آخری ملاقات


بہار کی ٹھنڈی دھوپ دوپہر کی اس گھڑی اپنی سنہری کرنیں بھرپور جوبن کے ساتھ بکھیر رہی تھی، اور سکول کے باغ میں لگے سرو کے قد و قامت درخت پر کوئل چہچہا رہی تھی۔ فضا میں اس قدر خاموشی اور اداسی تھی کہ، ذرا سی آہٹ پہ بھی وہ چونک اٹھتا اور اپنے گرد و پیش کا پھٹی پھٹی آنکھوں سے جائزہ لینا شروع کر دیتا۔ صحن میں لگے جابجا گلاب کے پھول اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو کر، قلب و نگاہ کو فرحت اور تازگی بخش رہے تھے۔

زمین پہ اگی گھاس اور اس پہ اوس کے قطرے گویا ایسے موتی دکھائی دیتے تھے جو انمول ہوں۔ اس پرکیف اور مسحور فضا میں جب وقفے وقفے سے نسیم بر کے ٹھنڈے جھونکوں کا گزر باغ سے ہوتا، تو سماں ہی کچھ اور ہوجاتا۔ اس کا دل جو اداسی کے ماحول میں ڈوبا، یادوں کے سمندر میں غوطہ زن تھا، وہ اس راحت افزاء نسیم بہار کے جھونکوں سے اس قدر جھوم جاتا کہ اس کا دل چاہتا کہ وہ دیوانہ وار ناچنا شروع کرے، اور پھر ناچتا ہی چلا جائے۔

لیکن جونہی وہ ہوا کا جھونکا گزر جاتا، تو خاموشی پھر سے پلٹ کر اسے یوں جکڑ لیتی، جیسے کوئی چڑیل اپنے لمبے اور گھنے بالوں سے کسی کو دبوچ لے۔ الغرض ایک پراسرار خاموشی کے مہیب سائے تھے، اور اس خاموشی کی وجہ سے سکول کی عمارت اسے یوں محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی آسیب زدہ بنگلہ، جہاں جنوں اور بھوتوں نے بسیرا کر رکھا ہو۔

اس کی نگاہیں بار بار پیچھے مڑ کر ، اس جانب اٹھ جاتیں جہاں سکول کے کمرے آج مقفل تھے، اور ان راہداریوں سے اٹھنے والے قہقہوں کی گونج اور بے ہنگم آوازوں کی جگہ اندھیرے اور خاموشی نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ آج سکول میں اس کا آخری دن تھا اور سرکاری چھٹی ہونے کے سبب اساتذہ، طلباء اور دیگر عملہ سبھی اپنے اپنے گھروں میں تھے، تاہم صرف سکول کا کلرک آج ڈیوٹی پہ حاضر تھا، جہاں وہ میٹرک کے پاس طلباء کو سند اور سرٹیفیکیٹس دے رہا تھا۔ وہ شادمانی اور مسرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ، کلرک کے کمرے میں گیا اور وہاں جاکر یہ چیزیں لیں۔ پھر جونہی کمرے سے باہر نکل کر اس طرف کو نظر دوڑائی جہاں سکول کا صحن ویرانی کا ایک کربناک منظر پیش رہا تھا، تو وہ ایسے سہم گیا جیسے کوئی بچہ بھیڑ میں اپنی ماں سے بچھڑ گیا ہو۔

وہ صحن جہاں سردیوں کی دھوپ سینکتے اساتذہ اپنے طلباء کو علم کی روشنی سے منور کر رہے ہوتے تھے۔ وہی صحن جہاں ایک طرف کوئی مرغا بنا ہے، تو کوئی ہاتھ پہ چھڑیاں کھاتے ہوئے سسکیوں کے ساتھ رو رہا ہے۔ مگر آج اس صحن کو چھوڑ، پورے سکول میں خاموشی کی حکومت تھی۔ ایسی خاموشی جو دل کو چیر کر ، جگر کے پار تک جا رہی تھی اور ذہن کو اداس اور آنکھوں میں آنسو لا رہی تھی۔ اس کی قلبی کیفیات اچانک سے بدل گئیں اور قدم اس قدر بوجھل ہو گئے کہ چلنا دشوار ہو گیا۔

وہی شخص جو کل تک کالج جانے اور سکول چھوڑنے کے قصے سب دوستوں کو مزے سے سنا رہا تھا، وہ سکول کو جب چھوڑنے کے لئے آیا تو سکول کی زمیں نے اس کے قدم ایسے جکڑ لیے، کہ اس کا جان چھڑانا مشکل ہو گیا۔ بالآخر اس نے ہمت کی اور آہستہ آہستہ اداس اور بوجھل قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے، سکول کے باغ کا رخ کیا، اور بہتے پانی کی کیاری میں پاؤں ڈال کر بیٹھ کے ماضی اور اس کے جڑے احوال کے بکھرے تانے بانے کو سلجھانے لگ پڑا۔

اندرونی اور بیرونی فضا ایسا منظر پیش کر ہی تھی کہ گویا آج سوگ کا دن ہے، اور کسی کو کسی سے بات کرنے کا ہوش تک نہیں ہے۔ خاموشی کے اس طویل دورانیے کو توڑنے کے لئے، اس نے ایک کنکر ٹاہلی کی گھنی شاخوں کی طرف پھینکا، تو اچانک کئی پرندوں کا جھنڈ وہاں سے اڑ کر فضا میں محو پرواز ہو کر اپنی بولی میں جب گنگنایا تو اسے پہلی مرتبہ زندگی اور اپنے وجود کا احساس ہوا۔ اپنے وجود اور اس کے احساس کو زندہ رکھنے کے لئے وہ کبھی اپنی ٹانگوں کو کیاری میں بہتے پانی کے اندر ہلا ہلا کر ، مستقبل کے سہانے خواب بنتا، تو کبھی اچانک اس حرکت کو روک کر ، ماضی کے واقعات کو یاد کرنے لگ پڑتا۔

یاد کی بیاض کو جب اس نے کھولا تو اس کی نظر پہلے پرت پر پڑی اور پھر اسے وہ دن دکھائی دیا جب وہ پہلی مرتبہ اسکول میں داخلہ لینے اپنے والد کے ساتھ روتا ہوا یہاں آیا تھا۔ گھر میں اماں سے وہ لجاجت بھرے لہجے میں، زمین پر بار بار ٹانگیں مار کر منت کرتا رہا کہ وہ اسکول نہیں جائے گا، مگر اس کی ماں نے اس کی بات کا اثر لیا اور نہ ہی باپ نے۔ ”ابا جلدی آجانا مجھے لینے۔ اماں بہت یاد آئے گی“ اس نے روتے بسیارتے اپنے والد کو کہا، تو والد نے بس جواب میں مسکرانے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے اسے سکول چھوڑ دیا۔

اس کی یاد پھر اسے اپنے ہم جماعت علی کی طرف لے گئی، جس نے اسے پہلے دن اس وقت ٹافی دی تھی، جب وہ تفریح کے دوران سیڑھیوں پر بیٹھا اس قدر زور سے رو رہا تھا کہ گھگھی بند گئی تھی۔ اسے علی کا یوں پیار بھرے انداز سے مخاطب کرنا اور پھر توتلی سی زبان میں باتیں کرتے اس کا دل بہلانا، اس قدر لطف اور سرور دے رہا تھا کہ وہ اس خمار سے باہر نکلنا ہی نہیں چاہتا تھا۔

وہ یادوں کی کشتی پر ہچکولے کھاتا، اپنے ماضی کے سمندر میں ایک منزل اور آگے بڑھ گیا۔ اب وہ ماضی کی چلمن کو سرکا کر اس دور میں داخل ہو گیا جہاں اب وہ بڑی جماعتوں میں داخل ہو چکا تھا۔ اسے ساتویں جماعت کا وہ کمرہ دکھائی دیا، جہاں الجبرا کے سوالات غلط حل کرنے پر ، اس کے شفیق استاد نہایت بے رحمی سے پیٹ رہے تھے۔ وہ بار بار اپنے ہاتھوں کو ملتا اور چھڑی کھانے کے لئے پھر آگے بڑھا دیتا۔ یہ اسی مار کر شاید اثر تھا کہ اب الجبرا میں وہ کہیں مار نہیں کھاتا تھا۔

وہ یادوں کے دریچوں سے گزر ہی رہا تھا کہ، اے ایک منزل یاد آئی کہ جب وہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا، کہ اچانک سوتے ہوئے اس کے اندر کا مرد جاگ اٹھا اور جب اس نے گبھرا کر ، اپنی گیلی شلوار کو دیکھا تو ششدر رہ گیا کہ یہ کیا ہو گیا۔ وہ کتنی ہی دیر تک بستر پر بیٹھا، شلوار کو الٹ پلٹ کر حیران و پریشان دیکھتا جا رہا تھا، اور ساتھ ہی دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہو رہا تھا۔ جب اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تو اسی سوچ میں ڈوبا وہ گھر سے نکل کر ایک ویران زیارت کے ایک کونے میں جا بیٹھا اور پھر اسی سوال پہ سوچنا شروع کر دیا کہ یہ سب کیا ہے؟ وہ کس سے پوچھے؟ اور پوچھے بھی تو کیا؟ وہ اس نئی واردات کی بابت بالکل کورا تھا، اور نہیں جانتا تھا کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے۔

اسے یادوں کا اڑن کھٹولا پھر وہاں لے گیا، جب وہ دسویں جماعت میں داخل ہوا تو اس خیال میں ہر وقت ڈوبا رہتا کہ اب اگلی منزل کالج ہوگی، جہاں اساتذہ کی نہ تو مار ہوگی اور نہ ہی چاردیواری کے اندر محصوریت۔ بلکہ وہ ایک آزاد فضا میں سانسیں لے گا، جہاں وہ جو چاہے گا، اسے کرنے کی آزادی کی میسر ہوگی۔

اور پھر وقت نے سبک خرامی کی بجائے، دوڑنا شروع کیا اور میٹرک کے امتحانات سر پر آ گئے۔ ایک ایک کر کے جب سارے پرچے ختم ہو گئے تو نتیجے کا انتظار اور پھر نتیجہ جیسے ہی آیا، اماں ابا کی مسرت دیدنی تھی کہ ان کا اکلوتا نونہال میٹرک میں پاس ہو چکا تھا۔ وہ بھی خوشی سے گلیوں میں ناچتا پھرتا سب کو ، جھوم جھوم کر اپنے پاس ہونے کی خبر سنا رہا تھا۔ تاہم خوشی اور مسرتوں کی یہ کیفیت اس وقت، سوگ میں بدل گئی جب وہ آخری دن اپنے سکول سے الوداعی ملاقات کرنے گیا۔ اس کا جی یہی چاہتا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر روئے، اور کسی طرح، کسی بھی حیلے بہانے سے کچھ ایسا ہو جائے کہ وہ اس اسکول سے جدا نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments