سینکڑوں عورتیں سکھ چین کی زندگی گزار رہی ہیں۔ خاص طور پر چھوٹے شہروں، دیہاتوں میں نا تجربہ کار دائیوں کے ہاتھوں دکھ اٹھانے والی عورتوں کے وہ مسیحا ہیں۔ انھوں نے اس فن طب کو اپنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے علم تجربے کو ملک کے طول و عرض تک پھیلا کے ماہر ڈاکٹروں کی ایک کھیپ تیار کردی ہے۔

بنیادی طور پر شیرشاہ ایک منکسر المزاج اللہ لوک قسم کی شخصیت ہیں۔ جس کا اظہار با قلم خود کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”میں لڑکیوں کے معاملے میں کافی خوش قسمت واقع ہوا ہوں۔ ان کی کوشش اور کاوشوں کے بنا لڑکیاں ان کی جانب متوجہ ہوتی ہیں، ان کی زندگی میں صنف نازک کی جانب سے اظہار محبت کا حادثہ بھی کئی بار ہوا ہے۔ وہ اس بات کو بھی مانتے ہیں کہ میں نہ تو خوبصورت ہوں، نہ دولتمند، سادا سا آدمی ہوں، ہمیشہ لڑکیوں کی عزت کی۔ انھیں استعمال کی جانے والی شے کا درجہ نہیں دیا۔“ خوبیاں تو خیر شیر شاہ میں اور بھی بہت سی ہیں، اختصار سے کام لیتے ہوئے بس اتنا کہوں گی کہ شیر شاہ کا تعلق نہ تو اس ملک کے 22 خاندانوں سے ہے، نہ ہی نودولتیوں سے، یہ ایک پڑھے لکھے، محنت کش، نظریاتی خاندان کے چشم و چراغ ہیں، جسے خاندان ڈاکٹران کہنا زیادہ مناسب ہے۔

اس خاندان کی اپنے شہر اور انسانیت سے محبت، مثبت سوچ کا اندازہ کراچی کے مضافات میں واقع کوھی گوٹھ میں تعمیر کردہ ہسپتال سے لگایا جا سکتا ہے جہاں کوئی کیش کاؤنٹر نہیں ہے۔ وہاں صرف اور صرف علاج ہوتا ہے۔ ان کی والدہ کے نام پر قائم عطیہ ہسپتال کی ساری آمدنی کوہی گوٹھ کے ہسپتال کو جاتی ہے۔ یہ ہی نہیں خاندان کا ہر فرد اپنی آمدنی کا ایک خاص حصہ اس ہسپتال کو عطیہ کرتا ہے۔ خاندان کی مشترکہ کوششوں کے سبب وہ جگہ ملیر یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر چکی ہے۔

کوہی گوٹھ کے اس پروجیکٹ میں لڑکیوں کو با ہنر اور باعزت بنانے کے لئے مختلف اقسام کے کاموں کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ شیر شاہ کو آگاہی دینے اور بانٹنے کا بھی بہت شوق ہے انھوں نے اس سلسلے میں کئی کتب بھی لکھی ہیں۔ ایک ایف ایم اسٹیشن بھی چلتا ہے۔ ہم سب کے پیارے شیرشاہ دعا ہے کہ تم اسی طرح کام کرتے رہو، محبت بانٹتے رہو، انسانیت، بھائی چارے، خلوص کے دیے، چراغ، لالٹینیں جلاتے رہو۔ خوش رہو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments