انا کے سارے شیشے آخر چکنا چور ہوئے


آج سے دو دہائی قبل میرے پاس صوابی سے ایک پندرہ سولہ سالہ یتیم لڑکی آئی۔ اسے گھر میں کھانا بناتے آگ لگ گئی تھی۔ ان دنوں میں واحد پلاسٹک سرجن تھا پورے صوبے میں۔ ایک خر دماغ گورنر کے سرکاری پریشر کے تحت استعفیٰ دے کر ایک پرائیویٹ ہسپتال منتقل ہو گیا تھا۔ بچی کو جلے ہوئے سال ہو گیا تھا اور اس کی ٹھوڑی سینے سے چپکی ہوئی تھی۔ اسی حالت میں وہ لوگوں کے کپڑے سی کر اپنی بیوہ ماں اور ایک چھوٹے بھائی کی کفالت کر رہی تھی۔ میں نے اس کا علاج مفت کیا تو اس نے آنکھوں سے تشکر کے لرزتے آنسوؤں کے ساتھ مجھے دعا سے بھری ایک خوبصورتی سے لکھا خط پکڑا دیا اور چل دی۔

میں نے ان کا نام بدل کر ایک انگریزی اخبار میں کہانی چھاپ دی۔ چند دن بعد اخبار کے کراچی آفس سے فون آیا کہ یہاں ایک انڈسٹریلسٹ آپ کا فون مانگ رہے ہیں۔ میں نے اجازت دے دی تو شام کو فون آ گیا

” کیا یہ کہانی سچی ہے؟“
” جی ہاں۔ صرف نام بدلا ہوا ہے اور گاؤں کا نام اصلی نہیں“
” کیا آپ ان کو میرا پیغام پہنچا سکتے ہیں؟“
”ہفتے بعد وہ آئیں گی تو بتا سکتا ہوں“

”اچھا، میں ان کے لئے ان کے گاؤں میں ایک کپڑوں کی فیکٹری لگانا چاہتا ہوں جو انہی کے نام ہوگی اور خرچہ تمام کا تمام میرے ذمے ہو گا“

اگلے ہفتے میں نے سارا ماجرا کھول کر بتا دیا۔ لڑکی کا چہرہ ایک دم سرخ ہو گیا۔ کہنے لگیں ”ڈاکٹر صاحب آپ کو کس نے اجازت دی تھی کہ مجھے بھکاری بنا کر پیش کریں“ ۔ مجھے جیسے فالج ہو کر رہ گیا۔ لڑکی نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر صاحب میں آپ کی بہت مشکور ہوں۔ ساری عمر آپ کو دعائیں دوں گی لیک اگر یہ بات پھر کبھی سامنے آئی تو میں آپ سے کبھی ملنے نہیں آؤں گی۔ اس لڑکی کی خودداری نے میرا سر اونچا کر دیا۔ میں نے ان مخیر انڈسٹریلسٹ کو ساری بات بتا دی تو ان کی آواز بھی بھرا گئی۔ پھر دوبارہ فون کر کے کہا کہ اچھا اس کے لئے کوئی اچھا رشتہ دیکھ لیں تو وہ شوہر کو کارخانہ لگا دیں گے۔ اگلے معائنے پر انہیں پتہ چلا تو خداحافظ کر کے غائب ہو گئی۔ ابھی تک افسوس ہے اسے کھونے کا ۔

یہ لڑکی بالکل ان پڑھ تھی۔ لیکن اتنی خوبصورت لکھائی سے بے داغ اردو لکھتی تھی کہ میں انگلی دانتوں میں داب لیتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا کیسے سیکھا؟ ”ڈاکٹر صاحب، گاؤں کی خواتین میرے پاس اخبار جہاں، اخبار خواتین وغیرہ لے کر آجاتی ہیں کپڑوں کی ڈیزائن لے کر ۔ میں وہ رسالے خود سے پڑھ پڑھ کر لکھنے کے قابل ہوئی ہوں“ اس کے جواب نے مجھے بادلوں میں پہنچا دیا۔

آج اس خود دار لڑکی کی بہت یاد آ رہی ہے۔ صبح اٹھتا ہوں اور ہسپتال روانہ ہوتا ہوں تو مفت آٹے کی قطاروں میں نوجوان مرد اور عورتیں دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ بازار میں ہوں یا سڑک پر ، ہٹے کٹے لوگ کھڑکی توڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ لیکن انہی سے کہو کہ آؤ میرے گھر میں کچھ کام ہے، معقول معاوضہ دوں گا تو منہ پھیر لیتے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کوئی پٹھان مریض فیس کی سکت نہ رکھتا تو ہم پوچھ کر زکوٰۃ سے مدد کی آفر کرتے۔ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے اور بغیر علاج کے چلے جاتے۔ پھر ہمارے امیرالمؤمنین نازل ہوئے اور زکوٰۃ کی کٹوتی بینکوں سے ہونے لگی۔ عوام کا امیرالمؤمنین پر اتنا اعتماد تھا کہ بینک میں اپنا مذہب تک بدل دیتے لیکن زکوٰۃ حکومت کے ہاتھ دینے کو تیار نہ ہوتے۔ اس کے باوجود ان دنوں سالانہ اسی ارب روپے اسی مد میں حکومت کے پاس جمع ہو جاتے۔ اب زکوٰۃ کی آدھی سے زیادہ جمع تو تنخواہوں، کونسلروں اور چیئرمینوں کی نظر ہوجاتی۔ اور جس گاؤں میں رقم آتی وہاں آنکھوں میں حیا کا پانی سوکھ جاتا۔ سب لوگ یہی چاہتے کہ یہ رقم تمام گھرانوں میں یکساں تقسیم ہو جائے۔ چلو اللہ اللہ خیر صلا۔ زکوٰۃ لینے سے گریز ختم ہوا۔

پھر خصوصاً پختون جہاد کے نام پر برباد ہونے لگے۔ یو این ایچ سی آر نے ڈیرے ڈال دیے۔ اندرونی مہاجرین کے لئے کیمپ کھل گئے۔ ہر گھرانے کو سات ہزار روپے اور مہینے بھر کا راشن ملنے لگا۔ گو کڑی دھوپ یا بارش میں دو تین دن تک کھڑا ہونا پڑتا لیکن وہی خوددار پختون جو کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا روادار نہیں تھا، اب بھکاری بن گیا۔ کئی نوجوانوں نے نوکریاں چھوڑ دیں۔ تین دن قطار میں خوار ہوئے اور باقی مہینہ چارپائیاں توڑتے رہے۔ غریب تو غریب، ان گنہگار آنکھوں نے پجیرو اور لینڈکروزر والوں کو اسی قطار میں کھڑے دیکھا۔

اب حال یہ ہے کہ گھر کے لئے ملازم یا کوئی معمولی کام کرنے والا مشکل سے ملتا ہے۔ کل میں نے ایک شخص سے کہا کہ آ کر ہمارے گھر کے شیشے صاف کر لے۔ تو پتہ ہے کیا جواب دیا؟ ”صاحب ستر ہزار روپے اور دو ہفتے لگیں گے!“ کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی مجھ سے دگنی جسامت کا ایک بظاہر مزدور کندھے پر بیلچہ اور گٹھڑی ڈال کر بازار میں بھیک مانگ رہا تھا کہ پورے دن مزدوری نہیں ملی۔ ایک شخص نے اسی وقت مزدوری کی آفر کردی۔ بندہ تپ گیا۔ کہنے لگا صبح سے اب تک بھیک میں بیس ہزار روپے کما چکا ہوں۔ میرا دماغ خراب ہے جو مزدوری کروں؟

آج بازار سودا خریدنے گیا تو ہر دکان پر ہر دو منٹ بعد بھکاریوں کی یلغار ہوجاتی۔ ایک دکاندار بولا کہ پچھلے دو گھنٹوں سے پانچ سو روپے دس دس کر کے دے چکا ہوں۔ میں نے کہا اگر یہی رقم جمع کر کے ہر ماہ کسی حقدار کو روزی کمانے کا ذریعہ بن سکتے ہو۔ تو کہنے لگا کہ دکان کے شیشے توڑنے پر آمادہ رہتے ہیں۔

اب میں عام آدمی سے کیا گلہ کروں جب ہمارے وزیر اعظم فخر سے اپنے آپ کو بھکاری کہتے ہیں اور انہی بھیک کے پیسوں سے اپنے چمچوں کڑچھوں اور قبلہ و کعبہ کو حج، عمرہ، مغربی دنیا کے سیر سپاٹے کرواتے ہیں، مجال ہے جو چہرے پر شرم کا پسینہ بھی آئے۔ شہزادیاں اپنی کاسمیٹک سرجریاں کرواتی ہیں۔ اور رویت ہلال کمیٹی کے لئے دم پخت اور کئی کورس کے افطار ڈنر کا بندوبست ہوتا ہے۔

اس وقت پوری دنیا کو امریکہ اور روس کی جنگ نے فاقہ کشی، غربت، بے روزگاری اور کم بازاری میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ لیکن پاکستان واللہ اب بھی دنیا کے پہلے تین سستے ترین ممالک میں آتا ہے۔ لیکن ایک حرص ہے جو بجھتی نہیں۔ ارب پتی وہ دولت ہر حرام طریقے سے جمع کرتے ہیں جو ان کی دس نسلیں بھی ختم نہیں کر سکتیں۔ مڈل کلاس کے لڑکے موبائل اور پرس چھینتے ہیں تو عام ریڑھی والا رمضان میں ذخیرہ اندوزی کرتا ہے اور جو غیر مسلم رمضان میں بغیر منافع خور و نوش کا سامان بیچتا ہے، اسے گولی ماری جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments