1915 سے 2023 تک انگریزی سے پرہیز کے اردو کے چیٹ جی پی ٹی کی اڑان پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟


آج سے چند ہفتے قبل علی گڑھ انڈیا کے ایک قصبہ سکندرہ راؤ کے محمد اکرم نے مجھ سے رابطہ کیا اور مجھے میرے دادا کے 1915 میں بھیجے ہوئے ایک خط کے بارے میں بتایا جس میں انہوں نے امام احمد رضا بریلوی سے اپنے مدرسے میں انگریزی پڑھائے جانے پر مقامی اعتراض کے بارے میں سوال پوچھا تھا کہ کیا کچھ افراد کا یہ کہنا درست ہے کہ قربانی کے پیسوں کو ایسے مدرسے کو نہیں دینا چاہیے جہاں انگریزی پڑھائی جاتی ہو؟ اس کے جواب میں مولانا صاحب نے یہ لکھا تھا کہ انگریزی سیکھنا ثواب کا کام نہیں ہے۔

میں پچھلے سو سال کی تاریخ سامنے رکھتے ہوئے اور اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ انگریزی سے بھی دنیا آگے نکل چکی ہے۔ اب مصنوعی ذہانت کو استعمال کر کے انسانوں کے اجتماعی شعور پر مبنی معلومات چند لمحوں میں حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب ہم اس مصنوعی ذہانت سے کوئی سوال دنیا کی کسی بھی زبان میں پوچھیں گے تو یہ جواب ہمیں صرف اس زبان کے اندر انٹرنیٹ کی دنیا میں دستیاب مواد سے ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو اردو زبان میں کچھ لکھنے کے لیے استعمال کرنے سے قابل بھروسا معلومات سامنے لانا نسبتاً مشکل ہے۔

پچھلے مہینے کیویریس آن لائن میڈیکل جرنل میں مصنوعی ذہانت استعمال کر کے کیس رپورٹ لکھنے کا مقابلہ ہوا جس کے بعد دو آرٹیکلز کو انعام سے نوازا گیا۔ انہوں نے اس اعلان کے بعد چند دلچسپ نکات پیش کیے جن میں سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہم کوئی بھی میڈیکل آرٹیکل لکھتے ہیں تو ہم اس میں موجود معلومات کی ذمہ داری لیتے ہیں۔ جس طرح ایک مریض کا علاج کرنا ذمہ داری کا کام ہے بالکل اسی طرح ایک میڈیکل جرنل میں لکھ کر دیگر ڈاکٹرز کی معلومات میں اضافہ کرنا بھی ایک ذمہ داری کا کام ہے۔

مصنوعی ذہانت کسی بھی معلومات کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔ یہ صرف انٹرنیٹ پر موجود کسی بھی زبان میں موجود مواد پر مبنی رپورٹ پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اگر ہم کسی بھی آرٹیکل کو لکھنے کے لیے آئے آئی کا استعمال کریں تو یہ بات ریفرینس کی طرح آخر میں لکھیں۔ چیٹ جی پی ٹی پر مبنی معلومات بالکل غلط بھی ہو سکتی ہیں۔ اسی لیے یہاں ایک پرانا محاورہ لاگو ہوتا ہے جس کے مطابق نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔

محمد اکرم نے یہ جان کر خوشی اور فخر کا اظہار کیا کہ میں امریکہ میں ڈاکٹر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ آپ کے دادا سکندرہ راؤ کے تھے تو وہیں سے آپ کا تعلق مانا جائے گا۔ میں اپنا تعلق تمام دنیا اور اس کے سب باسیوں سے محسوس کرتی ہوں۔ میرا حالیہ تعلق اوکلاہوما سے ہے جہاں ہم پاکستان سے 1993 میں ہجرت کر کے پہنچے تھے۔ میں سکھر سندھ میں پیدا ہوئی۔ میری ابتدائی تعلیم بھی وہیں ہوئی جہاں میرے والدین نے چار یا پانچ سال کی عمر میں مجھے سینٹ سیویر اسکول میں کنڈرگارٹن میں داخل کروایا تھا۔ کئی شہروں کے کئی اسکولوں سے پڑھنے کے بعد میں نے سینٹ میریز ہائی اسکول سکھر سے میٹرک پاس کیا۔

1982 میں جب میں کراچی میں چوتھی کلاس میں تھی تو ایک دن ہماری ٹیچر نے ہمیں اپنی کاپیوں کے دوسری طرف سے اردو میں لکھنے کے لیے کہا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ملک کے نئے صدر ضیاءالحق نے پاکستان کے تمام اسکول اردو میڈیم بنا دیے ہیں۔ دوسری طرف سے طلبا کے والدین کا اصرار تھا کہ ان کے بچوں کو انگریزی پڑھائی جائے جس کے لیے وہ زیادہ فیس ادا کرتے تھے۔ اس لیے ہماری کاپیوں کی دونوں طرف سے ہم ایک ہی مضمون دو زبانوں میں پڑھ رہے تھے۔

ہماری ٹیچر نے کہا کہ اگر اچانک کوئی انسپیکشن کے لیے آ جائے تو اس کو اردو کی طرف کی کاپی دکھانی ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی ہمارے معاشرے میں ایسے عناصر رہے ہیں جو انگریزی کے استعمال کو نیچی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میں اور میرا بھائی علی، سکھر کی تاریخی جنرل لائبریری گئے اور وہاں سے کتاب چیک آؤٹ کروانے کے لیے جب میں نے سائن کیا تو لائبریرین صاحب نے ہمیں انگریزی میں دستخط کرنے پر سرزنش کی۔

ہمارے معاشرے میں انگریزی سے نفرت کیوں ہے؟ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے دو ہزار سال میں سفید فام عیسائی آدمی نے دنیا میں چڑھائی کی، ملکوں پر قبضہ کیا اور ان کے وسائل خود کو امیر کرنے پر خرچ کیے۔ برٹش انڈیا میں ریستورانوں کے باہر لکھا ہوتا تھا کہ کتے اور انڈین کا داخلہ ممنوع ہے۔ انہوں نے انگریز کے ساتھ انگریزی کو بھی ملک سے باہر نکال پھینکنے کی کوشش کی جس کے لیے انگریزی میں ایک محاورہ ہے کہ نہلانے والے گدلے پانی کے ساتھ بچہ بھی باہر پھینک دینا، لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ انگریز خود انگریزی زبان کا مالک نہیں ہے۔ انگریز انگریزی میں موجود تعلیمی مواد کا بھی مالک نہیں ہے۔ دنیا کی تاریخ میں زبانیں بدلتی رہتی ہیں۔ ہر سو سال بعد الفاظ کے معنی بدل جاتے ہیں اور زبانیں ایک دوسرے کے الفاظ اپنے اندر جذب کرتی ہیں۔

زبان کی کہانی انسانی ہجرت اور تہذیبوں کے میل جول کی کہانی ہے۔ آج دنیا کی بڑی زبانیں جیسے مینڈرین چینی، ہسپانوی، اردو اور انگریزی ہیں۔ پہلے اطالوی اور موہنجوداڑو کی زبانیں بھی گزری ہیں۔ اگر اس زمانے میں اس وقت کی جدید معلومات کسی اور بھی زبان میں ہوتیں تو اس وقت وہی سیکھنا ضروری ہوتا۔ یہاں میں اس بات پر زور دینا ضروری سمجھتی ہوں کہ انگریزی جانے بغیر اور انگریزی میں طب پڑھے بغیر میرا آج یہاں تک پہنچنا ممکن نہیں تھا۔

بو علی سینا کو گزرے ایک ہزار سال گزر چکا ہے۔ آج ہم ان کی کتابیں میوزیم کے شیشے کے شو کیس میں سجی دیکھتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں جب وہ نئی معلومات تھی تب انہیں پڑھنا درست تھا۔ آج جازلن کی ذیابیطس پڑھنا مناسب ہے۔ 2023 میں جو میری نئی ذیابیطس کی کتاب عکس پبلیکیشن سے چھپ رہی ہے، اس کے آنے کے بعد اس کا میرا ہی لکھا ہوا دس سال پرانا ایڈیشن آؤٹ آف ڈیٹ ہو چکا ہے۔ آج اگر میں کامیاب ہوں تو یہ کامیابی میں نے بہت سے دقیانوسیت پر مبنی خیالات اور نظامات کو رد کرنے سے حاصل کی ہے۔

اس بات کو مزید واضح کرنے کے لیے میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتی ہوں، نارمن ہسپتال کے اینڈوکرائن کلینک میں ایک دن میں ایک ہسپانوی مریضہ کو دیکھ رہی تھی جن کو تھائرائڈ کی بیماری تھی۔ میں نے ان کو انگریزی میں اس بیماری کے تین علاج بتائے اور ان سے ان میں سے اپنے لیے ایک چننے کے لیے کہا۔ ان کی بیٹی نے ان کو میری بات ہسپانوی میں ترجمہ کر کے بتائی جس کو سننے کے بعد انہوں نے ایک علاج چن لیا۔ میں یہ دوائی فارمیسی کو بھیجنے والی تھی تو میرے ساتھ اس دن موجود میڈیکل اسٹوڈنٹ جس کو اتفاق سے ہسپانوی آتی تھی نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر مرزا آپ کے مریض کو دو علاج بتائے گئے ہیں، تیسرا طریقہ نہیں بتایا گیا ہے۔

جب مریضہ کو تیسرا طریقہ بتایا گیا تو اس معلومات کی بنیاد پر انہوں نے اپنا علاج مختلف چنا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب ہمارے پاس انفارمیشن ادھوری ہو تو ہمارا راستہ اور ہمارے فیصلے بھی اسی ادھوری معلومات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ کبھی وہ ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں اور کبھی ہمیں غلط یا مشکل راستے پر بھی ڈال سکتے ہیں۔

دوسروں کے تجربات سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے نہ کہ اسی چیز کو دہرا کر وہی غلطی بار بار دہرا کر اپنا سرمایہ اور وقت دونوں ضائع کریں۔ اگر ہم دنیا کی ایک سب سے بڑی زبان کو رد کر دیں اور اپنی معلومات کو محدود کرتے رہیں تو اس سے ہمارا اپنا ہی نقصان ہو گا۔ اس لیے یا تو ہمیں کئی زبانیں سیکھنی ہوں گی یا پھر بڑی سطح پر ترجمے کا کام شروع کرنا ہو گا جس سے دنیا کی دیگر زبانوں میں موجود تمام مواد کو علاقائی زبانوں میں منتقل کیا جائے۔

یہاں پر میں اپنی ہی ایک مثال دینا چاہوں گی، میں ایک اینڈوکرنالوجسٹ اور ذیابیطس اسپیشلسٹ ہوں۔ میرے مریض دنیا کے مختلف ممالک اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیادہ ترمریض امریکی انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ ہماری اپریل کی آن لائن اینڈوکرائن کلاس میں مختلف ملکوں، مصر، ایتھوپیا، جارجیا، ایکواڈور، انڈیا اور پاکستان کے ڈاکٹر ہیں اور ہم سب انگریزی میں پڑھائی کر رہے ہیں۔ کسی بھی مریض کا کیس ڈسکس کرنا ہو یا کسی موضوع پر مضمون مل کر لکھنا ہو تو وہ ہمیں انگریزی میں ہی لکھنا ہو گا ورنہ ہم ایک دوسرے کو نہیں سمجھ پائیں گے۔

ایک طرف بر صغیر پاک و ہند میں ہم اب بھی اپنے آپ کو تبدیل کرنے پر راضی نہیں ہیں جب کہ دنیا اس سے بہت آگے، مصنوعی ذہانت، روبوٹ، سافٹ ویئر، ایپلیکیشن اور سائٹس کے ذریعے عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے اور وقت بچانے میں مصروف عمل ہے۔ دنیا دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھتی ہے اور ہم اب بھی وہی فرسودہ اور پرانے خیالات کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا ہم خود کو اب بھی نہیں بدلیں گے؟ آنے والی صدی اور نسل ہم سے یہ سوال ضرور پوچھے گی!

دنیا کے افراد اور زبانوں کے درمیان دیواریں کھڑی کرنے کے بجائے پل بنانے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھا کہ تعصب مذہبی اور صنفی کے علاوہ لسانی بھی ہو سکتا ہے اور یہ بھی کہ تمام انسان برابر حقوق رکھتے ہیں۔ یہ حقوق ہمیں کہیں سے لینے نہیں ہیں، وہ پہلے سے ہی ہمارے ہیں۔ ہمیں ان کے راستے میں کھڑے عوامل سے مقابلہ کرنا ہے، ڈر کر یا ہمت ہار کر پیچھے ہٹ جانے سے معاملہ حل نہیں ہو گا، پچھلے سو سال کی تاریخ سامنے رکھ کر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اردو زبان کو زندہ رکھنے کے لیے اس کو لازمی بنانا یا معلومات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ بنانا کارآمد ثابت نہیں ہوا بلکہ اپنے بزرگوں کے اس قدم سے ہم دنیا کی بڑی بیرونی زبانوں اور مقامی زبانوں میں موجود خزانوں سے محروم ہو گئے۔

اس کے علاوہ تاریخی مقامی ورثے کے زیاں کا بھی سبب بنے۔ جس کو بھی اپنی زبان کو دنیا کی سب سے بڑی زبان بنانا ہے اس کوایک ہی پرانی پہلے سے سیکھی ہوئی بات لاکھوں بار دہراتے رہنے کے بجائے دنیا میں موجود تمام نئے علم اور نئی معلومات کو ڈھونڈنے کے طریقے اپنی زبان میں لکھنے اور پڑھنے ہوں گے۔ چیٹ جی پی ٹی محض ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنے اجتماعی شعور کا عکس دیکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments